نواز شریف کی واپسی
اگر ن لیگ اپنی سیاسی کمزوریوں پر قابو پا لیتی ہے تو اگلے الیکشن آسان ہو سکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے دوبارہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھال لی۔شہباز شریف نے ان کو ان کی امانت واپس لوٹا دی ہے۔ ہمارے دوست کئی سال سے ن میں سے ش نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کی عمر گزر گئی ہے کہ کسی طرح ن میں سے ش نکال لیں۔ لیکن ہر بار ان کو ناکامی ہوئی ہے۔
ہر بار نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے اتحاد سے ملک کی نہ صرف تمام قوتوں کو بلکہ ہمارے دانشور دوستوں کو بھی حیران کیا ہے۔ اگر میں دیکھوں تو اتنی بار ن میں سے ش نکل چکی ہے۔ اب تو دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہیے۔ لیکن وہ پھر اسٹیج پر اکٹھے بیٹھے تھے۔
ایک دوسرے کو گلے مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کی سیاسی ڈھال بنے نظر آرہے تھے۔ ان کی سیاست ہاکی کے اس کھیل کی طرح نظر آئی ہے جس میں گیند کلیم اللہ سے سمیع اللہ اور سمیع اللہ سے کلیم اللہ جاتی نظر آتی ہے اور یہی خیال رہتا ہے کہ اب کلیم اللہ سمیع اللہ کو دھوکا دے دے گا۔ لیکن ہر بار دونوں ملکر گول کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس بار بھی دونوں کا سیاسی کھیل کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھال کر کیا فائدہ ہوگا۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج ن لیگ اقتدار میں ہے۔ اس کی بنیاد ن لیگ ہے۔ اس لیے ن لیگ کی بطور سیاسی جماعت اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔اگر ن لیگ مضبوط ہوگی تو آیندہ بھی اقتدار کے راستے کھلے رہیں گے۔ لیکن اگر ن لیگ ہی کمزور ہو گی تو اقتدار کے راستے بھی کمزور ہوتے جائیں گے۔ اقتدار کے لیے سیاسی جماعت بنیادی چیز ہے۔ اس وقت ن لیگ کی کمزوری سے کسی کو انکار نہیں۔ اقتدار ہے۔ لیکن سیاسی جماعت کمزور ہے۔
اگر ن لیگ اپنی سیاسی کمزوریوں پر قابو پا لیتی ہے تو اگلے الیکشن آسان ہو سکتے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ کیا نواز شریف ن لیگ کو واپس متحر ک کر سکیں گے۔ یہ کوئی سوال نہیں۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف کے علاوہ کوئی اور یہ کام کر نہیں سکتا۔ اگر کوئی بھی ن لیگ کی تنظیم نو اور اس کو متحرک کر سکتا ہے تو وہ صرف نواز شریف ہے۔
نواز شریف کا مسلم لیگ (ن) کے کارکن کے ساتھ جو تعلق ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا کارکن نواز شریف سے جو محبت کرتا ہے وہ اور کسی سے نہیں کرتا۔ اس لیے نواز شریف ن لیگ کے کارکن کو واپس متحرک کر سکتے ہیں۔ پارٹی میں ایک نیا جوش لا سکتے ہیں۔ اور سیاسی جماعت کو واپس فعال کر سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی بہت پوچھا جاتا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم تو بن نہیں سکے ۔ تو پھر انھیں پارٹی کی صدارت لینے کا کیا فائدہ۔ میں سمجھتا ہوں یہ سوال بھی ٹھیک نہیں۔ وزیر اعظم نہ بننے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے سیاست چھوڑ دی ہے۔ وہ سیاست میں ہیں اور ایک بھر پور سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے پارٹی کی صدارت ان کے بھر پور سیاسی کردار کے لیے راستے کھولے گی۔
