سیاسی جدوجہد
ہم اپنے دفاع کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کو تیار ہیں۔
آج سے تقریباً ربع صدی قبل 28 مئی 1998 کو پاکستان نے پانچ ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی مملکت ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا، وطن عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے کا سہرا پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔
انھوں نے 22 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' ہم ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جو بھارت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کی ہے۔45 کروڑ آبادی والا طاقتور ملک بھارت خواہ کچھ ہی کہتا رہے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام پاکستانی قوم کا جزو ہیں اور ہمارا گوشت پوست ہیں۔ مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی اور تاریخی ہر اعتبار سے کشمیری عوام پاکستانی قوم کا حصہ ہیں۔
ہم اپنے دفاع کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کو تیار ہیں۔ ہم چھوٹا ملک ہونے کے با وصف اور محدود وسائل رکھنے کے باوجود آخری دم تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔'' ذوالفقار علی بھٹو اس وقت 38 سال کے نوجوان وزیر خارجہ تھے۔ جنرل ایوب خان صدر پاکستان تھے، 17روزہ جنگ میں پاک فوج نے بھارت کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ سقوط بنگال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم بنے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ بھارتی جارحیت ایٹمی صلاحیت کا جواب دینے کے لیے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ہوگا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا آغاز کیا۔
وطن عزیز ایٹمی قوت کا سفر طے کر رہا تھا کہ 5 جولائی 1977 کو بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیا نے نہ صرف ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا بلکہ آئین معطل کرکے بھٹو کو نام نہاد قتل کے جھوٹے مقدمے میں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ ملک مختلف حوادث سے گزرتا رہا لیکن ڈاکٹر قدیر خان کی قیادت میں ایٹمی سفر بھی جاری رہا۔ 11 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھرن کے مقام پر ''شکتی'' کے نام سے ایٹمی دھماکے کے تو خطے میں طاقت کا توازن بھارت کی طرف جھک گیا۔
پاکستان کی قیادت نے بھارت کو طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے سخت عالمی دباؤ تھا۔ امریکا نے پانچ ارب ڈالر امداد کی بھی پیش کش کی تھی، تاہم انھوں نے عوامی جذبات کے احترام، خطے میں طاقت کے توازن کو برابر کرنے اور بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے 28 مئی 1998 کو تمام تر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے چاغی کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو نہ صرف یہ کہ پہلی ایٹمی اسلامی ریاست بنا دیا بلکہ بھارت کو برابر کا جواب دے کر پیغام دے دیا کہ اگر بھارت نے ایٹمی جارحیت کی کوشش کی تو پاکستان بھی بھرپور ایٹمی قوت سے جواب دے گا۔
ایٹمی دھماکے کرنے کا سہرا بلاشبہ میاں نواز شریف کے سر جاتا ہے جنھوں نے تمام تر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کا نام بھی ایٹمی ممالک کی فہرست میں شامل کروایا۔ اس مرتبہ 28 مئی کو پورے ملک میں اچانک عام تعطیل کا اعلان کر کے قوم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا گیا۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد ربع صدی گزر گئی میاں نواز شریف دو مرتبہ وزیر اعظم رہے۔ 28 مئی 2024 کا دن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لیے اس حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ وہ دوبارہ پارٹی کی صدارت کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے انھیں 2017 میں پاناما لیکس کیس میں نااہل قرار دے دیا تھا۔ نتیجتاً انھیں نہ صرف وزارت عظمیٰ کو خیر آباد کہنا پڑا بلکہ پارٹی کی صدارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
ان کے بعد چھوٹے میاں صاحب شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ میاں نواز شریف قید کے دوران بیمار ہوئے اور عدالت عالیہ نے انھیں چار ہفتوں کے لیے بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، وہ لندن تشریف لے گئے۔ ان کو دی گئی چار ہفتوں کی مہلت چار سال کے طویل عرصے تک پھیل گئی۔
8فروری کے الیکشن سے قبل میاں نواز شریف واپس وطن آ گئے۔ الیکشن مہم میں '' پاکستان کو نواز دو'' کا نعرہ لگایا، اپنے بیانیے '' مجھے کیوں نکالا ؟ '' کا کڑوا گھونٹ پیا۔ 8 فروری کے الیکشن میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں ایک بڑی جماعت بن کر ابھری اور میاں نواز شریف وزیر اعظم نہ بن سکے۔ اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہوئے ۔ اب مسلم لیگ (ن) کی صدارت دوبارہ حاصل کر کے پھر سے سیاست میںمتحرک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اب پنجاب کی سیاست میں اپنا مقام اونچا کرنا چاہتی ہے۔
انھوں نے 22 ستمبر 1965 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ '' ہم ایک ایسی جنگ میں مصروف ہیں جو بھارت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہم پر مسلط کی ہے۔45 کروڑ آبادی والا طاقتور ملک بھارت خواہ کچھ ہی کہتا رہے، حقیقت یہ ہے کہ کشمیری عوام پاکستانی قوم کا جزو ہیں اور ہمارا گوشت پوست ہیں۔ مذہبی، ثقافتی، جغرافیائی اور تاریخی ہر اعتبار سے کشمیری عوام پاکستانی قوم کا حصہ ہیں۔
ہم اپنے دفاع کے لیے ایک ہزار سال تک لڑنے کو تیار ہیں۔ ہم چھوٹا ملک ہونے کے با وصف اور محدود وسائل رکھنے کے باوجود آخری دم تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔'' ذوالفقار علی بھٹو اس وقت 38 سال کے نوجوان وزیر خارجہ تھے۔ جنرل ایوب خان صدر پاکستان تھے، 17روزہ جنگ میں پاک فوج نے بھارت کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ سقوط بنگال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم بنے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ بھارتی جارحیت ایٹمی صلاحیت کا جواب دینے کے لیے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا ہوگا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا آغاز کیا۔
وطن عزیز ایٹمی قوت کا سفر طے کر رہا تھا کہ 5 جولائی 1977 کو بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیا نے نہ صرف ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا بلکہ آئین معطل کرکے بھٹو کو نام نہاد قتل کے جھوٹے مقدمے میں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ ملک مختلف حوادث سے گزرتا رہا لیکن ڈاکٹر قدیر خان کی قیادت میں ایٹمی سفر بھی جاری رہا۔ 11 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھرن کے مقام پر ''شکتی'' کے نام سے ایٹمی دھماکے کے تو خطے میں طاقت کا توازن بھارت کی طرف جھک گیا۔
پاکستان کی قیادت نے بھارت کو طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف پر ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے سخت عالمی دباؤ تھا۔ امریکا نے پانچ ارب ڈالر امداد کی بھی پیش کش کی تھی، تاہم انھوں نے عوامی جذبات کے احترام، خطے میں طاقت کے توازن کو برابر کرنے اور بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے 28 مئی 1998 کو تمام تر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے چاغی کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو نہ صرف یہ کہ پہلی ایٹمی اسلامی ریاست بنا دیا بلکہ بھارت کو برابر کا جواب دے کر پیغام دے دیا کہ اگر بھارت نے ایٹمی جارحیت کی کوشش کی تو پاکستان بھی بھرپور ایٹمی قوت سے جواب دے گا۔
ایٹمی دھماکے کرنے کا سہرا بلاشبہ میاں نواز شریف کے سر جاتا ہے جنھوں نے تمام تر عالمی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کا نام بھی ایٹمی ممالک کی فہرست میں شامل کروایا۔ اس مرتبہ 28 مئی کو پورے ملک میں اچانک عام تعطیل کا اعلان کر کے قوم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا گیا۔
ایٹمی دھماکوں کے بعد ربع صدی گزر گئی میاں نواز شریف دو مرتبہ وزیر اعظم رہے۔ 28 مئی 2024 کا دن سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لیے اس حوالے سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ وہ دوبارہ پارٹی کی صدارت کا منصب سنبھال چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے انھیں 2017 میں پاناما لیکس کیس میں نااہل قرار دے دیا تھا۔ نتیجتاً انھیں نہ صرف وزارت عظمیٰ کو خیر آباد کہنا پڑا بلکہ پارٹی کی صدارت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
ان کے بعد چھوٹے میاں صاحب شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ میاں نواز شریف قید کے دوران بیمار ہوئے اور عدالت عالیہ نے انھیں چار ہفتوں کے لیے بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی، وہ لندن تشریف لے گئے۔ ان کو دی گئی چار ہفتوں کی مہلت چار سال کے طویل عرصے تک پھیل گئی۔
8فروری کے الیکشن سے قبل میاں نواز شریف واپس وطن آ گئے۔ الیکشن مہم میں '' پاکستان کو نواز دو'' کا نعرہ لگایا، اپنے بیانیے '' مجھے کیوں نکالا ؟ '' کا کڑوا گھونٹ پیا۔ 8 فروری کے الیکشن میں پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں ایک بڑی جماعت بن کر ابھری اور میاں نواز شریف وزیر اعظم نہ بن سکے۔ اپنے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوانے میں کامیاب ہوئے ۔ اب مسلم لیگ (ن) کی صدارت دوبارہ حاصل کر کے پھر سے سیاست میںمتحرک ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اب پنجاب کی سیاست میں اپنا مقام اونچا کرنا چاہتی ہے۔