پاکستان ایک نظرمیں بچھڑنے کا غم اور ملنے کی اُمید
گاؤں کی گلیاں تو اب بھی کشادہ تھیں مگر نفرتوں نے دلوں کو تنگ اور فاصلوں کو بڑھا دیا تھا
کتنی اداس تھیں وہ گلیاں جن کو برسہا برس پہلے میں چھوڑ کر گیا تھا - لگتا تھا اب سب کچھ بدل گیا- حالات بھی اور خیالات بھی - وہ دن کہ ہم لڑکے سارا دن تپتی دوپہر گاؤں کے ریتلے میدان میں کرکٹ کھیلتے تھے یا پھر گھر کی چھتوں پہ پتنگیں اڑایا کرتے تھے - گرمیوں کی چھٹیاں ہوتے ہی پہلے ایک ہفتے میں پورے تین مہینوں کا ہوم ورک مکمل کر لیتے تھے کہ اب باقی چھٹیو ن میں کھیلنے کے علاوہ کوئی کام نہ ہو - ہماری ماؤں کو فکر ہوتی تھی کہ ان کو گرم لو نہ لگ جائے یا جلتی دوپہر میں پاؤں نہ جل جائیں کہ جب کٹی ہوئی پتنگ آسمان میں تیرتی نظر آتی تو ہم سب لڑکے ا س کے پیچھے یوں دیوانہ وار بھاگتے کہ پاؤں میں چپل بھی پہننا بھول جاتے - نیلی پیلی، سرخ اور سبز رنگ کی پتنگیں آسمان پہ یوں اڑ رہی ہوتیں جیسے باغ میں رنگ برنگ تتلیاں-
کسانوں کی ٹولیاں صبح سویرے فصل کاٹنے کیلئے نکل جاتی تھیں - ان کے صحت مند بیلوں کی میٹھی گھنٹیاں صبح ہی صبح ایک سحر طاری کر دیتی تھیں - چڑیوں کا شو ر، سکو ل جاتے بچے، کسانوں کی خوش گپیاں اور سنہری دھوپ پورے گاؤں کو کسی پرستان کا روپ دے دیتے تھے - درانتی کی کرر ، کررر اور ڈھو ل کی دھم دھم دھما دھم شام ڈ ھلے تک سنائی دیتی تھی - ڈھول کی مست تھاپ پہ کسانوں کے ہاتھ بجلی کی سرعت سے سنہری گندم کی فصل پہ چلتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کٹی ہوئی فصل کے کھیتوں میں ڈھیر لگ جاتے تھے - جن کی زمین زیادہ تھی یا جو پیسے والے تھے ان کے کھیتوں سے ٹریکٹر کی بھاری اور بے سری آواز آ رہی ہوتی تھی، ایک لگا تار اور نہ تھکنے والی آواز- وہ مشینوں سے فصل بوتے اور کا ٹتے تھے -
پھر سورج ڈھلتے ہی تھکے ہوے بیل اور کسان گھروں کی راہ لیتے - گاؤں کی فضاؤں کو دور سے آتی ہوئی کسی کسان کی آواز چیرتی ، جو اداس اور کھردر ے لہجے میں نہ سمجھ آنے والا گانا گا رہا ہوتا تھا -اس کی درد بھری آواز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ دور دیس جانے والے محبوب کو یاد کر رہا ہو - اس کی آواز ہوا کے دوش پہ تیرتی ہوئی کھبی بہت پاس سے آتی ہوئی محسوس ہوتی اور پھر دور کہیں گھنے جنگلوں میں گم ہو جاتی-
گاؤں میں کسا نوں کے گھرانے زیادہ تھے مگر مزدور اور ملازمت پیشہ افراد بھی تھے جو صبح سویرے قریب کے شہر میں کام کیلئے جاتے تھے اور شام کا سورج ڈھلتے ہی پہلی گاڑی سے گھر واپس آ جاتے- عید کی نماز ہوتی یا کسی کی نماز جنازہ ، یہ سب لوگ گاؤں سے باہر کھلی جگہ پہ اکٹھے ہو جاتے -یہ مخصوص جگہ تھی جس کے ارد گرد بس ایک ایک فٹ کی چار دیواری تھی- یہیں پہ پورا گاؤں نماز عید پڑھتاتھا یا مرنے والے کی نماز جنازہ -
گاؤں کی گلیاں تو اب بھی کشادہ تھیں مگر نفرتوں نے دلوں کو تنگ اور فاصلوں کو بڑھا دیا تھا- جگہ جگہ مسجدوں سے لاوڈ سپیکر چیخنے لگے جو اپنے فرقے کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کیلیے نفرت کے بیج بونے لگے- عید کی نماز کیلیے سب نے اپنی الگ سے چار دیواری کھڑی کر دی- جب برداشت ختم ہوئی تو ہاتھ گریبانوں تک پنہچنے لگے- اڑتی پتنگوں کی ڈور کی جگہ تیز دھار دھاتی تار نے لے لی جو چلتے راہگیروں کے گلے کاٹنے لگی - چوپال ویران ہو گئے اور گھروں کی دیواریں اونچی ہو گئیں کہ چوری کی وارداتیں عام ہو گئیں تھیں-
گرمیوں کی شام تھی اور ہوا ٹھہر گئی تھی- میں کئی سال بعد گھر کی چھت پہ گیا تھا- برابر والی چھت پہ ہمسایوں کا کم عمر لڑکا پتنگ اڑانے کی ناکام جستجو کر رہا تھا- وہ پتنگ کو زور سے ہوا میں پھینکتا مگر وہ واپس آ کر اس کے پاؤں میں گر جاتی- وہ غصے میں زیر لب بڑبڑاتا- میں نے نظر اٹھا کر سرمئی آسمان کو دیکھا- دور ایک سفید پتنگ کسی سفید کبوتر کی طرح اوپر ہی اوپر آسمان کی طرف جا رہی تھی - میں نے چھوٹے لڑکے کو اشارہ کیا - وہ پتنگ لے کر ہماری چھت پہ آ گیا- "سیکھنی ہے پتنگ اڑا نی؟" میں نے لڑکے سے پوچھا- لڑکے نے "ہاں " والے انداز میں اوپر نیچے سر ہلایا- میں نے پتنگ کو ہوا میں اچھالا، ایک تیز جھونکا آیا اور پتنگ ہوا میں تیرنے لگی- میرا وہم تھا یا پھر حقیقت- دور کہیں کوئی کسان اپنے مخصوص اور کھردر ے لہجے میں کوئی اداس گانا گا رہا تھا- اسے اپنے محبوب کے بچھڑنے کا غم بھی تھا اور ملنے کی امید بھی-
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کسانوں کی ٹولیاں صبح سویرے فصل کاٹنے کیلئے نکل جاتی تھیں - ان کے صحت مند بیلوں کی میٹھی گھنٹیاں صبح ہی صبح ایک سحر طاری کر دیتی تھیں - چڑیوں کا شو ر، سکو ل جاتے بچے، کسانوں کی خوش گپیاں اور سنہری دھوپ پورے گاؤں کو کسی پرستان کا روپ دے دیتے تھے - درانتی کی کرر ، کررر اور ڈھو ل کی دھم دھم دھما دھم شام ڈ ھلے تک سنائی دیتی تھی - ڈھول کی مست تھاپ پہ کسانوں کے ہاتھ بجلی کی سرعت سے سنہری گندم کی فصل پہ چلتے اور دیکھتے ہی دیکھتے کٹی ہوئی فصل کے کھیتوں میں ڈھیر لگ جاتے تھے - جن کی زمین زیادہ تھی یا جو پیسے والے تھے ان کے کھیتوں سے ٹریکٹر کی بھاری اور بے سری آواز آ رہی ہوتی تھی، ایک لگا تار اور نہ تھکنے والی آواز- وہ مشینوں سے فصل بوتے اور کا ٹتے تھے -
