نواز شریف کی آواز کے منتظر کچھ لوگ
کئی خلل اور خلا پیدا ہو چکے ہیں ۔ خصوصاً پنجاب میں، جو نون لیگ کا گڑھ اور حصار رہا ہے
وہ بھی 28تاریخ تھی جب جناب نواز شریف سے وزارتِ عظمیٰ اور نون لیگ کی صدارت غصب کی گئی تھی۔ اور یہ بھی28تاریخ تھی جب نواز شریف صاحب کو احترام و اکرام سے نون لیگ کی صدارت واپس کر دی گئی ۔ ان دونوں 28تاریخوں میں دو مہینے کم سات سال کا عرصہ حائل ہے ۔ نواز شریف نے یہ سات سال سیاست کے صحرائے تیہ میں گزارے ہیں۔
وہ 28جولائی2017 کی تاریخ تھی جب نواز شریف کو ایک جج صاحب نے اقتدار اور پارٹی صدارت سے جبریہ رخصت کر دیا تھا ۔اور یہ 28مئی 2024 کی تابناک اور گرم سہ پہر تھی جب پورے پاکستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پھیلے نون لیگیوں نے جناب نواز شریف کے سر پر ایک بار پھر نون لیگ کی صدارت کا تاج رکھ دیا ۔نون لیگ کا بِلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے ہی نواز شریف صاحب کا چہرہ مسرت اور شادمانی سے دمک رہا تھا ۔
جناب شہباز شریف خوشی خوشی نون لیگ کی صدارتی امانت اپنے بڑے بھائی کو واپس کر چکے ہیں ۔ کئی طاقتوروں نے گرچہ اُنہیں اِس امانت میں خیانت کے لیے کئی بار اُکساہٹ بھی دی ۔ برادرِ خورد مگر طاقتوروں کے غچے میں نہ آئے ۔ جناب نواز شریف نے بھی اپنے خطاب میں اُن شخصیات کی جانب اشارہ کیا جو شہباز شریف کو امانت میں خیانت پر اُبھارتے رہے ۔
جناب نواز شریف کو نون لیگ کی پھرسے صدارت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ حق بحقدار رسید ۔ اِس کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ کئی اطراف سے بسیار کوششوں اور تمناؤں کے باوصف نون لیگ سے شین لیگ برآمد نہیں ہو سکی ۔یہ دراصل شریف خاندان کے باطنی اتحاد کی فتح ہے ۔پچھلے سات برسوں کے دوران ہمارے مطلعِ سیاست و اقتدار پر بہت سی تبدیلیاں رُونما ہُوئیں۔
اقتدار کا ہما شریف خاندان سے اُٹھ کر کسی اور کے سر پر بھی بیٹھا ۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقتدار تہ و بالا ہوتا رہا ۔ شریف خاندان کے کئی افراد اور کئی نون لیگی رہنما مخالفین کی ایما اور انگیخت پر پابندِ سلاسل کیے گئے ۔ ''نیب'' کا شکنجہ بھی نون لیگ پر خوب کسا گیا ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض سابقین نے بھی شریف خاندان کو دانستہ سراُٹھانے نہ دیا ۔ شہباز شریف صاحب تو شائد اپنے مزاج کے مطابق اِن زیادتیوں کو فراموش کر گئے ہوں ، مگر جناب نواز شریف بھُول سکے ہیں نہ بھُولنے پر تیار ہیں ۔
جس توہین آمیز طریقے سے نواز شریف صاحب کو اقتدار اور پارٹی کی صدارت سے نکال باہر کیا گیا تھا ، نواز شریف وہ توہین فراموش کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں ۔ ہر موقع ملنے پر وہ عوام اور میڈیا کے سامنے اُن سب شخصیات کو آئینہ ضرور دکھاتے ہیں جنھوں نے اُنہیں بیک بینی و دو گوش اقتدار اور پارٹی کی سربراہی سے محروم کر ڈالا تھا ۔ شائد وہ غاصبوں کا بگاڑ تو کچھ نہیں سکتے ، لیکن اُن سب کو آئینہ دکھا کر شرمندہ اور نادم تو کر ہی سکتے ہیں۔
28مئی2024ء کو نون لیگ کا بِلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے ہی جناب نواز شریف نے اپنے خطاب کے آغاز ہی میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ، ثاقب نثار، کا دو بار ذکر کیا ۔ اِس کا بھی یہی معنی و مطلب ہے کہ نواز شریف اپنی توہین بھولنے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہیں ۔جناب نواز شریف شائد اِس توہین کو برداشت کر بھی جاتے مگر وہ جبریہ اور ظالمانہ لمحات بھولنے کے لیے اس لیے بھی تیار نہیں کہ اُن کے ساتھ اُن کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز ، کو بھی ہتھکڑیاں لگائی گئیں ۔ اُن کے ساتھ اُنہیں بھی پسِ دیوارِ زنداں رکھا گیا ۔ جناب نواز شریف نے اپنے صدارتی انتخاب میں جن چار اہم شخصیات پر الزامات عائدکیے ، ان میں سے دو کی جانب سے تردیدیں آ چکی ہیں ۔ باقی دو مگر ہنوز خاموش ہیں ۔
