دل کا معاملہ ہے
کمپیوٹر انٹرنیٹ کے اس دور میں بڑے بھی کتابوں سے دور ہوگئے ہیں
بات بہت معمولی سی ہے لیکن اگر گہرائی میں جایا جائے تو بہت اہم ہے۔
ابھی کل پرسوں کا ہی ذکر ہے کہ ہمیں کسی کام کے سلسلے میں کہیں جانا پڑا۔ پارکنگ کی جگہ کا ملنا خاصا دشوار تھا لیکن ایک جگہ نظر آئی جلدی سے آگے بڑھے لیکن سامنے ایک خاتون آگئی۔
ذرا رکنا پڑا، اتنی سی دیر میں ایک چمکتی گاڑی میرے مخالف جانب سے آئی جس میں ایک باریش صاحب جو کھلی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ ہم اس جگہ گاڑی پارک کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اس وقت وہ خاصے دور تھے لیکن ذرا موقع ملا اور انھوں نے بِنا کسی معذرت کے باقاعدہ شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ گاڑی پارک کردی۔
دل میں بہت غصہ آیا لیکن کیا کرسکتے تھے لہٰذا مجبوراً خطرے والی جگہ گاڑی پارک کی، جنھیں کام کے سلسلے میں جانا تھا ان سے کہا کہ آپ جائیے ہم یہیں انتظارکرلیتے ہیں۔ سورج سوا نیزے پر تھا، لہٰذا وہیں درخت کی چھائوں میں کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے، دس پندرہ منٹ بعد وہ صاحب سامنے کے بک اسٹال سے برآمد ہوئے، گاڑی میں بیٹھے لیکن اس بار انھیں گاڑی ذرا سیدھا نکالنے کے لیے کچھ دقت محسوس ہوئی۔
غصہ تو بہت آیا لیکن بِنا کچھ کہے ہم اپنی گاڑی کی جانب بڑھے، ذرا سی گاڑی بڑھائی اور انھوں نے اپنی گاڑی آسانی سے نکال لی۔ ان دس منٹوں میں انھوں نے کیا حاصل کیا، ان کے ہاتھوں میں تھمی کتابیں ان کے ذہنی رجحان کو عیاں کررہی تھیں لیکن جو کچھ انھوں نے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا، اس کا ان کی شخصیت پر، جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی ذرا عیاں ہوئی تھی، ذرّہ برابر بھی اثر نظر نہ آیا۔
حیرانگی ہوئی کہ آخر وہ کیا پڑھتے ہیں اور کیوں پڑھتے ہیں۔ ویسے بھی کمپیوٹر انٹرنیٹ کے اس دور میں بڑے بھی کتابوں سے دور ہوگئے ہیں۔ ایسے میں کسی کا کتابوں سے شغف بہت بڑی بات ہے لیکن یہ کتابیں کیا ہم صرف اپنی دلچسپی یا معلومات میں اضافے کے لیے پڑھتے ہیں۔ کیا ان کتابوں سے ہم کچھ نہیں سیکھتے یا دوسروں پر رعب جھاڑنے اور ان پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانے کے لیے کتابوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔
بہرحال اس تھوڑے سے وقت میں اس شخص نے میرے دل میں ناپسندیدگی کے جذبات ابھار دیے۔ گو میں نے ان کی ذرا سی مدد کرکے ظاہری طور پر اسے ان پر عیاں تو نہ کیا لیکن دل خدا کے سب سے نزدیک ہوتا ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے جس پر تحریر کیا ہر لفظ گویا ہم خدا سے شیئر کرتے ہیں اور بظاہر مذہبی رجحان کے حامل ان باریش صاحب نے میرے دل میں یہ نقش کیا کہ کسی کے ظاہر سے متاثر ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ظاہر تو لبادہ ہوتا ہے جو ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کو متاثر اور متوجہ کرنے کے لیے بھی اوڑھ لیتے ہیں، لیکن ہمارا باطن... اسے صاف رکھنا کیا ضروری نہیں؟
کچھ برس پہلے دبئی کا ایک جاپانی جو اپنی بڑی سی چمک دار گاڑی میں سوار تھا ہمیں اب بھی جب یاد آتا ہے تو دل میں اچھے جذبات ابھرتے ہیں۔ بات بہت معمولی سی ہے۔ ہم شاپنگ کے بعد ذرا سڑک پر مٹر گشتی کے ارادے سے نکلے تھے کہ سامنے گلی سے جاواساکی یا خدا جانے شاکاکاتی صاحب ذرا تیزی سے آگے بڑھے۔
ہم ذرا ٹھٹکے، ہمارے اپنے ملک میں اگر ایسا ہوتا تو کار سوار ذرا برا سا منہ بناتے بریک لگاتے یا اچھے اچھے جملوں سے مستفید ضرور کرتے لیکن بھلا ہو اس شاکاکاتی یا جاواساکی کا نہ صرف بریک لگایا بلکہ مسکراتے ہوئے ہمیں گزر جانے کا اشارہ کیا۔ہم ٹھہرے پاکستانی۔ اپنے پاکستانی ڈرائیور یاد آگئے لیکن ان موصوف نے دوبارہ نہایت خوش دلی سے جانے کو کہا کہ راستہ صاف ہے میڈم۔
