قرب الہی کے لیے قربانی
عیدالاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے اس خواب کے ذکر میں آیا ہے
قربانی کے معنی اﷲ کا قُرب حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور شرعی اصطلاح میں عبادت کی نیت سے ایک خاص وقت میں حلال جانور کو اﷲ کی راہ میں قربانی کرنا یا ذبح کرنے کے ہیں۔ یہ خاص وقت دس ذی الحج کی صبح یعنی اشراق سے شروع ہوتا ہے اور بارہ ذی الحج سورج غروب ہونے سے پہلے تک رہتا ہے۔ نماز عید سے قبل قربانی نہیں ہوتی۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا تصور ملتا ہے۔ یہود کی کتابوں میں کثرت سے قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ نصرانیوں کے مذہب کی تو بنیاد ہی قربانی پر ہے ان کے نزدیک قربانی ہی اصل ذریعۂ نجات ہے۔ قبل از اسلام مصری قوم بہتے ہوئے دریائے نیل میں ایک خوب صورت اور نوجوان لڑکی کو بناؤ سنگھار کرکے نذر دریا کر دیتے تھے۔
ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر ہم یہ قربانی نہیں کریں گے تو دریائے نیل اپنا بہاؤ کھو دے گا۔ جس کی وجہ سے مصر میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی اور قحط سالی ہو جائے گی جیسا کہ حضرت یوسفؑ کی بعثت کے وقت ہوئی تھی۔ چناں چہ جب حضرت عمرؓ مسلمان کے خلیفہ دوم مقرر ہوئے تو انہوں نے اس جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے ایک رقعہ لکھ کردیا کہ اس کو دریا میں ڈال دیا جائے اور آئندہ کے لیے فرمان جاری کیا کہ اب کسی بے گناہ بیٹی کی جان اس طرح نہ لی جائے اس طرح ان کی اس رسم بد کا خاتمہ ہُوا اور دریائے نیل آج بھی بغیر کسی قربانی کے اسی طرح بہہ رہا ہے۔
ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں کی اکثریت ہندو مذہب کی پیروکار ہے۔ ان کی معتبر کتابوں میں قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ اپنے دیوتاؤں کی خوش نُودی حاصل کرنے کی خاطر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بھینٹ دیا کرتے تھے۔
قربانی کا تصور بڑا قدیم ہے جو حضرت آدمؑ کے وقت سے چلا آرہا ہے ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا اقلیما سے شادی پر تنازع پھر حضرت آدمؑ کا انہیں مشورہ کہ اﷲ کی راہ میں قربانی پیش کرو اس وقت جانور کے علاوہ زرعی اور پیداواری مال بھی قربانی کے لیے پیش کردیا جاتا تھا جو کسی پہاڑ کی چوٹی پر رکھ دیا جاتا تھا ایک قدرتی آگ آتی اور وہ مال بھسم کرجاتی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ قربانی قبول ہوگئی نہ جلنے والا مال قربانی کے لیے نامنظور کہلاتا تھا۔ اس طرح ہابیل کا پیش کردہ جانور بھسم ہوگیا اور قابیل کا مال بچ گیا (نہ جلا) اس طرح اقلیما کی شادی ہابیل سے ہوگئی۔
عیدالاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے اس خواب کے ذکر میں آیا ہے جو قربانی سے متعلق ہے، آپؑ نے یہ خواب مسلسل تین راتوں تک دیکھا پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے شرعی اصطلاح میں یوم الترویہ کہا جاتا ہے لغت میں ترویہ کے معنی سیراب کرنا، پانی فراہم کرنا ہے۔
منیٰ اور عرفات میں چوں کہ پانی نہیں ہے۔ اس لیے ایام حج میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بہ ذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ترویہ کے معنی و مفہوم میں پانی پلانا لکھے ہیں چوں کہ لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو نحر کرنے سے قبل پانی پلاتے تھے۔ بعض اہل زبان نے ترویہ کو رویت سے مشتق لیا ہے اس لیے اسے دیکھنے کے معنی میں لیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بھی چوں کہ خواب دیکھا تھا ۔
