’’شیخ مجیب ‘‘
شیخ مجیب ریاست اور مذہب کو الگ الگ زاویہ دیتے تھے، وہ جناح کی طرح سیکیولر ازم کے حامی تھے
عمران نے چند دن قبل ایک ٹویٹ کیا کہ ان کو بھی شیخ مجیب کی طرح دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح انھوں نے اپنا موازنہ شیخ مجیب الرحمٰن سے کیا ہے۔ ان کے اس ٹویٹ پر شدید ردِعمل آیااور شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنے بانی کی اس ٹویٹ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
اس ٹویٹ کے حوالے سے جو بیانیہ اور ردِ عمل دیکھنے اور سننے کو ملا ، اس درست اور غلط ہونے پر بات ہوسکتی ہے تاہم میں ، شیخ مجیب سے ان حقائق پر بات کرنا چاہتا ہوں جن کی نشاندہی حمود الرحمٰن کمیشن نے کی تھی۔ حمود الرحمٰن کمیشن میں میرے والد قاضی فیض محمد بحیثیت گواہ پیش ہوئے تھے، عوامی لیگ کے لیڈرکی حیثیت سے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے آج کے سیاسی تضادات و حالات میں آخر شیخ مجیب سے اتنی محبت کیوں ظاہرکی؟ شاید وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے ہوں، نو مئی کے واقعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے عزائم اور نیت اچھی نہیں ہے لیکن شیخ مجیب کا کردار مبہم نہیں ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ شیخ مجیب کی نیت اورکردار اتنا ہی مشکوک تھا جتنا کہ جنرل یحییٰ اوران کے قریبی کرداروں کا۔
مجھ پر یہ فرض ہے کہ میں اس شیخ مجیب الرحمنٰ کے بارے میں کچھ لکھوں جو سولہ دسمبر 1971تک ہماری تاریخ کا حصہ رہا۔ چار مارچ 1971 کی وہ شام جب شیخ مجیب الرحمٰن میرے والد سے آخری بار اپنے دھان منڈی ڈھاکا والے گھر میں ملے اور کہا کہ '' اب ہم دو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں۔ ہم نے پاکستان سے آزادی کا اعلان کردیا ہے۔''
یہ وہ نتیجہ تھا جس کا تعین شیخ مجیب نے نہیں بلکہ مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ان چند لوگوں نے کیا جنھوں نے اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکارکر دیا تھا حالانکہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ الیکشن جیت چکی تھے ، انتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کردوں کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو آمریت کی چھتر چھاؤں میں تھے جن کی پیپلزپارٹی صرف پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل کر پائی تھی۔
کراچی کے معروف وکیل عزیز شیخ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما تھے۔اپنی سوانح حیات میں 1960 کی دہائی میں تھائی لینڈ میں تعینات پاکستانی سفیر جونیجو صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان جب تھائی لینڈ کے دورے پرگئے تھے اور رات کوکاموں سے فراغت کے بعد جنرل یحییٰ نے ذاتی گفتگو کے دوران میں پاکستانی سفیر سے پوچھا '' ان بنگالیوں سے کیسے جان چھڑائی جائے؟ ''
ایسے کئی شواہد ہمیں ملتے ہیں جو اس بات کو ظاہرکرتے ہیں، ہمارے صاحبِ اقتدار لوگ بہت پہلے سے ''ان'' بنگالیوں کی اکثریت سے کس قدر بیزار اور پریشان تھے۔
1971کے بہت سے ایسے واقعات کا ذکرکیا جاسکتا ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ ناانصافیاں کی گئیں! ان ناانصافیوں کا آغازکب سے ہوا اور کس مقتدر گروہ نے یہ کام شروع کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اپنی سوانح حیات یہ لکھتے ہیں کہ وہ خود اس ہال میں موجود تھے جب قائدِ اعظم نے اردو زبان کو قومی زبان قرار دے دیا لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں کہ اس بات کو پاکستان ٹوٹنے کی بنیاد بنایا جا سکے۔
