کوچۂ سخن
غزل
اعلان کر رہا ہوں کہ ہُشیار، اک طرف
معصوم اک طرف ہوں، ریا کار اک طرف
یہ کس نے آ کے صحنِ حرم میں قدم رکھا
دَر اک طرف کو ہو گیا، دیوار اک طرف
تُو آ گیا تو کام چلا گُل فروش کا
بیٹھا ہوا تھا کب سے یہ بے کار اک طرف
اے جوتشی! ذرا ہمارے ستاروں کا حال دیکھ
ہے پیار اک طرف تو پَری وار اک طرف
جو سب کو ہے پسند وہ مجھ کو ہے نا پسند
دنیا ہے اک طرف، مرا معیار اک طرف
اک سمت ہے یہ غم کہ خوشی ہے رقیب کی
اور آپ ہو کے بیٹھے ہیں تیار اک طرف
اک امتحان میں ہیں کئی دن سے تتلیاں
پھول اک طرف ہیں، آپ کے رخسار اک طرف
نیّرؔ مشاعروں میں جو پڑھتا ہے تُو نہ سن
رکھے ہیں تیرے واسطے اشعار اک طرف
(شہباز نیّر۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
ظرف کی مشق ہے دستار کو حاصل کرنا
ایک معیار ہے معیار کو حاصل کرنا
خود فریبی سے نکلنا ہے خودی تک جانا
کتنا آسان ہے دشوار کو حاصل کرنا
کسی بیٹے کو یہ اعزاز عطا ہوتا ہے
اپنے اسلاف کی تلوار کو حاصل کرنا
سوچتا ہوں کہ مرے پاس تھا سب کچھ لیکن
یار قسمت میں میں نہ تھا یار کو حاصل کرنا
زندگی نام نہیں جسم کی قربت کا عطاؔ
حاصلِ عمر نہیں پیار کو حاصل کرنا
(عطاشائق ۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
دلِ رنجیدہ ترے حسن پہ وارا ہوا تھا
مجھ کو یہ خواب میں کل رات اشارہ ہوا تھا
اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑا ہے اس نے آخر
اپنی مرضی ہی سے جوشخص ہمارا ہوا تھا
ہونے والا ہے تیرا قرب میسر مجھ کو
میں نے تجھ شخص کو برسوں سے پکارا ہوا تھا
چھوڑ دے روز نئے رشتے بنانا اے دل
تجھ کو پہلے بھی تعلق میں خسارہ ہوا تھا
بوجھ ملاح کے دل سے یہ نہ اترا طارقؔ
اُس نے اک شخص کو کشتی سے اتارا ہوا تھا
( طارق جاوید۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
محبت سے کنارہ کر رہے ہیں
وہ خود اپنا خسارہ کر رہے ہیں
ہمارا حوصلہ کیا پوچھتے ہو
بغیر اس کے گزارا کر رہے ہیں
جھکائیں سر کہ آپ اہلِ زمیں ہیں
فلک کا کیا نظارہ کر رہے ہیں
انہیں کوئی سہارا مل رہا ہے
ہمیں جو بے سہارا کر رہے ہیں
بس اک دل ہی بچا تھا پاس اپنے
چلو وہ بھی تمہارا کر رہے ہیں
(احمد معاذ کہوٹہ، راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کب اُس کو گرانے پہ ہے اصرار ہمارا
دیوار نہیں جانتی معیار ہمارا
دشمن ہے تعاقب میں، کہاں خود کو چھپائیں
ہے یار ہمارا نہ کوئی غار ہمارا
ہم ایسوں کی تعمیر کبھی ہو نہیں سکتی
بنیاد اٹھاتا نہیں معمار ہمارا
اس واسطے خاموش ہی رہتے ہیں جواباً
جائے گا کہاں سن کے وہ انکار ہمارا
اشیائے ضرورت بھی نہیں لیتا کوئی اب
سنسان پڑا رہتا ہے بازار ہمارا
آواز تو مانوس سی آتی ہے وہاں سے
اب یاد نہیں کون ہے اُس پار ہمارا
افسوس کوئی آج بھی ملنے کو نہ آیا
بے کار گزر جائے گا اتوار ہمارا
(حسیب علی کہوٹہ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
لہو منظر دکھائی دے رہا ہے
مگر خنجر صفائی دے رہا ہے
اٹھا آفاق کے اس پار کچھ شور
تمہیں بھی کچھ سنائی دے رہا ہے
شکستہ ہیں پرِ پرواز تیرے
ترا بازو دہائی دے رہا ہے
جو کچھ گم ہو چکا تاریکیوں میں
مجھے وہ بھی سجھائی دے رہا ہے
حجاب رخ ترا اے جان گلشن!
