شہباز شریف نے 84 دنوں میں ہی منظر نامہ بدل دیا
میری رائے میں شہباز شریف نے مشکل دن کاٹ لیے ہیں۔ اب ان کے لیے سیاسی طور پر بھی آسانی ہے
وزیر اعظم شہباز شریف نے 4مارچ 2024کو پاکستان کے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ جس دن آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے انھیں عہدہ سنبھالے 84دن ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صرف 84دن میں شہباز شریف نے ملک کا معاشی اور سیاسی منظر نامہ کس حد تک تبدیل کر دیا ہے؟ ہم ان 84دنوں کا احاطہ کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ شہباز شریف نے اتنے مختصر عرصے میں کیسے تقریباً سب کچھ تبدیل کر دیا ہے۔
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو84دن پہلے ملک میں وفاق میں حکومت سنبھالنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ تحریک انصاف نے کسی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے سے انکارکر دیا تھا۔ پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ حکومت میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ خود ن لیگ کے اندر ایسی آوازیں موجود تھیں جو کہہ رہی تھیں کہ مرکزی حکومت لے کر ن لیگ بہت بڑی غلطی کر رہی ہے۔
ایک عمومی رائے تھی کہ وفاقی حکومت کانٹوں کا سیج ہے، اس سے دور ہی رہا جائے، جو بھی اسلام آباد کی حکومت لے گا، سیاسی طور پر تباہ ہو جائے گا۔ ایک ایسے منظر نامہ میں جب کوئی ساتھ نہیں تھا۔ اتحادی بھی حکومت میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اپنی جماعت بھی حکومت لینے پر تقسیم تھی۔ شہباز شریف نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔
اب صرف 84دن بعد دیکھیں۔ سب سے بڑے اتحادی پیپلزپارٹی جو 84دن پہلے کہہ رہے تھے کہ ہم اس حکومت میں شامل نہیں ہوں گے۔ اب حکومت میں شامل ہونے کے لیے کمیٹی بنا کر منتیں کر رہے ہیں۔ ن لیگ میں جو کہہ رہے تھے کہ حکومت لے کر غلطی کی اب اپنے موقف پر شرمندہ ہیں۔پیپلزپارٹی سمیت سب کی رائے تھی کہ ان حالات میں حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ حالات بہت خراب ہیں۔ معاملات چل ہی نہیں سکتے۔
ایسے فیصلے کرنے ہیں جو آپ کو سیاسی طور پرتباہ کر دیں گے۔ حکومت یقینا سیاسی خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اب سب کے اندازے غلط ثابت ہو گئے ہیں۔ کیونکہ حکومتی اقدامات کے ثمرات سامنے آنے لگ گئے ہیں۔حکومت سے عوام کی امید بن گئی ہے۔ اور سب کو سمجھ آگئی ہے کہ حکومت کے حوالے سے ان کی رائے غلط تھی۔
میں سمجھتا ہوں شہباز شریف کے لیے سب سے پہلا سیاسی چیلنج عالمی سطح پر اپنی حکومت کو ایک جائز حکومت کے طور پر منوانا تھا۔ اس کو روکنے کے لیے تحریک انصاف نے عالمی سطح پر لابی فرم بھی ہائیر کی ہوئی تھی۔ ایک کوشش تھی کہ انتخابات کو متنازعہ بنوا کر حکومت کی عالمی قبولیت کو روک دیا جائے۔ لیکن شہباز شریف کی کامیاب سفارتکاری سے یہ کوشش ناکام ہوگئی۔
امریکا یورپ سمیت سب نے موجودہ حکومت کو نہ صرف ایک جائز حکومت کے طور پر قبول کیا ہے بلکہ اس کو خوش آمدید بھی کہا۔ عرب ممالک نے غیر معمولی خوش آمدید کہا۔ امریکی صدر نے خط لکھ کر اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ یورپ نے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ غرض کہ پوری دنیا نے اس حکومت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کے ساتھ چلنے اور تعاون کی بات بھی کی۔ یہ شہباز شریف کے سیاسی مخالفین کی پہلی بڑی شکست تھی۔
کس کو اندازہ تھا کہ صرف 84دن میں ملک کا معاشی منظر نامہ نا امیدی سے امید میں بدل جائے گا۔ ملک کی اسٹاک ایکسچینج ریکارڈ توڑ دے گی۔ یہاں تو امید تھی کہ سب ڈوب جائے گا۔ لیکن یہاں تو اوپر جانے کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ دوستوں کا تو خیال تھا کہ نیچے جانے کے ریکارڈ بنیں گے۔ لیکن یہاں اوپر جانے کے ریکارڈ بن رہے ہیں۔ سب کی رائے تھی کہ آئی ایم ایف کا جن بوتل میں بند نہیں ہو سکتا۔
