اخلاقی زوال تنزلی کی اصل بنیاد ہے
پاکستان معاشی، سماجی اور اخلاقی طور پر ڈوبتا ہوا ٹائی ٹینک ہے۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کی کسی قسم کی اہمیت نہیں
جان جیکب اسٹر چہارم(John Jacob Astor iv)، 1912میں دنیا کے امیر ترین انسانوں میں شامل ہو چکا تھا۔
ایک صدی سے بھی کچھ عرصہ زیادہ ہی کی بات ہے، جیکب کی مجموعی دولت نوے ملین ڈالر تھی جو آج کے حساب سے تین بلین ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔ جان جیکب ٹائی ٹینک (Titanic) جہاز میں سب سے امیر مسافر تھا۔ اس کے ساتھ اس کی اہلیہ، نرس، ملازمین بھی محو سفر تھے۔ ٹائی ٹینک، اپنے وقت میں دنیا کا بہترین بحری جہاز تصور کیا جاتا تھا۔
اس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ کبھی بھی ڈوب نہیں سکتا۔ اس کا حجم بھی بہت زیادہ تھا۔ ٹائی ٹینک کی لمبائی 883 فٹ اور چوڑائی بانوے فٹ تھی۔ اس کا وزن 52,310 ٹن تھا۔ اونچائی بھی بے مثال تھی۔ بلندی میں یہ 175 فٹ تھا۔ اپنے وقت کا یہ بے مثال بحری جہاز خوبصورتی، ذوق اور دولت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ جان جیکب کی اہلیہ امید سے تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی اولاد امریکا میں پیدا ہو۔ لندن سے نیویارک جانے کی ابتدائی تقریب حددرجہ شاندار تھی۔
ان گنت لوگوں نے ٹائی ٹینک کے مسافروں کو الوداع کہا۔ چودہ اپریل 1912کو جہاز کے کپتانEdward Smith نے تمام مسافروں کی فقید المثال دعوت کی۔ جہاز میں ایک ہزار کے قریب ملازم تھے اور مسافروں کی تعداد تیرہ سو تھی۔ جس شام کو جہاز کے کپتان نے مسافروں کے لیے دعوت کا اہتمام کیا، اسی شب بحری جہاز ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا۔ جان جیکب، فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا۔ جہاز کے عملے نے اسے بتایا کہ ٹائی ٹینک کو بالکل معمولی سا نقصان ہوا ہے۔ اور فکر کی کوئی بات نہیں۔ مگر قدرت کا فیصلہ بالکل متضاد تھا۔ دنیا کا بیش قیمت جہاز ڈوبنا شر وع ہو گیا۔
فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے لائف بوٹس موجود تھیں۔ اب معاملہ حددرجہ سنگین ہو چکا تھا بلکہ موت کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ جو لائف بوٹ اسٹر کے حوالے کی گئی، اس میں اسٹر نے بڑے اطمینان سے اپنی اہلیہ کو بٹھایا۔ ساتھ ہی اپنی نرس اور ملازمہ کو بھی سوار کروایا۔
موت سامنے کھڑی تھی۔ اسٹر نے اس خوفناک صورت حال میں بچوں اور خواتین کی مدد کرنی شروع کر دی۔ ان کو لائف بوٹس میں تیزی سے بٹھاتا رہا مگر بذات خود اس نے لائف بوٹ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ جہاز کے عملے کو کہا کہ بچوں اور خواتین کو زندہ رہنے کا حق، اس کی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔ لائف بوٹ نمبر 4، 1:55 am پر سمندر میں حفاظت سے اتار دی گئی۔اسٹر نے حددرجہ احترام سے بچوں اور خواتین کو الوداع کہا۔ دو بج کر بیس منٹ پر جہاز ڈوب گیا۔ اور اسٹر بھی اس کے ساتھ ڈوب گیا۔
یہاں ایک حددرجہ اہم نکتہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اسٹر دنیا کا امیر ترین انسان تھا۔ لائف بوٹ نمبر 4 میں بڑے آرام سے بیٹھ کر اپنی جان بچا سکتا تھا۔ اسے بارہا عملہ نے کہا کہ، جیکب صاحب، آپ فوراً لائف بوٹ میں سوار ہو جائیں۔ مگر جیکب اسٹر نے بچوں اور خواتین کی زندگی کو اپنی زندگی پر ترجیح دی۔ اور حددرجہ عزت کے ساتھ ملک عدم روانہ ہو گیا۔ مرتے دم تک، وہ مسافروں کی مدد کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ موت کے منہ میں کھڑا ہے۔ مگر وہ مسکراتا رہا اور بچوں اور عورتوں کو حوصلہ دیتا رہا۔ انھیں حفاظت سے کشتی میں سوار کرواتا رہا۔ کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا کے سب سے بڑے رئیس انسان نے اپنی جان، دوسروں کے لیے کیوں قربان کر دی؟
جن بچوں اور خواتین کو وہ آخری سانس تک بچاتا رہا، ان سے اس کی معمولی سی بھی جان پہچان نہیں تھی۔ وہ سارے انسان اس کے لیے اجنبی تھے۔ کیا وہ اپنی جان نہیں بچا سکتا تھا؟ اس کا جواب تلاش کرنا حددرجہ آسان مگر بہت زیادہ مشکل ہے۔ اخلاقیات کی جس سرفرازی پر جیکب براجمان تھا، اس کے سامنے، اس کی اپنی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کی دولت کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اگر کسی چیز کی اہمیت تھی تو صرف اور صرف انسانیت اور لوگوں کی خدمت اور مدد کا جذبہ تھا۔ دوسرے لفظوں میں جیکب اتنے بلند کردار کا مالک تھا کہ اس نے اپنی ذات تک کی نفی کر دی۔
اخلاقیات کا یہ انمول سبق صرف اور صرف ایک صدی پرانا ہے۔ ذرا سوچیے! غور فرمائیے! دنیا کے تمام پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کی اخلاقی تربیت فرمائی۔ اس معاملے میں تمام الہامی مذاہب میں حددرجہ یکسانیت ہے۔ کسی الہامی کتاب کو پڑھیے، آپ کو اس میں انسان کے بلند کردار کی تشکیل کے فرمودات نظر آئیں گے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہو کر آخری پیغمبر رسول کریمﷺ تک آیئے۔ آپ کو صرف اور صرف ایک نکتہ پر ارتکاز نظر آئے گا۔ خود اپنے آپ سے پوچھئے؟ دراصل نبی، اپنی امتوں کو بہتر انسان بنانے کے احکامات فرماتے رہے۔ رسول کریمﷺ کی پوری زندگی، اپنے صحابیوں کو اخلاقیات کا درس دیتے گزری۔ نتیجہ وہ نکلا کہ جس پر پوری دنیا آج بھی حیران ہے۔
نبی پاکﷺ کے پردہ فرمانے کے صرف بیس سے تیس برس کے اندر اندر، مسلمان، پوری دنیا کی سپرپاورز کو شکست فاش دے چکے تھے۔ فارس اور رومن سلطنتیں، ان کے سامنے سرنگوں ہو چکی تھیں۔ تاریخ کو پڑھیے۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے پاس جنگ وجدل کے اسباب تو حددرجہ قلیل تھے۔ ہتھیاروں سے لے کر ہاتھی گھوڑے سب ہی کم تھے پھر کیا وجہ تھی کہ وہ ہر جگہ حاوی رہے؟ یہ اس تربیت کا اعجاز تھا جسے ہمارے پیارے رسولﷺ نے ان کے ایمان کا حصہ بنا دیا تھا۔
بچوں، بوڑھوں اور معذوروں پر ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا تھا۔ فتح کے بعد شہریوں کو معاہدے کے تحت امان حاصل ہوتی تھی۔ درخت اور فصلیں تباہ نہیں کی جاتی تھیں۔ فتح کے بعد، ان لوگوں کے کردار کو دیکھ کر، عام لوگ خودبخود اسلام کی طرف مائل ہو جاتے تھے، کردار اور اخلاقیات کی بلندی، قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے پاس وہ اثاثہ تھا جس سے پوری دنیا ہیچ ہو جاتی تھی۔ یہ دور ہمارا سنہرا ترین دور تھا۔
مگر اس کے متضاد اگر اب، میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو بلند اخلاقیات کا تو خیر کیا ذکر کروں، اخلاقی پستی کی لازوال داستانیں نظر آتی ہیں۔ ہرگز ہرگز کوئی دینی مبلغ نہیں ہوں۔ ہمارے ملک میں پندرہ ہزار کے قریب مساجد موجود ہیں۔ دینی مدارس کی تعداد بھی چالیس ہزار ہے۔ ان میں ہر دم علماء کوشش کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو پند ونصائح سے بہتر بنائیں۔ ان کی اخلاقی تربیت کریں! انھیں بہتر انسان بنائیں مگر عملی طور پر زندگی کے کسی ایک شعبے میں بھی زوال کم نہیں ہو رہا بلکہ بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی خاص طبقہ کے متعلق عرض نہیں کر رہا۔ مگر ہر طرف ابتری دیکھ کر دل دکھتا ہے۔
ملک میں آپ سیاست دانوں، سرکاری ملازمین، عدلیہ اور ریاستی اداروں کو پرکھئے۔ آپ کو کسی بھی مقام پر کوئی بلند خیالی یا بہتر عمل نظر نہیں آئے گا۔ جب عدلیہ کے اہم ترین لوگ اپنے بیانات کے برعکس، سینہ تان کر کام کرنا شروع کر دیں، جہاں آئین کو پیروں تلے روند دیا جائے، جہاں قانون صرف اور صرف غریب آدمی کے لیے ہو، جہاں طاقتور، عام آدمی کی عزت، مال کو ہڑپ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوں، وہاں ترقی تو محال، اس ریاست کا بطور ریاست برقرار رہنا مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے۔ سرکاری ملازم سے شروع کرتا ہوں۔
ہماری بیورو کریسی میں حددرجہ قابل اور ایماندار لوگ موجود ہیں۔ لیکن انھیں کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے نزدیک بھٹکنے نہیں دیتا۔ صرف انھیں افسروں کو دربار میں خلعت عطا کی جاتی ہے جو کماؤ پوت ہوں۔ اس میں کسی قسم کا کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ عمران خان، آل شریف، آل زرداری عملی طور پر بالکل ایک جیسے رویوں کے مالک ہیں۔ شاید کچھ لوگ مجھ سے ناراض ہو جائیں کہ میں نے عمران خان کو اس ادنیٰ فہرست میں کیوں شامل کیا ہے۔
حضور، عثمان بزدار سے لے کر ان کے وزراء کی اکثریت، ایمانداری کے قریب نہیں پھٹکتی تھی۔ خان صاحب کے اردگرد! آپ کو بہت کم افراد نظر آئیں گے، جو مالی آلودگی سے مبرا ہوں۔ آل شریف کا تو خیر ذکر ہی کیا کرنا ... کیونکہ پینتیس برس تک حکومت کرنے کے باوجود وہ بلند بانگ دعوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کر پائے۔
پاکستان معاشی، سماجی اور اخلاقی طور پر ڈوبتا ہوا ٹائی ٹینک ہے۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کی کسی قسم کی اہمیت نہیں۔ پوری دنیا میں کسی ایک جگہ بھی ہمیں اور ہمارے رہنماؤں کو قدر ومنزلت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ مگر ہو کیا رہا ہے۔ ڈوبتے ہوئے جہاز میں موجودہ اکابرین، ہر طرح کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
انھیں صرف اور صرف ناجائز دولت کمانے کی فکر ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر بحری جہاز ٹائی ٹینک میں پاکستانی لوگ اور لیڈر سفر کر رہے ہوتے تو کیا یہ ڈوبتے جہاز میں جیکب کی طرح عوام کو لائف بوٹ میں بٹھاتے۔ اور خود عزت سے موت قبول کر لیتے؟ جواب کیا دینا۔ وہ تو ہم سب کو معلوم ہے!
ایک صدی سے بھی کچھ عرصہ زیادہ ہی کی بات ہے، جیکب کی مجموعی دولت نوے ملین ڈالر تھی جو آج کے حساب سے تین بلین ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔ جان جیکب ٹائی ٹینک (Titanic) جہاز میں سب سے امیر مسافر تھا۔ اس کے ساتھ اس کی اہلیہ، نرس، ملازمین بھی محو سفر تھے۔ ٹائی ٹینک، اپنے وقت میں دنیا کا بہترین بحری جہاز تصور کیا جاتا تھا۔
اس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ کبھی بھی ڈوب نہیں سکتا۔ اس کا حجم بھی بہت زیادہ تھا۔ ٹائی ٹینک کی لمبائی 883 فٹ اور چوڑائی بانوے فٹ تھی۔ اس کا وزن 52,310 ٹن تھا۔ اونچائی بھی بے مثال تھی۔ بلندی میں یہ 175 فٹ تھا۔ اپنے وقت کا یہ بے مثال بحری جہاز خوبصورتی، ذوق اور دولت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ جان جیکب کی اہلیہ امید سے تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی اولاد امریکا میں پیدا ہو۔ لندن سے نیویارک جانے کی ابتدائی تقریب حددرجہ شاندار تھی۔
ان گنت لوگوں نے ٹائی ٹینک کے مسافروں کو الوداع کہا۔ چودہ اپریل 1912کو جہاز کے کپتانEdward Smith نے تمام مسافروں کی فقید المثال دعوت کی۔ جہاز میں ایک ہزار کے قریب ملازم تھے اور مسافروں کی تعداد تیرہ سو تھی۔ جس شام کو جہاز کے کپتان نے مسافروں کے لیے دعوت کا اہتمام کیا، اسی شب بحری جہاز ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا۔ جان جیکب، فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا۔ جہاز کے عملے نے اسے بتایا کہ ٹائی ٹینک کو بالکل معمولی سا نقصان ہوا ہے۔ اور فکر کی کوئی بات نہیں۔ مگر قدرت کا فیصلہ بالکل متضاد تھا۔ دنیا کا بیش قیمت جہاز ڈوبنا شر وع ہو گیا۔
فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے لائف بوٹس موجود تھیں۔ اب معاملہ حددرجہ سنگین ہو چکا تھا بلکہ موت کی حدود میں داخل ہو چکا تھا۔ جو لائف بوٹ اسٹر کے حوالے کی گئی، اس میں اسٹر نے بڑے اطمینان سے اپنی اہلیہ کو بٹھایا۔ ساتھ ہی اپنی نرس اور ملازمہ کو بھی سوار کروایا۔
موت سامنے کھڑی تھی۔ اسٹر نے اس خوفناک صورت حال میں بچوں اور خواتین کی مدد کرنی شروع کر دی۔ ان کو لائف بوٹس میں تیزی سے بٹھاتا رہا مگر بذات خود اس نے لائف بوٹ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ جہاز کے عملے کو کہا کہ بچوں اور خواتین کو زندہ رہنے کا حق، اس کی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔ لائف بوٹ نمبر 4، 1:55 am پر سمندر میں حفاظت سے اتار دی گئی۔اسٹر نے حددرجہ احترام سے بچوں اور خواتین کو الوداع کہا۔ دو بج کر بیس منٹ پر جہاز ڈوب گیا۔ اور اسٹر بھی اس کے ساتھ ڈوب گیا۔
یہاں ایک حددرجہ اہم نکتہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اسٹر دنیا کا امیر ترین انسان تھا۔ لائف بوٹ نمبر 4 میں بڑے آرام سے بیٹھ کر اپنی جان بچا سکتا تھا۔ اسے بارہا عملہ نے کہا کہ، جیکب صاحب، آپ فوراً لائف بوٹ میں سوار ہو جائیں۔ مگر جیکب اسٹر نے بچوں اور خواتین کی زندگی کو اپنی زندگی پر ترجیح دی۔ اور حددرجہ عزت کے ساتھ ملک عدم روانہ ہو گیا۔ مرتے دم تک، وہ مسافروں کی مدد کرتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ موت کے منہ میں کھڑا ہے۔ مگر وہ مسکراتا رہا اور بچوں اور عورتوں کو حوصلہ دیتا رہا۔ انھیں حفاظت سے کشتی میں سوار کرواتا رہا۔ کیا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا کے سب سے بڑے رئیس انسان نے اپنی جان، دوسروں کے لیے کیوں قربان کر دی؟
جن بچوں اور خواتین کو وہ آخری سانس تک بچاتا رہا، ان سے اس کی معمولی سی بھی جان پہچان نہیں تھی۔ وہ سارے انسان اس کے لیے اجنبی تھے۔ کیا وہ اپنی جان نہیں بچا سکتا تھا؟ اس کا جواب تلاش کرنا حددرجہ آسان مگر بہت زیادہ مشکل ہے۔ اخلاقیات کی جس سرفرازی پر جیکب براجمان تھا، اس کے سامنے، اس کی اپنی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اس کی دولت کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اگر کسی چیز کی اہمیت تھی تو صرف اور صرف انسانیت اور لوگوں کی خدمت اور مدد کا جذبہ تھا۔ دوسرے لفظوں میں جیکب اتنے بلند کردار کا مالک تھا کہ اس نے اپنی ذات تک کی نفی کر دی۔
اخلاقیات کا یہ انمول سبق صرف اور صرف ایک صدی پرانا ہے۔ ذرا سوچیے! غور فرمائیے! دنیا کے تمام پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کی اخلاقی تربیت فرمائی۔ اس معاملے میں تمام الہامی مذاہب میں حددرجہ یکسانیت ہے۔ کسی الہامی کتاب کو پڑھیے، آپ کو اس میں انسان کے بلند کردار کی تشکیل کے فرمودات نظر آئیں گے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہو کر آخری پیغمبر رسول کریمﷺ تک آیئے۔ آپ کو صرف اور صرف ایک نکتہ پر ارتکاز نظر آئے گا۔ خود اپنے آپ سے پوچھئے؟ دراصل نبی، اپنی امتوں کو بہتر انسان بنانے کے احکامات فرماتے رہے۔ رسول کریمﷺ کی پوری زندگی، اپنے صحابیوں کو اخلاقیات کا درس دیتے گزری۔ نتیجہ وہ نکلا کہ جس پر پوری دنیا آج بھی حیران ہے۔
نبی پاکﷺ کے پردہ فرمانے کے صرف بیس سے تیس برس کے اندر اندر، مسلمان، پوری دنیا کی سپرپاورز کو شکست فاش دے چکے تھے۔ فارس اور رومن سلطنتیں، ان کے سامنے سرنگوں ہو چکی تھیں۔ تاریخ کو پڑھیے۔ قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے پاس جنگ وجدل کے اسباب تو حددرجہ قلیل تھے۔ ہتھیاروں سے لے کر ہاتھی گھوڑے سب ہی کم تھے پھر کیا وجہ تھی کہ وہ ہر جگہ حاوی رہے؟ یہ اس تربیت کا اعجاز تھا جسے ہمارے پیارے رسولﷺ نے ان کے ایمان کا حصہ بنا دیا تھا۔
بچوں، بوڑھوں اور معذوروں پر ہاتھ نہیں اٹھایا جاتا تھا۔ فتح کے بعد شہریوں کو معاہدے کے تحت امان حاصل ہوتی تھی۔ درخت اور فصلیں تباہ نہیں کی جاتی تھیں۔ فتح کے بعد، ان لوگوں کے کردار کو دیکھ کر، عام لوگ خودبخود اسلام کی طرف مائل ہو جاتے تھے، کردار اور اخلاقیات کی بلندی، قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے پاس وہ اثاثہ تھا جس سے پوری دنیا ہیچ ہو جاتی تھی۔ یہ دور ہمارا سنہرا ترین دور تھا۔
مگر اس کے متضاد اگر اب، میں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں تو بلند اخلاقیات کا تو خیر کیا ذکر کروں، اخلاقی پستی کی لازوال داستانیں نظر آتی ہیں۔ ہرگز ہرگز کوئی دینی مبلغ نہیں ہوں۔ ہمارے ملک میں پندرہ ہزار کے قریب مساجد موجود ہیں۔ دینی مدارس کی تعداد بھی چالیس ہزار ہے۔ ان میں ہر دم علماء کوشش کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو پند ونصائح سے بہتر بنائیں۔ ان کی اخلاقی تربیت کریں! انھیں بہتر انسان بنائیں مگر عملی طور پر زندگی کے کسی ایک شعبے میں بھی زوال کم نہیں ہو رہا بلکہ بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی خاص طبقہ کے متعلق عرض نہیں کر رہا۔ مگر ہر طرف ابتری دیکھ کر دل دکھتا ہے۔
ملک میں آپ سیاست دانوں، سرکاری ملازمین، عدلیہ اور ریاستی اداروں کو پرکھئے۔ آپ کو کسی بھی مقام پر کوئی بلند خیالی یا بہتر عمل نظر نہیں آئے گا۔ جب عدلیہ کے اہم ترین لوگ اپنے بیانات کے برعکس، سینہ تان کر کام کرنا شروع کر دیں، جہاں آئین کو پیروں تلے روند دیا جائے، جہاں قانون صرف اور صرف غریب آدمی کے لیے ہو، جہاں طاقتور، عام آدمی کی عزت، مال کو ہڑپ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوں، وہاں ترقی تو محال، اس ریاست کا بطور ریاست برقرار رہنا مشکل سے مشکل تر ہو جاتا ہے۔ سرکاری ملازم سے شروع کرتا ہوں۔
ہماری بیورو کریسی میں حددرجہ قابل اور ایماندار لوگ موجود ہیں۔ لیکن انھیں کوئی وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے نزدیک بھٹکنے نہیں دیتا۔ صرف انھیں افسروں کو دربار میں خلعت عطا کی جاتی ہے جو کماؤ پوت ہوں۔ اس میں کسی قسم کا کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ عمران خان، آل شریف، آل زرداری عملی طور پر بالکل ایک جیسے رویوں کے مالک ہیں۔ شاید کچھ لوگ مجھ سے ناراض ہو جائیں کہ میں نے عمران خان کو اس ادنیٰ فہرست میں کیوں شامل کیا ہے۔
حضور، عثمان بزدار سے لے کر ان کے وزراء کی اکثریت، ایمانداری کے قریب نہیں پھٹکتی تھی۔ خان صاحب کے اردگرد! آپ کو بہت کم افراد نظر آئیں گے، جو مالی آلودگی سے مبرا ہوں۔ آل شریف کا تو خیر ذکر ہی کیا کرنا ... کیونکہ پینتیس برس تک حکومت کرنے کے باوجود وہ بلند بانگ دعوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کر پائے۔
پاکستان معاشی، سماجی اور اخلاقی طور پر ڈوبتا ہوا ٹائی ٹینک ہے۔ ہمارے سبز پاسپورٹ کی کسی قسم کی اہمیت نہیں۔ پوری دنیا میں کسی ایک جگہ بھی ہمیں اور ہمارے رہنماؤں کو قدر ومنزلت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ مگر ہو کیا رہا ہے۔ ڈوبتے ہوئے جہاز میں موجودہ اکابرین، ہر طرح کی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔
انھیں صرف اور صرف ناجائز دولت کمانے کی فکر ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر بحری جہاز ٹائی ٹینک میں پاکستانی لوگ اور لیڈر سفر کر رہے ہوتے تو کیا یہ ڈوبتے جہاز میں جیکب کی طرح عوام کو لائف بوٹ میں بٹھاتے۔ اور خود عزت سے موت قبول کر لیتے؟ جواب کیا دینا۔ وہ تو ہم سب کو معلوم ہے!