خیال پارسائی دے رہا ہے
سخن کی پڑ رہی ہے جب ضرورت
وہ ہم کو بے نوائی دے رہا ہے
مرا بیٹا ہے گزرے عہد کا عکس
مجھے اپنی کمائی دے رہا ہے
حریم ناز میں بیٹھا ہوا وہ
مجھے اذن رسائی دے رہا ہے
مرا گھر بن گیا بازار اے نورؔ
خبر غیروں کو بھائی دے رہا ہے
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی، بھارت)
۔۔۔
غزل
کہانی میں سبھی کردار بدلے ہیں
مرے دشمن وہیں ہیں، یار بدلے ہیں
وہ بدلے تھے ہزاروں مرتبہ لیکن
بہت بدلے ہیں جو اِس بار بدلے ہیں
ہے گلشن میں یہ کیوں اتنی اداسی اب؟
خدایا! کیوں گل و گلزار بدلے ہیں
نہیں اِک شخص بدلا بس زمانے میں
زمین و آسماں دلدار بدلے ہیں
کوئی آئے نہ اب حرفِ تسلی دے
قیامت ہے مرے سرکار بدلے ہیں
زلیخا اب کہاں ڈھونڈو گی یوسف کو؟
غلاموں کے بھی اب معیار بدلے ہیں
محبت کو دی حفصہ بد دعا تُو نے
نہ جانے کیوں ترے افکار بدلے ہیں
(حفصہ فریال بلوچ۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
بدن کی سیر سے فارغ ہوئے انسان کے نزدیک
شب و روز ایک جیسے ہیں نئے حیوان کے نزدیک
ازل سے فلسفہ تھامے حوالہ بہ حوالہ ہی
ہم آخر کار پہنچے تو سہی انسان کے نزدیک
بدک کر میں حسابِ عمر سے بدحال بیٹھا ہوں
لباسِ شب میں ملبوس ایک آتش دان کے نزدیک
نظر کی قید سے نکلے تو دل میں بھر لیا اُس نے
کوئی باغیچہ ہو جیسے کسی زندان کے نزدیک
اصولِ عشق دیگر ہیں اصولِ دین و دنیا اور
کوئی سامان مت رکھنا مرے سامان کے نزدیک
ُکھرچ کر سینۂ ملحدسبھی حیران ہیں توحیدؔ
خدا آباد ہے اک کوچۂ ویران کے نزدیک
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)
۔۔۔
غزل
سانسوں کا دہکتا ہوا پیچیدہ ترنگ ہے
پیکان میں دم توڑتے لمحوں کی اُمنگ ہے
نکلی ہے فروشندہ زمانوں کی اسیری
پگھلے ہوئے برفاب میں آزادی کا رنگ ہے
پامال کرے ہے ترا اندیشۂ خوں ریز
مسکان میں ڈھلکا ہوا نقّارۂ جنگ ہے
کٹ جائے گی کیا عمر کی قتّال طبیعت
شمشیر پہ پڑتا ہوا انگار کا زنگ ہے
میں خاک کے پردے میں عیاں اس پہ کہاں ہوں
دریا کی روانی میں جو خاکستری انگ ہے
(زاہد خان۔ پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان)
۔۔۔
غزل
ہے غم کی بارشوں سے یہی حال دوستو
اک دن بھی اب لگے ہے مجھے سال دوستو
بادل غموں کا جس طرح مجھ پر برس پڑا
اپنے سناؤں اب کسے احوال دوستو
ساون کی بارشوں سے ہو جیسے تباہ گھر
یہ دل بھی اس طرح ہوا پامال دوستو
نسبت ہی اپنی ذات سے جس نے نہ دی مجھے
اِس بے وفا کا بھی سنائیں حال دوستو
دنیا سے رفتگاں ہوئے ہیں نامور بہت
ہوتا ہے کیا اگر گیا اقبالؔ دوستو
(اقبال جعفر۔وادیِ دُرگ)
۔۔۔
غزل
کبھی تصور میں ان کے در پر اگر گئے ہیں
قدم کی کیا بات کیجئے ہم بسر گئے ہیں
کوئی بھی خوبی نہیں تھی ہم میں یقین مانیں
ملے ہیں جب آپ سے تو ہم بھی سنور گئے ہیں
یہ زندگی اب غموں کے سائے میں کاٹنی ہے
خوشی کے جتنے بھی دن تھے سارے گزر گئے ہیں
ہمیں بھروسہ تھا جن کے وعدوں پہ خود سے بڑھ کر
وہ اپنے وعدوں سے پھر گئے ہیں مکر گئے ہیں
تمہاری یادوں نے دل پہ قبضے جمائے رکھے
پریشاں دل کو لیے ہوئے ہم جدھر گئے ہیں
ہم اہل دل تو محبتوں کے اسیر ٹھہرے
جہاں بھی اپنائیت ملی ہے ٹھہر گئے ہیں
ولا کی رہ میں جو اک تسلسل ہے رنج و غم کا
جنھیں بھی حاصل ہوا وہ بیشک سدھر گئے ہیں
ہمیں کسی نے جب اپنے دل سے رہائی دے دی
پھر ایسے ٹوٹے ہیں ہم کہ فیضی ؔبکھر گئے ہیں
(محمد فرقان فیضی ۔برہم پوری سرلاہی ،نیپال)
۔۔۔
غزل
وہم ہے یا گمان ہے صاحب
پھر کوئی امتحان ہے صاحب
ہاں نہیں یہ اگر مگر لیکن
جاہلوں کی زبان ہے صاحب
ڈھونڈ لاؤں گا قیس کی لیلیٰ
سر پہ اس کے انعام ہے صاحب
اٹھ گیا طور سے جہاں موسیٰ
یہ وہی آسمان ہے صاحب
آپ کا دل نہیں میاں ارسلؔ
سازشوں کی دکان ہے صاحب
(ارسلان شیر۔ نوشہرہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی