جینا سکھانے والی انوکھی لڑکیاں
ایک لڑکی ڈپریشن کے مارے اپنی زندگی کاخاتمہ کرناچاہ رہی تھی تو دوسری دشمنوں کے ایک حملے میں اپنے ہاتھ کٹوا بیٹھی۔
ہاتھوں سے محروم لڑکی شیف بن گئی۔ فوٹو: فائل
چندماہ قبل ریڈرزڈائجسٹ میں دوکہانیاں پڑھنے کو ملی تھیں، پہلی رینا دین کی تھی، جو شدید ڈپریشن کی شکارتھی، وہ اپنی زندگی کاخاتمہ کرنے والی تھی لیکن پھرکچھ ایسا ہوا کہ اس کی زندگی ہی بدل گئی۔ اب رینادین کی کہانی ، اسی کی زبانی پڑھیے:
''اپنا آپ کبھی نہ گنواؤ'' بوڑھے ضعیف آدمی نے کہا۔ میں اس وقت چار یا پانچ برس کی تھی اور میرے گھر والے اس کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ اگر میں دیانت داری سے کام لوں تو مجھے نہ تو اس کا نام یاد ہے اور نہ یہ کہ ہم اسے کیسے جانتے تھے۔ لیکن دوعشروں بعد اس کے ان الفاظ نے میرا گھیراؤ کر لیا کیونکہ میں فالج میں مبتلا ہو کر بستر پر دراز تھی اور زندگی کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کے لئے کوشاں تھی۔
کتنے ہی سال میں ڈپریشن کا شکار رہی، یہاں تک مجھے یاد ہے۔ پہلا حادثہ جب پیش آیا تو میں صرف چودہ سال کی تھی ۔ سنگا پور میں ایک دن جب میں سکول سے اپنے گھر آئی تو شدت جذبات سے مغلوب ہو کر ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگی۔ آنسوؤں کا سیلاب امڈنے سے پہلے فلیٹ پر پہنچنے میں، بڑی مشکل سے کامیاب ہوسکی تھی۔ مجھ پر غلبہ پانے والے، ناقابل بیان جذبات نے مجھے خوفزدہ کرکے رکھ دیا۔
سولہ سال کی عمر کی بات پر پھوٹ پڑنے والایہ جذباتی طوفان مہینے میں ایک دفعہ آتا تھا۔ زیادہ وقت تک میں نارمل رہتی لیکن پھرمیرا ذہن ایک الگ سی کیفیت کو غلبہ پاتے ہوئے محسوس کرتا۔ شروع شروع میں یہ بغیر کسی وجہ کے ہوتا تھا مگر اب ہر بات اس کی وجہ بن گئی تھی۔ مثلاً ٹیچر کی خفگی' کسی مضمون کیلئے اول انعام نہ ملنا ' کینٹین پر لگی لمبی قطار۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ واقعات خوشگوار، غمگین یامعمولی ہوتے میرا ذہن انہیں توڑ مروڑ کر کسی خوفناک شے میں تبدیل کر لیتا تھا۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری سہیلی کا فون آیا، مختصر سی گفتگو کے بعد اس نے کہا کہ اسے جانا پڑے گا کیونکہ اس کی ماما اسے بلا رہی تھیں۔ اگلے دو دن میں نے اس سوچ کے ساتھ اذیت میں گزارے کہ اس نے مجھے اس لئے انتظار کرایا کیونکہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے کوئی آسیب میرے ذہن پر قابض ہو گیا ہو اور کہیں نہ کہیں میرے ذہن میں ایک کمزور سی آواز یہ بتانے میں لگی رہتی کہ میں کتنی ناکارہ ' مایوس اور بے وقوف تھی۔ زیادہ تر میں اسے راز کی طرح چھپا کر رکھتی تھی کیونکہ میں خوفزدہ اور پریشان تھی' مجھے یادہے ایک دفعہ میں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کے بارے میں اپنی دوست کو بتانے کی کوشش کی مگر میں درست الفاظ کا انتخاب نہ کر سکی اور آخر کار مجھے اپنی بات ادھوری ہی چھوڑنی پڑی ۔ ایسا نہیں تھا کہ میری سہیلیاں مکمل طور پر میرے مسائل سے بے خبر تھیں۔
