ایک اور صحافی کا قتل
پولیس اپنے دعوؤں کے باوجود نصراﷲ گڈانی کے قاتلوں تک نہیں پہنچ سکی
ایک صحافی اور قتل ہوا۔ پولیس اپنے دعوؤں کے باوجود نصراﷲ گڈانی کے قاتلوں تک نہیں پہنچ سکی۔ نصراﷲ گڈانی کو سندھ اور پنجاب کے متصل علاقے میر پور ماتھیلو میں قتل کیا گیا۔
میر اشتیاق سیال پنجاب میں قتل ہوئے۔ وزیرستان میں ایک صحافی کامران داوڑکو بھی نامعلوم افراد نے نشانہ بنایا۔ گزشتہ ماہ خضدار پریس کلب کے صدر محمد صدیق مینگل نامعلوم افراد کے ریموٹ کنٹرول بم کا شکار ہوئے۔
نصراﷲ گڈانی کی والدہ کی مسلسل کوششوں کے بعد ایک ہفتے بعد قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ سینئر صحافی مظہر عباس کی قیادت میں صحافی تنظیمیں گزشتہ سال سے سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے تحریک چلا رہی ہیں۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ جان محمد مہر کے قاتل کچے کے علاقہ میں روپوش ہیں۔
نگران وزیر اعلیٰ جسٹس باقر نے وعدہ کیا تھا کہ قاتل جلد گرفتار ہوجائیں گے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی ایسا ہی وعدہ کیا مگر یہ وعدے پورے نہ ہوئے۔ چاروں صوبوں کے منتخب رہنماؤں نے صحافیوں کے قتل کی مذمت کی اور قتل میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔
وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر اطلاعات کے صحافیوں کے قتل کا نوٹس لینے کی خبریں میڈیا میں نمایاں طور پر شایع اور نشر ہوئیں اور وزراء نے قتل ہونے والے صحافیوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا عندیہ دیا، پھر خاموشی چھا گئی۔ صحافیوں کے قتل، ان پر حملوں اور صحافیوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات نہیں رکے جس کی بناء پر صحافیوں کے تحفظ اور آزادئ صحافت سے متعلق رینکنگ میں پاکستان تنزلی کا شکار ہوا ۔
صحافیوں کے تحفظ اور بین الاقوامی سطح پر آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے سرگرداں صحافیوں کی عالمی تنظیم Reporters without borders نے آزادئ صحافت کے معیار کوجانچنے والے انڈیکس جس میں دنیا بھر کے 180 ممالک شامل ہیں، میں پاکستان کا 152واں نمبر ہے اور ایک اور بین الاقوامی تنظیم Committee to protect journalists global impunity index نے پاکستان کو 11ویں نمبر پر لکھا ہے۔ آزادئ صحافت کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا مدعا ہے کہ سندھ میں صحافیوں کے حالات زیادہ خراب ہیں۔
صحافیوں کی ایک اور تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2023سے اس سال مارچ2024کے دوران پورے ملک میں آزادئ صحافت پر حملے کرنے والی وارداتوں کی 33 فیصد شرح سندھ میں ہوئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادئ صحافت پر حملوں میں قتل، قاتلانہ حملے، اغواء کی وارداتیں، انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے دھمکیاں اور مقدمات کا اندراج شامل ہے۔ یورپی یونین اور آزادئ صحافت کی تحفظ کی بین الاقوامی تنظیموں نے گزشتہ کئی برسوں سے بار بار یہ مطالبہ کیا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کیا جائے۔
تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن کے قیام پر اصولی طور پر اتفاق کا اظہار کیا تھا اور عمران خان کی حکومت نے اعلیٰ سطح کمیشن کے قیام کے لیے پارلیمنٹ سے قانون بھی منظور کرا لیا تھا مگر گزشتہ حکومت نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ کمیشن قائم نا کرسکی۔
میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ صحافی تنظیموں کے مسلسل مطالبات کے باوجود ایسا کمیشن قائم کرنے کے لیے وفاقی سطح پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی ہے مگر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی برسر اقتدار حکومتوں نے بھی اپنے اپنے صوبوں میں کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی میں دلچسپی نہیں لی، مگر پیپلزپارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی دلچسپی کی بناء پر سندھ اسمبلی نے قانون سازی کی اور Sindh Commission for the protection of journalists and other media practitioners (PJMC) کا قیام عمل میں آیا تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی کمیشن کے پہلے چیئرپرسن مقرر ہوئے۔
