کرپٹ امتحانی نظام
ہمارے علمی ارباب حل و عقد نے نہ کبھی اس بارے میں غور کرنے کی زحمت کی نہ اسے اپنا مسئلہ بنایا
میٹرک کے امتحانات کی تاریخ آتے ہی ان امتحانات کے بارے میں ایسی تفصیلات شایع ہوتی ہیں کہ اگر ان میں 20 فی صد بھی صداقت ہو تو کسی قوم کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ اخبارات نے امتحانات کے انعقاد کی جو تفصیلات شایع کی ہیں وہ حکمرانوں، ماہرین تعلیم، والدین اور خود طلبا کے لیے بھی ذلت اور رسوائی کا باعث ہیں۔
اخبارات نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امتحانات کا انعقاد ملک کے بعض حلقوں کے لیے ایک اہم بزنس ہے۔ ابھی امتحانات کے انعقاد کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا صرف تاریخ کا اعلان ہوا تھا کہ ایک اخبار نے اطلاع دی کہ اب تک دس کروڑ روپے کا دھندا ہو چکا ہے، اگر یہ خبر غلط یا مبالغہ آمیز تھی تو کسی نہ کسی ذمے دار ادارے، حلقے یا افراد کی طرف سے اس کی تردید ہونا چاہیے تھی، مگر
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
یہ دھندا کیوں کر اور کیسے شروع ہوتا ہے؟ جن اسکولوں میں مراکز قائم کیے جاتے ہیں، ان میں سے متعدد اسکولوں کو نقل کرنے والوں کی جنت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اسکولوں کو مرکز بنانے اور پھر اس میں نقل کا عمل جاری رکھنے کے لیے بھاری رقوم ادا کی جاتی ہیں۔
دوسرا مرحلہ فرنیچر کا ہے۔ امتحانوں میں نشستوں کا اہتمام اور طلبا کے درمیانی فاصلے کو مدنظر رکھنے کے باعث کسی بھی اسکول کے پاس اتنا فرنیچر نہیں ہوتا کہ سارے طالب علم سما سکیں، چنانچہ فرنیچر بازار سے کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے۔ فرنیچر کہاں سے، کس سے اور کس شرح سے خرید کیا جائے اس میں بھی رشوت کا کاروبار جاری رہتا ہے۔
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے نقل کا۔ نقل کی اجازت دینے کے معاوضے کے طور پر بھاری رقوم اسکول اور نقل کا بندوبست کرنے والوں کو ادا کی جاتی ہیں۔ مرکز کے باہر کھلم کھلا بیٹھ کر پرچہ حل کرنے، اسے اسکول کے اندر متعلقہ طلبا تک پہنچانے کے عمل کے لیے بھی سب سے زیادہ متحرک چیز پیسہ ہوتا ہے۔
جب نقل کے کلچر نے اپنے پَر پرواز وا کیے تھے تو نقل کے لیے پرتشدد طریقہ اختیار کیا گیا۔ جو استاد نقل میں آڑے آتا اسے زد و کوب کیا جاتا۔ پرچہ ختم ہونے کے بعد جب نگراں فارغ ہو کر گھر جانے لگتا تو اسے اسپتال پہنچا دیا جاتا۔
اس صورت حال سے تنگ آ کر اساتذہ نے کہنا شروع کیا کہ چند ٹکوں کے عوض ہم کیوں ذلت اٹھائیں، انھوں نے امتحان کی نگرانی کا کام ترک کر دیا۔ ان کی جگہ اسکول اور کالجوں کے غیر تدریسی عملے اور ان کے ملنے جلنے والے یار باش اب امتحانات کی نگرانی کرنے لگے اور انھیں یہ بالائی در بالائی آمدنی راس آئی کیوں کہ وہ کسی کے آڑے نہ آتے تھے تب سے یہ مادر پدر آزادی نقل کرنے والوں کو حاصل ہو گئی ہے۔
اب اس ساری صورت حال کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ اب صرف طالب علم نقل نہیں کرتا، والدین بھی اس کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، اس کا پرچہ حل کرکے دینے والوں کو مشروب مہیا کرنا کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، والدین اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں، اب جب کہ والدین خود شریک نقل ہوں تو اولاد کا کیا حشر ہوگا۔
اب نہ استاد کا احترام رہا، نہ والدین کا خوف نہ معاشرے کی ملامت، نہ کسی اور قسم کا خوف و خطر۔ اب نقل دھڑلے سے ہوتی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیش ہی نہیں آتی۔ شاید کاپیوں کی جانچ بھی اسی انداز میں ہوتی ہوگی کہ کس طالب علم کا نقال زیادہ '' بہتر'' یا زیادہ اچھا ہے یا نہیں۔ اب امتحان طالب علم کی لیاقت کا امتحان نہیں رہا۔ اب امتحان استاد کی مہارت فن کا آئینہ دار نہیں رہا۔ اب والدین اپنے بچوں کی نگرانی کے بجائے ان کی بداعمالیوں کے شریک کار ہو کر رہ گئے ہیں۔
اب اسی تعلیمی مسئلے کے ایک دوسرے پہلو کو دیکھیے۔ پاکستان میں امتحانات کے لیے مناسب ترین زمانہ '' مارچ'' کا ہوتا ہے مگر اب امتحانات ٹلتے ٹلتے مئی اور جون تک آ پہنچے ہیں جو پاکستان کے 70 فی صد حصے کے لیے انتہائی نامناسب موسم ہوتا ہے۔ یہ مہینہ گرمی کی انتہا کا مہینہ ہوتا ہے اور عموماً درجہ حرارت 42 ڈگری ہوتا ہے۔ اس شدید موسم میں اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسکولوں اور کچھ قابل ذکر سرکاری اسکولوں کے علاوہ تقریباً 60 فی صد اسکول ذرائع و وسائل کے بغیر امتحان لے رہے ہوتے ہیں۔
شدید گرمی کے باعث نہ صرف وہ خود پسینہ میں شرابور ہوتے ہیں بلکہ پسینہ ان کی امتحانی کاپی پر گر گر کے لکھا ہوا مٹاتا رہتا ہے۔ سرکاری افسران جن میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسر بھی شامل ہوتے ہیں اپنے '' ایئرکنڈیشنڈ'' دفاتر میں تشریف فرما ہوتے ہیں اور امتحان دینے والے بچے کہیں خیموں میں، کہیں محض دریوں پر بیٹھ کر امتحان دے رہے ہوتے ہیں اور 42 ڈگری کی گرمی میں وہ یہ کام کیوں کر اور کیسے کر لیتے ہیں، اس کی داد دینا پڑتی ہے مگر اس بے داد کا نتیجہ پیپر کے خراب ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس میں طالب علم کا قصور کہیں نظر نہیں آتا۔
آج تک ان گنہگار کاروں نے یہ نہیں سنا کہ بجلی کی ترسیل کے محکموں کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ امتحانی مراکز میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ وہ طالب علم جو ویسے ہی گرمی کے باعث اپنے گھر کے بجائے سہ پہر کو پارک میں رات کو بجلی کے کھمبے کے نیچے بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتے ہیں اور نہیں کر پاتے وہ امتحانی مراکز میں بھی اپنے مقدر کو روتے رہتے ہیں وہ کس طور اچھا پرچہ کر سکتے ہیں؟
مگر ہمارے علمی ارباب حل و عقد نے نہ کبھی اس بارے میں غور کرنے کی زحمت کی نہ اسے اپنا مسئلہ بنایا۔ ان حالات کا شکار آج کا طالب علم کل کا کیسا شہری ہوگا اور وہ کس برتے پر اس ملک کا شہری ہونے پر فخر کر سکے گا؟
اخبارات نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امتحانات کا انعقاد ملک کے بعض حلقوں کے لیے ایک اہم بزنس ہے۔ ابھی امتحانات کے انعقاد کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا صرف تاریخ کا اعلان ہوا تھا کہ ایک اخبار نے اطلاع دی کہ اب تک دس کروڑ روپے کا دھندا ہو چکا ہے، اگر یہ خبر غلط یا مبالغہ آمیز تھی تو کسی نہ کسی ذمے دار ادارے، حلقے یا افراد کی طرف سے اس کی تردید ہونا چاہیے تھی، مگر
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں
یہ دھندا کیوں کر اور کیسے شروع ہوتا ہے؟ جن اسکولوں میں مراکز قائم کیے جاتے ہیں، ان میں سے متعدد اسکولوں کو نقل کرنے والوں کی جنت قرار دیا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے اسکولوں کو مرکز بنانے اور پھر اس میں نقل کا عمل جاری رکھنے کے لیے بھاری رقوم ادا کی جاتی ہیں۔
دوسرا مرحلہ فرنیچر کا ہے۔ امتحانوں میں نشستوں کا اہتمام اور طلبا کے درمیانی فاصلے کو مدنظر رکھنے کے باعث کسی بھی اسکول کے پاس اتنا فرنیچر نہیں ہوتا کہ سارے طالب علم سما سکیں، چنانچہ فرنیچر بازار سے کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے۔ فرنیچر کہاں سے، کس سے اور کس شرح سے خرید کیا جائے اس میں بھی رشوت کا کاروبار جاری رہتا ہے۔
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے نقل کا۔ نقل کی اجازت دینے کے معاوضے کے طور پر بھاری رقوم اسکول اور نقل کا بندوبست کرنے والوں کو ادا کی جاتی ہیں۔ مرکز کے باہر کھلم کھلا بیٹھ کر پرچہ حل کرنے، اسے اسکول کے اندر متعلقہ طلبا تک پہنچانے کے عمل کے لیے بھی سب سے زیادہ متحرک چیز پیسہ ہوتا ہے۔
جب نقل کے کلچر نے اپنے پَر پرواز وا کیے تھے تو نقل کے لیے پرتشدد طریقہ اختیار کیا گیا۔ جو استاد نقل میں آڑے آتا اسے زد و کوب کیا جاتا۔ پرچہ ختم ہونے کے بعد جب نگراں فارغ ہو کر گھر جانے لگتا تو اسے اسپتال پہنچا دیا جاتا۔
اس صورت حال سے تنگ آ کر اساتذہ نے کہنا شروع کیا کہ چند ٹکوں کے عوض ہم کیوں ذلت اٹھائیں، انھوں نے امتحان کی نگرانی کا کام ترک کر دیا۔ ان کی جگہ اسکول اور کالجوں کے غیر تدریسی عملے اور ان کے ملنے جلنے والے یار باش اب امتحانات کی نگرانی کرنے لگے اور انھیں یہ بالائی در بالائی آمدنی راس آئی کیوں کہ وہ کسی کے آڑے نہ آتے تھے تب سے یہ مادر پدر آزادی نقل کرنے والوں کو حاصل ہو گئی ہے۔
اب اس ساری صورت حال کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ اب صرف طالب علم نقل نہیں کرتا، والدین بھی اس کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، اس کا پرچہ حل کرکے دینے والوں کو مشروب مہیا کرنا کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنا ہی کافی نہیں ہوتا، والدین اس کا معاوضہ بھی ادا کرتے ہیں، اب جب کہ والدین خود شریک نقل ہوں تو اولاد کا کیا حشر ہوگا۔
اب نہ استاد کا احترام رہا، نہ والدین کا خوف نہ معاشرے کی ملامت، نہ کسی اور قسم کا خوف و خطر۔ اب نقل دھڑلے سے ہوتی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ پیش ہی نہیں آتی۔ شاید کاپیوں کی جانچ بھی اسی انداز میں ہوتی ہوگی کہ کس طالب علم کا نقال زیادہ '' بہتر'' یا زیادہ اچھا ہے یا نہیں۔ اب امتحان طالب علم کی لیاقت کا امتحان نہیں رہا۔ اب امتحان استاد کی مہارت فن کا آئینہ دار نہیں رہا۔ اب والدین اپنے بچوں کی نگرانی کے بجائے ان کی بداعمالیوں کے شریک کار ہو کر رہ گئے ہیں۔
اب اسی تعلیمی مسئلے کے ایک دوسرے پہلو کو دیکھیے۔ پاکستان میں امتحانات کے لیے مناسب ترین زمانہ '' مارچ'' کا ہوتا ہے مگر اب امتحانات ٹلتے ٹلتے مئی اور جون تک آ پہنچے ہیں جو پاکستان کے 70 فی صد حصے کے لیے انتہائی نامناسب موسم ہوتا ہے۔ یہ مہینہ گرمی کی انتہا کا مہینہ ہوتا ہے اور عموماً درجہ حرارت 42 ڈگری ہوتا ہے۔ اس شدید موسم میں اعلیٰ درجے کے پرائیویٹ اسکولوں اور کچھ قابل ذکر سرکاری اسکولوں کے علاوہ تقریباً 60 فی صد اسکول ذرائع و وسائل کے بغیر امتحان لے رہے ہوتے ہیں۔
شدید گرمی کے باعث نہ صرف وہ خود پسینہ میں شرابور ہوتے ہیں بلکہ پسینہ ان کی امتحانی کاپی پر گر گر کے لکھا ہوا مٹاتا رہتا ہے۔ سرکاری افسران جن میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسر بھی شامل ہوتے ہیں اپنے '' ایئرکنڈیشنڈ'' دفاتر میں تشریف فرما ہوتے ہیں اور امتحان دینے والے بچے کہیں خیموں میں، کہیں محض دریوں پر بیٹھ کر امتحان دے رہے ہوتے ہیں اور 42 ڈگری کی گرمی میں وہ یہ کام کیوں کر اور کیسے کر لیتے ہیں، اس کی داد دینا پڑتی ہے مگر اس بے داد کا نتیجہ پیپر کے خراب ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس میں طالب علم کا قصور کہیں نظر نہیں آتا۔
آج تک ان گنہگار کاروں نے یہ نہیں سنا کہ بجلی کی ترسیل کے محکموں کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ امتحانی مراکز میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائیں تاکہ وہ طالب علم جو ویسے ہی گرمی کے باعث اپنے گھر کے بجائے سہ پہر کو پارک میں رات کو بجلی کے کھمبے کے نیچے بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتے ہیں اور نہیں کر پاتے وہ امتحانی مراکز میں بھی اپنے مقدر کو روتے رہتے ہیں وہ کس طور اچھا پرچہ کر سکتے ہیں؟
مگر ہمارے علمی ارباب حل و عقد نے نہ کبھی اس بارے میں غور کرنے کی زحمت کی نہ اسے اپنا مسئلہ بنایا۔ ان حالات کا شکار آج کا طالب علم کل کا کیسا شہری ہوگا اور وہ کس برتے پر اس ملک کا شہری ہونے پر فخر کر سکے گا؟