مشاورت کی اہمیت
کوئی بھی حکومت اچھا کام بھی عجلت یا تمام فریقین کو اعتماد میں لیے بغیر کرے گی تو شکوک وشبہات بھی لازمی پیدا ہوں گے
بنیادی مسئلہ سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کو قواعد وضوابط کے تحت لانے کا ہے۔سوشل میڈیا پر ایسا مواد جس کا مقصد پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہو، اس ختم کرانا اور ایسا کرنے والوں پر قابو پانا ہو تو یہ ریاست و حکومت کا حق ہے، اس کی کوئی مخالفت نہیں۔ مگر یہ سب کچھ شفافیت کے دائرے میں ہونا چاہیے۔
کوئی بھی حکومت اچھا کام بھی عجلت یا تمام فریقین کو اعتماد میں لیے بغیر کرے گی تو شکوک وشبہات بھی لازمی پیدا ہوں گے۔ سوشل میڈیا اور بعض اوقات مین اسٹریم میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیں اور اس کا ہر فورم پر اظہار بھی کیا جاتا ہے ۔مگر اس کا علاج بے جا سختی اور سخت قوانین نہیں ہیں ۔
پاکستان میں سیاستدانوں، مذہبی زعما،سرمایہ داروں، ریاستی اداروں کے عہدیداروںکو میڈیا سے ہمیشہ الرجی رہی ہے، لیکن اس کا حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش کسی نے نہیں کی ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو کئی قسم کے داخلی اور خارجی مسائل درپیش ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا ٹی وی اور اخبار کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔
سوشل میڈیا پر بات کرنا بہت آسان ہے ، اس لیے یہاں اچھی اور معیار معلومات بھی مل جاتی ہیں جب کہ فیک نیوز اور غیر اخلاقی مواد بھی عام ہے۔ اگر آج سوشل میڈیا کی اہمیت یا لوگوں کی اس پر رسائی بڑھ رہی ہے تو اس کی وجہ کسی قسم کا کنٹرول نہ ہونا ۔ سوشل میڈیا پر نہ ایڈیٹر ہوتا ہے اور نہ کوئی پالیسی گائیڈ لائن ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر تنقید ہوتی ہے ۔ دنیا کے مہذب ملکوں نے اس پر قانون سازی یا پالیسی سازی کی ہے ۔ہمیں دنیا کے ان تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ ان کی حکمت عملی کیا تھی اور کیسے انھوں نے تمام فریقین کو شامل کرکے ایسی قانون سازی کی جو سب میں قابل قبول ٹھری ۔سوشل میڈیا کو محض گالی دینا ، شیطانی میڈیا کہنا یا اسے معاشروں پرعذاب کا نام دینا بھی سوائے جذباتیت کے اور کچھ نہیں ۔سوال یہ بھی ہے کہ ہم ان تمام معاملات میں تدبر، فہم وفراست اور بردباری کے لیے کیوں تیار نہیں ؟ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو میڈیا کی آزادی ہمارا ترجیحی ایجنڈا بن جاتا ہے او رمیڈیا کے ساتھ کھڑے ہوکر اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔لیکن جیسے ہی ہم حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو ہمیں میڈیا اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں میڈیا کی آوازوں کو بے جا پابندیوں میں جکڑنے کی حکمت عملی کی بجائے میڈیا میں کہی جانی والی باتوں پر توجہ دے کر ریاستی وحکومتی نظام میں موجود گورننس کے مسائل کو حل کرنا چاہیے ۔
ہتک عزت قانون2002،پیکا ایکٹ ،2016، پاکستان پینل کوڈ کی دفعات499.500,501کے ہوتے ہوئے ہتک عزت کے کسی نئے قانون کی بظاہر ضرورت نظر نہیں آتی ۔ بہرحال نئے مسودہ قانون کے حوالے صحافتی تنظیموں کو بٹھا کر ان سے مشاورت کی گئی ، ان کی تجاویز سنی گئی اوران کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ عجلت میں قانون سازی نہیں ہوگی بلکہ تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے گا ۔لیکن نیا ہتک عزت قانون فوری منظور کرلیا گیا ہے ۔
اصولاً تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اتفاق رائے کے ذریعے ہوتا تو کہیں سے بھی شکایت یا اعتراض نہیں ہونا تھا۔ ویسے بھی محض قانون سازی سے یہ سمجھ لینا کہ اس سے فیک نیوز اور پراپگینڈے کا خاتمہ ہوگا، یہ بھی ممکن نہیں ہوگا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی ہے ، اب پابندیوں سے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے حکومت سیاسی ایجنڈے کا شکار ہے اور میڈیا کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے ۔ بلکہ یہ عمل میڈیا ، اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے درمیان بلاوجہ کے ٹکراؤ کو پیدا کرے گا ۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو وہ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے۔
اسی لیے وہ مشاورت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، یہی اس کا المیہ اور غلطی ہوتی ہے۔ بظاہر یہ بھی لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا کو بھی قوانین کے تحت لایا جارہا ہے۔اس حکومتی مسودے پر من وعن عمل کرنے سے پہلے سے موجود میڈیا کے معاملات میںمزید مسائل جنم لیں گے او رسمی میڈیا اپنی اہمیت اور زیادہ کم کرے گا جو پہلے ہی کئی حوالوں سے مسائل سے دوچار ہے ۔اس لیے جو لوگ حکومت کو مشورہ دے رہیں، وہ میڈیا کے دوست ہیں اور نہ حکومت کے۔ماضی میں بھی حکومت اور میڈیا کی محاذآرائی یا ٹکراؤ کا نتیجہ منفی ہی نکلا او راب بھی نتیجہ ماضی کے نتیجہ سے مختلف نہیں ہوگا۔
اسی قانون میں 30لاکھ تک جرمانہ عائد کرنا ، ٹرائل کرنا او راپنی مرضی کی بنیاد پر ٹربیونل ججوں کی تقرری یاتحقیقات کے نظام پر معنی خیز مشاورت ہونی چاہیے، تاکہ حکومت اور میڈیا کسی مثبت حل تک پہنچ سکیں۔ ۔ہمیں ہر صورت میں آئین میں دی گئی شق19اور 19-A کی پاسداری کرنی چاہیے ۔ حکومت کے لیے بھی بلاوجہ کی محاذ آرائی اچھی نہیں ہے ۔بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے ۔ اس لیے اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہتک عزت قانون پر باہمی مشاورت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔
کوئی بھی حکومت اچھا کام بھی عجلت یا تمام فریقین کو اعتماد میں لیے بغیر کرے گی تو شکوک وشبہات بھی لازمی پیدا ہوں گے۔ سوشل میڈیا اور بعض اوقات مین اسٹریم میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مجھ سمیت بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیں اور اس کا ہر فورم پر اظہار بھی کیا جاتا ہے ۔مگر اس کا علاج بے جا سختی اور سخت قوانین نہیں ہیں ۔
پاکستان میں سیاستدانوں، مذہبی زعما،سرمایہ داروں، ریاستی اداروں کے عہدیداروںکو میڈیا سے ہمیشہ الرجی رہی ہے، لیکن اس کا حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش کسی نے نہیں کی ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کو کئی قسم کے داخلی اور خارجی مسائل درپیش ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مین اسٹریم میڈیا ٹی وی اور اخبار کے مقابلے میں سوشل میڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔
سوشل میڈیا پر بات کرنا بہت آسان ہے ، اس لیے یہاں اچھی اور معیار معلومات بھی مل جاتی ہیں جب کہ فیک نیوز اور غیر اخلاقی مواد بھی عام ہے۔ اگر آج سوشل میڈیا کی اہمیت یا لوگوں کی اس پر رسائی بڑھ رہی ہے تو اس کی وجہ کسی قسم کا کنٹرول نہ ہونا ۔ سوشل میڈیا پر نہ ایڈیٹر ہوتا ہے اور نہ کوئی پالیسی گائیڈ لائن ہوتی ہے۔