اب جب کہ جناب نواز شریف نون لیگ کے پھر سے صدر منتخب ہو چکے ہیں ، ہر طرف سے یہی اُمیدیں لگائی جارہی ہیں کہ نون لیگ کوئی نیا بیانیہ تشکیل دے گی ۔ نواز شریف خود بھی اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہیں کہ نون لیگ کی صدارت غصب کیے جانے اور اُن کے لندن میں کئی سال(بغرضِ علاج) قیام کے کارن نون لیگ اور عوام کے درمیان کئی خلیجیں پیدا ہو چکی ہیں۔ کئی خلل اور خلا پیدا ہو چکے ہیں ۔ خصوصاً پنجاب میں، جو نون لیگ کا گڑھ اور حصار رہا ہے۔
پی ٹی آئی نے اِس خلا میں اپنی کچھ جگہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نواز شریف صاحب کو اب یہ دراڑیں اور خلا ختم کرنا ہے۔ خوش بختی سے پنجاب میں اُن کی متحرک صاحبزادی کی وزارتِ اعلیٰ بروئے کار ہے ۔ یوں دونوں باپ بیٹی مل کر مذکورہ خلیجوں اور خلاؤں کو ختم کر سکتے ہیں ۔ مگر اِس میں بے حد محنت درکارہے۔ نواز شریف کے صدارتی خطاب سے ہر قسم کے سامعین نے متنوع توقعات وابستہ کررکھی تھیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ زیادہ تر توقعات پوری نہیں ہُوئیں ۔ ایک عنصر البتہ واضح ہو کر سامنے یہ آیا ہے کہ نون لیگی صدر نے صدقِ دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ اب اُن کا حریف و مخالف کوئی جج ہے نہ جنرل ، بلکہ بانی پی ٹی آئی ہی اُن کے حریفِ اعظم ہیں ۔اُنہی کے ساتھ اُن کا سیاسی محاربہ اور مقابلہ ہے ۔
اورجناب نواز شریف کو اگر یہ سیاسی محاربہ اور مقابلہ جیتنا ہے تو اُنہیں اپنی زیر صدارت پارٹی کی عروقِ مردہ میں نئی رُوح پھونکنا ہوگی ۔ صرف ''دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا'' کے نعرے لگانے اور گانے بجانے سے بیٹھی پارٹی اُٹھ نہیں سکتی ۔ ہر کوئی محسوس کررہا ہے کہ نون لیگ اپنے اندر جوہری تبدیلیوں کی متقاضی ہے۔
پی ٹی آئی کے مقابل نون لیگ کے میڈیا کا بھٹہ تقریباً بیٹھ چکا ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نون لیگ کا میڈیائی چہرہ گہنا چکا ہے؛ چنانچہ نون لیگ کو اب جناب نواز شریف کی نَو صدارت میں میڈیا پر اپنی دلربائی کے لیے غیر معمولی محنت کرنا ہوگی ۔پی ٹی آئی جس طرح ہر جگہ یلغار اور جارحیت کرتی نظر آ رہی ہے، اُسی طرح نون لیگ کی پسپائی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے مقابل مسلم لیگ کا میڈیا کے شعبے میں امیج مدہم پڑ چکا ہے ۔
ایسے میں نواز شریف کو اپنے پرانے ساتھیوں کو پھر سے شامل ہونے کے لیے آواز دینی چاہیے ۔ مثال کے طور پر شاہد خاقان عباسی ، مشاہد حسین سید ، مفتاح اسماعیل ، دانیال عزیز ، میاں جاوید لطیف اور سردار مہتاب عباسی وغیرہ۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اگرچہ بوجوہ نون لیگ سے دُور جا چکے ہیں مگر وہ اتنے بھی ابھی دُور نہیں گئے کہ نواز شریف کی جانب سے دی گئی محبت و اکرام کی آواز پر لبیک کہنے سے انکاری ہو جائیں۔
نواز شریف صاحب نے اچھا کیا ہے کہ اپنے صدارتی انتخاب کے خطاب میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی پارٹی کے لیے دی گئی قربانیوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا ۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی جواباً نواز شریف کو مثبت ردِ عمل دیا ہے۔ دانیال عزیز نے بھی نواز شریف اور نون لیگ کے لیے پانچ سالہ نااہلی کا طویل عذاب سہا ہے ۔ اس لیے وہ بھی نواز شریف کی محبت بھری آواز کے منتظر ہیں ۔ اِن سب کو آواز دے کر تو دیکھیے ۔ یہ سب نواز شریف کی طاقت و قوت بن جائیں گے ۔