لوگ شرطیں لگا رہے تھے کہ تیسری قسط نہیں ملے گی۔ اسی لیے تحریک انصاف بھی آئی ایم ایف کو خط لکھ رہی تھی۔ آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے احتجاج کیے جا رہے تھے کیونکہ سب کو امید تھی کہ پیسے نہیں ملیں گے اور پیسے نہ ملنے کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی تھیں۔ سب کو پتہ تھا کہ اگر تیسری قسط نہ ملی تو حکومت چلنے سے پہلے ہی گر جائے گی۔ لیکن جتنی آسانی سے تیسری قسط ملی اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔
آئی ایم ایف کی تیسری قسط نے اس حکومت کی معاشی گاڑی کو پہلا دھکا لگایا۔اس کو پہلی معاشی کامیابی بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سعودی عرب سے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان نے معاشی منظر نامہ میں بڑی تبدیلی پیدا کی۔ سب کے کان کھڑے ہوگئے۔ سب کو یقین ہوگیا کہ معاملہ چل گیا ہے۔
اس کے بعد وزیر اعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقاتیں اور اعلیٰ سطح کے سعودی وفود کی پاکستان آمد نے معاشی محاذ پر امید کے بادل برسائے۔ جو لو گ سفارتکاری کے فن کو جانتے ہیں۔انھیں اندازہ ہے کہ پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اب فائنل اسٹیج پر پہنچ گئی ہے۔ جون میں اس حوالے سے بڑی خوشخبریاں آجائیں گی۔
ابھی شہباز شریف سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی خوشی سے نکلے ہی نہیں تھے کہ متحدہ عرب امارات نے دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کا بھی کسی کو اندازہ نہیں تھا۔
سعودی عرب کی بابت تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ امید تھی۔ لیکن متحدہ عرب امارات کے اعلان کا تو کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس کے بعد قطر اور کویت کے حکمرانوں کی جانب سے پاکستان کے دورے کے اعلان نے بھی سب کو حیران کر دیا ہے۔ یقینا یہ دورے بھی معاشی لحاظ سے بہت اہم ہونگے۔
چین کے ساتھ سی پیک فیز ٹو کے لیے مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں۔ شہباز شریف کے جلد چین جانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ جہاں سی پیک فیز ٹو کی بات ہوگی۔ سب کو اندازہ ہے چین اور پاکستان کے درمیان بھی سی پیک کے حوالے سے ایک سرد مہری موجود تھی۔ لیکن سی پیک فیز ٹو سب کو حیران کر دے گا۔
یقیناً یہ معیشت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہوگا۔ آئی ایم ایف سے اگلے معاہدہ کے لیے بات چیت بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا مشن پاکستان کا دورہ کر کے جا چکا ہے۔ اسٹاف لیول معاہدہ کے لیے بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔ شرائط طے ہو رہی ہیں۔ اس لیے ملک کے معاشی بحران سے نکلنے کی امید ضرور پیدا ہو گئی ہے۔
یہ سب صرف 84دنوں میں ممکن ہوا ہے۔ اسی لیے اب پیپلزپارٹی حکومت میں آنے کے لیے بے تاب ہے۔ 84دن پہلے یہ حکومت ڈوبتی کشتی تھی۔ اب منزل پر پہنچنے والی کشتی بن گئی ہے۔ اس لیے اب سب اس میں شامل ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اب لوگ بات کر رہے ہیں کہ اگر شہباز شریف کو مکمل پانچ سال مل گئے تو شہباز شریف ملک کی حالت بدل دے گا۔ اور یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا شہباز شریف کو پانچ سال مل جائیں گے۔
میری رائے میں شہباز شریف نے مشکل دن کاٹ لیے ہیں۔ اب ان کے لیے سیاسی طور پر بھی آسانی ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو بھی اس حکومت کی کارکردگی سے بہت توقع پیدا ہو گئی ہے۔ اس لیے مجھے شہباز شریف کی راہ میں جو سیاسی مشکلات نظر آبھی رہی تھیں۔ وہ بھی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شہباز شریف نے صرف84دنوں میں اپنے کام سے سارا منظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ جس کی کسی کو توقع نہیں تھی۔