اسی وجہ سے سوشل میڈیا پر تنقید ہوتی ہے ۔ دنیا کے مہذب ملکوں نے اس پر قانون سازی یا پالیسی سازی کی ہے ۔ہمیں دنیا کے ان تجربات سے سیکھنا ہوگا کہ ان کی حکمت عملی کیا تھی اور کیسے انھوں نے تمام فریقین کو شامل کرکے ایسی قانون سازی کی جو سب میں قابل قبول ٹھری ۔سوشل میڈیا کو محض گالی دینا ، شیطانی میڈیا کہنا یا اسے معاشروں پرعذاب کا نام دینا بھی سوائے جذباتیت کے اور کچھ نہیں ۔سوال یہ بھی ہے کہ ہم ان تمام معاملات میں تدبر، فہم وفراست اور بردباری کے لیے کیوں تیار نہیں ؟ ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو میڈیا کی آزادی ہمارا ترجیحی ایجنڈا بن جاتا ہے او رمیڈیا کے ساتھ کھڑے ہوکر اس جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔لیکن جیسے ہی ہم حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو ہمیں میڈیا اچھا نہیں لگتا۔ ہمیں میڈیا کی آوازوں کو بے جا پابندیوں میں جکڑنے کی حکمت عملی کی بجائے میڈیا میں کہی جانی والی باتوں پر توجہ دے کر ریاستی وحکومتی نظام میں موجود گورننس کے مسائل کو حل کرنا چاہیے ۔
ہتک عزت قانون2002،پیکا ایکٹ ،2016، پاکستان پینل کوڈ کی دفعات499.500,501کے ہوتے ہوئے ہتک عزت کے کسی نئے قانون کی بظاہر ضرورت نظر نہیں آتی ۔ بہرحال نئے مسودہ قانون کے حوالے صحافتی تنظیموں کو بٹھا کر ان سے مشاورت کی گئی ، ان کی تجاویز سنی گئی اوران کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ عجلت میں قانون سازی نہیں ہوگی بلکہ تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے گا ۔لیکن نیا ہتک عزت قانون فوری منظور کرلیا گیا ہے ۔
اصولاً تو ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اتفاق رائے کے ذریعے ہوتا تو کہیں سے بھی شکایت یا اعتراض نہیں ہونا تھا۔ ویسے بھی محض قانون سازی سے یہ سمجھ لینا کہ اس سے فیک نیوز اور پراپگینڈے کا خاتمہ ہوگا، یہ بھی ممکن نہیں ہوگا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہوشربا ترقی ہے ، اب پابندیوں سے نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے حکومت سیاسی ایجنڈے کا شکار ہے اور میڈیا کو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہے ۔ بلکہ یہ عمل میڈیا ، اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کے درمیان بلاوجہ کے ٹکراؤ کو پیدا کرے گا ۔ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو وہ سمجھتی ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے۔
اسی لیے وہ مشاورت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، یہی اس کا المیہ اور غلطی ہوتی ہے۔ بظاہر یہ بھی لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ مین اسٹریم میڈیا کو بھی قوانین کے تحت لایا جارہا ہے۔اس حکومتی مسودے پر من وعن عمل کرنے سے پہلے سے موجود میڈیا کے معاملات میںمزید مسائل جنم لیں گے او رسمی میڈیا اپنی اہمیت اور زیادہ کم کرے گا جو پہلے ہی کئی حوالوں سے مسائل سے دوچار ہے ۔اس لیے جو لوگ حکومت کو مشورہ دے رہیں، وہ میڈیا کے دوست ہیں اور نہ حکومت کے۔ماضی میں بھی حکومت اور میڈیا کی محاذآرائی یا ٹکراؤ کا نتیجہ منفی ہی نکلا او راب بھی نتیجہ ماضی کے نتیجہ سے مختلف نہیں ہوگا۔
اسی قانون میں 30لاکھ تک جرمانہ عائد کرنا ، ٹرائل کرنا او راپنی مرضی کی بنیاد پر ٹربیونل ججوں کی تقرری یاتحقیقات کے نظام پر معنی خیز مشاورت ہونی چاہیے، تاکہ حکومت اور میڈیا کسی مثبت حل تک پہنچ سکیں۔ ۔ہمیں ہر صورت میں آئین میں دی گئی شق19اور 19-A کی پاسداری کرنی چاہیے ۔ حکومت کے لیے بھی بلاوجہ کی محاذ آرائی اچھی نہیں ہے ۔بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ اظہار رائے کی آزادی کا تحفظ ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے ۔ اس لیے اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہتک عزت قانون پر باہمی مشاورت کا راستہ اختیار کیا جائے ۔