آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔
مزید کام یابی کے پیمانے کو اسلامی نقطۂ نظر سے واضح کرنے کے لیے کچھ اور حدود و قیود کا جائزہ لیتے ہیں
آج کی برق رفتار زندگی میں ہر کوئی بھیڑ چال چلتے ہوئے کام یابی کی بلندی تک پہنچنے میں اپنی پوری طاقت اور صلاحیت کے ساتھ بھاگ رہا ہے۔
اور وہ اس بھاگ دوڑ میں اتنا مگن ہے کہ اس کے پاس یہ تک سوچنے تک کی فرصت نہیں کہ آیا وہ جس کو کام یابی سمجھ رہا ہے، وہ حقیقی معنوں میں کام یابی ہے بھی یا نہیں۔ جدید دور کی ایجادات اور چکا چوند زندگی نے مادیت کی ہوس اتنی بڑھا دی ہے کہ کچھ سوچے سمجھے بغیر ہر کسی کی نظر میں دولت کی فراوانی ہی اصل کام یابی ہے۔
جس کے پاس جتنی زیادہ دولت، جائیداد، محل اور گاڑیاں ہوں وہ اتنا زیادہ کام یاب سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ تھوڑی سی سوچ اور فکر انسان کو اس حقیقت سے آشنا کراسکتی ہے کہ اس دنیا میں کام یابی کی تعریف وہ ہے جو اس دنیا کے خالق نے بتائی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی کائنات کا تخلیق کردہ اور اس میں حضرتِ انسان کو آزمائش کے لیے بھیجنے والا، اُسے اُس کی منزل، راستہ، کام یابی اور اس کے گْر نہ بتائے۔۔۔ ؟
اﷲ تعالی سورہ نور میں فرماتے ہیں، مفہوم:
''جو بھی اﷲ کی اور اُس کے رسول (ﷺ) کی فرماں برداری کریں اور اﷲ اور اُس کے عذاب کا ڈر رکھیں، وہی کام یاب لوگ ہیں۔''
اب اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری کے لیے لازم ہے کہ ہمیں اُن کے ارشادات عالیہ کا علم ہو۔ اس کے لیے ہم قرآن اور احادیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں بنیادی دو طرح کے احکام ملیں گے۔ ایک حقوق اﷲ یعنی عبادت کے متعلق جن کا تعلق بِلاواسطہ آخرت کے ساتھ ہے اور دوسرے حقوق العباد جو ہمیں اس بات کا درس دیتے ہیں کہ ہم نے اِس دنیا میں رہنا ہے تو کیسے رہنا ہے۔
حقوق اﷲ کا تعلق چوں کہ آخرت کے ساتھ ہے اور عبادت کے لیے لازم ہے کہ پہلے انسان اﷲ پر ایمان رکھے، لہذا اِس کو الگ موضوع سمجھتے ہوئے ہم دنیا کی کام یابی کو اس وقت صرف حقوق العباد کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ہم پر کِس کا کیسا حق ہے یہ جاننے کے لیے قرآن و حدیث کی کچھ سطور درج ذیل ہیں جن کو جان کر ہم کسی کی کام یابی کے معیار کو پرکھنے کی کسوٹی قائم کر سکتے ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے اور اﷲ کو وہ سب سے زیادہ پسند ہے جو اُس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔'' (مشکوۃ المصابیح)
مفہوم: ''تم میں سے بہتر وہ ہے جس سے لوگ خیر کی اُمید کریں اور اُس کے شر سے خود کو محفوظ سمجھیں۔'' (ترمذی)
پھر مخلوق میں بھی آپ کے ساتھ منسلک لوگوں کے بارے میں ان کی انفرادی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے بیش بہا ارشادات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
مفہوم: ''اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا۔'' (القرآن حکیم)
اسی ضمن میں چند احادیث درج ہیں، مفہوم:
''رشتوں کو توڑنے والا جنّت میں داخل نہیں ہوگا۔'' (بخاری)
''تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی اس دنیا سے چلا جائے تو اس کی برائی بیان مت کرو۔'' (ترمذی)
''جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔'' (بخاری)
اب ان حقوق کو اور ان کی اہمیت کو ذہن میں رکھ کر آپ ہر اُس شخص کو جس کو آپ آج تک مادیت کی بنا پہ کام یاب سمجھتے تھے ان کو دوبارہ پرکھیں گے تو یقیناً آپ کے اندازے کچھ غلط ثابت ہوں گے۔ آپ کو کئی اربوں پتی ایسے نظر آئیں گے جو کہیں خاندان کے لیے کام یاب ثابت نہ ہو سکے تو کہیں انہیں اپنے تمام رشتوں ناتوں کو خیرباد کہنا پڑا۔
مزید کام یابی کے پیمانے کو اسلامی نقطۂ نظر سے واضح کرنے کے لیے کچھ اور حدود و قیود کا جائزہ لیتے ہیں۔
مفہوم: ''اور اے قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پُورا پُورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں خرابی کرتے نہ پھرو۔ اگر تم کو (میرے کہنے کا) یقین ہو تو خدا کا دیا ہوا نفع ہی تمہارے لیے بہتر ہے اور کیا میں تمہارا نگہبان نہیں ہوں۔'' (قرآن الحکیم)
مفہوم: ''اور جو (مال) تم کو خدا نے عطا فرمایا ہے اس سے دار آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کی کوشش کرو اور مت بُھولو تم دنیا سے اپنا حصہ اور جیسی خدا نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔ اور ملک میں طالب فساد نہ ہو۔ کیوں کہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔''
''مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ خدا تم پر مہربان ہے۔''
معاملات زندگی کے ضمن میں چند احادیث درج ہیں، مفہوم:
''رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔'' (ماجہ)
''سود خور، کھانے والے، لکھنے والے اور ان کی گواہی دینے والے سب پر لعنت اور یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔'' (مسلم)
اب ہم اپنی تخلیق کردہ کام یاب لوگوں کی فہرست کو اس نئی کسوٹی پر پرکھیں گے تو یقیناً ہمیں بہت سارے کام یاب لوگ ناکام ہوتے نظر آئیں گے۔
ہمارا مقصد بالخصوص آج کی نوجوان نسل کو یہ پیغام دینا ہے کہ جس نے آپ کو اور ہم سب کو پیدا کیا، اس دنیا میں نظام بھی کام یاب وہی ہے جو اس نے دیا، اور انسان بھی کام یاب وہی ہے جو اس کے حدود میں رہ کر سرخ رُو ہوا۔ افسوس! آج کے موٹیویشنل اسپیکرز بھی خدا کے نظام اور حدود کی تعلیم کو پیچھے رکھ کر ہمیں صرف اور صرف ارب پتی لوگوں کے سونے جاگنے کی عادات، ان کے مشغلے اور ہر اصول کو پس پشت ڈال کر اندھا دھن شب و روز کی دنیاوی محنت اور اس کے ثمر کے بارے بتا رہے ہیں۔
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہر انسان کی محنت اور اس کے فہم کی تعریف کرنی چاہیے اور اس سے محض وہ سیکھنا چاہیے جو اﷲ کی حدود کو پامال نہ کرے۔ اور اس کی حدود کی پامالی کرنے والی ہر ترقی اُسی کو مبارک یا اُن موٹیویشنل اسپیکرز کو جن کو اپنا لباس، لہجہ اور چال ڈھال بھی وہ اچھی لگتی ہے جن کی دولت اور بینک بیلنس نے ان کے ذہنوں کو محصور کر رکھا ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
''جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہُوا۔'' (ابو داؤد)