لایموت

پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ اس خود نوشت کا نام لایموت کیوں رکھا گیا



آپ نے راشد شاز کی کتاب لایموت پڑھی ہے؟ ہم نے نفی میں جواب دیا، بلکہ اپنی کم علمی کا اعتراف بھی کیا کہ اس نام سے شناسائی بھی نہیں ہے۔

جواب ملا: ارے... واقعی! اگر یوں ہے تو آپ پہلی فرصت میں یہ کتاب پڑھیں اور راشد شاز کے علمی و سماجی پس منظر کی جھلک دیکھیں۔ ہم نے کتاب منگوائی۔ عنوان بہت منفرد تھا،ذہن کو بہت کھٹکا۔ لایموت... ذرا غور کیا تو جانا کہ یہ ایک قرآنی آیت کا حصہ ہے؛ لا یموت فیھا و لا یحییٰ۔ یعنی جہاں نہ اسے موت آئے گی اور نہ وہ زندگی جئیں گا۔ ذہن چند لمحوں کے لیے سن ہو کر رہ گیا۔

یہ کتاب ( جہلم بک کارنر نے شایع کی) ایک پڑھے لکھے ، با خبر اور با شعور بھارتی مسلمان کی خود نوشت ہے جو لگ بھگ سال 2000تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ کہنے کو خود نوشت لیکن ذاتی تجربات میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ معاملات کی چونکا دینے والی داستان ہے ، پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ اس خود نوشت کا نام لایموت کیوں رکھا گیا۔

اس کتاب کا ذکر کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ بھارت میں اس وقت انتخابات کا آخری مرحلہ مکمل ہونے کو ہے۔چار جون کو گنتی ہوگی اور نتائج سامنے آ جائیں گے۔ بظاہر لگتا ہے کہ۔ نریندر مودی کو تیسری بار حکومت کا موقع مل جائے گا۔ ابتداء میں نریندر مودی نے اپنی کیمپین کی بنیاد 10 سالہ دور حکومت کی کامیابیاں گنوانے پر رکھی لیکن الیکشن کے ابتدائی مراحل میں ووٹرز ٹرن آؤٹ کم رہا جس کے بعد نریندر مودی اپنے روایتی بیانیے کی طرف لوٹ گئے یعنی مسلم دشمنی اور الزام تراشی۔ اس کے بعد حقیقی مسائل کے بجائے مسلمان ہی الزام اور ہدف بنے۔

اس طرح نریندر مودی نے کوشش کی کہ مسلم دشمنی کے بیانیے پر ان کے سکہ بند ہندو ووٹرز میں جوش پیدا ہو اور ووٹرز ٹرن آؤٹ بہتر ہو۔ اس الیکشن میں اصل مسائل یعنی مہنگائی، بے روزگاری اور دیہی علاقوں میں مخدوش سماجی اور معاشی مسائل کم ہی زیر بحث آئے۔بی جے پی اور نریندر مودی کا مسلم دشمنی کا یہ ہتھیار نیا نہیں پرانا ہے، اسی پس منظر میں یہ کتاب ہمیں ماضی کے جھروکوں میں لے جاتی ہے جہاں کھڑے ہو کر بھارتی مسلمانوں کی آج کی حالت زار سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے آئیے پہلے ذرا راشد شاز کا تعارف۔ راشد شاز اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور ایک ادارے انڈیا انٹرنیشنل کے سربراہ بھی ہیں۔

انھیں عالمی ادارے ایسیسکو نے مختلف اقوام اور مذاہب کے مابین افہام و تفہیم کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے اپنا سفیر بھی متعین کر رکھا ہے۔ راشد شاز فکر اسلامی پر اپنی تحریروں کے حوالے سے دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد 20 سے زائد ہے۔ ایک عرصے سے مختلف زبانوں میں ان کی کتابوں کے ترجمے عرب اور دیگر ممالک میں شایع ہوتے رہے ہیں۔عقوبت گاہ کا مسلمان کے باب میں سے ایک اقتباس: افسوس کہ عین عید کے دن وہی روایتی حادثہ پیش آیا جس سے منقسم ہندوستان میں ہندوستانی مسلمان روز اول سے نبرد آزما رہے۔

مراد آباد میں عید کے مجمع پر پولیس کے بے دریغ اور ظالمانہ فائرنگ کی خبریں تھی۔ سیکڑوں لوگ پولیس کی گولیوں سے مرے اور سیکڑوں کی بھگدڑ میں جان گئی جن میں ایک بڑی تعداد معصوم بچوں کی تھی۔ سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کو عید کا یہ سرکاری تحفہ تھا، مسز گاندھی کی وزارت عظمیٰ اور ویر بہادر سنگھ کی وزارت عالیہ میں عطا ہوا۔دوسرے دن اخبارات میں جو تصویریں شایع ہوئی ان میں ایک تصویر جوتوں کے ڈھیر کی تھی، یہ وہ جوتے تھے جن کے پہننے والے اب اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔سرزمین دلی کی، کے باب میں لکھتے ہیں: مسلمانوں کو نانی یاد کرا دینے کی سرکاری مہم کتنی چابک دستی اور موثر طریقے سے چلائی گئی۔

اس کا کسی قدر اندازہ مظلومین کے ان بیانات سے ہوتا تھا جو انھوں نے میرٹھ اور دہلی میں ٹریبونل کے ممبران کے سامنے مارچ 1988 میں دیے تھے، ہاشم پورہ کے محمد عثمان نے اپنی روداد غم کچھ اس طرح سنائی تھی: 22 مئی 1987 شام چھ بجے کا وقت تھا جب پی اے سی فوج اور پولیس والوں نے مجھے اور میرے تمام پڑوسیوں کو گرفتار کر لیا۔ہم لوگ سڑک پر بٹھا دیے گئے۔ہماری نگاہوں کے سامنے وہ تین ٹرکوں میں ہمارے محلے کے لوگوں کو لے گئے۔

بچے اور بوڑھے گھر واپس کر دیے گئے۔ اب میں اور محلے کے 50 دیگر لوگ باقی رہ گئے۔آگے چل کر ٹرک دائیں طرف کو مڑا۔ میں نے اپنے ایک محلے دار کو یہ کہتے سنا کہ یہ تو مراد نگر کینال ہے۔ یہاں پی اے سی والوں نے ایک شخص کو اتارا، اسے گولی مار کر نہر میں پھینک دیا۔ پھر انھوں نے دوسرے شخص کو اتارا اور اسے گولی مار کر نہر میں پھینک دیا۔اسی طرح تیسرا آدمی بھی مارا گیا۔ اب ہم لوگوں کو ایسا لگا کہ ہم سب کی موت یقینی ہے، آخری لمحے میں اب ہمیں خدا کو یاد کرنا چاہیے۔

ہم لوگ اچانک اٹھ کھڑے ہوئے، ہمیں چوکنا دیکھ کر پی اے سی والوں نے ٹرک پر بندوقوں کے دہانے کھول دیے، جو بچ رہا اسے بھی گولی مار کر نہر میں پھینک دیا گیا۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں، سال 2000 تک کے بیشتر ایسے واقعات اس کتاب میں رقم ہیں کہ آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں