ضدی بچوں جیسے رویے
کوئی 10 ہزار میل دور سے آ کر انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے، کوئی گلیوں اور کوچوں میں سونامی کی قیامت ڈھانے پر تُلا ہوا ہے
پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی پہلی بار ہوا کہ اس منتخب حکومت نے اپنی مدت مکمل کی' اس کے بعد پُر امن طور پر انتقال اقتدار ہوا اور اسی کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز نے عنان حکومت سنبھالی۔ دنیا میں جب سے جمہوریت نے اپنے پر پھیلائے ہیں اس کے بعد انتقال اقتدار معمول کا عمل ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور ان کی کارکردگی بہتر نہ ہو تو انتخابات کے بعد رخصت ہو جاتی ہیں۔ نہ کوئی شور اٹھتا ہے اور نہ آہ و فغاں بلند ہوتی ہے۔
یہ ضرور ہے کہ انتخابی عمل کے دوران خوب شور شرابا ہوتا ہے' حریف جماعتیں ایک دوسرے پر بد ترین تنقید کرتی ہیں' تجزیہ نگار مختلف جماعتوں کی ہار اور جیت کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ مقبولیت کے سروے ہوتے ہیں جن میں کسی پارٹی کے جیتنے کے امکانات بتائے جاتے ہیں۔ وہ جماعتیں جنھیں جیتنے والوں میں شُمار نہیں کیا جاتا وہ ان جائزوں کو حقارت سے مسترد کر دیتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران زور دار جلسے کیے جاتے ہیں۔ اہم جماعتیں وزیر اعظم یا صدر کے لیے جن رہنماؤں کو اپنی طرف سے نامزد کرتی ہیں وہ ایک دن میں کئی کئی جلسوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اب درجنوں جلسوں سے بہ یک وقت خطاب کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ قصہ مختصر یہ' سارا ہنگامہ اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب قانون کے تحت انتخابی سرگرمیوں کی مدت اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں' ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے' اکثریت پانے والی جماعت حکومت بناتی ہے اور ریاست کا کام چلتا رہتا ہے۔ کوئی دھاندلی کا الزام لگائے تو اُسے قانون کے مطابق راستہ اپنانا ہوتا ہے۔ ہارنے والے جیتنے والوں کو مبارکباد دیتے ہیں' حسد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم یا صدر بننے کا شوق کس سیاستدان کو نہیں ہوتا لیکن مہذب ملکوں کے مہذب سیاسی رہنما اور کارکن ضدی بچوں کی طرح نہیں ہوتے کہ خواہش اگر پوری نہ ہو تو گھر میں ہنگامہ برپا کر دیا جائے۔ چیزیں توڑ ڈالی جائیں اور چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا جائے۔
دور کیوں جائیں ہندوستان کی مثال لے لیں۔ وہاں ایک نہیں 14 مرتبہ قومی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ کیسی کیسی عظیم اور مقبول شخصیتوں کو ناکامی اور ہزیمت کا منہ نہیں دیکھنا پڑا' ان کے مقابلے وہ امیدوار جیت گئے جو زیادہ مقبول بھی نہیں تھے لیکن ہار کو تحمل سے برداشت کیا گیا کیونکہ مسئلہ ذات کا نہیں جمہوری نظام کا ہوتا ہے اور ذات پر ملک مقدم ہے۔ نریندر مودی کی کامیابی سے پہلے حریفوں نے ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہا۔ ان کے بارے میں تو کھُلے عام جلسوں میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ وہ اقتدار میں آئے تو ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مسلمانوں اور اچھوتوں کے ووٹ لینے کے لیے رائے دہندگان میں کیسے کیسے خوف پیدا نہیں کیے گئے۔
ہمارے یہاں کوئی جماعت انتخابی مہم چلانے پر پیسہ خرچ کرے تو کہا جاتا ہے کہ بیرونی طاقتیں اسے سرمایہ فراہم کر رہی ہیں یا یہ وہ پیسہ ہے جو اس کے لیڈروں نے لوٹ مار کے ذریعے کمایا ہے۔ یہ جماعت کامیاب ہو گئی تو ملک میں لوٹ مارکا بازار گرم ہو جائے گا۔ نہ ثبوت نہ شواہد بس الزامات کی بھرمار اور ہاہا کار۔ ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات میں حریف جماعتوں نے 180 ارب روپے خرچ کیے۔ یعنی ایک کھرب اسی ارب روپے۔ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے 67 ارب روپے خرچ کیے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی کا کھل کر استعمال ہوا اور مودی صاحب نے تو ایک دن میں 100 جلسوں تک سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ جیسے ہی ہندوستان میں انتخابی عمل مکمل ہوا، سارا ہنگامہ ایک لمحے میں موقوف ہو گیا۔ 24 گھنٹے پہلے سارے ہندوستان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور پھر ایسا سکوت طاری ہوا جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے تمام بینر اور جھنڈے سڑکوں اور عمارتوں سے اتار لیے۔ بلدیہ نے دیواریں صاف کر دیں۔ کاروبار حیات حسب معمول رواں دواں ہو گیا۔ جنھیں دھاندلی یا بے قاعدگی کی شکایت تھی وہ قانونی داد رسی کے لیے چلے گئے۔
ہمارے یہاں عموماً لوگوں کو یہ بات پسند نہیں کہ بار بار ہندوستان کی مثالیں دی جائیں۔ بات بھی درست ہے کہ آپ جب کسی کو اپنا حریف تصور کرتے ہوں بلکہ دشمن سمجھتے ہوں تو اس کی اچھی باتوں کا تذکرہ لطف نہیں دیتا۔ لیکن اچھا حریف وہ ہے جو ہر لمحے اپنی کمزوریوں سے آگاہی حاصل کر کے ان پر قابو پائے اور خود کو مضبوط بنائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے مخالف سے بھی سیکھنے کا رویہ اپنائے۔ ہم نے بھی روتے دھوتے جمہوریت کا راستہ اپنا لیا ہے اور دل پر پتھر رکھ کر ایک جمہوری منتخب حکومت کو 68 برس میں پہلی بار میعاد مکمل کرانے کا ''زہر'' بھی پی چکے ہیں۔
اب ایک اور منتخب حکومت ''سر پر مسلط'' ہے۔ ڈر ہے کہ اس نے کارکردگی اچھی دکھا دی تو ووٹر کہیں اسے اگلے5 سال کے لیے دوبارہ منتخب نہ کر لیں۔ مسترد کردہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر 5،5 سال کا سلسلہ چل نکلا تو ہماری باری تو بہت دیر میں آئے گی۔ اتنا انتظار کون کرے؟ ہمارے کچھ لوگوں کو یہ بات خواہ کیسی ہی ناگوار خاطر ہو لیکن معاملہ جمہوریت اور انتخابات کا ہے اس لیے ہندوستان کی مثال واجب ہو جاتی ہے۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ وہاں کے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں میں اتنا صبر و تحمل کیوں ہے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں میں اتنے اشتعال اور عدم رواداری کا رجحان کیوں پایا جاتا ہے؟
سیاسی تحمل اور صبر و ضبط قوموں میں از خود پیدا نہیں ہوتا۔ ایک مسلسل عمل کے بعد یہ پختگی اور رواداری مزاج اور رویوں کا حصہ بنتی ہے۔ ہندوستان میں آزادی ملنے کے بعد پہلے دن سے جمہوری عمل کو چلنے کا موقع دیا گیا جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ سیاسی مزاج سے بھی اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کا کا رجحان کم ہوتا گیا۔ ان کو بھی شروع شروع میں بھیانک عدم رواداری کا سامنا تھا۔ وہاں شمال اور جنوب کی تقسیم اور نفرت عروج پر ہوا کرتی تھی کہ اس کی عکاسی مذہبی معاملات تک میں ہوتی تھی۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی زبردست تحریکیں چل رہی تھیں۔ بعض ریاستوں کے علیحدگی پسند نہ صرف ہندوستان کے آئین کو نہیں مانتے تھے بلکہ اس کی کاپیاں سر عام جلایا بھی کرتے تھے۔
آزاد ہندوستان کے بانی مہاتما گاندھی' انتہا پسند کے ہاتھوں مارے گئے۔ نہرو کی بیٹی وزیر اعظم اندرا گاندھی سکھ انتہا پسندی کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہوئیں۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی کو تامل شدت پسندوں نے ہلاک کیا۔ ایک وقت تھا کہ وہاں ایسے انتہا پسند گروہ بہت طاقت ور تھے جو مخالفین کو سر عا م ذبح کر کے ان کے سروں کو پیڑوں اور کھمبوں سے لٹکا دیا کرتے تھے تا کہ لوگ دیکھیں اور عبرت پکڑیں۔ وہاں کیا کچھ نہیں ہوا؟ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہندوستان میں ہوا' اس سے کچھ کم و بیش ہمارے ملک میں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کے مزاج اور کلچر میں اتنا فرق کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہمارے لیے بہت سے پیغام اور اشارے موجود ہیں۔ ہندوستان میں یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن انھوں نے اس سے نپٹنے کے لیے جمہوری راستے پر چلتے رہنے کا انتخاب کیا۔ انھوں نے ایک قوم کے طور پر طے کیا کہ انتہا پسند' علیحدگی پسند اور فرقہ واریت کے حامی جو چاہیں کرتے رہیں لیکن جمہوریت کے تسلسل کو ہر صورت برقرار رکھا جائے گا۔ دانش پر مبنی اس فیصلے اور رویے نے عوام کو موقع دیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی کارگزاری اور ان کے درست اور غلط عمل میں خود تمیز کریں۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے سیاسی استحکام نے معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کیا اور ملکی سیاست میں صبر اور رواداری کا مزاج پیدا کیا۔
ہم کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا۔ ہم نے ان سے نبرد آزما ہونے کی جو حکمت عملی اختیار کی وہ یہ تھی کہ ریاست کو جمہوریت نہیں بلکہ استبدادی طاقت کے ذریعے چلا کر مسائل پر قابو پایا جائے۔ اس بد ترین حکمت عملی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ جمہوریت مخالف قوتیں اور مزاج ہم پر اتنا حاوی ہو چکا ہے کہ 5 برس تک پی پی پی کی منتخب حکومت کے جانے کے دن گنے جاتے رہے اور شرطیں لگائی جاتی رہیں۔
اس حکومت نے مدت پوری کی تو اب مسلم لیگ نواز کی حکومت کے بارے میں اسی نوعیت کی سوچ سامنے آ رہی ہے۔ کوئی 10 ہزار میل دور سے آ کر انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے' کوئی گلیوں اور کوچوں میں سونامی کی قیامت ڈھانے پر تُلا ہوا ہے اور کوئی ریل کی 36 یا 80 نشستوں کے بل پر جمہوری حکومت سے جان چھڑانے کے در پے ہے۔
اس انتہا پسندانہ اور منفی سوچ نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب ہم کو اور ہمارے رہنماؤں کو ضدی بچوں والا یہ رویہ ترک کرنا ہو گا ورنہ دنیا مسکراتی ہوئی آگے بڑھ جائے گی اور ہم کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔
یہ ضرور ہے کہ انتخابی عمل کے دوران خوب شور شرابا ہوتا ہے' حریف جماعتیں ایک دوسرے پر بد ترین تنقید کرتی ہیں' تجزیہ نگار مختلف جماعتوں کی ہار اور جیت کے بارے میں پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ مقبولیت کے سروے ہوتے ہیں جن میں کسی پارٹی کے جیتنے کے امکانات بتائے جاتے ہیں۔ وہ جماعتیں جنھیں جیتنے والوں میں شُمار نہیں کیا جاتا وہ ان جائزوں کو حقارت سے مسترد کر دیتی ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران زور دار جلسے کیے جاتے ہیں۔ اہم جماعتیں وزیر اعظم یا صدر کے لیے جن رہنماؤں کو اپنی طرف سے نامزد کرتی ہیں وہ ایک دن میں کئی کئی جلسوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اب درجنوں جلسوں سے بہ یک وقت خطاب کرنا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ قصہ مختصر یہ' سارا ہنگامہ اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب قانون کے تحت انتخابی سرگرمیوں کی مدت اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔ لوگ ووٹ ڈالتے ہیں' ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے' اکثریت پانے والی جماعت حکومت بناتی ہے اور ریاست کا کام چلتا رہتا ہے۔ کوئی دھاندلی کا الزام لگائے تو اُسے قانون کے مطابق راستہ اپنانا ہوتا ہے۔ ہارنے والے جیتنے والوں کو مبارکباد دیتے ہیں' حسد میں مبتلا نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم یا صدر بننے کا شوق کس سیاستدان کو نہیں ہوتا لیکن مہذب ملکوں کے مہذب سیاسی رہنما اور کارکن ضدی بچوں کی طرح نہیں ہوتے کہ خواہش اگر پوری نہ ہو تو گھر میں ہنگامہ برپا کر دیا جائے۔ چیزیں توڑ ڈالی جائیں اور چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا جائے۔
دور کیوں جائیں ہندوستان کی مثال لے لیں۔ وہاں ایک نہیں 14 مرتبہ قومی انتخابات منعقد ہو چکے ہیں۔ کیسی کیسی عظیم اور مقبول شخصیتوں کو ناکامی اور ہزیمت کا منہ نہیں دیکھنا پڑا' ان کے مقابلے وہ امیدوار جیت گئے جو زیادہ مقبول بھی نہیں تھے لیکن ہار کو تحمل سے برداشت کیا گیا کیونکہ مسئلہ ذات کا نہیں جمہوری نظام کا ہوتا ہے اور ذات پر ملک مقدم ہے۔ نریندر مودی کی کامیابی سے پہلے حریفوں نے ایک دوسرے کو کیا کچھ نہیں کہا۔ ان کے بارے میں تو کھُلے عام جلسوں میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ وہ اقتدار میں آئے تو ہندوستان ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ مسلمانوں اور اچھوتوں کے ووٹ لینے کے لیے رائے دہندگان میں کیسے کیسے خوف پیدا نہیں کیے گئے۔
ہمارے یہاں کوئی جماعت انتخابی مہم چلانے پر پیسہ خرچ کرے تو کہا جاتا ہے کہ بیرونی طاقتیں اسے سرمایہ فراہم کر رہی ہیں یا یہ وہ پیسہ ہے جو اس کے لیڈروں نے لوٹ مار کے ذریعے کمایا ہے۔ یہ جماعت کامیاب ہو گئی تو ملک میں لوٹ مارکا بازار گرم ہو جائے گا۔ نہ ثبوت نہ شواہد بس الزامات کی بھرمار اور ہاہا کار۔ ہندوستان کے حالیہ عام انتخابات میں حریف جماعتوں نے 180 ارب روپے خرچ کیے۔ یعنی ایک کھرب اسی ارب روپے۔ صرف وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے 67 ارب روپے خرچ کیے۔
جدید ترین ٹیکنالوجی کا کھل کر استعمال ہوا اور مودی صاحب نے تو ایک دن میں 100 جلسوں تک سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ جیسے ہی ہندوستان میں انتخابی عمل مکمل ہوا، سارا ہنگامہ ایک لمحے میں موقوف ہو گیا۔ 24 گھنٹے پہلے سارے ہندوستان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور پھر ایسا سکوت طاری ہوا جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے تمام بینر اور جھنڈے سڑکوں اور عمارتوں سے اتار لیے۔ بلدیہ نے دیواریں صاف کر دیں۔ کاروبار حیات حسب معمول رواں دواں ہو گیا۔ جنھیں دھاندلی یا بے قاعدگی کی شکایت تھی وہ قانونی داد رسی کے لیے چلے گئے۔
ہمارے یہاں عموماً لوگوں کو یہ بات پسند نہیں کہ بار بار ہندوستان کی مثالیں دی جائیں۔ بات بھی درست ہے کہ آپ جب کسی کو اپنا حریف تصور کرتے ہوں بلکہ دشمن سمجھتے ہوں تو اس کی اچھی باتوں کا تذکرہ لطف نہیں دیتا۔ لیکن اچھا حریف وہ ہے جو ہر لمحے اپنی کمزوریوں سے آگاہی حاصل کر کے ان پر قابو پائے اور خود کو مضبوط بنائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے مخالف سے بھی سیکھنے کا رویہ اپنائے۔ ہم نے بھی روتے دھوتے جمہوریت کا راستہ اپنا لیا ہے اور دل پر پتھر رکھ کر ایک جمہوری منتخب حکومت کو 68 برس میں پہلی بار میعاد مکمل کرانے کا ''زہر'' بھی پی چکے ہیں۔
اب ایک اور منتخب حکومت ''سر پر مسلط'' ہے۔ ڈر ہے کہ اس نے کارکردگی اچھی دکھا دی تو ووٹر کہیں اسے اگلے5 سال کے لیے دوبارہ منتخب نہ کر لیں۔ مسترد کردہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما یہ بھی سوچتے ہیں کہ اگر 5،5 سال کا سلسلہ چل نکلا تو ہماری باری تو بہت دیر میں آئے گی۔ اتنا انتظار کون کرے؟ ہمارے کچھ لوگوں کو یہ بات خواہ کیسی ہی ناگوار خاطر ہو لیکن معاملہ جمہوریت اور انتخابات کا ہے اس لیے ہندوستان کی مثال واجب ہو جاتی ہے۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ وہاں کے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں میں اتنا صبر و تحمل کیوں ہے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں میں اتنے اشتعال اور عدم رواداری کا رجحان کیوں پایا جاتا ہے؟
سیاسی تحمل اور صبر و ضبط قوموں میں از خود پیدا نہیں ہوتا۔ ایک مسلسل عمل کے بعد یہ پختگی اور رواداری مزاج اور رویوں کا حصہ بنتی ہے۔ ہندوستان میں آزادی ملنے کے بعد پہلے دن سے جمہوری عمل کو چلنے کا موقع دیا گیا جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ سیاسی مزاج سے بھی اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کا کا رجحان کم ہوتا گیا۔ ان کو بھی شروع شروع میں بھیانک عدم رواداری کا سامنا تھا۔ وہاں شمال اور جنوب کی تقسیم اور نفرت عروج پر ہوا کرتی تھی کہ اس کی عکاسی مذہبی معاملات تک میں ہوتی تھی۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں علیحدگی کی زبردست تحریکیں چل رہی تھیں۔ بعض ریاستوں کے علیحدگی پسند نہ صرف ہندوستان کے آئین کو نہیں مانتے تھے بلکہ اس کی کاپیاں سر عام جلایا بھی کرتے تھے۔
آزاد ہندوستان کے بانی مہاتما گاندھی' انتہا پسند کے ہاتھوں مارے گئے۔ نہرو کی بیٹی وزیر اعظم اندرا گاندھی سکھ انتہا پسندی کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہوئیں۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی کو تامل شدت پسندوں نے ہلاک کیا۔ ایک وقت تھا کہ وہاں ایسے انتہا پسند گروہ بہت طاقت ور تھے جو مخالفین کو سر عا م ذبح کر کے ان کے سروں کو پیڑوں اور کھمبوں سے لٹکا دیا کرتے تھے تا کہ لوگ دیکھیں اور عبرت پکڑیں۔ وہاں کیا کچھ نہیں ہوا؟ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ جو کچھ ہندوستان میں ہوا' اس سے کچھ کم و بیش ہمارے ملک میں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اور ہمارے سیاسی رہنماؤں کے مزاج اور کلچر میں اتنا فرق کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب میں ہمارے لیے بہت سے پیغام اور اشارے موجود ہیں۔ ہندوستان میں یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن انھوں نے اس سے نپٹنے کے لیے جمہوری راستے پر چلتے رہنے کا انتخاب کیا۔ انھوں نے ایک قوم کے طور پر طے کیا کہ انتہا پسند' علیحدگی پسند اور فرقہ واریت کے حامی جو چاہیں کرتے رہیں لیکن جمہوریت کے تسلسل کو ہر صورت برقرار رکھا جائے گا۔ دانش پر مبنی اس فیصلے اور رویے نے عوام کو موقع دیا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی کارگزاری اور ان کے درست اور غلط عمل میں خود تمیز کریں۔ اس عمل سے پیدا ہونے والے سیاسی استحکام نے معاشی ترقی کی رفتار کو تیز تر کیا اور ملکی سیاست میں صبر اور رواداری کا مزاج پیدا کیا۔
ہم کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا۔ ہم نے ان سے نبرد آزما ہونے کی جو حکمت عملی اختیار کی وہ یہ تھی کہ ریاست کو جمہوریت نہیں بلکہ استبدادی طاقت کے ذریعے چلا کر مسائل پر قابو پایا جائے۔ اس بد ترین حکمت عملی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ جمہوریت مخالف قوتیں اور مزاج ہم پر اتنا حاوی ہو چکا ہے کہ 5 برس تک پی پی پی کی منتخب حکومت کے جانے کے دن گنے جاتے رہے اور شرطیں لگائی جاتی رہیں۔
اس حکومت نے مدت پوری کی تو اب مسلم لیگ نواز کی حکومت کے بارے میں اسی نوعیت کی سوچ سامنے آ رہی ہے۔ کوئی 10 ہزار میل دور سے آ کر انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے' کوئی گلیوں اور کوچوں میں سونامی کی قیامت ڈھانے پر تُلا ہوا ہے اور کوئی ریل کی 36 یا 80 نشستوں کے بل پر جمہوری حکومت سے جان چھڑانے کے در پے ہے۔
اس انتہا پسندانہ اور منفی سوچ نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب ہم کو اور ہمارے رہنماؤں کو ضدی بچوں والا یہ رویہ ترک کرنا ہو گا ورنہ دنیا مسکراتی ہوئی آگے بڑھ جائے گی اور ہم کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