پولیس اسٹیٹ

یورپ میں بھاپ کے انجن کی ایجاد نے سماج کو تبدیل کیا۔


Dr Tauseef Ahmed Khan May 30, 2024
[email protected]

A police state describes a state whose government institutions exercise an extreme level of control over civil society and liberties. There is typically little or no distinction between the law and the exercise of political power by the executive, and the deployment of internal security and police forces play a heightened role in governance. A police state is a characteristic of authoritarian, totalitarian or illiberal regimes (contrary to a liberal democratic regime). Such governments are typically one-party states, but police-state-level control may emerge in multi-party systems as well.

قدیم زمانہ میں مطلق العنان ریاستیں قائم تھیں۔ ان ریاستوں میں بادشاہ کو ریاست پر بالادستی حاصل تھی، یوں ریاست کے تمام ادارے فرد واحد کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند تھے۔ بادشاہوں نے اپنی فوج اور پولیس کے ذریعے رعایا کو احکامات پر عمل درآمد کا پابندکیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت کے احکامات سے گریز کرنے والے شخص کو غدار اور ملک دشمن کے القابات سے نوازا جاتا تھا۔

ایسے منحرفین کے لیے قید و بند کی سزائیں عام سی بات تھی ، کبھی بادشاہ سلامت خود کسی منحرف کو سزا دیتے تھے،کبھی بادشاہ کے مقررکردہ قاضی یہ فریضہ انجام دیتے تھے۔ بادشاہ اگر کسی شخص کو موت کی سزا نہیں دیتے تھے تو پھر ان افراد کو زندان خانوں میں قید کر دیا جاتا تھا۔

مغل بادشاہوں کے زندان خانوں میں لوگ 10,10 سال تک پڑے رہتے۔ تاریخ میں ایسے واقعات کا ذکر ملتا ہے کہ بادشاہ سلامت کسی فرد کو زندان خانہ میں بند کر کے بھول جاتے تھے، یوں بہت سے بدقسمت افراد آزادی کا سورج دیکھنے کی آرزو میں دنیا سے رخصت ہوجاتے۔

یورپ میں بھاپ کے انجن کی ایجاد نے سماج کو تبدیل کیا۔ کسانوں نے اپنے آبائی پیشہ کو خیر آباد کہا اور کارخانوں میں مزدور بن گئے۔ متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ نئے شہر آباد ہوئے اور صنعتی معاشرے کی بنیاد پڑی، صنعتوں میں کام کے لیے تعلیم عام ہوئی۔ یورپ میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ عورتوں کو روزگار کی دوڑ میں شامل ہونا پڑا، یوں تنظیم سازی کا تصور آیا۔ انسان کی زندگی سے متعلق نظریات عام ہوئے۔ برطانیہ میں چرچ، بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان میگنا کارٹا معاہدہ ہوا۔ ریاست میں مذہب کا کردار ختم ہوا، جدید ریاست کی تنظیم نو ہوئی۔ اب ریاست کے تین باضابطہ ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ قرار پائے۔ نئے سماجی معاہدے کے تحت طے ہوا کہ عوام کی ریاست پر بالادستی قائم ہوئی۔ عوام کو اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے اور مقررہ وقت پر ان کے احتساب کا اختیار حاصل ہوا۔

یہ طے ہوا کہ ریاست کا ایک غیر رسمی ستون پریس ہے اور پریس کا کام ریاست کے تینوں ستونوں کی نگرانی کرنا ہے۔ سیاسی جماعتوں، مزدور اورکسان تنظیموں، وکلاء اور صحافیوں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔ نئے سماجی معاہدے کے تحت یہ طے ہوا کہ عوام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کو پارلیمنٹ کے لیے منتخب کریں گے۔

پارلیمنٹ صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب کرے گی۔ پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی اور عدلیہ ان قوانین کے تحت عوام کو انصاف فراہم کرے گی اور تمام ستون اپنے اپنے آہنی و قانونی دائرہ کار کے مطابق فرائض انجام دیں گے۔ پریس عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دے گا، یوں رائے عامہ بنے گی اور رائے عامہ بنانے میں پریس، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا اہم کردار ہوگا، یوں جمہوری ریاستوں کا ارتقاء ظہور پذیر ہوا۔