پھر سورج ڈھلتے ہی تھکے ہوے بیل اور کسان گھروں کی راہ لیتے - گاؤں کی فضاؤں کو دور سے آتی ہوئی کسی کسان کی آواز چیرتی ، جو اداس اور کھردر ے لہجے میں نہ سمجھ آنے والا گانا گا رہا ہوتا تھا -اس کی درد بھری آواز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ دور دیس جانے والے محبوب کو یاد کر رہا ہو - اس کی آواز ہوا کے دوش پہ تیرتی ہوئی کھبی بہت پاس سے آتی ہوئی محسوس ہوتی اور پھر دور کہیں گھنے جنگلوں میں گم ہو جاتی-
گاؤں میں کسا نوں کے گھرانے زیادہ تھے مگر مزدور اور ملازمت پیشہ افراد بھی تھے جو صبح سویرے قریب کے شہر میں کام کیلئے جاتے تھے اور شام کا سورج ڈھلتے ہی پہلی گاڑی سے گھر واپس آ جاتے- عید کی نماز ہوتی یا کسی کی نماز جنازہ ، یہ سب لوگ گاؤں سے باہر کھلی جگہ پہ اکٹھے ہو جاتے -یہ مخصوص جگہ تھی جس کے ارد گرد بس ایک ایک فٹ کی چار دیواری تھی- یہیں پہ پورا گاؤں نماز عید پڑھتاتھا یا مرنے والے کی نماز جنازہ -
گاؤں کی گلیاں تو اب بھی کشادہ تھیں مگر نفرتوں نے دلوں کو تنگ اور فاصلوں کو بڑھا دیا تھا- جگہ جگہ مسجدوں سے لاوڈ سپیکر چیخنے لگے جو اپنے فرقے کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کیلیے نفرت کے بیج بونے لگے- عید کی نماز کیلیے سب نے اپنی الگ سے چار دیواری کھڑی کر دی- جب برداشت ختم ہوئی تو ہاتھ گریبانوں تک پنہچنے لگے- اڑتی پتنگوں کی ڈور کی جگہ تیز دھار دھاتی تار نے لے لی جو چلتے راہگیروں کے گلے کاٹنے لگی - چوپال ویران ہو گئے اور گھروں کی دیواریں اونچی ہو گئیں کہ چوری کی وارداتیں عام ہو گئیں تھیں-
گرمیوں کی شام تھی اور ہوا ٹھہر گئی تھی- میں کئی سال بعد گھر کی چھت پہ گیا تھا- برابر والی چھت پہ ہمسایوں کا کم عمر لڑکا پتنگ اڑانے کی ناکام جستجو کر رہا تھا- وہ پتنگ کو زور سے ہوا میں پھینکتا مگر وہ واپس آ کر اس کے پاؤں میں گر جاتی- وہ غصے میں زیر لب بڑبڑاتا- میں نے نظر اٹھا کر سرمئی آسمان کو دیکھا- دور ایک سفید پتنگ کسی سفید کبوتر کی طرح اوپر ہی اوپر آسمان کی طرف جا رہی تھی - میں نے چھوٹے لڑکے کو اشارہ کیا - وہ پتنگ لے کر ہماری چھت پہ آ گیا- "سیکھنی ہے پتنگ اڑا نی؟" میں نے لڑکے سے پوچھا- لڑکے نے "ہاں " والے انداز میں اوپر نیچے سر ہلایا- میں نے پتنگ کو ہوا میں اچھالا، ایک تیز جھونکا آیا اور پتنگ ہوا میں تیرنے لگی- میرا وہم تھا یا پھر حقیقت- دور کہیں کوئی کسان اپنے مخصوص اور کھردر ے لہجے میں کوئی اداس گانا گا رہا تھا- اسے اپنے محبوب کے بچھڑنے کا غم بھی تھا اور ملنے کی امید بھی-
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