کروسٹی کی مریخ پر لینڈنگ اور غیر ارضی تہذیب کی تلاش
اگر کوئی تہذیب ہم سے ترقی میں مقابلتاً دس ہزار سال پیچھے ہے تو اس کے پاس کوئی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نہیں ہوگی
September 21, 2012
یہ کائنات ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع و عریض ہے۔
مٹھی بھر ریت میں بھی دس ہزار ذرّات ہوتے ہیں اور یہ تعداد برہنہ آنکھ سے نظر آنے والے ستاروں سے زیادہ ہے لیکن جو بھی ستارے ہم برہنہ آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، وہ اصل ستاروں کی تعداد کا انتہائی کم ہیں، رات کو ہم جو کچھ آسمان پر ملاحظہ کرتے ہیں، وہ قریبی ستاروں کا افق ہے جب کہ کون و مکاں کا دامن لامحدود ستاروں سے لبریز ہے۔
کائنات میں موجود کل ستارے زمین پر موجود تمام ساحلوں کے تمام ریت کے ذرّات سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں۔ کیا ان میں کسی پر بھی کسی تہذیب نے کبھی بھی جنم نہیں لیا؟
ہماری دودھیا کہکشاں میں یقیناً زمین سے لاکھوں یا اربوں سال پرانے ستارے بھی ہوں گے۔ کیا ان کی مخلوق نے کبھی یہاں کا دورہ نہیں کیا ہوگا؟ ہمارے سیارے کے وجود میں آنے کے بعد سے کئی ارب سال کے دوران کیا کبھی ایک دفعہ بھی کسی دور دراز تہذیب کا کوئی عجیب و غریب خلائی جہاز ہماری فضا میں مشاہدے کے لیے نہیں اترا۔
ہماری زمین پر نہیں ٹھہرا جسے اس دور کی رنگ برنگی اژدرمکھیوں، لاپروا رینگنے والوں، چیخنے والے بن مانسوں اور متحیر انسانوں نے دیکھا؟ یہ خیال بڑا فطری ہے، یہ ہر اس بیدار مغز انسان کے ذہن میں آچکا ہوگا جس نے سرسری طور پر بھی کائنات میں زندگی کے بارے میں سوچا ہوگا۔
لیکن کیا درحقیقت ایسا ہوا؟ اصل معاملہ حاصل شدّہ ثبوت کے مستند ہونے کا ہے، جسے جرح اور شک کی کسوٹی پر جانچا گیا ہو، نہ کہ اس بات پر جو بظاہر بہت وزن رکھتی ہو یا جس کی بنیاد تصدیق ایک یا دو خودساختہ عینی شاہدوں نے کی ہو۔
اس حساب سے تو غیر ارضی تہذیب کے زمینی دورے کا کوئی بیّن ثبوت نہیں ملتا، باوجود یہ کہ اڑن طشتریوں اور قدیم خلابازوں کا چرچا کیا جاچکا ہے، جیسے یہ بن بلائے مہمان اکثر اوقات ہماری زمین کو شرفِ میزبانی بخشتے رہتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ کوئی ثبوت ملے، کوئی ایسا ثبوت جو ایک اجنبی اور پردیسی تہذیب کے رازوں کی کنجی ہو، یہ تصور ہم انسانوں کے لیے ہمیشہ بڑا پرکشش رہا ہے۔
ماہرینِ فلکیات کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ ہماری اور دوسری کہکشائوں میں ایسے سورج موجود ہوسکتے ہیں کہ جنھوں نے اپنے سیاروں پر مشتمل اپنے نظامِ شمسی بھی تشکیل دیے ہوں، جن میں زمین جیسے سیّاروں کی موجودگی کا بھی امکان ہو اور ان میں حیات اور نشوونما کے لیے سازگار ماحول بھی موجود ہو۔
1940 کے عشرے میں امریکی ماہرِ فلکیات فرینگ ڈریگ نے ہماری دودھیا کہکشاں میں ایسے سیّاروں کی تعداد کے تعین کے لیے کہ جہاں حامل فہم و ادراک مخلوق پائی جاسکتی ہے، ایک کلیہ وضع کیا۔
اس بنیاد پر بہت سے ایسے ماہرین نے جو دوسرے سیاروں میں غیر ارضی تہذیب کی موجودگی کے بارے میں خاصے پرامید ہیں، صرف ملکی وے (Milky way) میں جس کے ایک کنارے پر ہمارے نظامِ شمسی کا وجود ہے، ایک لاکھ پچیس ہزار سیاروں کا اندازہ لگایا ہے جہاں زندگی پائی جاسکتی ہے، ہماری کہکشاں میں تقریباً چار سو بلین سورجوں کی موجودگی اور ان کے درمیان نامیاتی سالمات کا پایا جانا اس خیال کو مزید تقویت عطا کرتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نظامِ شمسی کی پیدایش چار ارب سال قبل ہوئی۔ اس عرصے کے دوران مادرِ ارض پر ''ہومیوسپین'' یعنی زیرک انسان وجود میں آیا۔ اس طرح دوسرے سیاروں پر بھی اس طرح کی زندگی پروان چڑھ سکتی ہے، ناسا (Nasa) کے تحت قائم شدہ کائنات میں غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے آفس کے سربراہ کے خیال کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایسے سیارے موجود ہیں جہاں اس قسم کی حیات فروغ پاسکتی ہے اور جب ارض پر ایسا ہوسکتا ہے تو غیر ارض پر ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
لیکن ہم اپنے نظامِ شمسی میں کس حد تک ترقی یافتہ تہذیب کی توقع کرسکتے ہیں؟ اگر کوئی تہذیب ہم سے ترقی میں مقابلتاً دس ہزار سال پیچھے ہے تو اس کے پاس کوئی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی نہیں ہوگی۔ اگر وہ ہم سے کچھ آگے ہیں تو یقیناً اب تک یہاں کا دورہ کرچکے ہوں گے، کیونکہ ہم تو خود نظامِ شمسی کی چھان بین کررہے ہیں۔
دوسری تہذیبوں سے رابطے کے لیے ہمیں ایسا طریقہ درکار ہے جو نہ صرف بین السیارہ بلکہ بین الستارہ بھی رابطے کے لیے سازگار ہو۔ مثالی صورت حال تو یہ ہونی چاہیے کہ یہ طریقہ سستا اور تیز رفتار ہو تاکہ زیادہ معلومات بھیجی اور حاصل کی جاسکیں اور خلائی مکالمہ ہوسکے، ساتھ ہی اتنا واضح بھی ہو تاکہ کوئی بھی تہذیب، چاہے جیسے بھی ارتقائی حالت سے گزری ہو، اسے جلد سمجھ سکتے۔ خوش قسمتی سے ایسا ایک طریقہ ہے، جسے ریڈیو فلکیات کہتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی غیر ارضی تہذیب سے کوئی پیغام وصول کرلیں تو اسے کس طرح سمجھیں گے؟ غیر ارضی تہذیب یقیناً پیچیدہ، نفیس، اندرونی طور پر پختہ اور قطعی اجنبی ہوگی۔
ظاہر ہے کہ وہ یہ چاہیں گے کہ ہمارے لیے اس پیغام کو آسان بنائیں، جتنا کہ وہ بناسکتے ہیں، لیکن ایسا کیونکر ہوگا؟ کیا ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ ہوگا ہم سمجھتے ہیں کہ یقیناً ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسی مشترکہ زبان ضرور ہے جو تمام تیکنیکی تہذیبیں، چاہے جس قدر مختلف کیوں نہ ہوں، جانتی ہیں کہ مشترکہ زبان سائنس اور ریاضی ہے۔
قوانینِ قدرت ہر جگہ ایک ہی ہیں۔ دور دراز ستاروں اور کہکشائوں کے طیفوں کے نقوش ایک جیسے ہیں، نہ صرف کائنات میں، ہر جگہ یکساں کیمیائی عناصر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ کوانٹم قوانین بھی یکساں ہیں جو ایٹمی شعاعوں کے جذب اور خارج ہونے پر لاگو ہوتے ہیں۔
کہکشائیں جو ایک دوسرے کے گرد گھوم رہی ہیں، انھی ثقلی قوانین پر عمل کرتی ہیں، جن کا اطلاق زمین پر گرنے والے سیب یا خلا میں پرواز کرنے والے خلائی جہاز وائجر پر ہوتا ہے۔ قدرت کے نقوش ہر مقام پر ایک ہی قسم کے ہیں۔ ایک خلائی پیغام جسے ہم جیسی ترقی یافتہ تہذیب کے لیے بھیجا گیا ہو۔ بظاہر تو آسانی سے سمجھ میں آجانا چاہیے۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے ''غیر ارضی تہذیب کی تلاش'' کے کام کا آغاز 1978 میں کیا اور اس سلسلے میں کئی اہم تحقیقاتی خلائی مشن اب تک خلا میں روانہ کیے جاچکے ہیں۔ غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سلسلے میں پائینر 10، 11 اور 12 خلا میں روانہ کیے گئے۔
ان میں ایک تختی رکھی ہے، جس پر یہ عبارت درج ہے کہ انسان نظامِ شمسی میں صرف سیارہ زمین پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ وائجر اوّل و دوم اور وائی کنگ وغیرہ بھی خلا میں ستاروں کی جانب رواں دواں ہیں۔
ان خلائی جہازوں میں زمین اور زمین والوں کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ موجود ہے، تاہم اس ضمن میں سب سے اہم پیش رفت وہ حالیہ کامیابی ہے جو گذشتہ دنوں ناسا کے ہاتھوں اس وقت عمل میں آئی کہ جب امریکی خلائی گاڑی ''کروسٹی'' خلائے بسیط و بے کراں کی طویل وسعتوں کو طے کرتی ہوگئی بالآخر کامیابی کے ساتھ سطح مریخ پر لینڈنگ کرکے فلکیات کی تاریخ کا ایک نیا اور انوکھا باب رقم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
ابنِ آدم کا مریخ سے عشق بہت پرانا ہے اور تسخیرِ چاند کے بعد فتح مریخ ہی حضرت انسان کی اوّلین خواہش و منزل رہی، اس سرخ سیارے پر ''کروسٹی'' کی تاریخ ساز لینڈنگ درحقیقت انسان کے ایک اور طویل خواب کی تعبیر ہے۔
ناسا نے ''کروسٹی'' کے ذریعے فتح مریخ کے پہلے مرحلے کو طے کرکے تاریخِ انسانی کا ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے جس سے مریخ کے کئی خفیہ گوشے وا ہوں گے، سربستہ رازوں پر سے پردہ اٹھے گا اور انسان جس کے لیے یہ ساری کائنات مسخر کردی گئی ہے، اب مریخ کے بعد نظامِ شمسی کے دیگر اہم سیاروں کے بھی مزید راز افشاں کرے گا۔
سائنس دانوں کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ مریخ کا ماحول زمین سے مشابہہ یا قریب ترین ہونے کی وجہ سے وہاں کسی بھی قسم کی زندگی یا غیر ارضی تہذیب کے قوی امکانات ہیں۔ ابتدائی تصاویر سے تو کسی تہذیب کے آثار سطح مریخ پر دِکھائی نہیں دیتے تاہم سطح مریخ کا جب تک مکمل جائزہ نہ لے لیا جائے، آخری و حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ بہرحال ''کروسٹی'' اگر مریخ پر زندگی کے آثار یا تہذیب کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ عظیم کامیابی حضرتِ انسان کے ارتقاء کی تاریخ میں اہم سنگِ میل ثابت ہوگی۔