اس لیے اسے دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی ایک اور توجیہہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز فجر کے بعد احرام باندھ کر منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ ایک اور جگہ اس کے معنی سوچ کا دن لکھے ہیں کیوں کہ رات کے خواب کے بعد دن میں اس کی تعبیر کے بارے میں سوچا تھا، اس لیے اس دن کا نام یوم الترویہ پڑگیا۔ اس دن کا تعلق چوں کہ ایام حج سے بھی ہے اس لیے مختلف کتابوں میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں ان سب کو مضمون میں یکجا کردیا گیا ہے۔ اسی طرح عرفہ کو بھی معانی کے ساتھ شامل کیا ہے تاکہ قارئین کو تاریخ اور مقا م سے اچھی طرح واقفیت ہوجائے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو، صبح اٹھ کر آپ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہو جائے۔ آپؑ نے سو سرخ اونٹ قربان کردیے۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا چناں چہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا، واضح ہو کہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہا ہے جسے صرف چند مخصوص افراد ہی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ وہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتا ہے۔
اس دوسرے دن جو آپؑ نے قربانی پیش کی وہ یوم عرفہ تھا جس کے معنی پہچاننے کے ہیں علماء لکھتے ہیں کہ جنت سے نکلنے کے بعد خطۂ زمین پر آدمؑ اور حوا ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے اور پھر عرفات کے میدان میں انکا ملاپ ہُوا تھا جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو یوم عرفہ پہچان لیا تھا۔ اس لیے اسے عرفہ کا دن کہا جاتا ہے۔
اس کی دوسری توجیہہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس دن حضرت جبرئیلؑ نے حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج سکھائے تھے ان مناسک کو سیکھنے کے لیے آپؑ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی۔ مفہوم: ''اور ہمیں اپنی عبادتیں (مناسک) سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔'' (سورہ بقرہ) عرفہ کے بارے میں جو کہ نو ذی الحج کا دن ہوتا ہے۔
تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کارکن اعظم ہے یہاں کی حاضری ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو مجرموں کی طرح رب کائنات کے حضور پیش کرکے اپنے گناہوں کا اعتراف برملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے چوں کہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیرہویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین و حضرات پر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
تیسری رات آپؑ کو پھر وہی خواب دکھائی دیا اور یاد دہانی کروائی گئی کہ ابراہیم اپنی عزیز ترین شے قربان کرو۔ آپؑ نے اس موقع پر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو آپؑ کو حضرت اسمٰعیل نظر آئے تو آپؑ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیا جس کے بارے میں قرآن حکیم میں بھی ذکر ہُوا ہے۔ مفہوم: ''پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس نے کہا: میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے دیکھ رہا ہوں اب تُو بتا کہ تیری کیا رائے ہے۔ بیٹے نے جواب دیا: ابا جو حکم ہُوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے اس کو (باپ نے بیٹے کو) کروٹ (جبیں) کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی: اے ابراہیم! یقیناً تُونے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بے شک! ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔'' (سورہ الصافات)
مفسرین کرام ان آیات کی تشریح میں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت اسمٰعیلؑ کی عمر13 برس تھی۔ پیغمبران کرام کے خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتے ہیں اس لیے بیٹے سے مشورہ کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امتثال امر الٰہی کے لیے کس حد تک تیار ہے ؟ اسی بیٹے کو اﷲ مستقبل میں پیغمبری کے لیے چن چکا تھا۔
اس لیے وہ بھی حکم الٰہی کے خلاف کیسے جاسکتا ہے۔ اور پھر ارشاد ہُوا اس کے فدیہ میں ہم نے ایک بڑا ذبیحہ (مینڈھا) اس کے فدیہ میں دے دیا ابراہیمؑ پر سلام ہو ہم نیکو کاروں کو اسی کا بدلہ دیتے ہیں بے شک! وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ابراہیم کامل ایمان دار بندوں میں سے تھا۔
یہ بڑا ذبیحہ ایک دنبہ تھا جو اﷲ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرئیلؑ کے ذریعے سے بھیجا پھر اسمٰعیلؑ کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر اس سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عیدالاضحی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔
اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا تصور ملتا ہے۔ یہود کی کتابوں میں کثرت سے قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ نصرانیوں کے مذہب کی تو بنیاد ہی قربانی پر ہے ان کے نزدیک قربانی ہی اصل ذریعۂ نجات ہے۔ قبل از اسلام مصری قوم بہتے ہوئے دریائے نیل میں ایک خوب صورت اور نوجوان لڑکی کو بناؤ سنگھار کرکے نذر دریا کر دیتے تھے۔
ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر ہم یہ قربانی نہیں کریں گے تو دریائے نیل اپنا بہاؤ کھو دے گا۔ جس کی وجہ سے مصر میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی اور قحط سالی ہو جائے گی جیسا کہ حضرت یوسفؑ کی بعثت کے وقت ہوئی تھی۔ چناں چہ جب حضرت عمرؓ مسلمان کے خلیفہ دوم مقرر ہوئے تو انہوں نے اس جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے ایک رقعہ لکھ کردیا کہ اس کو دریا میں ڈال دیا جائے اور آئندہ کے لیے فرمان جاری کیا کہ اب کسی بے گناہ بیٹی کی جان اس طرح نہ لی جائے اس طرح ان کی اس رسم بد کا خاتمہ ہُوا اور دریائے نیل آج بھی بغیر کسی قربانی کے اسی طرح بہہ رہا ہے۔
ہندوستان ایسا ملک ہے جہاں کی اکثریت ہندو مذہب کی پیروکار ہے۔ ان کی معتبر کتابوں میں قربانی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ اپنے دیوتاؤں کی خوش نُودی حاصل کرنے کی خاطر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی بھینٹ دیا کرتے تھے۔
قربانی کا تصور بڑا قدیم ہے جو حضرت آدمؑ کے وقت سے چلا آرہا ہے ان کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا اقلیما سے شادی پر تنازع پھر حضرت آدمؑ کا انہیں مشورہ کہ اﷲ کی راہ میں قربانی پیش کرو اس وقت جانور کے علاوہ زرعی اور پیداواری مال بھی قربانی کے لیے پیش کردیا جاتا تھا جو کسی پہاڑ کی چوٹی پر رکھ دیا جاتا تھا ایک قدرتی آگ آتی اور وہ مال بھسم کرجاتی تھی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ قربانی قبول ہوگئی نہ جلنے والا مال قربانی کے لیے نامنظور کہلاتا تھا۔ اس طرح ہابیل کا پیش کردہ جانور بھسم ہوگیا اور قابیل کا مال بچ گیا (نہ جلا) اس طرح اقلیما کی شادی ہابیل سے ہوگئی۔
عیدالاضحی کی قربانی اصل میں اس واقعہ عظیم کی یاد کو تازہ کرتی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کے اس خواب کے ذکر میں آیا ہے جو قربانی سے متعلق ہے، آپؑ نے یہ خواب مسلسل تین راتوں تک دیکھا پہلی رات یعنی آٹھ ذی الحج جسے شرعی اصطلاح میں یوم الترویہ کہا جاتا ہے لغت میں ترویہ کے معنی سیراب کرنا، پانی فراہم کرنا ہے۔
منیٰ اور عرفات میں چوں کہ پانی نہیں ہے۔ اس لیے ایام حج میں یعنی اسی تاریخ کو یہاں بہ ذریعہ ٹینکر پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ جس کی شہادت عازمین حج بھی دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں ترویہ کے معنی و مفہوم میں پانی پلانا لکھے ہیں چوں کہ لوگ اس دن اپنے اونٹوں کو نحر کرنے سے قبل پانی پلاتے تھے۔ بعض اہل زبان نے ترویہ کو رویت سے مشتق لیا ہے اس لیے اسے دیکھنے کے معنی میں لیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بھی چوں کہ خواب دیکھا تھا ۔
اس لیے اسے دیکھنے کے معنوں میں ترویہ لیا۔ اس کی ایک اور توجیہہ یہ بھی لکھی ہے کہ اس دن عازمین حج نماز فجر کے بعد احرام باندھ کر منیٰ کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور زادراہ کی خاطر پانی بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ ایک اور جگہ اس کے معنی سوچ کا دن لکھے ہیں کیوں کہ رات کے خواب کے بعد دن میں اس کی تعبیر کے بارے میں سوچا تھا، اس لیے اس دن کا نام یوم الترویہ پڑگیا۔ اس دن کا تعلق چوں کہ ایام حج سے بھی ہے اس لیے مختلف کتابوں میں جو روایتیں ہمیں ملتی ہیں ان سب کو مضمون میں یکجا کردیا گیا ہے۔ اسی طرح عرفہ کو بھی معانی کے ساتھ شامل کیا ہے تاکہ قارئین کو تاریخ اور مقا م سے اچھی طرح واقفیت ہوجائے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ جس میں حکم دیا جا رہا ہے کہ اپنی عزیز ترین شے ہماری راہ میں قربان کرو، صبح اٹھ کر آپ نے سوچا کہ کیا چیز قربان کی جائے کہ جس سے منشائے ایزدی پوری ہو جائے۔ آپؑ نے سو سرخ اونٹ قربان کردیے۔ دوسری رات پھر وہی خواب آیا چناں چہ آپؑ نے پھر ایسا ہی کیا، واضح ہو کہ حجاز کی سرزمین پر سرخ اونٹ شروع ہی سے بڑا قیمتی رہا ہے جسے صرف چند مخصوص افراد ہی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ وہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتا ہے۔
اس دوسرے دن جو آپؑ نے قربانی پیش کی وہ یوم عرفہ تھا جس کے معنی پہچاننے کے ہیں علماء لکھتے ہیں کہ جنت سے نکلنے کے بعد خطۂ زمین پر آدمؑ اور حوا ایک دوسرے سے بچھڑ چکے تھے اور پھر عرفات کے میدان میں انکا ملاپ ہُوا تھا جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو یوم عرفہ پہچان لیا تھا۔ اس لیے اسے عرفہ کا دن کہا جاتا ہے۔
اس کی دوسری توجیہہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس دن حضرت جبرئیلؑ نے حضرت ابراہیم ؑ کو مناسک حج سکھائے تھے ان مناسک کو سیکھنے کے لیے آپؑ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی۔ مفہوم: ''اور ہمیں اپنی عبادتیں (مناسک) سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما۔'' (سورہ بقرہ) عرفہ کے بارے میں جو کہ نو ذی الحج کا دن ہوتا ہے۔
تمام عازمین حج عرفات کے میدان میں آتے ہیں جو حج کارکن اعظم ہے یہاں کی حاضری ضروری ہے ورنہ حج نہیں ہوتا۔ اس دن عازمین حج اپنے آپ کو مجرموں کی طرح رب کائنات کے حضور پیش کرکے اپنے گناہوں کا اعتراف برملا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے چوں کہ عرفہ والی رات کو بھی یہ خواب دیکھا تھا اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے اپنے پہلے دن والے خواب کو پہچان لیا تھا کہ یہ وہی خواب ہے جو کل دیکھا تھا۔ اسی دن فجر کی نماز سے تیرہویں کی عصر تک تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد خواتین و حضرات پر چاہے وہ مقیم ہو یا مسافر ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔
تیسری رات آپؑ کو پھر وہی خواب دکھائی دیا اور یاد دہانی کروائی گئی کہ ابراہیم اپنی عزیز ترین شے قربان کرو۔ آپؑ نے اس موقع پر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا تو آپؑ کو حضرت اسمٰعیل نظر آئے تو آپؑ نے بیٹے سے تینوں راتوں کے خواب کا ذکر کیا جس کے بارے میں قرآن حکیم میں بھی ذکر ہُوا ہے۔ مفہوم: ''پھر جب وہ بچہ اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس نے کہا: میرے پیارے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے دیکھ رہا ہوں اب تُو بتا کہ تیری کیا رائے ہے۔ بیٹے نے جواب دیا: ابا جو حکم ہُوا ہے اسے بجا لائیے ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس نے اس کو (باپ نے بیٹے کو) کروٹ (جبیں) کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی: اے ابراہیم! یقیناً تُونے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا بے شک! ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا۔'' (سورہ الصافات)
مفسرین کرام ان آیات کی تشریح میں بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت اسمٰعیلؑ کی عمر13 برس تھی۔ پیغمبران کرام کے خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتے ہیں اس لیے بیٹے سے مشورہ کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امتثال امر الٰہی کے لیے کس حد تک تیار ہے ؟ اسی بیٹے کو اﷲ مستقبل میں پیغمبری کے لیے چن چکا تھا۔
اس لیے وہ بھی حکم الٰہی کے خلاف کیسے جاسکتا ہے۔ اور پھر ارشاد ہُوا اس کے فدیہ میں ہم نے ایک بڑا ذبیحہ (مینڈھا) اس کے فدیہ میں دے دیا ابراہیمؑ پر سلام ہو ہم نیکو کاروں کو اسی کا بدلہ دیتے ہیں بے شک! وہ ہمارے ایمان دار بندوں میں سے تھا اور ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا ابراہیم کامل ایمان دار بندوں میں سے تھا۔
یہ بڑا ذبیحہ ایک دنبہ تھا جو اﷲ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرئیلؑ کے ذریعے سے بھیجا پھر اسمٰعیلؑ کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر اس سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عیدالاضحی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