اب جب وہ پارٹی کے صدر ہیں تو حکومتی کارکردگی کے اجلاسوں کی صدارت بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی جماعت اقتدار میں ہے۔ وہ اپنی جماعت کی حکومت سے اس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ اپنی جماعت کی حکومت کو طلب کر سکتے ہیں۔ ان سے باز پرس کر سکتے ہیں۔ جو لوگ پہلے سوال کرتے تھے نواز شریف کس حیثیت میں حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ان کو اب جواب مل جائے گا کہ وہ پارٹی کے صدر ہیں۔ بطور صدر انھیں پارٹی کے معاملات چلانے کا اختیار ہے۔ اسی لیے ان کے پارٹی صدر بننے کے بعد مرکزی حکومت کا ایک اجلاس جاتی عمرہ میں کیا گیا ہے۔
جہاں بجٹ پر غور کیا گیا ہے۔ پارٹی صدر کی حیثیت سے وہ اپنی جماعت کی حکومت کو بجٹ کے لیے ہدایات دے سکتے ہیں۔لوگ بیانیہ کا بھی بہت سوال کرتے ہیں۔ شاید ہمارے ملک میں مزاحمت کو ہی بیانیہ سمجھ لیا گیا۔ جو دوست پہلے ن میں سے ش نکالنے کے لیے کوشاں تھے اب ان کی کوشش ہے کہ نواز شریف کسی طرح مزاحمتی بیانیہ پر آجائیں۔دوستوں کی رائے کہ نواز شریف کو فوری طور پر فوج کے خلاف بیانیہ بنانا شروع کر دینا چاہیے۔
یہ خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ سیاسی بیانیہ ایک تو حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے ۔ دوسرا سیاسی جماعتیں سیاسی بیانیہ سیاسی ضرورت یا ملکی مفاد میں بناتی ہیں۔ دوست بتا دیں مسلم لیگ (ن) کو اس وقت فوج سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس وقت ملک جس بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں فوج سے لڑائی ملکی مفاد میں ہوگی۔ اس لیے دوستوں کی خواہش پر تو بیانیہ نہیں بنایا جا سکتا۔یہ تنقید بھی سامنے آتی ہے کہ نواز شریف ابھی ماضی میں رہ رہے ہیں۔ جب وہ ثاقب نثار اور ماضی کے دیگر کرداروں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ماضی میں ہیں۔ وہ لوگ جا چکے ہیں۔ ان کا آج کی سیاست سے کیا تعلق ہے۔
اس لیے ان کا ذکر میاں نواز شریف کی سیاست کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ لوگ ان کو آج کی سیاست میں کوئی اہم نہیں سمجھتے۔ اس لیے ثاقب نثار اور ظہیر السلام کی بات کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں اس بات سے متفق نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ عمران خان نے میاں نواز شریف کی ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو سیاسی طور پر رجسٹر نہیں ہونے دیا۔ ان کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی قوم کو بتانی ہے۔ انھیں اپنی کہانی بتانے کا پورا حق ہے۔ان کی کہانی کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پرانی ہے۔ اس کی اب کیا ضرورت ہے۔ ان کے ناقدین یہ بتائیں کیا ان کی کہانی جھوٹی ہے۔ کیا ان کے خلاف سازش نہیں کی گئی۔ کیا ان سازشی کرداروں کو عوام کی عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔
مین سمجھتا ہوں نواز شریف کی کہانی میں دم ہے۔ وہ کل کی نہیں آج کی کہانی ہے۔ ان کو ناجائز نکالا گیا۔ اگر کھیل کو ٹھیک کرنا ہے تو نواز شریف کے ساتھ کی گئی زیادتی کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ کیا منطق ہے کہ نواز شریف کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس پر مٹی ڈالیں اس کی بات نہ کریں۔ آٓگے چلیں۔
