بات یوں ہی بڑھائیو آگے

انگریز آج بھی نفرت کی فصلوں کے لیے کھاد پانی ہمیں دے رہا ہے

سعید پرویز

یہ جہاں آج ہم کھڑے ہیں، یہاں تک آنے میں زمانے لگے ہیں۔

بٹوارے سے پہلے ہی انگریز نے ہماری تباہی و بربادی کے بارے میں پلان بنالیا تھا۔

ہندوستانی تو انگریز سے آزادی چاہتا تھا، انگریز کو نکال باہر کرنا چاہتا تھا۔

جب انگریز ہمت ہار گیا اور اس نے سمجھ لیا کہ اب ہندوستان چھوڑنا ہی پڑے گا تو اس نے نفرت کے کچھ بیج زمین میں بوئے اور ہندوستان چھوڑ کر چلا گیا۔ آج انھی نفرت کے بیجوں کی فصلیں ہم مسلسل کاٹ رہے ہیں۔

انگریز آج بھی نفرت کی فصلوں کے لیے کھاد پانی ہمیں دے رہا ہے۔1947 میں ایسی تقسیم کی کہ جس کے زخم آج بھی ہرے ہیں۔

65 سال گزرنے کے باوجود ہندوستان کے رہنے والے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اپنے پیاروں کو نہیں بھولے کہ جن کی بے گور و کفن لاشیں انھی رستوں، گلیوں میں پڑی تھیں کہ جو رستے گلیاں پیار بھرے رستے گلیاں تھے۔

نفرت کی ایسی ہوا چلائی گئی کہ صدیوں کے ساتھ چھوٹ گئے، انسان درندہ بن گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی، لاکھوں انسان ہندو مسلمان، سکھ عورتیں مرد، بچّے، بوڑھے، جوان، جانے پہچانے رستے گلیاں، گائوں، قصبے، شہر چھوڑ کر انجانے راستوں پر نکل گئے، انجانے دیس کی طرف... نہتّے قافلوں پر مسلح جتھے حملے کرتے، جوانوں کو قتل کرتے، لڑکیوں کو مارنے سے پہلے ہی مار دیتے، بچوں کو نیزوں میں پرو کر ہوا میں بلند کرتے۔

ہندوستان کے دو صوبے تقسیم میں کام آئے، بنگال اور پنجاب، اور انھی صوبوں میں بہت زیادہ انسانی خون بہایا گیا۔ کلکتہ، بہار کی سڑکوں کے مناظر تصاویر کی صورت آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔

صوبہ پنجاب میں ایک اور غضب ناک صورت پیدا کی گئی۔ ہمارے ابّا بتاتے ہیں کہ ہمارا ہوشیار پور ضلع جالندھر، کپور تھلہ۔ پٹیالہ، گورداس پور، امرتسر اور اردگرد کے اضلاع و علاقے پاکستان میں شامل تھے اور یہاں کے مسلمان سبز ہلالی پرچم اٹھائے گلیوں میں پاکستان زندہ باد، قائداعظم زندہ باد کے نعرے لگاتے پھر رہے تھے جب کہ ہندو، سکھ اپنا سامان باندھے دہلی کی طرف رواں دواں تھے کہ اچانک آزادی کے اعلان سے 48 گھنٹے پہلے فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے گورداس پور کو ہندوستان میں شامل کرنے کا اعلان کردیا گیا، گورداس پور کشمیر جانے کا واحد زمینی راستہ ہے۔

انگریز نے کاغذ پر بنے نقشے پر خون کی نئی لکیر بنادی۔ چند گھنٹے پہلے جو دہلی کی طرف جارہے تھے، انھوں نے اپنے بستر بند کھول دیے، سامان رکھ دیے، اب گلیوں میں نعرے لگ رہے تھے ''ست سری اکال''، ''جے بجرنگ بلی''، ''ہرے کرشنا، ہرے رام'' اور پھر جو انسانی خون کی ہولی کھیلی گئی، جو بربریت کے مظاہرے ہوئے، بس کیا بیان کرنا، لکھنے والوں نے اس خونی ہولی اور بربریت کے سارے قصّے، اپنی کہانیوں میں لکھ ڈالے۔


منٹو، کرشن چندر اور امرتا پریتم نے بڑے رونے روئے ہیں۔ مزید اس بارے میں ایک بات لکھتے ہوئے پھر آگے بڑھوں گا۔ پاکستان بننے کے سات سال بعد 1954 میں لال قلعہ دہلی میں ہندو پاک مشاعرہ ہوا، پاکستان سے حفیظ جالندھری، سید محمد جعفری، حبیب جالب اور پنجابی زبان کے مشہور عوامی انقلابی صاحبِ کردار شاعر استاد دامن اور دیگر شریک تھے' مشاعرے کی صدارت وزیراعظم ہندوستان پنڈت جواہر لعل نہرو فرما رہے تھے' استاد دامن نے مشاعرے میں اپنی نظم سنائی، جس کا ایک ہی شعر یہاں نقل کروں گا۔

آزادیاں ہتھوں مجبور یارو ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں

لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے ، روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں

یعنی ''آزادی کے ہاتھوں مجبور یارو! تم بھی ہوئے اور ہم بھی ہوئے آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ روئے تم بھی ہو اور روئے ہم بھی ہیں'' صدر مشاعرہ یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے اور انھوں نے آگے بڑھ کر استاد کو گلے لگایا۔

جالب نے ہجرت کے حوالے سے کہی گئی اپنی مشہور غزل ''چھوڑ آئے'' سنائی، جس پر پنڈت جی پھر آبدیدہ ہوئے اور جالب کو گلے لگایا۔بٹوارہ یوں یاد آگیا کہ آج میرا بلوچستان خون آلود ہے، لوگ اغوا کیے جاتے ہیں اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہیں، قاتلوں کے بارے میں سب جانتے ہیں، شواہد موجود ہیں۔ سپریم کورٹ بااثر افراد کو طلب کرتی ہے مگر وہ پیش نہیں ہورہے۔

حکمران جماعت کے لوگ بھی سچ بول رہے ہیں کہ قاتل کون ہیں۔اس سے پہلے ہم نے بنگالیوں کے ساتھ یہی کیا اور 1947 کے بعد، دوسری بار ہجرت کے مراحل سے لوگ گزرے، لاکھوں بے گھر ہوئے، عصمتیں لٹیں اور اس بار یہ سب مسلمانوں نے کیا۔ پھر ہندوستان سے آواز آئی، ''اتنے مسلمان ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات میں نہیں مرے، جتنے پاکستان میں مارے گئے'' اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ میرے شہر کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، میں روزانہ دس پندرہ بندے مار دیے جاتے ہیں۔ ''ریمنڈ ڈیوس'' پکڑے جاتے ہیں، پھر صاف چھوٹ جاتے ہیں۔ میرے پیارے عوام! اصل بات یہ ہے کہ ہمارا جانے والا حکمران آنے والے حکمران کو ایک رقعہ پکڑاتا ہے، جس پر بقول جالب لکھا ہوتا ہے۔

بات یوں ہی بڑھائیو آگے
حد سے ہرگز نہ جائیو آگے

تو ہر آنے والا حکمران، جانے والے حکمران کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھاتا ہے اور اگر کوئی حکمران حد سے آگے جانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو قبر میں اتار دیا جاتا ہے۔ جالب کے ایک شعر پر بات ختم کروں گا، میرا جی چاہ رہا ہے، یہ شعر لکھنے کو۔

اِس بستی پر کیا بیتی ہے، میں ہی کھل کر کہہ دوں
دیواروں کی صورت چپ ہیں، اس بستی میں سارے
Load Next Story