ابتدائی ادوار میں مخصوص پیشوں کے حامل افراد کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ برطانیہ اور امریکا میں غلامی کا ادارہ ختم ہوا۔ گزشتہ صدی کے پہلے عشرے میں خواتین کو ووٹ کا حق ملا۔ سیاہ فام افراد کو ووٹ کا حق حاصل ہوا۔ جمہوریت کی اس تعریف پر مکمل طور پر اتفاق ہوا کہ حقیقی جمہوریت میں ریاست کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے۔

یورپی ممالک میں سرمایہ داری نظام سے نئے تضادات ابھر کر سامنے آئے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں تیسری دنیا میں نو آبادیات پر قبضے کی جنگ میں نئے تضادات ابھرکر سامنے آئے۔ جرمنی سائنسی ترقی میں سب سے آگے تھا۔ گزشتہ صدی کے پہلے عشرے میں جرمنی میں سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی جڑیں پکڑ رہی تھیں کہ پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوا۔

برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کو شکست دی۔ جرمنی کساد بازاری کا شکار ہوا، اس وقت ہٹلر ابھرکر سامنے آیا۔ ہٹلر نے اپنی پرجوش تقریروں سے عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ مختلف چال بازیوں کا استعمال کرتے ہوئے ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ ہٹلر نے جرمن نسل پرستی کا نعرہ لگایا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

پارلیمنٹ کے ذریعے ریاست کے تمام اداروں پر ہٹلر نے قبضہ کرلیا اور عدالتوں کے اختیارات کو ختم کر دیا گیا۔ اخبارات کو مکمل طور پر ریگولیٹ کیا اور یہودیوں،کمیونسٹوں، جمہوریت پسندوں اور دنیا بھر میں امن کا مطالبہ کرنے والوں کو کنسنٹریشن کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔

خفیہ پولیس گسٹاپو کے اہلکاروں کو انسانی حقوق کی پامالی کے اختیارات مل گئے۔ منحرف سیاسی کارکنوں پر بہیمانہ تشدد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، یوں تمام جمہوری اداروں کو پولیس اور خفیہ اہلکاروں نے ریگولیٹ کرنا شروع کیا، ہٹلرکی صدی میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ ہٹلر نے پڑوسی ممالک پر حملہ کیا تو دوسری جنگِ عظیم ہوئی، اس جنگ میں جرمنی کو شکست ہوئی، جرمنی تقسیم ہوا۔ مغربی جرمنی امریکا کی کالونی بن گیا۔

1990میں برلن کو تقسیم کرنے والی دیوار گرا دی گئی، یوں یونین اسٹیٹ اپنے انجام کو پہنچی۔ جرمنی کے علاوہ اٹلی میں Bento Mussolini نے اقتدار پر قبضہ کیا اور فاشسٹ پارٹی قائم کی۔ فاشسٹ پارٹی نے اٹلی کی پارلیمنٹ اور عدلیہ کو مفلوج کیا۔ میڈیا پر پابندی لگا دی گئی اور جن لوگوں نے مزاحمت کی ان کو بدترین ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ علم سیاسیات میں فاشزم کا لفظ جمہوریت کش اقدامات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

اسپین میں گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں جنرل فرانکو نے اقتدار سنبھالا۔ جنرل فرانکو نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اور ہزاروں کمیونسٹوں، امن کا مطالبہ کرنے والے دانشوروں، ادیبوں اور ججوں کو قتل کردیا گیا۔ گزشتہ صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائیوں میں چلی میں ایک فوجی آمر نے صدر ایلنڈے کا تختہ الٹا۔ چلی کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کیا گیا۔ ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا مگر آخر میں چلی میں جمہوریت بحال ہوئی۔

پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ پولیس اسٹیٹ کی جھلک نظر آنے لگی ہے۔ کئی شاعر، ادیب اور سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ عدلیہ کے کئی ججز دباؤ اور مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ اداروں میں تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

وزراء اور سرکاری دانشور کہتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم مداخلت کریں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ انسانی حقوق پر کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ نامعلوم افراد کسی سیاست دان پر تشدد کرتے ہیں، میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسے قوانین نافذ کیے جارہے ہیں جس سے جنرل ایوب خان کے دورکی یاد تازہ ہو رہی ہے۔ ان حالات سے واضح ہوتا ہے کہ جیسے ملک پولیس اسٹیٹ کی طرف بڑھ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں