انسانی لہو اور سرخ رنگ

حکمرانی امانت کی بجائے باپ دادا کی جاگیر سمجھی جا رہی ہے اور محاسبہ و جوابدہی کی ضرورت مفقود ہو رہی ہے

h.sethi@hotmail.com

سیاسی دخل اندازی کے بغیر میرٹ پر تعینات ہونے والے دو افسران ایک ڈپٹی کمشنر اور ایک قابل پولیس کپتان ضلع میں امن و امان قائم رکھنے پر قادر ہوتے تھے اسی طرح ڈیوولیوشن سے قبل ایک مجسٹریٹ اور سفارش کے بغیر تعینات تھانہ SHO اپنے فرائض کو خوب جانتے تھے۔ وہ اپنے افسران اور ضمیر کو جوابدہ ہوتے تھے۔

علاقہ مجسٹریٹ کا SHO سے رابطہ ہوتا اور وہ جرائم پیشہ اور شرفاء میں اسی طرح تمیز رکھتے جو حالات و واقعات و شخصیات کا تقاضا ہوتا۔ بعض تھانے تب بھی فروخت ہوتے لیکن ان کی منڈی نہیں لگتی تھی۔ تعیناتی ہفتوں اور مہینوں کے لیے نہیں سالوں کے لیے کی جاتی تا کہ پولیس افسر بطور خاص اپنے علاقے، وہاں کے مسائل اور مکینوں کو جان اور پہچان سکے اور ہر وقت اپنی پوسٹنگ کی نگرانی کی بجائے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت پر توجہ دے سکے۔ یہ بہت پرانے دور کی نہیں ماضی قریب کی چند باتیں اور حقائق ہیں۔

جلسے جلوس دھرنے اب اس لیے خوف اور بدامنی کی علامت بن گئے ہیں کہ عدم انصاف اور شنوائی نہ ہونے کے سبب عوام میں بے صبری اور شدت پسندی کا رجحان بڑھ گیا ہے جب کہ فیصلے انتظامی انداز کی بجائے سیاسی مقاصد کے پیش نظر ہونے لگے ہیں۔ حکمرانی امانت کی بجائے باپ دادا کی جاگیر سمجھی جا رہی ہے اور محاسبہ و جوابدہی کی ضرورت مفقود ہو رہی ہے جزا اور سزا کو اہمیت نہیں دی جا رہی، قانون کی حکمرانی غصب ہونے لگی ہے اور حکمرانی موروثیت اختیار کرنے کے درپے ہے جب کہ شخصی آزادی سلب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ سب عوامل اکٹھے ہو گئے اور جمہوریت کے نام لیوا اسے بادشاہت میں بدلنے کے درپے ہیں۔ فساد کی جڑ یہی سوچ اور طرز عمل ہے۔

اب موروثی سیاست لاہور، گجرات، پشاور، کراچی اور ملتان جیسے شہروں میں جنم لے کر کاروبار میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور کاروباری شخص گھاٹے کا سوا کرتا نہ ہی اپنے چلتے پھلتے پھولتے بزنس سے دستبردار ہوتا ہے۔ چند روز قبل بظاہر بیریئر ہٹائے جانے کے نام پر پولیس کی سیدھی فائرنگ سے دس جاں بحق ہونیوالے افراد کا قتل بلا شبہ قتل عمد تھا اور بلا جواز تھا۔ ملک میں ڈی سی اور مجسٹریسی نظام موجود رہتا تو پولیس مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر سیدھا فائر کبھی نہ کھول سکتی، یوں بھی پر تشدد مجمع ہی کیوں نہ ہو فائرنگ ہوائی ہوتی ہے یا ٹانگوں پر نہ کہ سینے یا دھڑ پر۔

ملک میں ہزاروں مقدمات قتل سالہاسال سے عدالتوں میں بوجوہ زیر کار ہیں۔ مجسٹریسی سسٹم ختم ہونے سے قبل قتل کے کیسز ابتدائی طور پر ایک کمٹمنٹ مجسٹریٹ کے روبرو شہادتیں ریکارڈ کرنے کی غرض سے فوری طور پر پیش ہوا کرتے تھے جس کے کئی مثبت اثرات ہوتے تھے۔ استغاثہ اور صفائی کے گواہ دو تین ماہ کی پولیس تفتیش کے بعد کمٹمنٹ مجسٹریٹ کے روبرو ملزم سمیت پیش کیے جاتے۔


تاخیر نہ ہونے کے سبب گواہان عدالت میں بیشتر سچ بیان ریکارڈ کراتے مخالف فریق اتنے کم عرصے میں نہ انھیں منحرف کرا سکتا نہ Win Over کر سکتا نہ ہی دھمکی یا لالچ کے ذریعے غلط بیانی پر مجبور کر سکتا۔ مجسٹریٹ کے روبرو بیان کے بعد اگر گواہ سیشن سپرد ہونے کے بعد پہلے بیان سے انحراف کرتا تو خود مجرم ہو سکتا تھا۔ اس طرح ملزموں کے بچ نکلنے کی راہ تنگ ہو کر مسدود ہو جاتی اور سیشن ٹرائیل میں انصاف اور سزا کا زیادہ امکان ہوتا۔ کمٹمنٹ پروسیڈنگز ختم کرنے سے سزاؤں میں واضح کم آئی اور تاخیر اس کے علاوہ۔ مقصد یہ کہ DC سسٹم اور کمٹمنٹ ٹرائیل ختم کرنا سزاؤں میں کمی، تاخیر اور پولیس گردی آنے کا سبب بنا۔

اگر ملک میں DC سسٹم موجود ہوتا تو DC کے پاس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات ہونے کی وجہ سے ادارہ منہاج القرآن اور طاہر القادری کی رہائش گاہ وغیرہ کے اردگرد بیریئر ہٹانے کے لیے جانیوالی پولیس کے انچارج کے طور پر اس علاقے کا علاقہ مجسٹریٹ ان کے ہمراہ ہوتا جو اس روز پولیس کو گولیاں برسانے کی کبھی اجازت نہ دیتا تا آنکہ اسے اپنی اور پولیس فورس کی جانوں کو خطرہ محسوس ہوتا اور وہ بھی شاید ہوائی فائرنگ یا منہاج القرآن ادارے کے افراد کی ٹانگوں کو مضروب کرنے کی اجازت دیتا۔ اب تک جو 10 مردوں اور خواتین کی لاشیں ملیں وہ سب چھاتی یا سر پر گولی لگنے سے زخمی ہوئے نہ کہ ٹانگوں پر لہٰذا ڈی سی سسٹم کا دوبارہ رائج کیا جانا وقت کی فوری ضرورت ہے۔

خود میں نے اپنی ملازمت کے دوران درجنوں جلوسوں کو ہمراہی پولیس کے ذریعے کبھی ہوائی فائرنگ سے اور کبھی جلوس کا پیچھا کر کے اور کبھی ڈائیلاگ سے منتشر کیا ہے لیکن ایک شخص بھی مضروب نہیں ہونے دیا۔ گزشتہ دنوں پتھراؤ کے جواب میں 10 افراد کی ہلاکت اور درجنوں کی مضروبی سمجھ سے بالاتر ہے لہٰذا اسے پولیس کی دہشت گردی سے چھوٹا نام نہیں دیا جا سکتا۔ یہ الگ بات کہ تعلیمی ادارے نے بھی بیریئر گردی کی انتہا کر رکھی تھی اور یہی جگہ نہیں ایسے بیریئر اس شہر میں سینکڑوں دفتروں، تھانوں اور رہائش گاہوں پر اس وقت بھی موجود ہیں۔ اس وقت بھی جب مولانا موصوف سال کے ساڑھے گیارہ ماہ ملک سے باہر ہوتے ہیں ان کے مکان پر بیریئر اور مسلح گارڈ موجود ہوتے ہیں جس کی حکمت حیرت کا باعث ہے لیکن اس کے باوجود ایسا پولیس آپریشن کسی بھی شخص کے لیے باعث حیرت و نفرت ہے جس میں دس افراد سیدھی آنے والی گولیوں سے مار ڈالے جائیں۔

میاں شریف فیملی اور طاہر القادری کے درمیان محبت اور قربت بھی انتہا کی رہی ہے جس کا مظہر تعلیمی ادارے کا قیام بھی ہے پھر یہ قربت اتنی نفرت اور مخالف میں کیوں بدل گئی۔ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے۔ اس منظر پر بھی توجہ کی ضرورت ہے جو چینلز نے دکھایا کہ یک عمارت کی چھت پر مسلح لوگ بھی موجود تھے۔ قانون کے مطابق ڈنڈوں یا تھپڑوں کی لڑائی میں کوئی شخص جاں بحق ہوجائے تو جرم قتل نہیں کہلائے گا لیکن نہتے یا ڈنڈہ بردار کو سامنے سے بندوق کے فائر سے مار دیا جائے تو یہ قتل عمد ہی بنے گا۔ کیا یہ سازش تھی یا واضح احکام کی بجا آوری اس پر جوڈیشل کمیشن ضرور نتیجہ اخذ کر لے گا۔ لیکن جو مناظر چینلز نے دکھائے بہ آسانی ہضم ہونے والے نہیں۔

اسی شہر میں اسی ہفتے دو جگہوں پر سرخ رنگ دیکھا ایک ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں پولیس گردی کے دوران ٹی وی چینلز کے توسط سے تو دوسرا سرخ رنگ جو پینٹنگز کی نمائش کے دوران حمائل آرٹ گیلری میں نیشنل کالج آف آرٹس کی آرٹسٹ گریجویٹ وردہ بخاری نے دیہاتی عورت کو ذہن میں رکھ کر عام تصاویر کی بجاے ان میں تار دھاگے، گرہیں سلائی کڑھائی کے ساتھ برش کے ذریعے رنگوں کی کی آمیزش کر کے ایک نئے تجربے کی صورت میں دکھایا۔

NCA کے پرنسپل ڈاکٹر جعفری نے نمائش کا افتتاح کر لیا تو ناظرین نے تصاویر میں مصوری کو نیلے پیلے براؤن اور سرخ رنگوں میں دل و نگاہ کے ساتھ تسکین قلب کا باعث پایا۔ پینٹنگز میں سرخ رنگ اس لہو سے قطعی مختلف تھا جو پولیس نے دس عدد قتل اور بیسیوں کو گھائل کر کے ٹی وی ناظرین کو دکھایا۔ دیواروں پر لگے مصوری کے فریم قلب و نظر کو گرما رہے تھے اور میں پریشان کہ ایک ہی شہر میں چند روز کے وقفے اور چند کلو میٹر کے فاصلے پر حیوانی کھیل بھی دیکھا اور سرخ رنگ میں تسکین قلب کا سامان بھی۔
Load Next Story