اب پولیس ہمیں گھر جانے دے
اسی طرح ہر عمر اور ہر جنس کا پاکستانی ہماری اپنی پولیس کے غضب کا شکار ہے
ہماری پولیس تو ہمارے پیچھے ہی پڑ گئی ہے۔ پولیس والوں کے سینے میں کچھ بھی ہے دل ہرگز نہیں ہے۔ وہ ہم پاکستانیوں پر جس بے رحمی سے حملہ آور ہوتے ہیں اور ہماری ہڈی پسلی ایک کر دیتے ہیں اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ ایک بوڑھا ہے سفید ریش پولیس کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کی سفید داڑھی اب سرخ ہو چکی ہے اس کے اپنے خون سے۔ یہ عورت ابھی چند لمحے قبل پردے میں تھی لیکن اب پردہ کہاں وہ ہاتھ جوڑ رہی ہے کہ اسے اس کے بھائی معاف کر دیں مزید بے پردہ نہ کریں۔
یہ بچہ ہے اسے پولیس شوقیہ فٹ بال بنائے ہوئے ہے۔ فٹ بال کے عالمی میچ کے مقابلوں میں یہ پاکستانی بچہ بھی شامل ہے۔ پہلے تو ہم فٹ بال بنا کر ان عالمی مقابلوں میں اپنا نام شامل کرتے تھے اب ذرا آگے بڑھ کر ہم نے اپنے بچوں کو ہی فٹ بال بنا دیا ہے۔ ایک نوجوان پولیس سے بچ کر بھاگا جا رہا ہے مگر چند لمحے بعد یہ نوجوان لنگڑاتا اور زمین پر گرتا پڑتا پولیس سے پناہ مانگ رہا ہے۔ اسی طرح ہر عمر اور ہر جنس کا پاکستانی ہماری اپنی پولیس کے غضب کا شکار ہے۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہماری پولیس یکایک اس قدر بے رحم اور سخت دل کیوں ہو گئی ہے کہ اسے نہ کوئی بزرگ دکھائی دیتا ہے نہ کوئی بچہ اور نہ کوئی ماں بہن۔ میں اس ہنرمند آدمی کی زیارت کرنا چاہتا ہوں جو لمحہ بھر میں خود گوشت سے پتھر کا بن گیا اور پھر تباہی مچا دی۔ اسی طرح کئی گوشت پوست کے ساتھیوں کو بھی پتھر کا بنا دیا ایسی تباہی کہ ان انسانوں کی تکا بوٹی کر دی ان کے حلیے بگاڑ دیے، ان کی شکل و صورت بدل دی اور انسانوں کو ان کے اپنے لیے بھی اجنبی بنا دیا کہ خود کو پہچاننا مشکل ہو گیا۔
یہ سب میرے لیے ایک معمہ ہے۔ کاش کہ ہمارا میڈیا محدود اور مختصر ہوتا اور وہ اس قدر تفصیل کے ساتھ اپنے حالات کو قوم کے سامنے پیش نہ کرتا۔ ایسے میڈیا سے تو قوم بے خبر رہے تو بہتر ہے۔ میں میڈیا کا ایک کارکن ہوں اور اس کی خوبی اور خرابی میں حصہ دار ہوں لیکن اپنے میڈیا کی یہ بے باکی دیکھ کر ڈر جاتا ہوں۔ ایک بات پر اطمینان ہے کہ اب ہمارے لیڈر اور قائدین ہمیں بے خبری میں بے وقوف نہیں بنا سکیں گے۔ میڈیا کے کیمرے ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہونگے اور انھیں قدم قدم پر ٹوکیں اور روکیں گے۔ میڈیا کا اصل فرض قوم کو باخبر رکھنا ہے۔ ہر مشکل وقت سے پہلے قوم کو مطلع کرنا ہے تا کہ وہ س مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہے۔
میڈیا اگر فرض شناس ہو تو وہ قوم کی ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن خدا نہ کرے اگر میڈیا سنسنی خیزی پر اتر آئے اور اپنا اصل فرض بالکل ہی فراموش کر دے تو پھر اللہ ہی اس کی آفت سے بچا سکتا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے ابھی ابھی پولیس کا یہ چہرہ دیکھا ہے پتھر کا جس پر رحم کی کوئی نشانی نہیں تھی جو کچھ تھا وہ ایک سنگینی تھی جیسے کسی بت تراش نے پتھر کے بتوں کی ایک قطار کھڑی کر دی ہو اور پھر ان میں جان پڑ گئی ہو اور یہ جان انسانوں کو کچل رہی ہو اور انھیں فنا کر رہی ہو۔ ان کی چیخوں کو سننے سے معذور ہو صرف ان کے جسم دیکھے اور ان پر اپنے نشان چھوڑ دے انسانی تاریخ اور انسانی نسل کو یہ بتانے کے لیے کہ یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی تاریخ یوں بھی لکھتے ہیں۔
میں پولیس کے متعدد ایسے اچھے نرم دل اور فرض شناس سپاہیوں اور افسروں کو جانتا ہوں جو اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزارنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے کہ ایک خبر میں بتایا گیا کہ ذوالفقار چیمہ کو اس لیے تبدیل کر دیا گیا کہ وہ الیکشن میں دھاندلی پر تیار نہ تھا۔ اس پولیس افسر کے ساتھ ایسا سلوک بار بار ہوتا رہا ہے کہ پولیس میں رہ کر اگر کوئی دیانت، نرم دلی اور شرافت پر مصر ہو تو پھر اس کی قیمت ادھار نہیں رکھی جاتی فوراً کسی سزا کے ساتھ وصول کی جاتی ہے۔
پولیس کو قابو میں رکھنے والے لوگ بہت ہوشیار ہیں۔ انھوں نے ذوالفقار چیمہ کو ایک شارع عام یعنی سڑک پر لگا دیا ہے کہ اس کی نگرانی کیا کرو۔ ملک کی اس سب سے بڑی سڑک کو چلتا رکھو اور یہاں سفر کرنے والوں کو خوش رکھو بس یہی بہت ہے اور کیا ایک آئی جی کے عہدے کے افسر کے لیے یہ ڈیوٹی کچھ کم ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے پولیس افسر بھی محفوظ مقامات پر لگا دیے گئے ہیں۔ ہمارے پرانے شناسا عملیش صاحب بھی تبدیل ہو کر کسی ضلع میں حالات ٹھیک کر رہے ہیں۔ خبر ملی تھی کہ وہ پنجاب کے آئی جی بن رہے ہیں۔
میں اگرچہ عملیش سے آج تک شاید کبھی ملا نہیں لیکن پولیس کی صفوں میں اس کی شہرت 'داغدا' ضرور ہو گی اس لیے وہ پنجاب کے لیے ہرگز موزوں نہیں تھا۔ پنجاب پولس نے جو جھلک دکھائی ہے اس کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بڑے ہی مضبوط افسر کی ضرورت ہے۔ اگر وہ افسر بن کر رہنا چاہتا ہو کیونکہ ہماری پوری حکومت لاہور میں ہے اور لاہور پنجاب پولیس کے آئی جی کی عملداری میں ہے تو پھر وہ اپنی جگہ پیدا کر سکتا ہے۔
اب میں اپنے گاؤں کے ایک اکھڑ اور مضبوط افسر کی بات کرتا ہوں۔ پرانے زمانوں میں وہ لڈن میں پولیس افسر بنا دیے گئے یعنی دولتانہ صاحب کی ریاست میں۔ یہاں اس افسر کو اندازہ ہوا کہ اور تو جو ہے سو ہے لیکن دولتانہ صاحب کے بندے پولیس کی پروا نہیں کرتے اور جرائم میں ملوث رہتے ہیں۔ میرے اس گاؤں کے پولیس افسر ملک شاہ محمد نے ایک بار تنگ آ کر دولتانہ صاحب کا خاص معاون اور کاردار پکڑ لیا۔ اس کے منہ پر پیشاب باندھ دیا اور جناب دولتانہ صاحب کو اطلاع بھجوائی کہ اپنا آدمی لے جائیں جو تھانے کے باہر درخت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔
پہلے تو کسی کو یقین ہی نہ آیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ جب بات بہت کھل گئی تو دولتانہ صاحب کی خاندانی فراست اور سوجھ بوجھ نے خاموشی کے ساتھ اپنے بندے کی چوری کا مال واپس کرا دیا اور اسے گھر لے آئے۔ اس کے بعد لڈن کی پولیس کو پولیس سمجھا جانے لگا اور چونکہ پولیس افسر دیانت دار اور فرض شناس تھا اس لیے علاقے میں امن قائم ہو گیا، چوری چکاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ دولتانہ صاحب نے خاموشی سے اس پولیس کو تبدیل کرا دیا اور اس طرح ہر طرف امن قائم ہو گیا۔ میری معلومات یہ کہتی ہیں کہ اگر پولیس افسر فرض شناسی پر تل جائے اور اس کی قیمت ادا کرنے پر بھی تیار ہو تو اسے کوئی روک نہیں سکتا لیکن یہ باتیں غالباً پرانے زمانوں کی ہیں اب جو پنجاب پولیس دیکھی ہے کس افسر کی مجال ہے کہ اسے ہاتھ بھی لگا سکے۔ اب تو پولیس نے ایک نئی تاریخ لکھ دی ہے۔
یہ بچہ ہے اسے پولیس شوقیہ فٹ بال بنائے ہوئے ہے۔ فٹ بال کے عالمی میچ کے مقابلوں میں یہ پاکستانی بچہ بھی شامل ہے۔ پہلے تو ہم فٹ بال بنا کر ان عالمی مقابلوں میں اپنا نام شامل کرتے تھے اب ذرا آگے بڑھ کر ہم نے اپنے بچوں کو ہی فٹ بال بنا دیا ہے۔ ایک نوجوان پولیس سے بچ کر بھاگا جا رہا ہے مگر چند لمحے بعد یہ نوجوان لنگڑاتا اور زمین پر گرتا پڑتا پولیس سے پناہ مانگ رہا ہے۔ اسی طرح ہر عمر اور ہر جنس کا پاکستانی ہماری اپنی پولیس کے غضب کا شکار ہے۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہماری پولیس یکایک اس قدر بے رحم اور سخت دل کیوں ہو گئی ہے کہ اسے نہ کوئی بزرگ دکھائی دیتا ہے نہ کوئی بچہ اور نہ کوئی ماں بہن۔ میں اس ہنرمند آدمی کی زیارت کرنا چاہتا ہوں جو لمحہ بھر میں خود گوشت سے پتھر کا بن گیا اور پھر تباہی مچا دی۔ اسی طرح کئی گوشت پوست کے ساتھیوں کو بھی پتھر کا بنا دیا ایسی تباہی کہ ان انسانوں کی تکا بوٹی کر دی ان کے حلیے بگاڑ دیے، ان کی شکل و صورت بدل دی اور انسانوں کو ان کے اپنے لیے بھی اجنبی بنا دیا کہ خود کو پہچاننا مشکل ہو گیا۔
یہ سب میرے لیے ایک معمہ ہے۔ کاش کہ ہمارا میڈیا محدود اور مختصر ہوتا اور وہ اس قدر تفصیل کے ساتھ اپنے حالات کو قوم کے سامنے پیش نہ کرتا۔ ایسے میڈیا سے تو قوم بے خبر رہے تو بہتر ہے۔ میں میڈیا کا ایک کارکن ہوں اور اس کی خوبی اور خرابی میں حصہ دار ہوں لیکن اپنے میڈیا کی یہ بے باکی دیکھ کر ڈر جاتا ہوں۔ ایک بات پر اطمینان ہے کہ اب ہمارے لیڈر اور قائدین ہمیں بے خبری میں بے وقوف نہیں بنا سکیں گے۔ میڈیا کے کیمرے ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہونگے اور انھیں قدم قدم پر ٹوکیں اور روکیں گے۔ میڈیا کا اصل فرض قوم کو باخبر رکھنا ہے۔ ہر مشکل وقت سے پہلے قوم کو مطلع کرنا ہے تا کہ وہ س مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہے۔
میڈیا اگر فرض شناس ہو تو وہ قوم کی ایک بہت بڑی طاقت ہے لیکن خدا نہ کرے اگر میڈیا سنسنی خیزی پر اتر آئے اور اپنا اصل فرض بالکل ہی فراموش کر دے تو پھر اللہ ہی اس کی آفت سے بچا سکتا ہے۔ ہم پاکستانیوں نے ابھی ابھی پولیس کا یہ چہرہ دیکھا ہے پتھر کا جس پر رحم کی کوئی نشانی نہیں تھی جو کچھ تھا وہ ایک سنگینی تھی جیسے کسی بت تراش نے پتھر کے بتوں کی ایک قطار کھڑی کر دی ہو اور پھر ان میں جان پڑ گئی ہو اور یہ جان انسانوں کو کچل رہی ہو اور انھیں فنا کر رہی ہو۔ ان کی چیخوں کو سننے سے معذور ہو صرف ان کے جسم دیکھے اور ان پر اپنے نشان چھوڑ دے انسانی تاریخ اور انسانی نسل کو یہ بتانے کے لیے کہ یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی تاریخ یوں بھی لکھتے ہیں۔
میں پولیس کے متعدد ایسے اچھے نرم دل اور فرض شناس سپاہیوں اور افسروں کو جانتا ہوں جو اپنی زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزارنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے کہ ایک خبر میں بتایا گیا کہ ذوالفقار چیمہ کو اس لیے تبدیل کر دیا گیا کہ وہ الیکشن میں دھاندلی پر تیار نہ تھا۔ اس پولیس افسر کے ساتھ ایسا سلوک بار بار ہوتا رہا ہے کہ پولیس میں رہ کر اگر کوئی دیانت، نرم دلی اور شرافت پر مصر ہو تو پھر اس کی قیمت ادھار نہیں رکھی جاتی فوراً کسی سزا کے ساتھ وصول کی جاتی ہے۔
پولیس کو قابو میں رکھنے والے لوگ بہت ہوشیار ہیں۔ انھوں نے ذوالفقار چیمہ کو ایک شارع عام یعنی سڑک پر لگا دیا ہے کہ اس کی نگرانی کیا کرو۔ ملک کی اس سب سے بڑی سڑک کو چلتا رکھو اور یہاں سفر کرنے والوں کو خوش رکھو بس یہی بہت ہے اور کیا ایک آئی جی کے عہدے کے افسر کے لیے یہ ڈیوٹی کچھ کم ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے پولیس افسر بھی محفوظ مقامات پر لگا دیے گئے ہیں۔ ہمارے پرانے شناسا عملیش صاحب بھی تبدیل ہو کر کسی ضلع میں حالات ٹھیک کر رہے ہیں۔ خبر ملی تھی کہ وہ پنجاب کے آئی جی بن رہے ہیں۔
میں اگرچہ عملیش سے آج تک شاید کبھی ملا نہیں لیکن پولیس کی صفوں میں اس کی شہرت 'داغدا' ضرور ہو گی اس لیے وہ پنجاب کے لیے ہرگز موزوں نہیں تھا۔ پنجاب پولس نے جو جھلک دکھائی ہے اس کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بڑے ہی مضبوط افسر کی ضرورت ہے۔ اگر وہ افسر بن کر رہنا چاہتا ہو کیونکہ ہماری پوری حکومت لاہور میں ہے اور لاہور پنجاب پولیس کے آئی جی کی عملداری میں ہے تو پھر وہ اپنی جگہ پیدا کر سکتا ہے۔
اب میں اپنے گاؤں کے ایک اکھڑ اور مضبوط افسر کی بات کرتا ہوں۔ پرانے زمانوں میں وہ لڈن میں پولیس افسر بنا دیے گئے یعنی دولتانہ صاحب کی ریاست میں۔ یہاں اس افسر کو اندازہ ہوا کہ اور تو جو ہے سو ہے لیکن دولتانہ صاحب کے بندے پولیس کی پروا نہیں کرتے اور جرائم میں ملوث رہتے ہیں۔ میرے اس گاؤں کے پولیس افسر ملک شاہ محمد نے ایک بار تنگ آ کر دولتانہ صاحب کا خاص معاون اور کاردار پکڑ لیا۔ اس کے منہ پر پیشاب باندھ دیا اور جناب دولتانہ صاحب کو اطلاع بھجوائی کہ اپنا آدمی لے جائیں جو تھانے کے باہر درخت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔
پہلے تو کسی کو یقین ہی نہ آیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ جب بات بہت کھل گئی تو دولتانہ صاحب کی خاندانی فراست اور سوجھ بوجھ نے خاموشی کے ساتھ اپنے بندے کی چوری کا مال واپس کرا دیا اور اسے گھر لے آئے۔ اس کے بعد لڈن کی پولیس کو پولیس سمجھا جانے لگا اور چونکہ پولیس افسر دیانت دار اور فرض شناس تھا اس لیے علاقے میں امن قائم ہو گیا، چوری چکاری نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ دولتانہ صاحب نے خاموشی سے اس پولیس کو تبدیل کرا دیا اور اس طرح ہر طرف امن قائم ہو گیا۔ میری معلومات یہ کہتی ہیں کہ اگر پولیس افسر فرض شناسی پر تل جائے اور اس کی قیمت ادا کرنے پر بھی تیار ہو تو اسے کوئی روک نہیں سکتا لیکن یہ باتیں غالباً پرانے زمانوں کی ہیں اب جو پنجاب پولیس دیکھی ہے کس افسر کی مجال ہے کہ اسے ہاتھ بھی لگا سکے۔ اب تو پولیس نے ایک نئی تاریخ لکھ دی ہے۔