پاکستان کی موروثی سیاست
پاکستان میں پچھلی ایک دہائی سے دو جماعتی نظام پر قدغن لگی ہے اور اس وقت تیسری جماعت نے شورِ سلاسل کو واضح کردیا ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ تبدیلی واقعی دستک دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی کسی سیاسی جماعت کے نعرے، کسی لیڈر کی تقریر، یا کسی تحریر سے ماخوذ نہیں ہوگی، بلکہ یہ تبدیلی حقیقی معنوں میں اس مرتبہ ممکن ہے کہ عوام کا مزاج تبدیل کردے۔
پاکستان میں اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 166 سیاسی جماعتیں اور ایک سیاسی الائنس موجود ہے۔ انٹرنیٹ کی آزاد دنیا میں یہ فہرست اور زیادہ طویل ہوجاتی ہے۔ اور حیران کن امر یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں ملک میں جمہوریت کی قائل ہیں۔ صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی، ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہو یا پھر منتخب حکومت، بہرحال تمام سیاسی دھڑے اور ذہین دماغ اس بات پر کم و بیش متفق ضرور نظر آتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہونی چاہیے اور اس کےلیے ہی تمام تر جہدوجہد کرتے ہیں، ماریں کھاتے ہیں، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں۔ لیکن راقم الحروف ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور پاکستانی اس بات کے حق میں ہونا شروع ہوچکا ہے کہ پاکستان میں موجودہ نظام کے تحت یا یوں کہہ لیجیے کہ موجودہ سوچ کے مطابق کبھی بھی جمہوریت نہیں آسکتی۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں اپنی پارٹیوں کے اندر ہی جمہوریت کی قائل نہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی باگ ڈور دوبارہ سے میاں محمد نواز شریف نے سنبھال لی ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ پارٹی ہے ان کی، ووٹ بینک بھی ہے ان کا، شوق سے سنبھالیں۔ لیکن عرض صرف اتنی سی ہے کہ پھر آپ ملک میں جمہوریت لانے کی بات کرنا چھوڑ دیں۔ خود پارٹی عہدہ نہ سنبھال سکیں تو بھائی سنبھالے گا، بھائی کے بعد کوئی عہدہ بچے تو بیٹی سنبھالے گی، بیٹی کو عہدہ دے کر بھی کچھ بچ گیا تو بھتیجا تو ہے۔ بھتیجے کے بعد سمدھی ہیں اور پھر خاندانی افراد کی ایک طویل فہرست منتظر ہوگی عہدے سنبھالنے کےلیے۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے ختم ہونے کے بعد جب 1993 میں پارٹی وجود میں آئی تو اس کے بعد سے آج تک پارٹی قیادت شریف خاندان سے نہ نکل سکی۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ انہوں نے سینئر ترین پارٹی اراکین کو بھی اس قابل نہ سمجھا کہ قیادت ان کے ہاتھ دی جائے۔ سوائے اس وقت جب مارشل لاء کی چکی میں پارٹی پس رہی تھی اور چاروناچار جاوید ہاشمی پارٹی کی مجبوری بن گئے۔ اس کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر لمحہ ایسا نہیں کہ جب پارٹی کی قیادت گھر سے باہر گئی ہو۔ تازہ ترین حالات بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں اور چھوٹے بھائی بڑے بھائی کو صدارت کی واپسی کی مبارکباد دیتے ہوئے یوں ہی محسوس ہوتے ہیں کہ جیسے کہہ رہے ہوں، ''ایہہ لو بھائی جان اپنڑی پارٹی واپسی لے لوو''۔
صدارت بھی گھر میں ہی رکھتے تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلیے کم از کم اتنا تو کرسکتے تھے آپ کہ کچھ تو سیاسی قد آپ کا بڑھ جاتا؟ برائے نام کوئی ایک آدھ بندہ صدارت کے انتخابات کےلیے سامنے لے آتے۔ صدارت تو آپ کے گھر کی باندی ہے، آپ کے قدموں میں ہی گرنا تھا اس نے، لیکن آپ عوام کی آنکھوں پر پٹی تو باندھ سکتے تھے۔ کوئی سیاسی جمہورا سامنے لے آتے، پارٹی صدارت کے الیکشن والے دن تھوڑی گہما گہمی ہوتی، پولنگ ایجنٹس بیٹھے ہوتے، پارٹی اراکین نک سک تیار ہو کر ووٹ ڈالنے آرہے ہوتے، نتیجہ تو یقینی طور پر بڑے میاں صاحب کی صدارت پہ ہی منتج ہوتا۔ لیکن کم از کم دکھاوے کےلیے مدمقابل سیاسی جمہورے کو آپ پانچ دس ووٹ کاسٹ کروا دیتے۔ آپ کی واہ واہ ہوجاتی اور پارٹی قیادت بھی آپ کے گھر میں ہی رہنی تھی۔ لیکن سیاسی پارٹیاں بیوقوفانہ حد تک عوام کو چونا لگانے میں مصروف ہیں۔ وہ پاکستانی عوام کو دولے شاہ کے چوہے سمجھتے ہیں کہ جن کے دماغ اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ وہ سوچنے سمجھے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں پارٹی کی سطح پر آمریت اور ملکی سطح پر جمہوریت کی قائل ہیں۔ ن لیگ میاں خاندان سے باہر نہیں نکل پا رہی۔ پیپلز پارٹی بھٹو خاندان کے گھر کی باندی ہے اور دلچسپ بات دیکھیے کہ پیپلز پارٹی کی جو دو پارٹیاں الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں ایک کی صدارت زرداری کے پاس ہے تو دوسری پارٹی کی چیئرمین شپ بلاول کے سپرد ہے۔ جمعیت کی تمام پارٹیوں میں بھی اقتدار کا ہما باپ بیٹوں، بھائیوں کے علاوہ کسی کے سر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ ولی خاندان خیبرپختونخوا میں اپنی پارٹی کے اندر خاندانی میراث کا بت توڑنے کو تیار نہیں ہے۔ شیرپاؤ، ملتانی پیر، وڈیرے، سردار، شاہ وغیرہ مزید سیاسی پارٹیوں کی آمریت میں قدم اپنے خاندانوں کو شامل کروا کر مضبوط کیے ہوئے ہیں۔ پیچھے رہ جاتی ہے جماعت اسلامی، جو حقیقی معنوں میں ایک طویل عرصے سے پارٹی کو جمہوری انداز میں چلانے پر توصیف کے قابل ہے لیکن پاکستانی عوام کو ایسی سیاسی پارٹیوں سے غرض ہی نہیں۔
ہمیں پاکستان میں ہی جمہوریت پر ظلم و ستم نظر آتے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر سب گنگا سے نہا کر آئے ہیں کہ انہیں آمریت بھی گوارا ہے۔ لیکن عرض اتنی سی ہے کہ اب وقت تبدیل ہوچکا ہے، سوچ تبدیل ہورہی ہے، آپ کا یہ آمرانہ طرزِ عمل بہت جلد منہ کی کھائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