ڈاکٹر فردوس انور قاضی کی ادبی خدمات

تنقید اور تحقیق کے میدان میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

ڈاکٹر فردوس انور قاضی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین شاعرہ، قابل رشک افسانہ و ناول نگار اور نقاد ہیں، تنقید اور تحقیق کے میدان میں بھی انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے، ڈین فیکلٹی آف لینگویج رہ چکی ہیں۔

انہوں نے ایم اے کراچی یونیورسٹی سے 1971میں جبکہ پی ایچ ڈی بلوچستان یونیورسٹی سے 1983 میں کی، لیکچرار شعبہ اردو بلوچستان یونیورسٹی (1975 تا 1984) اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ترقی کا سفر کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو، اس کے علاوہ ایم فل، پی ایچ ڈی بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ ( سپروائزر ایم فل، پی ایچ ڈی اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں تعینات رہیں، سات کتابوں کی مصنفہ ہیں، مدیر قلم و ادبی جریدہ، صدر شعبہ انتظامیہ قلم قبیلہ ادبی ٹرسٹ، پرنسپل ثاقبہ گرلز کالج خدمات انجام دیتی رہی ہیں۔

ان کی عملی و ادبی امور تحسین کے لائق ہیں، ایسی شخصیات خال خال شعر و ادب کے میدان میں جلوہ فگن نظر آتی ہیں جو شعر و سخن اور ادبی و تنقیدی میدان میں فعال ہوں، ساتھ میں تدریس کے فرائض بھی انجام دے رہی ہوں، گویا انہوں نے اپنے طالب علموں کی ایک ایسی کھیپ تیار کر لی ہے، جو بے مثال کارنامے انجام دینے کے لیے میدان عمل میں داخل ہوچکے ہیں اور یہ ہی ڈاکٹر فردوس انور قاضی کی ملک و ملت کے اعتبار سے اہم خدمات ہیں۔

اس وقت میں ان کی تین ضخیم کتابوں پر بات کروں گی، پہلی کتاب جسے میں احاطہ تحریر میں لانا چاہتی ہوں اس کا نام ہے '' اردو افسانہ نگاری کے رجحانات''۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دو بار شائع ہوئی، پہلا ایڈیشن 1990 میں جبکہ دوسرا 1999 میں اشاعت کے مرحلے سے گزرا ، یہ تیرہ ابواب اور 680 صفحات پر مشتمل ہے۔

پہلے باب میں انہوں نے تاریخی پس منظر سرسید تحریک کا جائزہ، باب نمبر اول سے پانچ مضامین کا انتخاب کیا ہے، مضامین مختلف موضوعات کے حوالے سے تحریر کیے ہیں، ادب کے مختلف اصناف پر سرسید تحریک کے اثرات، اس کے بعد ناول سے افسانوں تک، داستان کا خاتمہ۔ سرسید تحریک کا جائزہ رومانی تحریک اور دوسری تحریکوں کا جائزہ۔ دوسرے باب میں سیاسی پس منظر، اردو افسانے کا رومانی دور پر بحث کی گئی ہے، افسانہ نگاروں کے فن افسانہ پر انہوں نے مدلل اور مؤثر مضامین لکھ کر قاری کی معلومات میں اضافہ کیا ہے اور ان کی تحقیق کے مطابق منشی پریم چند کا پہلا افسانہ '' انمول رتن'' قرار دیا گیا ہے۔

اردو افسانے کی ابتدا ہی میں دو واضح رجحانات ملتے ہیں رومانیت اور حقیقت پسندی، رومانیت کے زمرے میں سجاد حیدر یلدرم اور حقیقت پسندی کا رجحان پریم چند کے افسانوں میں موجود ہے۔ احتشام حسین لکھتے ہیں ''یہ اردو افسانے کی خوش قسمتی تھی کہ دو بہت اچھے فنکار اس کو ابتدا ہی میں مل گئے اور دونوں نے اسے گھٹنوں چلنے سے بچا لیا اور شروع ہی میں اس کو جوان بنا کر پیش کردیا۔''


تیسرا اور چوتھا باب پریم چند اور یلدرم اسکول کے حوالے سے وضاحت کے ساتھ لکھا گیا ہے اور اس دور کے افسانہ نگاروں کے افسانوں کا جائزہ باریک بینی سے لیا ہے۔ پانچواں، چھٹا، ساتواں، آٹھواں اور نواں ان ابواب میں اردو افسانے میں مزاحیہ رجحان اور مزاح لکھنے والے اہم افسانہ نگاروں کا تعارف ان کی ادبی خدمات کا تذکرہ نظر آتا ہے دوسرے تمام ابواب میں افسانہ نگاروں کے افسانوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ ان افسانوں کی خوبی اور خامی اس کے ساتھ علامت نگاری کی اہمیت کو ڈاکٹر صاحبہ نے اجاگر کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ نے مثالوں اور حوالہ جات کے ذریعے بہترین اور سبق آموز تحریریں لکھی ہیں، افسانے کی گویا مکمل تاریخ موجود ہے، فسادات اور فساد کے سبب سے جو افسانے تخلیق کیے گئے، اس حوالے سے بھی احمد ندیم قاسمی کا افسانہ پرمیشر سنگھ اور اس افسانے کا کردار پریتم سنگھ کی بربریت کے ماحول کو اجاگر کیا گیا ہے ، ڈاکٹر فردوس انور قاضی کے اس افسانے سے ان سطور کا ذکر کیا ہے اور اس وقت کے حالات کی عکاسی چند جملوں میں کردی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں تجزیہ کرنے میں ید طولیٰ حاصل ہے وہ کرداروں کی نبض پر ہاتھ رکھتی ہیں۔ بارھواں اور تیرھواں باب جدید اور جدید ترین افسانہ نگاروں کی تخلیقیت میں جو افسانوی اور غیر افسانوی رنگ ابھرکرآیا ہے، اس پر انہوں نے جرات اظہار کا نمونہ پیش کیا ہے۔

'' اردو ادب کے مختلف زاویے '' یہ کتاب بھی اردو ادب کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، ادب کے شائقین اور طالب علم اگر اس کتاب کا مطالعہ توجہ سے کرلیں، تو ان کے لیے کلاسیکی ادب کے در وا ہوجائیں گے۔ اس کتاب کی ضخامت 528 صفحات اور یہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے، آخر میں اضافی صفحات۔ ایک تعارف اور غلام ابن غلام ( خیالیہ) کے عنوان سے درج ہیں، جس میں انہوں نے اپنی دلی کیفیت کو خود کلامی کے انداز میں بیان کیا ہے اور یہ تحریر بیانیہ افسانے کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، خوبصورت مناظر اور انسانی تہذیب اور اقدارکی پامالی کا گہرا کرب الفاظ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔

کتاب کا پہلا باب کلاسیکی ادب کا ترجمان ہے، اردو ادب کا پہلا ڈرامہ '' اندر سبھا'' میر امن کی تحریر کردہ ایک اہم داستان ''باغ و بہار''، میر تقی میر ایک انسانیت ساز شخصیت شاعری کے آئینے میں اس ہی طرح دوسرے شعراء اور افسانہ نگاروں کا تعارف اور تخلیق پر سیر حاصل گفتگو مضامین کی شکل میں قاری کو معلومات بہم پہنچاتی ہیں۔ تحقیق اور تنقید اس باب میں ربع صدی کا ادب اردو افسانہ، ناول، اردو بحیثیت سرکاری اور تعلیمی زبان اردو نثر کے ارتقائی مراحل '' شخص و عکس'' اور علم و ادب اور شاعری کے حوالے سے دس اہم ترین شخصیات کا نام اور کام ساتھ میں ڈاکٹر صاحبہ کا تبصرہ قابل غور اور اثر انگیز ہے سادہ اور سلیس زبان میں۔ '' ادبی فکری زاویے اور بیگم ثاقبہ رحیم الدین''، فن اور شخصیت کے حوالے سے بہت سی اہم معلومات سامنے آتی ہیں ۔ اردو ادب کے مختلف زاویے کی اشاعت نے علم وادب کے پرستاروں کی معلومات میں بھرپور اضافہ کیا ہے۔

ڈاکٹر فردوس انور قاضی کا ایک ناول ''خواب کہانی'' میرے مطالعے میں رہا ہے، اس کے حوالے سے چند سطور، یہ ناول قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی پاکستان آمد اور پھر وڈیروں، سیاستدانوں کے تعصب، نفرت اور خود غرضی نے مہاجروں کی ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے میں بھرپور کردار ادا کیا اور قابل نفرت کرداروں کے ذریعے سامنے آیا ہے، آج پاکستان تنزلی کا شکار ہے، تعلیمی لحاظ سے انہیں پیچھے رکھا گیا، اس طرح مہاجرین کے ساتھ مقامی سندھی اور دوسری زبانیں بولنے والے بھی اس زیادتی کا شکار ہوئے، ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو پاکستان کے وجود سے منحرف تھے۔

کرپٹ سیاستدان، بیوروکریٹس اور وڈیروں نے صرف اور صرف اپنا بھلا سوچا، کوٹہ سسٹم نے کراچی کے نوجوانوں کے ساتھ ظلم کی انتہا کردی، ان کا سنہرا مستقبل چھین لیا، تعلیمی اداروں میں منفی رویہ پروان چڑھنے لگا اور آج بھی یہ ہی صورتحال ہے، ڈاکٹر فردوس انور قاضی نے انہی حالات اور افسوسناک واقعات کو ناول میں جگہ دی ہے۔

یہ ناول پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک ایسی تلخ حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ جسے پڑھ کر اس بات کا دکھ ضرور ہوتا ہے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا اور مہاجرین نے بھرے پرے گھرانے، باغات، زمینیں، جائیداد اور حویلیاں چھوڑیں وہ مقصد فوت ہوچکا ہے، پاکستان کو اپنی ذاتی جائیداد سمجھنے اور شہریوں کے حقوق غصب کرنے والے ایک دن اللہ کی پکڑ میں ضرور آئیں کہ اللہ کی رسی دراز ہے۔
Load Next Story