عمران خان اگر نواز شریف کو غیر قانونی طور پر نکال کر اقتدار میں آئے تھے تو بات وہاں سے شروع ہوگی۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ نواز شریف کو غیر قانونی طور پر نکالنے کی بات نہ کی جائے۔ 2018کے انتخابات میں دھاندلی کی بات نہ کی جائے۔ بس آج کی بات کی جائے۔ آج کی باتیں کل سے جڑی ہوئی ہیں۔ جو آج ہو رہا ہے وہ کل کا رد عمل اور تسلسل ہے۔ جب تک آپ ماضی کی غلطیوں کو درست نہیں کریں گے۔ بات آگے نہیں چل سکتی۔ یہ سمجھیں گے تو بات آگے بڑھے گی۔
ہر بار نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے اتحاد سے ملک کی نہ صرف تمام قوتوں کو بلکہ ہمارے دانشور دوستوں کو بھی حیران کیا ہے۔ اگر میں دیکھوں تو اتنی بار ن میں سے ش نکل چکی ہے۔ اب تو دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنی چاہیے۔ لیکن وہ پھر اسٹیج پر اکٹھے بیٹھے تھے۔
ایک دوسرے کو گلے مل رہے تھے۔ ایک دوسرے کی سیاسی ڈھال بنے نظر آرہے تھے۔ ان کی سیاست ہاکی کے اس کھیل کی طرح نظر آئی ہے جس میں گیند کلیم اللہ سے سمیع اللہ اور سمیع اللہ سے کلیم اللہ جاتی نظر آتی ہے اور یہی خیال رہتا ہے کہ اب کلیم اللہ سمیع اللہ کو دھوکا دے دے گا۔ لیکن ہر بار دونوں ملکر گول کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس بار بھی دونوں کا سیاسی کھیل کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔
ایک سوال سب کے ذہن میں ہے کہ نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھال کر کیا فائدہ ہوگا۔ انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ آج ن لیگ اقتدار میں ہے۔ اس کی بنیاد ن لیگ ہے۔ اس لیے ن لیگ کی بطور سیاسی جماعت اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔اگر ن لیگ مضبوط ہوگی تو آیندہ بھی اقتدار کے راستے کھلے رہیں گے۔ لیکن اگر ن لیگ ہی کمزور ہو گی تو اقتدار کے راستے بھی کمزور ہوتے جائیں گے۔ اقتدار کے لیے سیاسی جماعت بنیادی چیز ہے۔ اس وقت ن لیگ کی کمزوری سے کسی کو انکار نہیں۔ اقتدار ہے۔ لیکن سیاسی جماعت کمزور ہے۔
اگر ن لیگ اپنی سیاسی کمزوریوں پر قابو پا لیتی ہے تو اگلے الیکشن آسان ہو سکتے ہیں۔ اس لیے سیاسی جماعت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ کیا نواز شریف ن لیگ کو واپس متحر ک کر سکیں گے۔ یہ کوئی سوال نہیں۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف کے علاوہ کوئی اور یہ کام کر نہیں سکتا۔ اگر کوئی بھی ن لیگ کی تنظیم نو اور اس کو متحرک کر سکتا ہے تو وہ صرف نواز شریف ہے۔
نواز شریف کا مسلم لیگ (ن) کے کارکن کے ساتھ جو تعلق ہے وہ کسی اور کا نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا کارکن نواز شریف سے جو محبت کرتا ہے وہ اور کسی سے نہیں کرتا۔ اس لیے نواز شریف ن لیگ کے کارکن کو واپس متحرک کر سکتے ہیں۔ پارٹی میں ایک نیا جوش لا سکتے ہیں۔ اور سیاسی جماعت کو واپس فعال کر سکتے ہیں۔ یہ سوال بھی بہت پوچھا جاتا ہے کہ نواز شریف وزیر اعظم تو بن نہیں سکے ۔ تو پھر انھیں پارٹی کی صدارت لینے کا کیا فائدہ۔ میں سمجھتا ہوں یہ سوال بھی ٹھیک نہیں۔ وزیر اعظم نہ بننے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے سیاست چھوڑ دی ہے۔ وہ سیاست میں ہیں اور ایک بھر پور سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے پارٹی کی صدارت ان کے بھر پور سیاسی کردار کے لیے راستے کھولے گی۔
