کیا چینی کینسر پیدا کرتی ہے
جدید طبی سائنس کے ایک حیرت انگیز اور چشم کشا انکشاف کی داستان
انسان کا جسم تین قسم کی غذاؤں... کاربوہائڈریٹس، پروٹین اور فیٹس سے توانائی حاصل کرتا ہے۔
ان میں کاربوہائڈریٹس سب سے اہم غذائیں ہیں کیونکہ انہی سے انسانی جسم کی سلطنت کے تاجدار، دماغ کی بنیادی غذا، گلوکوز بنتی ہے۔ گلوکوز شوگر (Sugar)کی ایک قسم ہے۔
ہم جو سفید چینی (Table or White Sugar) اور شکراستعمال کرتے ہیں، وہ بھی شوگر کی اقسام ہیں۔ شکر میں تو پھر راب کی وجہ سے فولاد، میگنیشم، کیلشیم، پوٹاشیم ملتا ہے، سفید چینی میں یہ معدن نہیں پائے جاتے۔ وہ غذائیت (nutrition) کے لحاظ سے بالکل فارغ ہوتی ہے۔
انسانی جسم کی بنیادی ضرورت
شوگر کی مختلف اقسام مثلاً فرکٹوز، مالٹوز، لیکٹوز وغیرہ سبزیوں، پھلوں، اناج اور ڈیری مصنوعات میں ملتی ہیں۔ بیشتر اقسام میں گلوکوز بھی شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے یہی شوگر کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ہے۔ چونکہ یہ باآسانی دستیاب ہے لہذا قدرت الہی نے اس کو ہی دماغ اور انسانی جسم کے لیے بھی توانائی فراہم کرنے والی شے بنا دیا۔ گویا گلوکوز اصل میں انسانی جسم کی ایک بنیادی ضرورت ہے کہ اس سے وہ روزمرہ کام کاج کرنے کے لیے درکار توانائی پاتا ہے۔
مسئلہ بیسویں صدی میں پیدا ہوا جب سفید چینی کو مختلف پروسیس غذاؤں میں استعمال کیا جانے لگا۔ نیز کاربوہائڈریٹ پہ مشتمل پروسیس غذائیں بھی تیار ہونے لگیں۔ میدے ، پکانے کے پروسیس شدہ تیلوں اور غذائیں محفوظ کرنے والے کیمیائی مادوں کا رواج بڑھ گیا۔ یوں انسان کے جسم میں ضرورت سے زیادہ گلوکوز پیدا ہونے لگی۔ ہمارے جسم میں ایک ہارمون، انسولین گلوکوز کی مقدار کنٹرول کرتا ہے۔ جب گلوکوز کی حد سے مقدار ہو جائے تو یہ ہارمون بے اثر ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان ایک بیماری، ذیابیطس قسم دوم کا نشانہ بن جاتا ہے۔
خون میں گلوکوز کی سطح
ذیابیطس قسم دوم میں انسانی جسم میں خون میں گلوکوز (جسے ہمارے ہاں شکر یا شوگر کہا جاتا ہے)، کی مقدار حد سے زیادہ رہتی ہے۔ یہ حالت مریض کو دیگر بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے۔
مثلاً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، سوزش، دل کی بیماریاں، بعض اقسام کے سرطان یعنی کینسر، دانتوں کی خرابیاں، جگر کے امراض خصوصاً نان الکحول فیٹی لیور مرض (nonalcoholic fatty liver disease)، بینائی کمزور ہونا وغیرہ۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ انسان کو اپنے خون میں گلوکوز کی سطح یا مقدار نارمل رکھنی چاہیے تاکہ وہ موذی بیماریوں کا نشانہ نہ بننے پائے اور صحت مند و خوشگوار زندگی گذارے۔
ماہرین طب کہتے ہیں کہ ایک بالغ انسان کو اور جو ذیابیطس قسم دوم کا مریض نہیں، اسے روزانہ زیادہ سے زیادہ سفید چینی یا شکر کی نو چمچیاں (teaspoon) کھانا چاہیئں۔تاہم یہ بھی اکثر اوقات زیادہ مقدار بن جاتی ہے۔وجہ یہ کہ دور جدید کا انسان روزانہ کاربوہائڈریٹس والی اشیائے خور ونوش بڑی تعداد میں استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے جسم میں گلوکوز کی کثرت رہتی ہے۔ مگر یہ حد سے زیادہ گلوکوز آخر انسان کو مریض بنا کر چھوڑتی ہے ۔
ایک اہم انکشاف