یہ سڑک آپ کی ہی ہے اور ہم نے دل ہی دل میں اس جاپانی بھائی کو دعائیں دیں اور اپنا راستہ لیا۔نہ ہم مذہب، نہ دوست، نہ رقیب بس وہ ایک مسافر تھا جو پل بھر کے لیے ملا اور دل سے ڈھیروں دعائیں لے کر چلتا بنا۔
یہ دعائیں ہی تو ہوتی ہیں جو انسان کے برے وقت میں ڈھال کی طرح سایہ کرتی ہیں لیکن اگر ہم سمجھنا چاہیں تو ہی یہ بات ہماری سمجھ میں آسکتی ہے کہ دل گوشت کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہوتا ہے، اسی مٹھی برابر لوتھڑے کی کتنی اہمیت ہے یہ چاہے تو نظر نہ آنے والے جذبات انسان کو آسمان سے زمین پر گرادے یا زمین سے آسمان پر پہنچادے۔
ہماری مسلم لیگ (ن) کے ایک نہایت با اثر رکن جو سننے میں آیا ہے کہ نیوز چینلز پر ٹاک شوز کرنے سے پہلے اپنے مدمقابل مہمان کے بارے میں ضرور معلوم کرتے ہیں کہ آیا وہ ان کے لیول کے مطابق بھی ہے یا کوئی معمولی رکن ہے اور معمولی رکن سے بحث و مباحثہ کرنا ان کے بڑے قد کے لیے شرمندگی ہی شرمندگی ہے۔
خیر موصوف کے والد مرحوم ہمارے والد مرحوم کے بڑے اچھے دوست تھے۔گویا دانت کاٹے کی دوستی تھی، ایک مسئلے کے حل کے سلسلے میں سوچا کہ ان سے مدد لی جائے، بڑے مان سے انھیں فون کیا، ان کے سیکریٹری صاحب نے جن کی آواز حیرت انگیز طور پر خود ان سے بہت ملتی تھی، فرمایا کہ صاحب عمرہ کرنے گئے ہوئے ہیں۔
اچھا جی۔ کافی دنوں بعد دوبارہ فون کیا تو سیکریٹری صاحب نے فرمایا جی میں آپ کو پہچان گیا، ابھی سر ذرا مصروف ہیں، میں تھوڑی دیر میں خود آپ سے بات کرواتا ہوں۔ ان کی وہ تھوڑی دیر ابھی تک محیط ہے ختم نہ ہوئی۔ میں یہ مانتی ہوں کہ ان کے والد صاحب یقیناً بہت اچھے اور نیک تھے، اس لیے کہ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میرے والد میرے کزن سے ان کا ذکر کرتے آبدیدہ ہوگئے تھے۔
میرے والد مرحوم کے دل میں ان کے لیے کتنی محبت، کتنی چاہت تھی کہ وہ ان کے مرنے کے ذکر پر بھی اپنے دلی جذبات نہ چھپاسکے، کیونکہ جس انداز سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے، اس پر ایک سچّا دوست ہی رو سکتا ہے۔ ویسے نعرے لگانے والے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے یہ بلند بانگ نعرے کسی کام نہیں آتے۔
اس کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے تو کچھ اور ہی چاہیے جو پارٹی کے جھنڈے کے ساتھ اور اس کے بِنا بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے معزز وزیر سمجھ سکیں تو...!اب کسی کے دل میں کیا ہے یہ تو اوپر والا ہی جانتا ہے۔
شاید اسی کے لیے ایک حدیث ہے ''اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے'' بظاہر بہت سے لوگ ایسے کام کررہے ہوتے ہیں، ہم سمیت بہت سے لوگ واہ واہ کررہے ہوتے ہیں لیکن ان کی اپنی نیت کیا ہے، وہ تو یا وہ جانتے ہیں یا خدا۔ پچھلے برس کی بات ہے ہم تمام پرانے بزم طلباء کے ساتھی عید پر اکٹھے ہوئے، سب خیر سے اپنی اپنی جگہ بہت اچھے کام کررہے ہیں۔
ایک ساتھی جو ماشاء اﷲ اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہے، ایک مشہور شوبز کی شخصیت کے بارے میں فرمانے لگے کہ مجھ سے زیادہ ان صاحب کو کون جان سکتا ہے، لیکن انھوں نے جو سحر لوگوں پر طاری کر رکھا ہے وہ بہت زبردست ہے۔ خود میری والدہ ان کی بہت بڑی عقیدت مند ہیں۔
میں نے اپنی امی سے کئی بار کہا کہ امی! یہ ایسے ہرگز نہیں ہیں، جیسے کہ نظر آرہے ہیں لیکن میری امی نے الٹا مجھے ڈانٹ دیا کہ چپ رہو، دیکھو تو کتنی اچھی باتیں کرتا ہے۔ سچ ہے کہ انھیں ان کی باتوں کے ہی پیسے ملتے ہیں۔ اب دل سے وہ کیا ہیں، یہ تو یا تو دل والا جانتا ہے یا خدا۔ ویسے ان کے اپنے دوست بھی بہت کچھ جانتے ہیں۔ یہ ذرا انھیں بھی سوچنا چاہیے۔