اب جب وہ پارٹی کے صدر ہیں تو حکومتی کارکردگی کے اجلاسوں کی صدارت بھی کر سکتے ہیں۔ ان کی جماعت اقتدار میں ہے۔ وہ اپنی جماعت کی حکومت سے اس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ اپنی جماعت کی حکومت کو طلب کر سکتے ہیں۔ ان سے باز پرس کر سکتے ہیں۔ جو لوگ پہلے سوال کرتے تھے نواز شریف کس حیثیت میں حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ ان کو اب جواب مل جائے گا کہ وہ پارٹی کے صدر ہیں۔ بطور صدر انھیں پارٹی کے معاملات چلانے کا اختیار ہے۔ اسی لیے ان کے پارٹی صدر بننے کے بعد مرکزی حکومت کا ایک اجلاس جاتی عمرہ میں کیا گیا ہے۔
جہاں بجٹ پر غور کیا گیا ہے۔ پارٹی صدر کی حیثیت سے وہ اپنی جماعت کی حکومت کو بجٹ کے لیے ہدایات دے سکتے ہیں۔لوگ بیانیہ کا بھی بہت سوال کرتے ہیں۔ شاید ہمارے ملک میں مزاحمت کو ہی بیانیہ سمجھ لیا گیا۔ جو دوست پہلے ن میں سے ش نکالنے کے لیے کوشاں تھے اب ان کی کوشش ہے کہ نواز شریف کسی طرح مزاحمتی بیانیہ پر آجائیں۔دوستوں کی رائے کہ نواز شریف کو فوری طور پر فوج کے خلاف بیانیہ بنانا شروع کر دینا چاہیے۔
یہ خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ سیاسی بیانیہ ایک تو حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے ۔ دوسرا سیاسی جماعتیں سیاسی بیانیہ سیاسی ضرورت یا ملکی مفاد میں بناتی ہیں۔ دوست بتا دیں مسلم لیگ (ن) کو اس وقت فوج سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس وقت ملک جس بحران کا شکار ہے۔ ایسے میں فوج سے لڑائی ملکی مفاد میں ہوگی۔ اس لیے دوستوں کی خواہش پر تو بیانیہ نہیں بنایا جا سکتا۔یہ تنقید بھی سامنے آتی ہے کہ نواز شریف ابھی ماضی میں رہ رہے ہیں۔ جب وہ ثاقب نثار اور ماضی کے دیگر کرداروں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ ماضی میں ہیں۔ وہ لوگ جا چکے ہیں۔ ان کا آج کی سیاست سے کیا تعلق ہے۔
اس لیے ان کا ذکر میاں نواز شریف کی سیاست کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ لوگ ان کو آج کی سیاست میں کوئی اہم نہیں سمجھتے۔ اس لیے ثاقب نثار اور ظہیر السلام کی بات کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں اس بات سے متفق نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ عمران خان نے میاں نواز شریف کی ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو سیاسی طور پر رجسٹر نہیں ہونے دیا۔ ان کو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی قوم کو بتانی ہے۔ انھیں اپنی کہانی بتانے کا پورا حق ہے۔ان کی کہانی کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ پرانی ہے۔ اس کی اب کیا ضرورت ہے۔ ان کے ناقدین یہ بتائیں کیا ان کی کہانی جھوٹی ہے۔ کیا ان کے خلاف سازش نہیں کی گئی۔ کیا ان سازشی کرداروں کو عوام کی عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہیے۔
مین سمجھتا ہوں نواز شریف کی کہانی میں دم ہے۔ وہ کل کی نہیں آج کی کہانی ہے۔ ان کو ناجائز نکالا گیا۔ اگر کھیل کو ٹھیک کرنا ہے تو نواز شریف کے ساتھ کی گئی زیادتی کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ کیا منطق ہے کہ نواز شریف کے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اس پر مٹی ڈالیں اس کی بات نہ کریں۔ آٓگے چلیں۔
عمران خان اگر نواز شریف کو غیر قانونی طور پر نکال کر اقتدار میں آئے تھے تو بات وہاں سے شروع ہوگی۔ یہ کوئی منطق نہیں کہ نواز شریف کو غیر قانونی طور پر نکالنے کی بات نہ کی جائے۔ 2018کے انتخابات میں دھاندلی کی بات نہ کی جائے۔ بس آج کی بات کی جائے۔ آج کی باتیں کل سے جڑی ہوئی ہیں۔ جو آج ہو رہا ہے وہ کل کا رد عمل اور تسلسل ہے۔ جب تک آپ ماضی کی غلطیوں کو درست نہیں کریں گے۔ بات آگے نہیں چل سکتی۔ یہ سمجھیں گے تو بات آگے بڑھے گی۔