انھوں نے کئی دفعہ میری کٹھن گھریلو زندگی کے بارے میں مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ میرے والد مجھ سمیت میری دونوں چھوٹی بہنوں کو اذیت ناک گالی گلوچ کا نشانہ بناتے اور میری والدہ بمشکل ہی ہماری مدد کرپاتیں۔ اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرے گھریلو مسائل ہی میرے ذہنی دباؤ کی اصل وجہ تھے۔ جب میں 17 سال کی ہوئی تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ان تکالیف سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ میں کچھ بھی محسوس کرنا چھوڑ دوں۔ یہ اتنا مشکل بھی نہ تھا کیونکہ میں اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ دو پارٹ ٹائم ملازمتیں اور بہنوں کی دیکھ بھال جیسی ذمہ داریاں اداکررہی تھی۔ میرے پاس کچھ سوچنے یا محسوس کرنے کا وقت نہیں بچتا تھا۔
شروع میں تو میری یہ شعوری بے حسی، حساسیت سے نجات کا روح افزا ذریعہ تھی لیکن جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں اندر سے خالی ہوتی جا رہی ہوں۔ میں کسی قسم کی خوشی و غم یا امید محسوس نہیںکر پاتی تھی۔ یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی کہ مجھے کچھ محسوس کرنے کے لئے خود کو ضرب لگانی پڑتی۔
اب میں اپنی ذات سے خوفزدہ ہو گئی تھی، مجھے محسوس ہونے لگا کہ کوئی سیاہ نقطہ میرا پیچھا کر رہا ہے اور وہ نقطہ مجھے نگل جائے گا۔ آخر کار 25سال کی عمر کو پہنچنے تک میں فیصلہ کر چکی تھی کہ جہنم جیسی یہ زندگی ختم ہونی چاہئے۔ میں اپنے آپ کو ختم کرنے والی تھی۔خوش قسمتی سے مجھے اس کا موقع نہ مل سکا۔ اس رات جب میںنے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا، عین اسی وقت میری سولہ سالہ بہن بانو نے بھی اپنے کمرہ کا دروازہ کھولا، اس کا چہرہ پھولا ہوا تھا اورآنکھیں سوجی ہوئی تھیں، وہ سسک رہی تھی۔
میں نہیں رک سکتی میں نہیں جانتی کہ کیوں لیکن میںاپنی آہ بکاہ کو نہیں روک سکتی اس نے کہا میں خوفزدہ ہو گئی' کوئی جو میرا بہت اپنا تھا میری طرح اسی عذاب سے گزر رہا تھا۔ میں جانتی تھی کہ یہ ذہنی دباؤ مورثی بھی ہوسکتا تھا ۔ خاندان کے ایک سے زیادہ افراد کا اس کا شکار ہونا انوکھی بات نہیں تھی۔ مگر میں ہی پریشانیوں میں اس طرح گھر گئی تھی کہ میں دیکھ ہی نہ سکی کہ میری بہن بانو بھی اذیت میں مبتلاہے۔
اس واقعہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بانو کی مدد کرنے کی خواہش نے مجھے اپنی مدد کرنے پر مائل کیا۔ میں نے اپنے دوست راج کو بلایا، وہ اپنے ایک اور دوست کے ہمراہ آیا۔ میںنے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ انہی کے اصرار پر میں ایک فیملی سروس سنٹر گئی اور وہاں میری کونسلنگ شروع ہوگئی ،چند سیشنز کے بعد میرے کونسلر نے بتایا کہ میرا ذہنی دباؤ بدترین قسم کی منفی گھریلو صورت حال اور گالی گلوچ کا نتیجہ ہے، اس نے میرے مسائل کی نشان دہی کی اور کونسلنگ جاری رکھی۔
میں ایک سپورٹ گروپ میں شامل ہوگئی اور اپنی رہنمائی سے متعلق کتب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ سب سے اہم یہ تھا کہ میں نے اس ذہنی اذیت سے نجات حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی۔ میں نے باہر جانا اور نئے دوست بنانے شروع کر دیئے۔ میں نے بانو کو بھی کونسلنگ کے لئے آمادہ کیا۔ اسے سماجی کاموں میں شمولیت کے لئے آمادہ کیا، اسے اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کی طرف راغب کیا۔ آج دو سال بعد وہ کافی بہتر ہے، وہ ایک پری یونیورسٹی کورس کر رہی ہے اور غمگسار دوستوں کا ایک حلقہ بھی رکھتی ہے۔