اس کمیشن نے اپنے قیام کے ساتھ صحافیوں کے لاپتہ ہونے، قتل اور پر تشدد واقعات کا سخت نوٹس لیا اور کمیشن کے فوری نوٹس کے بعد لاپتہ ہونے والے تین صحافی اپنے گھروں کو باحفاظت پہنچ گئے۔ گزشتہ سال جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی طویل بیماری کے بعد انتقال کر گئے اور نگراں حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس نذر اکبر کو نیا چیئرپرسن مقرر کیا۔ اگرچہ ابھی تک کمیشن کو اپنا دفتر نہیں مل سکا مگر اس کے باوجود کمیشن نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
نصر اللہ گڈانی کے قتل کے بعد ہونے والے کمیشن کے اجلاس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ سندھ کا سکھر ڈویژن مسلسل بدامنی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں صحافیوں کے لیے حالاتِ کار انتہائی خراب ہیں۔ گزشتہ سال سکھر ڈویژن میں ایک صحافی جان محمد مہر کو قتل کیا گیا تھا۔ صحافیوں کے کمیشن نے اس قتل کی باقاعدہ نگرانی کی۔ کمیشن کے ارکان اس نتیجے پر پہنچے کہ سکھر ڈویژن کی پولیس، صحافیوں اور عام شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ڈاکو مسلسل صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ اب پھر سکھر ڈویژن میں نصر اللہ گڈانی کے قتل کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی ظاہر ہوئی ہے۔ کمیشن نے نصر اللہ گڈانی کے قتل کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہدایت کی کہ سکھر ڈویژن کے علاوہ سندھ کے تین دیگر ڈویژن کے ڈی آئی جی کی قیادت میں جے آئی ٹی بنا کر اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں۔
سی پی این ای کے متحرک رکن ڈاکٹر جبار خٹک جن کے ادارے میں نصر اللہ گڈانی کام کرتے تھے کا کہنا ہے کہ نصر اللہ گڈانی ایک فعال رہنما تھے۔ انھوں نے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرنے والوں کو ایکسپوز کرنا شروع کیا تھا۔ نصر اﷲ گڈانی کے بیانیے سے مقامی انتظامیہ اتنی پریشان ہوئی تھی کہ گڈانی کو امن و امان کے قانون MPO کے تحت نظربند کیا گیا۔ جب صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن نے گڈانی کی غیر قانونی نظربندی کا نوٹس لیا تو پھر انتظامیہ نے نظربندی کے احکامات واپس لیے تھے۔
میرپور ماتھیلو اور گھوٹکی کے صحافیوں کو خدشہ ہے کہ علاقے کے بااثر افراد گڈانی کے قتل کی سازش کے کردار ہیں ۔ دو سال قبل سکھر کے مضافاتی علاقے کے ایک غریب ہندو خاندان کی 11سالہ لڑکی پریا کماری محرم کی سبیل پر زائرین کو پانی پلاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھی مگر سکھر پولیس دو سال سے اس لڑکی کو تلاش نہیں کرسکی ہے۔
یہ شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس علاقے کے بااثر افراد اس بچی کے اغواء کرنے والوں کے سرپرست ہیں۔ سکھر پولیس اس بچی کو دو سال گزرنے کے باوجود گرفتار نہ کرسکی۔ صحافیوں نے اپر سندھ کے ایک پیر (پیر آف رانی پور) کی حویلی میں ایک ملازمہ کے قتل کی خبریں شایع کی تھیں تو اس پیر کو جیل جانا پڑا تھا۔ تو کچے کے ڈاکوؤں نے اس پیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔
اپر سندھ کے شہروں میرپور ماتھیلو، گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ پنجاب اور سندھ کی پولیس کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے اعلانات کرتی ہے، مغوی بازیاب ہوتے ہیں مگر کوئی ڈاکو گرفتار نہیں ہوتا۔
اپر سندھ سے ہندو برادری کی مائیگریشن کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔ اس علاقے کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بااثر افراد ان ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں۔ نصراللہ گڈانی کے قتل کی بھی یہی وجہ بیان کی جارہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے، ورنہ اپر سندھ سے عوام کو اطلاعات کی فراہمی کا نظام مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔
میر اشتیاق سیال پنجاب میں قتل ہوئے۔ وزیرستان میں ایک صحافی کامران داوڑکو بھی نامعلوم افراد نے نشانہ بنایا۔ گزشتہ ماہ خضدار پریس کلب کے صدر محمد صدیق مینگل نامعلوم افراد کے ریموٹ کنٹرول بم کا شکار ہوئے۔
نصراﷲ گڈانی کی والدہ کی مسلسل کوششوں کے بعد ایک ہفتے بعد قاتلوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔ سینئر صحافی مظہر عباس کی قیادت میں صحافی تنظیمیں گزشتہ سال سے سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے تحریک چلا رہی ہیں۔ پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ جان محمد مہر کے قاتل کچے کے علاقہ میں روپوش ہیں۔
نگران وزیر اعلیٰ جسٹس باقر نے وعدہ کیا تھا کہ قاتل جلد گرفتار ہوجائیں گے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی ایسا ہی وعدہ کیا مگر یہ وعدے پورے نہ ہوئے۔ چاروں صوبوں کے منتخب رہنماؤں نے صحافیوں کے قتل کی مذمت کی اور قتل میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔
وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر اطلاعات کے صحافیوں کے قتل کا نوٹس لینے کی خبریں میڈیا میں نمایاں طور پر شایع اور نشر ہوئیں اور وزراء نے قتل ہونے والے صحافیوں کے لواحقین کو معاوضہ دینے کا عندیہ دیا، پھر خاموشی چھا گئی۔ صحافیوں کے قتل، ان پر حملوں اور صحافیوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات نہیں رکے جس کی بناء پر صحافیوں کے تحفظ اور آزادئ صحافت سے متعلق رینکنگ میں پاکستان تنزلی کا شکار ہوا ۔
صحافیوں کے تحفظ اور بین الاقوامی سطح پر آزادئ صحافت کے تحفظ کے لیے سرگرداں صحافیوں کی عالمی تنظیم Reporters without borders نے آزادئ صحافت کے معیار کوجانچنے والے انڈیکس جس میں دنیا بھر کے 180 ممالک شامل ہیں، میں پاکستان کا 152واں نمبر ہے اور ایک اور بین الاقوامی تنظیم Committee to protect journalists global impunity index نے پاکستان کو 11ویں نمبر پر لکھا ہے۔ آزادئ صحافت کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کا مدعا ہے کہ سندھ میں صحافیوں کے حالات زیادہ خراب ہیں۔
صحافیوں کی ایک اور تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2023سے اس سال مارچ2024کے دوران پورے ملک میں آزادئ صحافت پر حملے کرنے والی وارداتوں کی 33 فیصد شرح سندھ میں ہوئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادئ صحافت پر حملوں میں قتل، قاتلانہ حملے، اغواء کی وارداتیں، انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے دھمکیاں اور مقدمات کا اندراج شامل ہے۔ یورپی یونین اور آزادئ صحافت کی تحفظ کی بین الاقوامی تنظیموں نے گزشتہ کئی برسوں سے بار بار یہ مطالبہ کیا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کیا جائے۔
تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن کے قیام پر اصولی طور پر اتفاق کا اظہار کیا تھا اور عمران خان کی حکومت نے اعلیٰ سطح کمیشن کے قیام کے لیے پارلیمنٹ سے قانون بھی منظور کرا لیا تھا مگر گزشتہ حکومت نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ کمیشن قائم نا کرسکی۔
میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاق میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ صحافی تنظیموں کے مسلسل مطالبات کے باوجود ایسا کمیشن قائم کرنے کے لیے وفاقی سطح پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی ہے مگر خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی برسر اقتدار حکومتوں نے بھی اپنے اپنے صوبوں میں کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی میں دلچسپی نہیں لی، مگر پیپلزپارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو زرداری کی خصوصی دلچسپی کی بناء پر سندھ اسمبلی نے قانون سازی کی اور Sindh Commission for the protection of journalists and other media practitioners (PJMC) کا قیام عمل میں آیا تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی کمیشن کے پہلے چیئرپرسن مقرر ہوئے۔
اس کمیشن نے اپنے قیام کے ساتھ صحافیوں کے لاپتہ ہونے، قتل اور پر تشدد واقعات کا سخت نوٹس لیا اور کمیشن کے فوری نوٹس کے بعد لاپتہ ہونے والے تین صحافی اپنے گھروں کو باحفاظت پہنچ گئے۔ گزشتہ سال جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی طویل بیماری کے بعد انتقال کر گئے اور نگراں حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس نذر اکبر کو نیا چیئرپرسن مقرر کیا۔ اگرچہ ابھی تک کمیشن کو اپنا دفتر نہیں مل سکا مگر اس کے باوجود کمیشن نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔
نصر اللہ گڈانی کے قتل کے بعد ہونے والے کمیشن کے اجلاس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ سندھ کا سکھر ڈویژن مسلسل بدامنی کا شکار ہے جس کے نتیجے میں صحافیوں کے لیے حالاتِ کار انتہائی خراب ہیں۔ گزشتہ سال سکھر ڈویژن میں ایک صحافی جان محمد مہر کو قتل کیا گیا تھا۔ صحافیوں کے کمیشن نے اس قتل کی باقاعدہ نگرانی کی۔ کمیشن کے ارکان اس نتیجے پر پہنچے کہ سکھر ڈویژن کی پولیس، صحافیوں اور عام شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں ڈاکوؤں کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور ڈاکو مسلسل صحافیوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ اب پھر سکھر ڈویژن میں نصر اللہ گڈانی کے قتل کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ناقص کارکردگی ظاہر ہوئی ہے۔ کمیشن نے نصر اللہ گڈانی کے قتل کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کو ہدایت کی کہ سکھر ڈویژن کے علاوہ سندھ کے تین دیگر ڈویژن کے ڈی آئی جی کی قیادت میں جے آئی ٹی بنا کر اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں۔
سی پی این ای کے متحرک رکن ڈاکٹر جبار خٹک جن کے ادارے میں نصر اللہ گڈانی کام کرتے تھے کا کہنا ہے کہ نصر اللہ گڈانی ایک فعال رہنما تھے۔ انھوں نے ڈاکوؤں کی پشت پناہی کرنے والوں کو ایکسپوز کرنا شروع کیا تھا۔ نصر اﷲ گڈانی کے بیانیے سے مقامی انتظامیہ اتنی پریشان ہوئی تھی کہ گڈانی کو امن و امان کے قانون MPO کے تحت نظربند کیا گیا۔ جب صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن نے گڈانی کی غیر قانونی نظربندی کا نوٹس لیا تو پھر انتظامیہ نے نظربندی کے احکامات واپس لیے تھے۔
میرپور ماتھیلو اور گھوٹکی کے صحافیوں کو خدشہ ہے کہ علاقے کے بااثر افراد گڈانی کے قتل کی سازش کے کردار ہیں ۔ دو سال قبل سکھر کے مضافاتی علاقے کے ایک غریب ہندو خاندان کی 11سالہ لڑکی پریا کماری محرم کی سبیل پر زائرین کو پانی پلاتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھی مگر سکھر پولیس دو سال سے اس لڑکی کو تلاش نہیں کرسکی ہے۔
یہ شبہ کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس علاقے کے بااثر افراد اس بچی کے اغواء کرنے والوں کے سرپرست ہیں۔ سکھر پولیس اس بچی کو دو سال گزرنے کے باوجود گرفتار نہ کرسکی۔ صحافیوں نے اپر سندھ کے ایک پیر (پیر آف رانی پور) کی حویلی میں ایک ملازمہ کے قتل کی خبریں شایع کی تھیں تو اس پیر کو جیل جانا پڑا تھا۔ تو کچے کے ڈاکوؤں نے اس پیر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی تھیں۔
اپر سندھ کے شہروں میرپور ماتھیلو، گھوٹکی، کندھ کوٹ، کشمور، جیکب آباد، شکارپور، لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ پنجاب اور سندھ کی پولیس کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے اعلانات کرتی ہے، مغوی بازیاب ہوتے ہیں مگر کوئی ڈاکو گرفتار نہیں ہوتا۔
اپر سندھ سے ہندو برادری کی مائیگریشن کی بھی یہی بڑی وجہ ہے۔ اس علاقے کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بااثر افراد ان ڈاکوؤں کے سرپرست ہیں۔ نصراللہ گڈانی کے قتل کی بھی یہی وجہ بیان کی جارہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے، ورنہ اپر سندھ سے عوام کو اطلاعات کی فراہمی کا نظام مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