وہ 28جولائی2017 کی تاریخ تھی جب نواز شریف کو ایک جج صاحب نے اقتدار اور پارٹی صدارت سے جبریہ رخصت کر دیا تھا ۔اور یہ 28مئی 2024 کی تابناک اور گرم سہ پہر تھی جب پورے پاکستان ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پھیلے نون لیگیوں نے جناب نواز شریف کے سر پر ایک بار پھر نون لیگ کی صدارت کا تاج رکھ دیا ۔نون لیگ کا بِلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے ہی نواز شریف صاحب کا چہرہ مسرت اور شادمانی سے دمک رہا تھا ۔
جناب شہباز شریف خوشی خوشی نون لیگ کی صدارتی امانت اپنے بڑے بھائی کو واپس کر چکے ہیں ۔ کئی طاقتوروں نے گرچہ اُنہیں اِس امانت میں خیانت کے لیے کئی بار اُکساہٹ بھی دی ۔ برادرِ خورد مگر طاقتوروں کے غچے میں نہ آئے ۔ جناب نواز شریف نے بھی اپنے خطاب میں اُن شخصیات کی جانب اشارہ کیا جو شہباز شریف کو امانت میں خیانت پر اُبھارتے رہے ۔
جناب نواز شریف کو نون لیگ کی پھرسے صدارت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ حق بحقدار رسید ۔ اِس کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ کئی اطراف سے بسیار کوششوں اور تمناؤں کے باوصف نون لیگ سے شین لیگ برآمد نہیں ہو سکی ۔یہ دراصل شریف خاندان کے باطنی اتحاد کی فتح ہے ۔پچھلے سات برسوں کے دوران ہمارے مطلعِ سیاست و اقتدار پر بہت سی تبدیلیاں رُونما ہُوئیں۔
اقتدار کا ہما شریف خاندان سے اُٹھ کر کسی اور کے سر پر بھی بیٹھا ۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقتدار تہ و بالا ہوتا رہا ۔ شریف خاندان کے کئی افراد اور کئی نون لیگی رہنما مخالفین کی ایما اور انگیخت پر پابندِ سلاسل کیے گئے ۔ ''نیب'' کا شکنجہ بھی نون لیگ پر خوب کسا گیا ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے بعض سابقین نے بھی شریف خاندان کو دانستہ سراُٹھانے نہ دیا ۔ شہباز شریف صاحب تو شائد اپنے مزاج کے مطابق اِن زیادتیوں کو فراموش کر گئے ہوں ، مگر جناب نواز شریف بھُول سکے ہیں نہ بھُولنے پر تیار ہیں ۔
جس توہین آمیز طریقے سے نواز شریف صاحب کو اقتدار اور پارٹی کی صدارت سے نکال باہر کیا گیا تھا ، نواز شریف وہ توہین فراموش کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں ۔ ہر موقع ملنے پر وہ عوام اور میڈیا کے سامنے اُن سب شخصیات کو آئینہ ضرور دکھاتے ہیں جنھوں نے اُنہیں بیک بینی و دو گوش اقتدار اور پارٹی کی سربراہی سے محروم کر ڈالا تھا ۔ شائد وہ غاصبوں کا بگاڑ تو کچھ نہیں سکتے ، لیکن اُن سب کو آئینہ دکھا کر شرمندہ اور نادم تو کر ہی سکتے ہیں۔
28مئی2024ء کو نون لیگ کا بِلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے ہی جناب نواز شریف نے اپنے خطاب کے آغاز ہی میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ، ثاقب نثار، کا دو بار ذکر کیا ۔ اِس کا بھی یہی معنی و مطلب ہے کہ نواز شریف اپنی توہین بھولنے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہیں ۔جناب نواز شریف شائد اِس توہین کو برداشت کر بھی جاتے مگر وہ جبریہ اور ظالمانہ لمحات بھولنے کے لیے اس لیے بھی تیار نہیں کہ اُن کے ساتھ اُن کی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز ، کو بھی ہتھکڑیاں لگائی گئیں ۔ اُن کے ساتھ اُنہیں بھی پسِ دیوارِ زنداں رکھا گیا ۔ جناب نواز شریف نے اپنے صدارتی انتخاب میں جن چار اہم شخصیات پر الزامات عائدکیے ، ان میں سے دو کی جانب سے تردیدیں آ چکی ہیں ۔ باقی دو مگر ہنوز خاموش ہیں ۔
