پاک روس تعلقات کے نئے باب کا آغاز
خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں روس کے لیے پاکستان کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا
قیام پاکستان کے بعد سابق سوویت یونین اور نوزائیدہ مملکت (پاکستان) کے درمیان پہلا رخنہ سنہ 1948ء میں اس وقت پڑا جب اس وقت کی سوویت قیادت نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے موقف کی تائید کی۔
شاید یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کا روز اول سے جھکاؤ پڑوسی سپر پاور ''سوویت یونین'' کے بجائے امریکا کی جانب ہوا۔ گوکہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو دشمنی میں تبدیل کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی لیکن سوویت یونین کی سرد مہری او ر بھارت نواز پالیسی نے اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان قربت پیدا نہ ہونے دی۔ پاکستان کے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے بعد اسلام آباد کی مجبوری تھی کہ وہ امریکیوں کے بعض'' غیرضروری'' مطالبات بھی تسلیم کرتا چلا جائے۔
داخلی اور خارجہ مسائل کے انبار میں پاکستان کے لیے مصلحت اسی میں تھی کہ وہ واشنگٹن کی''گاجر اور چھڑی'' کی پالیسی کو اپنی قسمت سمجھ کرقبول کرلے اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے 1957ء میں امریکا کے مطالبے پر اسے پشاور کے قریب بُڈ بیر کے مقام پر ایک خفیہ اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی۔ امریکیوں نے اس خفیہ اڈے کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ پاک سرزمین کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی یہ اولین مثال ہے۔ امریکا اس فوجی اڈے سے U.2 نامی جاسوس طیارے اڑاتا اور ماسکو کی جاسوسی کرتا۔
روس نے متعدد مرتبہ اس کی شکایت بھی کی لیکن امریکا نے جاسوسی سے متعلق سوویت الزامات مسترد کردیے۔ یکم مئی 1960ء کو روس نے U-2 نامی ایک امریکی جاسوس طیارے کو اتار لیا ۔ طیارے کے پائلٹ کو ایک نیوز کانفرنس میں پیش کیا گیا جس نے مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔ اس واقعے کے بعد سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا مزید بڑھنا فطری بات تھی۔ سنہ 1965 اور 1970ء کی پاک، بھارت جنگوں میں روس نے دامے، درہمے ، سخنے نئی دہلی کا ساتھ دیا اور' ہم ' جن کے لیے ہم مرے تھے وہ رہے وضو کرتے '' کے مصداق امریکی بحری بیڑے کی طفل تسلیوں اور بھول بھلیوں میں بھٹک کر رہ گئے اور آج تک بھٹک رہے ہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان کشیدگی کی تاریخ لکھتے ہوئے مورخ یہ بات ہمیشہ یاد رکھے گا کہ جب بھی پاکستان میں آمریت آئی تو اس نے دونوں ملکوں کے مابین سرد جنگ میں اضافہ ہی کیا۔ مثلاً سکندر مرزا کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ جنرل ایوب خان نے اسے آگے بڑھایا۔ جنرل یحیٰ خان نے تلخی کو مزید مہمیز دی اور روس، افغان جنگ کے دوران ضیاء الحق مرحوم نے سرد جنگ کو گرم جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ تاہم اس کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی بتدریج کم ہوئی اور آج دونوں پڑوسی ملک تعلقات کے ایک نئے دورمیں داخل ہو رہے ہیں۔
سنہ 1989ء میں سوویت یونین کی شکست وریخت اور'' فیڈریشن آف رشیا'' کے قیام کے بعد پاکستان اور ماسکو کے درمیان دو طرفہ تعاون کی نئی راہیں کھلنا شروع ہوئیں۔ سابق فوجی صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے دو طرفہ تلخیوں کی زہر بجھانے کے لیے کسی حد تک قابل ذکر کوششیں کی۔ 2012ء میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے پاکستان کے دورے کا اعلان کیا مگر یہاں پرامن وامان کی خراب صورت حال اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر یہ دورہ منسوخ کردیا گیا تھا۔ پاکستان اور روس کے سفارتی حلقوں میں صدر پوتن کے دورہ اسلام آباد کے لیے ایک مرتبہ پھر کوششیں شروع ہوئی ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ روسی صدرجلد پاکستان کے دورے کا اعلان کریں گے۔
جہاں تک پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں تعاون کا سوال ہے تو اب یہ حقیقت کا روپ دھا ر چکا ہے۔ گوکہ ماضی میں روس نے بھارت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے دفاعی تعاون کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی بلکہ بادی النظر میں یہ مشہور کیے رکھا کہ ماسکو نے اسلام آباد سے فوجی تعاون پرپابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ گوکہ روس نے تحریری طور پر بھارت سے ایسا کوئی معاہدہ تو نہیں کیا لیکن روسی سرد مہری سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ وہ پاکستان سے ساتھ دفاعی میدان میں تعاون میں قطعی غیرسنجیدہ ہے۔
نوے کی دہائی کے آغاز میں دونوں ملکوں میں تجارتی اور اقتصادی تعاون کا ایک باضابطہ چینل قائم ہوا تو دونوں ملک دفاعی میدان میں بھی ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چنانچہ1996ء سے 2010ء تک روس نے پاکستان کو سول مقاصد کے لیے76 ایم آئی 26 ہیلی کاپٹر فروخت کیے۔ درجنوں کی تعداد میںایم آئی6 کی فراہمی یقینی بنائی گئی اور پاکستانی ساختہ جنگی طیاروںJF 17 تھنڈر میں روسی ساختہ انجن لگوائے گئے۔ یہ تعاون دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی میدان میں معاونت کا نقطہ آغاز بنا۔ آج روس جنگی مقاصد کے لیے پاکستان کو ایم آئی35 جنگی ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے۔
تادم تحریر دونوں ملکوں میں معاہدہ طے نہیں پایا تاہم ان سطور کی اشاعت تک اس کا امکان بھی موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طورپر روس پاکستان کو ایک درجن '' ایم آئی پینتیس'' جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کرے گا تاہم اگلے مرحلے میں اسلام آباد روس سے مزید اسلحہ اور سامان حرب وضرب بھی منگوائے گا۔ روسی ذرائع ابلاغ کے ذرائع کے مطابق اسلحہ سازی میں کمالات کے باوجود روس پاکستان کے ''الخالد'' ٹینکوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ عین ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل قریب میں ان ٹینکوں کی کوئی ڈیل طے پاجائے۔
رواں سال فروری میں روس کے قومی دن کے موقع پر پاکستان میں متعین روسی سفیرالیکسی دیدوف نے اہم شخصیات کو استقبالیہ دیا، جس میں وائس چیف آف ائیر اسٹاف ایئر مارشل اظہر علی بخاری بطورمہمان خصوصی شریک ہوئے۔ استقبالیہ کے موقع پر روسی اسلحہ کی صنعت کے بارے میں ایک ڈاکو منٹری فلم بھی دکھائی گئی جس میں روسی ساختہ ٹینکوں کو خاص طورپر دکھایا گیا۔
تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے روسی کمرشل اتاشی یورپی کوزو لوف نے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی مصنوعات کی بڑی منڈیاں ہیں۔ براہ راست تجارت نہ ہونے کے باعث پاکستان کی کئی اہم اشیاء روس کو دوسری مارکیٹوں سے مہنگے داموں خرید کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارتی روابط بڑھنے سے روس پاکستان سے آلو، کینو، آم، کپڑا ، چاول اور سرجیکل آلات براہ راست خریدنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے بدلے میں ماسکو پاکستان کو زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مدد کرسکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان فوجی مقاصد کے لیے امریکی ساختہ کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر رہا ہے تو کیا ''ایم آئی35'' ہیلی کاپٹروں کی صلاحیت ان سے زیادہ ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہے، کیونکہ ایم آئی 35 جنگی ہیلی کاپٹر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں دشمنوں کے خلاف کارروائی میں نہایت مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ بالخصوص طالبان عسکریت پسندوں کے زیراثرپہاڑی علاقوں میں کارروائی کے لیے ''ایم آئی35'' کی اشد ضرورت محسوس کرتا ہے۔ روس یہی ہیلی کاپٹر اس سے قبل عراق کو بھی فروخت کر چکا ہے جنہیں عراقی حکومت مقامی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے اور اس کے نہایت مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان عسکری میدان میں تعاون ہی اصلًا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس مرحلے کے طے ہوجانے کے بعد معاشی اور تجارتی میدانوں میںمعاہدوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ پاکستان میں تیار ہونے والے سرجیکل آلات روس کی اہم ترین ضرورت رہے ہیں۔ اب تک روسی کمپنیاں پاکستان کے سرجیکل آلات جرمنی کی مارکیٹ سے اٹھاتی رہی ہیں۔ حالیہ مذاکراتی عمل کے دوران اس معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ اگر روس براہ راست پاکستان سے سرجیکل آلات خرید کرتا ہے تو اس سے خوش کن بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسلا م آباد صرف سرجیکل آپریٹس کی فروخت سے کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کما سکتا ہے۔
بھارت پرحصول اسلحہ کا بھوت سوار
روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں تعاون کے نئے باب کھلتے ہی بھارت پر حسب روایت اسلحہ کے حصول کا بھوت غیرضروری طورپر سوا ر ہوگیا ہے۔ نئی دہلی کو اعتراض روس پاکستان قربت پرنہیں بلکہ اصل تکلیف دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی میدان میں اشتراک عمل ہے۔ ماسکو کی جانب سے اسلام آباد کو ایم آئی35 لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی خبروں کے بعد نئی دہلی میں مودی سرکار سخت بے چین ہے۔ حالیہ کچھ دنوں سے بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان سے قربت کی پاداش میں روس کے خوب لتے لیے ہیں اور ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے کی ''بے مقصد'' مشق خوب کی گئی۔
اس کے باجود ماسکو نے بھارتی پروپیگنڈے کا کوئی جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ بھارتی اخبار ''دی ہندو'' کے مطابق روس کی جانب سے پاکستان کو سامان حرب وضرب کی فروخت کے بعد نئی دہلی کے پاس دوسرے ممالک سے دفاعی تعاون بڑھانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں نئی حکومت نے امریکا اور یورپی ملکوں کے ساتھ دفاعی تعاون کے بڑے سمجھوتوں میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے۔ اس دلچسپی کا پس منظردراصل پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں تعاون بتایا جا رہا ہے۔
روس میں اردو میں نشریات پیش کرنے والے ''صدائے روس'' ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق ماسکو کی پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹروں کی فروخت میں دلچسپی پر بھارت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ روس میں متعین بھارتی سفیر نے دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی دفاعی سودے بازی کو روکنے کے لیے اپنی سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارتی سفیر ماسکو حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کا فراہم کردہ اسلحہ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماسکو ایسی کسی بھی سودے بازی سے باز رہے۔
روس پردباؤ ڈالنے کے لیے بھارتی سفیرکا مزید کہنا ہے کہ اگر ماسکو نے پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کردیے تو اس سے خطے میں اسلحہ کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ ریڈیو کے ذرائع کا کہنا ہے کہ روس نے ابھی تک بھارتی دباؤ قبول نہیں کیا اور بھارت کو صاف جواب دے دیا ہے۔ ماسکو نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کو توانائی، دفاع اور معاشی شعبے میں مدد فراہم کرنے کا پہلے ہی منصوبہ بنا چکا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں روس نے پاکستان کو گڈو بیراج سمیت پن بجلی کے کئی منصوبوں میں تکنیکی اور مالی معاونت کی پیش کش کی تھی تاہم سابقہ حکومت کی نااہلی کے نتیجے میں روس کی پیش کش سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس ضمن میں اہم قدم اٹھایا ہے۔ پاکستانی وزیردفاع اور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے اپنے حالیہ دورہ ماسکو کے دوران پاکستان کو توانائی کے شعبے میں ماسکو کے تعاون کی درخواست کی ہے اور روس نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔
بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے ہردور میں اپنی بساط سے بڑھ کر اپنا دفاعی محاذ مضبوط کرنے کی سعی میں مگن رہا ہے۔ پاکستان سے روایتی مخاصمت بھارت کو کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔ کیونکہ نئی دہلی کا ماضی خود اس کا گواہ ہے۔ اب توحالات بھی مختلف ہیں اور بھارت میں مودی جیسے انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر انتخابات جیتنے والے نریندر مودی سے آخر کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں قربت نہایت خوش آئند اقدام ہے۔
اگر پاکستان چین کی طرح روس کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو خطے میں بھارت کی بالادستی پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ اس وقت بھارت خطے میں اپنی تھانیداری کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں بھارت کے لیے چین اور روس کو ساتھ لے کرچلنا مجبوری ہے لیکن موجودہ عالمی حالات میں روس کے لیے پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
شاید یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کا روز اول سے جھکاؤ پڑوسی سپر پاور ''سوویت یونین'' کے بجائے امریکا کی جانب ہوا۔ گوکہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو دشمنی میں تبدیل کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی لیکن سوویت یونین کی سرد مہری او ر بھارت نواز پالیسی نے اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان قربت پیدا نہ ہونے دی۔ پاکستان کے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے بعد اسلام آباد کی مجبوری تھی کہ وہ امریکیوں کے بعض'' غیرضروری'' مطالبات بھی تسلیم کرتا چلا جائے۔
داخلی اور خارجہ مسائل کے انبار میں پاکستان کے لیے مصلحت اسی میں تھی کہ وہ واشنگٹن کی''گاجر اور چھڑی'' کی پالیسی کو اپنی قسمت سمجھ کرقبول کرلے اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔ وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے 1957ء میں امریکا کے مطالبے پر اسے پشاور کے قریب بُڈ بیر کے مقام پر ایک خفیہ اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی۔ امریکیوں نے اس خفیہ اڈے کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ پاک سرزمین کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی یہ اولین مثال ہے۔ امریکا اس فوجی اڈے سے U.2 نامی جاسوس طیارے اڑاتا اور ماسکو کی جاسوسی کرتا۔
روس نے متعدد مرتبہ اس کی شکایت بھی کی لیکن امریکا نے جاسوسی سے متعلق سوویت الزامات مسترد کردیے۔ یکم مئی 1960ء کو روس نے U-2 نامی ایک امریکی جاسوس طیارے کو اتار لیا ۔ طیارے کے پائلٹ کو ایک نیوز کانفرنس میں پیش کیا گیا جس نے مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔ اس واقعے کے بعد سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا مزید بڑھنا فطری بات تھی۔ سنہ 1965 اور 1970ء کی پاک، بھارت جنگوں میں روس نے دامے، درہمے ، سخنے نئی دہلی کا ساتھ دیا اور' ہم ' جن کے لیے ہم مرے تھے وہ رہے وضو کرتے '' کے مصداق امریکی بحری بیڑے کی طفل تسلیوں اور بھول بھلیوں میں بھٹک کر رہ گئے اور آج تک بھٹک رہے ہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان کشیدگی کی تاریخ لکھتے ہوئے مورخ یہ بات ہمیشہ یاد رکھے گا کہ جب بھی پاکستان میں آمریت آئی تو اس نے دونوں ملکوں کے مابین سرد جنگ میں اضافہ ہی کیا۔ مثلاً سکندر مرزا کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ جنرل ایوب خان نے اسے آگے بڑھایا۔ جنرل یحیٰ خان نے تلخی کو مزید مہمیز دی اور روس، افغان جنگ کے دوران ضیاء الحق مرحوم نے سرد جنگ کو گرم جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ تاہم اس کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی بتدریج کم ہوئی اور آج دونوں پڑوسی ملک تعلقات کے ایک نئے دورمیں داخل ہو رہے ہیں۔
سنہ 1989ء میں سوویت یونین کی شکست وریخت اور'' فیڈریشن آف رشیا'' کے قیام کے بعد پاکستان اور ماسکو کے درمیان دو طرفہ تعاون کی نئی راہیں کھلنا شروع ہوئیں۔ سابق فوجی صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے دو طرفہ تلخیوں کی زہر بجھانے کے لیے کسی حد تک قابل ذکر کوششیں کی۔ 2012ء میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے پاکستان کے دورے کا اعلان کیا مگر یہاں پرامن وامان کی خراب صورت حال اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر یہ دورہ منسوخ کردیا گیا تھا۔ پاکستان اور روس کے سفارتی حلقوں میں صدر پوتن کے دورہ اسلام آباد کے لیے ایک مرتبہ پھر کوششیں شروع ہوئی ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ روسی صدرجلد پاکستان کے دورے کا اعلان کریں گے۔
جہاں تک پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں تعاون کا سوال ہے تو اب یہ حقیقت کا روپ دھا ر چکا ہے۔ گوکہ ماضی میں روس نے بھارت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے دفاعی تعاون کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی بلکہ بادی النظر میں یہ مشہور کیے رکھا کہ ماسکو نے اسلام آباد سے فوجی تعاون پرپابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ گوکہ روس نے تحریری طور پر بھارت سے ایسا کوئی معاہدہ تو نہیں کیا لیکن روسی سرد مہری سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ وہ پاکستان سے ساتھ دفاعی میدان میں تعاون میں قطعی غیرسنجیدہ ہے۔
