عوامی معاملات توجہ کے مستحق
بجلی کے بلوں میں ہر صارف سے 35 روپے ماہانہ پی ٹی وی فیس وصول کی جا رہی ہے
سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان سے ایک اپیل کی گئی ہے کہ وہ بجلی کے بلوں میں حکومت کی طرف سے جبری طور وصول کیے جانے والے اضافی ٹیکسوں کا نوٹس لیں اور عوام کے اس اہم مسئلے پر فری توجہ دے کر انھیں حکومت کے اس عذاب سے نجات دلائیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس وصولی کی شکایت اے سی استعمال کرنے والے ایک متوسط طبقے کے صارف نے بھی کی ہے کہ اس کے گھر کے تیس ہزار روپے کے بجلی کے بل میں گیارہ ہزار روپے کے ٹیکس شامل کیے گئے ہیں جب کہ وہ پہلے ہی تمام سرکاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس سے قبل سوئی گیس کے بلوں میں جبری طور وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کی وصولی کا بھی ذکر ہے کہ سوئی گیس کارپوریشن گرمیوں میں بھی گھروں کو سوئی گیس فراہم نہیں کر رہی مگر دو کیٹیگری بنا کر ٹیکس ہر بل پر لگا دیا گیا ہے جس کے مطابق ہر بل میں ماہانہ چار سو اور ایک ہزار روپے فکس چارجز کے نام پر وصول کیے جا رہے ہیں۔
گیس یونٹ بڑھنے پر ان میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے جب کہ گیس کے ہر بل میں چالیس روپے ماہانہ میٹر رینٹ بھی وصول کیا جا رہا ہے جب کہ گیس میٹر صارف کی ملکیت ہیں جن کی قیمت گیس کمپنی پہلے ہی کنکشن دیتے وقت وصول کر چکی ہے مگر پھر بھی جبری طور میٹر کا کرایہ وصول کیا جا رہا ہے۔
بجلی کے بلوں میں ہر صارف سے 35 روپے ماہانہ پی ٹی وی فیس وصول کی جا رہی ہے جب کہ بہت بڑی تعداد پی ٹی وی دیکھتی ہی نہیں اور نجی چینلز دیکھنے کے لیے صرف کیبل فیس ادا کرنا پڑتی ہے ، جب کہ کروڑوں کی تعداد میں گھروں میں پی ٹی وی کیا نجی چینل بھی نہیں دیکھے جاتے اور ان کی جگہ موبائل ٹچ فونز نے لے لی ہے اور خبریں اور دیگر پروگرام بھی اب لوگ ٹی وی کے بجائے اپنے اسمارٹ فونز پر دیکھ رہے ہیں اور گھروں میں ٹیلی وژن اب شو پیس بن کر رہ گئے ہیں۔
جن کی ماہانہ فیس حکومت بجلی کے بلوں میں جبری طور سالوں سے وصول کر رہی ہے مگر عوام کے ان معاملات پر کبھی نوٹس نہیں لیا گیا اور حکومت کی جبری ٹیکس وصولی پر عوام انصاف کے لیے دیکھ رہے ہیں،کیونکہ ملک میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو یا نگران عارضی طور پر اقتدار میں رہے ہوں، کسی نے یہ ناانصافی ختم نہیں کی کیونکہ اس سلسلے میں انصاف صرف عدلیہ ہی عوام کو دے سکتی ہے مگر عوام کو انصاف نہیں مل رہا۔
حکومت عوام کو ریلیف کبھی دیتی ہی نہیں اگر انھیں عوام پر احسان کرنا ہو یا عوام کا خیال آ جائے تو ان کے اقدام کے آگے رکاوٹ ڈال دی جاتی ہے۔ پنجاب کی حکومت نے روٹیوں کی قیمت مقرر کر کے عوام کو ریلیف دینا چاہا تو حکومت کو روک دیا گیا۔
پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے صوبے کے بیس ہزار طلبا کو الیکٹرانک موٹر سائیکلیں دینے کا اعلان کیا تو عدالتی طور پر پنجاب حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا گیا اور شاید حکومت کو بہانہ مل گیا کہ حکومت تو عوام کو کچھ دینا چاہتی ہے مگر عدلیہ اسے روک دیتی ہے۔ حکومت پنجاب اگر عوام سے مخلص ہے تو وہ عوام کو ریلیف دینے کے خلاف بعض ججز نے جو فیصلے دیے انھیں اوپر چیلنج کیوں نہیں کیا جاتا۔
حکومت کو عدلیہ کا جواز مل جاتا ہے اور عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پنجاب میں حکومت گندم نہیں خرید رہی اور کسان اپنی مہنگی گندم سستی فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور بعض جگہ گندم جلائی بھی گئی ہے کہ وہ ٹریکٹر ٹرالیاں کیسے خالی کریں اور انھیں کرایہ کہاں سے دیں؟ واپس لے جانے سے گندم جلانا انھوں نے بہتر سمجھا مگر کسی فاضل جج کی توجہ اس طرف نہیں گئی۔
پنجاب سب سے زیادہ گندم اگاتا ہے اور حکومتی پالیسی کے سبب وہ گندم خریدی نہیں جاتی، کسان احتجاج کرتا آ رہا ہے مگر کسی جج کو کسانوں کا خیال نہیں آیا۔ حکومت کو عوام کو ریلیف دینے سے روکنے کا عدالتی حکم آ جاتا ہے مگر حکومت کو کبھی حکم نہیں دیا جاتا کہ وہ کسانوں کو سستا باردانہ فراہم اور گندم کی خریداری شروع کرے۔ روٹی کے نرخ تو سندھ اور کے پی حکومتوں نے بھی مقرر کیے مگر وہاں تو عدلیہ نے حکم امتناعی جاری نہیں کیا اور یہ مہربانی صرف پنجاب میں ہی ہوئی جہاں عدلیہ نے حکم جاری کیا۔
حکومتیں سیاسی ہوں یا غیر سیاسی یا نگران وہ من مانیوں کی عادی رہی ہیں اور عوام کا نہیں سوچتیں بلکہ وہ اپنے مفادات تک محدود رہتی ہیں۔ عالمی قیمتوں کو اپنے مفادات تک محدود رکھتی ہیں۔
عالمی قیمتوں کو بنیاد بنا کر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت تو فوراً بڑھا دی جاتی ہے مگر کمی پر فوری کمی نہیں کی جاتی۔ بجلی و گیس کے نرخ حکومت جب چاہے بڑھا دے تو اس کے خلاف عدلیہ خود کوئی نوٹس نہیں لیتی جس کے خلاف کوئی عدلیہ سے رجوع کرے تو فوری شنوائی ہوتی ہے نہ کبھی عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ آتا ہے۔ تین صوبوں میں بلدیاتی الیکشن ہوگئے مگر پنجاب میں ڈیڑھ سال گزرگیا نہیں کرائے جا رہے مگر کسی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
حکومتوں کا کام اب عوام کو ریلیف دینا نہیں بلکہ عوام کی مشکلات بڑھانا رہ گیا ہے۔ حکومتی من مانیاں عوام نہیں صرف عدلیہ روک سکتی ہے مگر عوام کے ان معاملات پر توجہ نہیںدی جاتی جب کہ یہ عوامی معاملات فوری توجہ کے مستحق ہوتے ہیں مگر توجہ دلانے پر بھی ترجیح حاصل نہیں کر پاتے تو عوام منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں، اگر عدلیہ کبھی عوامی معاملات پر بھی توجہ دے تو عوام کو ریلیف مل سکتا ہے اور عوام حکومتی مظالم سے نجات پا سکتے ہیں۔