قبل ازیں بتایا گیا کہ گلوکوز کی زیادتی کینسر بھی پیدا کرتی ہے۔ اس بیماری میں انسانی جسم کے کسی عضو یا حصے کے خلیے غیر فطری انداز میں پلنے بڑھنے لگتے ہیں۔ زائد خلیے آخرکار نہ صرف اس عضو یا حصّے کو ناکارہ کر ڈالتے بلکہ پھیل کر پڑوسی اعضا اور حصّوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ طبی سائنس کی زبردست ترقی کے باوجود انسان آج تک ایسی دوا نہیں بنا سکا جو خلیوں کے اس جان لیوا غیر قدرتی پھیلاؤ کو روک دے۔
حالیہ ماہ اپریل میں سائنس دانوں نے البتہ یہ اہم بات دریافت کر لی کہ انسانی جسم میں گلوکوز کیونکر کینسر کو پیدا کرتا ہے۔ یہ تحقیق نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ادارے، کینسر سائنس انسٹی ٹیوٹ میں دو محققین، پروفیسر اشوک ویکنٹ رامن اور لی رین کونگ کی زیرقیادت انجام پائی۔
میتھلگلاؤکسل کیا ہے؟
تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جب ہمارے خلیے گلوکوز یا فرکٹوز کو توڑ کر مطلوبہ توانائی بناتے ہیں تو ایک کیمیائی مادہ'' میتھلگلاؤکسل'' (methylglyoxal) جنم لیتا ہے۔ یہ مادہ ہمارے خلیوں میں موجود ایک اہم جین، BRCA2 کو عارضی طور پہ بے اثر بنا دیتا ہے۔ جب خلیے کے ڈی این اے کو کسی قسم کا نقصان پہنچے تو یہی جین اس کی مرمت کرتا ہے۔ نیز ایسے پروٹینی مادے پیدا کرتا ہے جو خلیے کو غیرفطری پھیلاؤ سے روک دیتے ہیں۔
گویا انسان کے خلیوں میں موجود BRCA2 ایک نہایت اہم جین ہے کیونکہ وہ ہمیں کینسر سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہم جب معتدل مقدار میں گلوکوز لیں تو اس کی ضمنی مقدار، میتھلگلاؤکسل کچھ عرصے کے لیے اس جین کو جامد کر دیتی ہے۔ مگر گلوکوز سے جب خلیے توانائی بنا لیں تو جین پھر متحرک ہو کر اپنی ذمے داریاں انجام دینے لگتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔
بگاڑ اس وقت جنم لیتا ہے جب انسانی جسم میں گلوکوز کی مقدار ہر وقت زیادہ رہے۔ تب میتھلگلاؤکسل اتنی زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے خلیوں کے BRCA2 جین بیشتر عرصہ جامد رہتے ہیں اور اپنا کام نہیں کر پاتے۔ اسی حالت میں یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ انسان کا کوئی نہ کوئی عضو یا حصہ کینسر کا نشانہ بن جائے گا۔ یوں جسم میں گلوکوز کی زیادتی انسان کو ایک خطرناک بلکہ جان لیوا مرض میں مبتلا کر دیتی ہے۔
پیچیدہ کاربوہائڈریٹس لیجیے
اس انکشاف کے بعد ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے جسم میں شوگر کی سطح اعتدال پہ رکھے۔ اسی طریقے سے وہ تندرست و توانا رہ سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ کاربوہائڈریٹس کی دو اقسام ہیں۔ پہلی ''سادہ'' قسم ہے۔
اس قسم میں شامل کاربوہائڈریٹس بہت جلد ہضم ہو کر تیزی سے گلوکوز خارج کرتے ہیں۔ یوں خون میں گلوکوز کی مقدار تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ دوسری قسم ''پیچیدہ'' کاربوہائڈریٹس ہیں۔ یہ خون میں آہستہ آہستہ گلوکوز خارج کرتے ہیں۔ انسان کو زیادہ تر پیچیدہ کاربوہائڈریٹس ہی کھانے چاہیں تاکہ خون میں گلوکوز کی سطح معتدل رہے۔
پروفیسر اشوک ویکنٹ رامن کہتے ہیں ''اگر آپ خوشگوار اور بھرپور زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو اپنے طرزحیات سے پروسیس شدہ چینی کو نکال دیجیے۔ یوں نہ صرف آپ کینسر سے محفوظ ہو جائیں گے بلکہ دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی پیچھا چھڑا سکیں گے۔گلوکوز ضرور لیجیے مگر اعتدال کے ساتھ! بہترین زندگی گذارنے کے لیے یہ کلیدی نکتہ ہے۔''
ان میں کاربوہائڈریٹس سب سے اہم غذائیں ہیں کیونکہ انہی سے انسانی جسم کی سلطنت کے تاجدار، دماغ کی بنیادی غذا، گلوکوز بنتی ہے۔ گلوکوز شوگر (Sugar)کی ایک قسم ہے۔
ہم جو سفید چینی (Table or White Sugar) اور شکراستعمال کرتے ہیں، وہ بھی شوگر کی اقسام ہیں۔ شکر میں تو پھر راب کی وجہ سے فولاد، میگنیشم، کیلشیم، پوٹاشیم ملتا ہے، سفید چینی میں یہ معدن نہیں پائے جاتے۔ وہ غذائیت (nutrition) کے لحاظ سے بالکل فارغ ہوتی ہے۔
انسانی جسم کی بنیادی ضرورت
شوگر کی مختلف اقسام مثلاً فرکٹوز، مالٹوز، لیکٹوز وغیرہ سبزیوں، پھلوں، اناج اور ڈیری مصنوعات میں ملتی ہیں۔ بیشتر اقسام میں گلوکوز بھی شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے یہی شوگر کی تمام اقسام میں سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ہے۔ چونکہ یہ باآسانی دستیاب ہے لہذا قدرت الہی نے اس کو ہی دماغ اور انسانی جسم کے لیے بھی توانائی فراہم کرنے والی شے بنا دیا۔ گویا گلوکوز اصل میں انسانی جسم کی ایک بنیادی ضرورت ہے کہ اس سے وہ روزمرہ کام کاج کرنے کے لیے درکار توانائی پاتا ہے۔
مسئلہ بیسویں صدی میں پیدا ہوا جب سفید چینی کو مختلف پروسیس غذاؤں میں استعمال کیا جانے لگا۔ نیز کاربوہائڈریٹ پہ مشتمل پروسیس غذائیں بھی تیار ہونے لگیں۔ میدے ، پکانے کے پروسیس شدہ تیلوں اور غذائیں محفوظ کرنے والے کیمیائی مادوں کا رواج بڑھ گیا۔ یوں انسان کے جسم میں ضرورت سے زیادہ گلوکوز پیدا ہونے لگی۔ ہمارے جسم میں ایک ہارمون، انسولین گلوکوز کی مقدار کنٹرول کرتا ہے۔ جب گلوکوز کی حد سے مقدار ہو جائے تو یہ ہارمون بے اثر ہو جاتا ہے۔ تبھی انسان ایک بیماری، ذیابیطس قسم دوم کا نشانہ بن جاتا ہے۔
خون میں گلوکوز کی سطح
ذیابیطس قسم دوم میں انسانی جسم میں خون میں گلوکوز (جسے ہمارے ہاں شکر یا شوگر کہا جاتا ہے)، کی مقدار حد سے زیادہ رہتی ہے۔ یہ حالت مریض کو دیگر بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے۔
مثلاً موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، سوزش، دل کی بیماریاں، بعض اقسام کے سرطان یعنی کینسر، دانتوں کی خرابیاں، جگر کے امراض خصوصاً نان الکحول فیٹی لیور مرض (nonalcoholic fatty liver disease)، بینائی کمزور ہونا وغیرہ۔ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ انسان کو اپنے خون میں گلوکوز کی سطح یا مقدار نارمل رکھنی چاہیے تاکہ وہ موذی بیماریوں کا نشانہ نہ بننے پائے اور صحت مند و خوشگوار زندگی گذارے۔
ماہرین طب کہتے ہیں کہ ایک بالغ انسان کو اور جو ذیابیطس قسم دوم کا مریض نہیں، اسے روزانہ زیادہ سے زیادہ سفید چینی یا شکر کی نو چمچیاں (teaspoon) کھانا چاہیئں۔تاہم یہ بھی اکثر اوقات زیادہ مقدار بن جاتی ہے۔وجہ یہ کہ دور جدید کا انسان روزانہ کاربوہائڈریٹس والی اشیائے خور ونوش بڑی تعداد میں استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے جسم میں گلوکوز کی کثرت رہتی ہے۔ مگر یہ حد سے زیادہ گلوکوز آخر انسان کو مریض بنا کر چھوڑتی ہے ۔
ایک اہم انکشاف