نوے کی دہائی کے آغاز میں دونوں ملکوں میں تجارتی اور اقتصادی تعاون کا ایک باضابطہ چینل قائم ہوا تو دونوں ملک دفاعی میدان میں بھی ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چنانچہ1996ء سے 2010ء تک روس نے پاکستان کو سول مقاصد کے لیے76 ایم آئی 26 ہیلی کاپٹر فروخت کیے۔ درجنوں کی تعداد میںایم آئی6 کی فراہمی یقینی بنائی گئی اور پاکستانی ساختہ جنگی طیاروںJF 17 تھنڈر میں روسی ساختہ انجن لگوائے گئے۔ یہ تعاون دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی میدان میں معاونت کا نقطہ آغاز بنا۔ آج روس جنگی مقاصد کے لیے پاکستان کو ایم آئی35 جنگی ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے۔
تادم تحریر دونوں ملکوں میں معاہدہ طے نہیں پایا تاہم ان سطور کی اشاعت تک اس کا امکان بھی موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طورپر روس پاکستان کو ایک درجن '' ایم آئی پینتیس'' جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کرے گا تاہم اگلے مرحلے میں اسلام آباد روس سے مزید اسلحہ اور سامان حرب وضرب بھی منگوائے گا۔ روسی ذرائع ابلاغ کے ذرائع کے مطابق اسلحہ سازی میں کمالات کے باوجود روس پاکستان کے ''الخالد'' ٹینکوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ عین ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل قریب میں ان ٹینکوں کی کوئی ڈیل طے پاجائے۔
رواں سال فروری میں روس کے قومی دن کے موقع پر پاکستان میں متعین روسی سفیرالیکسی دیدوف نے اہم شخصیات کو استقبالیہ دیا، جس میں وائس چیف آف ائیر اسٹاف ایئر مارشل اظہر علی بخاری بطورمہمان خصوصی شریک ہوئے۔ استقبالیہ کے موقع پر روسی اسلحہ کی صنعت کے بارے میں ایک ڈاکو منٹری فلم بھی دکھائی گئی جس میں روسی ساختہ ٹینکوں کو خاص طورپر دکھایا گیا۔
تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے روسی کمرشل اتاشی یورپی کوزو لوف نے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی مصنوعات کی بڑی منڈیاں ہیں۔ براہ راست تجارت نہ ہونے کے باعث پاکستان کی کئی اہم اشیاء روس کو دوسری مارکیٹوں سے مہنگے داموں خرید کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارتی روابط بڑھنے سے روس پاکستان سے آلو، کینو، آم، کپڑا ، چاول اور سرجیکل آلات براہ راست خریدنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے بدلے میں ماسکو پاکستان کو زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مدد کرسکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان فوجی مقاصد کے لیے امریکی ساختہ کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر رہا ہے تو کیا ''ایم آئی35'' ہیلی کاپٹروں کی صلاحیت ان سے زیادہ ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہے، کیونکہ ایم آئی 35 جنگی ہیلی کاپٹر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں دشمنوں کے خلاف کارروائی میں نہایت مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ بالخصوص طالبان عسکریت پسندوں کے زیراثرپہاڑی علاقوں میں کارروائی کے لیے ''ایم آئی35'' کی اشد ضرورت محسوس کرتا ہے۔ روس یہی ہیلی کاپٹر اس سے قبل عراق کو بھی فروخت کر چکا ہے جنہیں عراقی حکومت مقامی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے اور اس کے نہایت مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان عسکری میدان میں تعاون ہی اصلًا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس مرحلے کے طے ہوجانے کے بعد معاشی اور تجارتی میدانوں میںمعاہدوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ پاکستان میں تیار ہونے والے سرجیکل آلات روس کی اہم ترین ضرورت رہے ہیں۔ اب تک روسی کمپنیاں پاکستان کے سرجیکل آلات جرمنی کی مارکیٹ سے اٹھاتی رہی ہیں۔ حالیہ مذاکراتی عمل کے دوران اس معاملے پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔ اگر روس براہ راست پاکستان سے سرجیکل آلات خرید کرتا ہے تو اس سے خوش کن بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسلا م آباد صرف سرجیکل آپریٹس کی فروخت سے کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کما سکتا ہے۔
بھارت پرحصول اسلحہ کا بھوت سوار
روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں تعاون کے نئے باب کھلتے ہی بھارت پر حسب روایت اسلحہ کے حصول کا بھوت غیرضروری طورپر سوا ر ہوگیا ہے۔ نئی دہلی کو اعتراض روس پاکستان قربت پرنہیں بلکہ اصل تکلیف دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی میدان میں اشتراک عمل ہے۔ ماسکو کی جانب سے اسلام آباد کو ایم آئی35 لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی خبروں کے بعد نئی دہلی میں مودی سرکار سخت بے چین ہے۔ حالیہ کچھ دنوں سے بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان سے قربت کی پاداش میں روس کے خوب لتے لیے ہیں اور ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے کی ''بے مقصد'' مشق خوب کی گئی۔
اس کے باجود ماسکو نے بھارتی پروپیگنڈے کا کوئی جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ بھارتی اخبار ''دی ہندو'' کے مطابق روس کی جانب سے پاکستان کو سامان حرب وضرب کی فروخت کے بعد نئی دہلی کے پاس دوسرے ممالک سے دفاعی تعاون بڑھانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں نئی حکومت نے امریکا اور یورپی ملکوں کے ساتھ دفاعی تعاون کے بڑے سمجھوتوں میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے۔ اس دلچسپی کا پس منظردراصل پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں تعاون بتایا جا رہا ہے۔
روس میں اردو میں نشریات پیش کرنے والے ''صدائے روس'' ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق ماسکو کی پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹروں کی فروخت میں دلچسپی پر بھارت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ روس میں متعین بھارتی سفیر نے دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی دفاعی سودے بازی کو روکنے کے لیے اپنی سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارتی سفیر ماسکو حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کا فراہم کردہ اسلحہ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماسکو ایسی کسی بھی سودے بازی سے باز رہے۔
روس پردباؤ ڈالنے کے لیے بھارتی سفیرکا مزید کہنا ہے کہ اگر ماسکو نے پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کردیے تو اس سے خطے میں اسلحہ کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ ریڈیو کے ذرائع کا کہنا ہے کہ روس نے ابھی تک بھارتی دباؤ قبول نہیں کیا اور بھارت کو صاف جواب دے دیا ہے۔ ماسکو نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کو توانائی، دفاع اور معاشی شعبے میں مدد فراہم کرنے کا پہلے ہی منصوبہ بنا چکا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں روس نے پاکستان کو گڈو بیراج سمیت پن بجلی کے کئی منصوبوں میں تکنیکی اور مالی معاونت کی پیش کش کی تھی تاہم سابقہ حکومت کی نااہلی کے نتیجے میں روس کی پیش کش سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس ضمن میں اہم قدم اٹھایا ہے۔ پاکستانی وزیردفاع اور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے اپنے حالیہ دورہ ماسکو کے دوران پاکستان کو توانائی کے شعبے میں ماسکو کے تعاون کی درخواست کی ہے اور روس نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔
بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے ہردور میں اپنی بساط سے بڑھ کر اپنا دفاعی محاذ مضبوط کرنے کی سعی میں مگن رہا ہے۔ پاکستان سے روایتی مخاصمت بھارت کو کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔ کیونکہ نئی دہلی کا ماضی خود اس کا گواہ ہے۔ اب توحالات بھی مختلف ہیں اور بھارت میں مودی جیسے انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر انتخابات جیتنے والے نریندر مودی سے آخر کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں قربت نہایت خوش آئند اقدام ہے۔
اگر پاکستان چین کی طرح روس کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو خطے میں بھارت کی بالادستی پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ اس وقت بھارت خطے میں اپنی تھانیداری کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں بھارت کے لیے چین اور روس کو ساتھ لے کرچلنا مجبوری ہے لیکن موجودہ عالمی حالات میں روس کے لیے پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