ذہنی دباؤ ذاتی پسند نہیں ہوتانہ ہی اِس سے آسانی سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بیماری ہے جس کی ہمیشہ کوئی نہ کوئی پس پردہ وجہ ہوتی ہے۔ لوگ مدد کرنے کی جتنی بھی کوشش کرلیں، صرف متاثرہ افراد اپنی مددآپ سے ہی صحت یاب ہو سکتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہی کہ دوسروں کی مدد کے بغیر میں اس ذہنی اذیت سے چھٹکارا پا سکتی تھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر میں نے خود فیصلہ نہ کیا ہوتا تو ایسا نہ کر پاتی۔
ذہنی دباؤ کے یہ دورے مکمل طور پر غائب نہیں ہوئے مگر اب ان کی شدت اور دورانیہ میں کمی آ چکی ہے۔ اب میں پہلے سے ہی اس کی علامات سے آگاہ ہوتی ہوںاور ان سے بچاؤ کے لئے ضروری اقدامات کر لیتی ہوں۔ مثال کے طور پر کسی دوست سے گفتگو یا اپنے احساسات کو تحریر کرنا۔
میں نے اپنے آپ کو مزید مثبت فکر کی حامل بنالیا، میں اپنی زندگی سے خوب مزہ لے رہی ہوں ، میں انگلش اور سائنس کی استانی کی حیثیت سے اپنا کام اور اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہی ہوں۔ اپنے احساسات کا اظہار اورکسی کے ساتھ انھیںشیئر کرنا اتنا آسان نہیں مگر یہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ میں بانو کی مدد کرنے کے قابل ہوگئی ہوں میں نے اپنے آپ کو گنوا دیا تھا مگراب میں اپنی ذات کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہوں۔
دوسری کہانی مارسل اپاٹان کی ہے، 22 سالہ مارسل اپاٹان فلپائنی دارالحکومت منیلا میں واقع ایڈسا شانگریلا ہوٹل میں کھڑی ایک پنیرکیک سجانے کی تیاری کررہی ہے۔ پیسٹری پروڈکٹ سے وابستہ کسی بھی شیف کے لیے یہ معمولی کام ہوگا مگر مارسل کوئی معمولی شیف نہیں ہے۔ اس کے ہاتھ نہیں ہیں لیکن شاید ہی ایسا ہوکہ اس کی معذوری نے اسے سست کیا ہو۔ مارسل پسے ہوئے باداموں سے کیک کے اطراف میں تہیں لگاتی ہے۔ اس کے بعد وہ ایک چاقو مضبوطی سے اپنے کولہے اور بائیں کہنی کے درمیان جکڑ کر اپنی بائیں کلائی کو انگوروں، سٹرابری کے ٹکڑے کے لیے نرم انداز میں استعمال کرتی ہے۔
تھوڑے سے وقت ہی میں وہ اس پھل کو کیک کے اوپر سجاد دیتی ہے۔ بلیوبیری کا اضافہ کرتی ہے اور عمدگی سے اوپر چاکلیٹ کا شاندار لچھا بنا دیتی ہے۔
جب میں نے پہلی دفعہ مارسل کو دیکھا تو میں یہ سوچ کر پریشان ہوگئی کہ کہیں وہ اس چاقو سے خود کو زخمی نہ کرلے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ سائوس الیریل چیف( مارسل کی منیجر) کہتی ہے کہ اسے کوئی اضافی رعایت نہیں ملتی اور وہ دوسرے شیف جتنا ہی کام کرتی ہے۔
مارسل کے ساتھ یہ سب بہت عرصہ پہلے پیش آیا جب اس پر اور اس کے انکل پر ستمبر 2000ء کے ایک روز منڈانائو کے شہر رمبائونگاکے دور دراز علاقے میں حملہ کیا گیا۔ پانچ آدمی، جو مارسل کے اہل خانہ سے اراضی ہتھیانا چاہتے تھے، نے خنجروں سے اس کے انکل کو بری طرح زخمی کردیا اور پھر گیارہ سالہ مارسل پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں وہ بے ہوش ہوگئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے اس وقت بھی خود کو مردہ ظاہر کیا حتیٰ کہ اسے یقین ہوگیا کہ حملہ آور جاچکے ہیں۔ تب جب وہ لڑکھڑاتی ہوئی گھر کے اندر آئی تو اس نے اپنے ہاتھ دیکھے جو خون آلود گوشت کے ٹکڑوں کی صورت لٹک رہے تھے۔ معجزانہ طور پر وہ زندہ رہی، بمشکل ہسپتال پہنچی لیکن ڈاکٹرز اس کے ہاتھ نہ بچاسکے۔ اس کے انکل بھی بچ گئے، پھر انہوں نے دونوں حملہ آوروں کے خلاف گواہی دی جو اب عمر قید جھیل رہے ہیں۔