قبل ازیں بتایا گیا کہ گلوکوز کی زیادتی کینسر بھی پیدا کرتی ہے۔ اس بیماری میں انسانی جسم کے کسی عضو یا حصے کے خلیے غیر فطری انداز میں پلنے بڑھنے لگتے ہیں۔ زائد خلیے آخرکار نہ صرف اس عضو یا حصّے کو ناکارہ کر ڈالتے بلکہ پھیل کر پڑوسی اعضا اور حصّوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ طبی سائنس کی زبردست ترقی کے باوجود انسان آج تک ایسی دوا نہیں بنا سکا جو خلیوں کے اس جان لیوا غیر قدرتی پھیلاؤ کو روک دے۔
حالیہ ماہ اپریل میں سائنس دانوں نے البتہ یہ اہم بات دریافت کر لی کہ انسانی جسم میں گلوکوز کیونکر کینسر کو پیدا کرتا ہے۔ یہ تحقیق نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ادارے، کینسر سائنس انسٹی ٹیوٹ میں دو محققین، پروفیسر اشوک ویکنٹ رامن اور لی رین کونگ کی زیرقیادت انجام پائی۔
میتھلگلاؤکسل کیا ہے؟
تحقیق سے انکشاف ہوا کہ جب ہمارے خلیے گلوکوز یا فرکٹوز کو توڑ کر مطلوبہ توانائی بناتے ہیں تو ایک کیمیائی مادہ'' میتھلگلاؤکسل'' (methylglyoxal) جنم لیتا ہے۔ یہ مادہ ہمارے خلیوں میں موجود ایک اہم جین، BRCA2 کو عارضی طور پہ بے اثر بنا دیتا ہے۔ جب خلیے کے ڈی این اے کو کسی قسم کا نقصان پہنچے تو یہی جین اس کی مرمت کرتا ہے۔ نیز ایسے پروٹینی مادے پیدا کرتا ہے جو خلیے کو غیرفطری پھیلاؤ سے روک دیتے ہیں۔
گویا انسان کے خلیوں میں موجود BRCA2 ایک نہایت اہم جین ہے کیونکہ وہ ہمیں کینسر سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہم جب معتدل مقدار میں گلوکوز لیں تو اس کی ضمنی مقدار، میتھلگلاؤکسل کچھ عرصے کے لیے اس جین کو جامد کر دیتی ہے۔ مگر گلوکوز سے جب خلیے توانائی بنا لیں تو جین پھر متحرک ہو کر اپنی ذمے داریاں انجام دینے لگتا ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے۔
بگاڑ اس وقت جنم لیتا ہے جب انسانی جسم میں گلوکوز کی مقدار ہر وقت زیادہ رہے۔ تب میتھلگلاؤکسل اتنی زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے خلیوں کے BRCA2 جین بیشتر عرصہ جامد رہتے ہیں اور اپنا کام نہیں کر پاتے۔ اسی حالت میں یہ خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ انسان کا کوئی نہ کوئی عضو یا حصہ کینسر کا نشانہ بن جائے گا۔ یوں جسم میں گلوکوز کی زیادتی انسان کو ایک خطرناک بلکہ جان لیوا مرض میں مبتلا کر دیتی ہے۔
پیچیدہ کاربوہائڈریٹس لیجیے
اس انکشاف کے بعد ضروری ہے کہ ہر انسان اپنے جسم میں شوگر کی سطح اعتدال پہ رکھے۔ اسی طریقے سے وہ تندرست و توانا رہ سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ کاربوہائڈریٹس کی دو اقسام ہیں۔ پہلی ''سادہ'' قسم ہے۔
اس قسم میں شامل کاربوہائڈریٹس بہت جلد ہضم ہو کر تیزی سے گلوکوز خارج کرتے ہیں۔ یوں خون میں گلوکوز کی مقدار تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ دوسری قسم ''پیچیدہ'' کاربوہائڈریٹس ہیں۔ یہ خون میں آہستہ آہستہ گلوکوز خارج کرتے ہیں۔ انسان کو زیادہ تر پیچیدہ کاربوہائڈریٹس ہی کھانے چاہیں تاکہ خون میں گلوکوز کی سطح معتدل رہے۔
پروفیسر اشوک ویکنٹ رامن کہتے ہیں ''اگر آپ خوشگوار اور بھرپور زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو اپنے طرزحیات سے پروسیس شدہ چینی کو نکال دیجیے۔ یوں نہ صرف آپ کینسر سے محفوظ ہو جائیں گے بلکہ دیگر خطرناک بیماریوں سے بھی پیچھا چھڑا سکیں گے۔گلوکوز ضرور لیجیے مگر اعتدال کے ساتھ! بہترین زندگی گذارنے کے لیے یہ کلیدی نکتہ ہے۔''