اب جب کہ جناب نواز شریف نون لیگ کے پھر سے صدر منتخب ہو چکے ہیں ، ہر طرف سے یہی اُمیدیں لگائی جارہی ہیں کہ نون لیگ کوئی نیا بیانیہ تشکیل دے گی ۔ نواز شریف خود بھی اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہیں کہ نون لیگ کی صدارت غصب کیے جانے اور اُن کے لندن میں کئی سال(بغرضِ علاج) قیام کے کارن نون لیگ اور عوام کے درمیان کئی خلیجیں پیدا ہو چکی ہیں۔ کئی خلل اور خلا پیدا ہو چکے ہیں ۔ خصوصاً پنجاب میں، جو نون لیگ کا گڑھ اور حصار رہا ہے۔
پی ٹی آئی نے اِس خلا میں اپنی کچھ جگہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔نواز شریف صاحب کو اب یہ دراڑیں اور خلا ختم کرنا ہے۔ خوش بختی سے پنجاب میں اُن کی متحرک صاحبزادی کی وزارتِ اعلیٰ بروئے کار ہے ۔ یوں دونوں باپ بیٹی مل کر مذکورہ خلیجوں اور خلاؤں کو ختم کر سکتے ہیں ۔ مگر اِس میں بے حد محنت درکارہے۔ نواز شریف کے صدارتی خطاب سے ہر قسم کے سامعین نے متنوع توقعات وابستہ کررکھی تھیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ زیادہ تر توقعات پوری نہیں ہُوئیں ۔ ایک عنصر البتہ واضح ہو کر سامنے یہ آیا ہے کہ نون لیگی صدر نے صدقِ دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ اب اُن کا حریف و مخالف کوئی جج ہے نہ جنرل ، بلکہ بانی پی ٹی آئی ہی اُن کے حریفِ اعظم ہیں ۔اُنہی کے ساتھ اُن کا سیاسی محاربہ اور مقابلہ ہے ۔
اورجناب نواز شریف کو اگر یہ سیاسی محاربہ اور مقابلہ جیتنا ہے تو اُنہیں اپنی زیر صدارت پارٹی کی عروقِ مردہ میں نئی رُوح پھونکنا ہوگی ۔ صرف ''دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا'' کے نعرے لگانے اور گانے بجانے سے بیٹھی پارٹی اُٹھ نہیں سکتی ۔ ہر کوئی محسوس کررہا ہے کہ نون لیگ اپنے اندر جوہری تبدیلیوں کی متقاضی ہے۔
پی ٹی آئی کے مقابل نون لیگ کے میڈیا کا بھٹہ تقریباً بیٹھ چکا ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نون لیگ کا میڈیائی چہرہ گہنا چکا ہے؛ چنانچہ نون لیگ کو اب جناب نواز شریف کی نَو صدارت میں میڈیا پر اپنی دلربائی کے لیے غیر معمولی محنت کرنا ہوگی ۔پی ٹی آئی جس طرح ہر جگہ یلغار اور جارحیت کرتی نظر آ رہی ہے، اُسی طرح نون لیگ کی پسپائی بھی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے مقابل مسلم لیگ کا میڈیا کے شعبے میں امیج مدہم پڑ چکا ہے ۔
ایسے میں نواز شریف کو اپنے پرانے ساتھیوں کو پھر سے شامل ہونے کے لیے آواز دینی چاہیے ۔ مثال کے طور پر شاہد خاقان عباسی ، مشاہد حسین سید ، مفتاح اسماعیل ، دانیال عزیز ، میاں جاوید لطیف اور سردار مہتاب عباسی وغیرہ۔ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل اگرچہ بوجوہ نون لیگ سے دُور جا چکے ہیں مگر وہ اتنے بھی ابھی دُور نہیں گئے کہ نواز شریف کی جانب سے دی گئی محبت و اکرام کی آواز پر لبیک کہنے سے انکاری ہو جائیں۔
نواز شریف صاحب نے اچھا کیا ہے کہ اپنے صدارتی انتخاب کے خطاب میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی پارٹی کے لیے دی گئی قربانیوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا ۔ شاہد خاقان عباسی نے بھی جواباً نواز شریف کو مثبت ردِ عمل دیا ہے۔ دانیال عزیز نے بھی نواز شریف اور نون لیگ کے لیے پانچ سالہ نااہلی کا طویل عذاب سہا ہے ۔ اس لیے وہ بھی نواز شریف کی محبت بھری آواز کے منتظر ہیں ۔ اِن سب کو آواز دے کر تو دیکھیے ۔ یہ سب نواز شریف کی طاقت و قوت بن جائیں گے ۔