کیتھولک آرچ بشپ اینٹونیو لیڈسی جو مارسل کے دور کے رشتہ دار تھے، کی مالی مدد کی بدولت مارسل اپنی معذوری کا مقابلہ کرتی رہی۔ وہ بتاتی ہے:'' میں مکمل طور پر اپنی والدہ پر انحصارکرنے لگی تھی۔ میں نے دوبارہ سکول جانا شروع کردیا۔ ہم جماعت ساتھی اسے معذوری کے سبب ستاتے اور میں رونے لگتی۔ 2004ء میں آرچ یشپ نے معذور افراد کی بحالی اور تربیت کے لیے میں منیلا میں موجود ایک بحالی مرکز میں مارسل کے رہنے کا انتظام کیا۔
وہاں اس نے لکھنا سیکھا، کام کاج کرنا سیکھا اور سب سے اہم یہ کہ اس نے اپنی معذوری کے ساتھ جینا سیکھا۔ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے میں معمول کی زندگی حاصل کرنے کے لیے مزید پر عزم ہوگئی۔ اب مجھے یقین ہوگیا کہ مجھے زندگی میں کوئی بہت بڑا کام کرنا ہے جومیں اس حادثے سے بچ گئی ہوں۔ آخر کار مارسل نے ہائی سکول سے گریجویٹ کیا۔ کاگیان دی اوروسٹی میں ہوٹل اور مینجمنٹ کے دو سالہ کورس میں داخلہ لے لیا۔ وہ کہتی ہیں:'' میں کیک سجانے کے لیے کلاس میں ہونے والے مقابلوں میں شرماتی یا ڈرتی بالکل نہیں تھی''۔
مارسل کی منیلا واپسی کے بعد میڈیا نے اس نہ دبنے والی لبارڈ لڑکی کے بارے میں خبریں دینا شروع کردیں۔ وہ اس توجہ سے گھبرائی نہیں۔ مارسل کہتی ہے ''میں چاہتی تھی کہ دوسرے معذور افراد میری طرف دیکھ کر یہ سیکھ لیں کہ معذوری کے ساتھ بھی معمول کی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔
جب ایڈسا شنگریلا ہوٹل کے منیجرز نے مارسل کو ٹی وی پر دیکھا تو انہوں نے اس کو ہوٹل کے ''کیئر فار پیپل پراجیکٹ (Care for People Project) کے لیے رکھ لیا۔ مارسل کا ساتھی شیف الجمل بوجرہ مارسل کی مہارت کے متعلق کہتا ہے کہ اسے صرف تب مدد درکار ہوتی ہے جب اس نے کوئی گرم کیتلی یا بڑا سوس پین چولہے سے اتارنا ہو یا بوتل کا ڈھکن کھولنا درکار ہو۔ مارسل نے دوسروں کو متاثر کرنے کا باکمال مقصد بھی حاصل کیا ہے۔ ان میں سے ایک 21 سالہ روسالن کالمینائو ہے جوکہ دماغی فالج کی شکار ہے۔
وہیل چیئر تک محدود ہونے کی وجہ سے وہ شاید ہی کبھی منیلا سے باہر گئی ہو،کبھی سکول نہ جاسکی۔ پھر اس نے مارسل کو ٹی وی پر دیکھا، اس نے اسے اعتماد کے ساتھ سلاد کے لیے سبزیاں تیار کرنے کے طریقے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے بتایا رونالن جوکہ اب ہائوس ود نوسٹپ (House with Nostep) میں رہتی ہے جلد یہ کلاسز کا آغاز کرے گی۔ اس نے پہلے سے ہی آئی ٹی میں اپنا مستقبل کا خاکہ تیار کررکھا ہے۔
مارسل کے تین چھوٹے بھائی منیلا نقل مکانی کرچکے ہیں۔ وہ اپنے چھوٹے گھر کا کرایہ ادا کرتی ہے۔ جب کہ اس کے والدین منڈانائو کے زرعی فارم پر اپنے بچوںکی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہے:''آخری حد تک جانا مشکل ہے مگر میں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا میرا یقین ہے کہ ہرچیز مکمن ہے اگر آپ خواب دیکھیں، سخت محنت کریں اور دعاکریں''۔