لیاقت علی خان نے لگ بھگ اسی ارکان کی مشرقی پاکستان مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی سے حسین شہید سہروردی کو برخاست کیا، اور کیسے اسمبلی کو تحلیل کیا ؟ حکومت کو تحلیل کیا؟ یہ سارا ماجرا سمجھ میں آئے، اگرکوئی جسٹس دراب پٹیل کی سوانح عمری کا مطالعہ کرے۔ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا اور شیخ مجیب وزیرِاعظم بن جاتے ، چاہے یہ اجلاس ڈھاکا میں ہی کیوں نہ ہوتا، تب بھی ذوالفقارعلی بھٹو کواپوزیشن لیڈر بننے سے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
نیشنل عوامی پارٹی دو صوبوں میں حکومت بناتی اور ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت بناتی اور سندھ میں بھی آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بناتے۔ شیخ مجیب یقیناً یہ چاہتے تھے کہ وہ پورے پاکستان کے وزیرِاعظم ہوں اور مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے سب سے بڑے لیڈر میرے والد تھے۔
1947سے ہی ایسا نظام ہوتا کہ اکثریت رکھنے والے مشرقی پاکستان پہلی بار ہی اپنی جیتی ہوئی پارٹی کی مدد سے مرکز میں حکومت کرتے جو پہلے بلواسطہ یا بلاواسطہ مغربی پاکستان خصوصاً مہاجرین کی قیادت کرتا رہا۔ جب پہلی بار وقت آیا بنگالیوں کی حکومت بنانے کا تو اس وقت مغربی پاکستان پر قابض گروہ نے انھیں حکومت دینے سے انکارکر دیا۔
بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنی کتاب میں اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے ،اسے پڑھ کر سمجھ آجائے گی حالیہ دور میں عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ یا جنرل فیض حمید کی بنائی ہوئی ہائبرڈ جمہوریت نے کس طرح پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔
2014 میں پاکستان کی جمہوری حکومت کے خاتمے کے پلان کو دیکھیں، یا پھر اعلیٰ عدلیہ کے اقامے پر تاحیات نااہلی کے فیصلے کو دیکھیں ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الحسن ، جسٹس مظاہرہ نقوی ، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عطا بندیال کے رویے اور فیصلے دیکھیں تو یہ بات ہمیں آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ ساٹھ اورستر کے چودہ پندرہ برس میں اس وقت جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور ان کے اقتدار کے بینفشریزکیا کر رہے تھے اورکیا چاہتے تھے۔
آپ نے اگر شیخ مجیب کی 1970تک تقاریر سنیں تو وہ آپ کو ایک محبِ وطن پاکستانی نظر آئیں گے۔ انھوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ اور ان کے حواریوں کے اقتدار اور پالیسیوں کے خلاف تحاریک چلائیں۔ جائزہ لینے پر وہ آپ کو جمہوری قوتوں کے شانہ بشانہ نظر آئیں گے، جب فاطمہ جناح کا ٹاکرا صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب کے ساتھ ہوا تو شیخ مجیب فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا۔
بہرحال خواجہ آصف کو یہ خیال آگیا کہ احتساب کا عمل کیوں نہ جنرل ایوب سے شروع کیا جائے؟ جب تک اس قوم کے ہیروایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف رہیں گے تب تک اس ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔ شیخ مجیب پاکستان کو غوریوں، تغلق اور غزنوی بادشاہتوںکا تسلسل نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ پاکستان کو برِصغیر کے تسلسل میں تمام قوموں، برادریوں، زبانوں، ثقافتوں اور تاریخی ورثوں پر مشتمل ایک وفاق سمجھتے تھے۔
شیخ مجیب ریاست اور مذہب کو الگ الگ زاویہ دیتے تھے، وہ جناح کی طرح سیکیولر ازم کے حامی تھے۔ جناح کی مسلم لیگ میں شیخ مجیب، تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم کارکن تھے جو یہ نعرے لگاتے تھے کہ '' بن کے رہے گا پاکستان۔''
عمران خان نے جو ٹویٹ کیاہے، وہ حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ عمران خان جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا، وہ کل بھی بیک ڈور چینل کے نتیجے میں وزیراعظم بنا، وہ اب بھی بیک چینل رابطوں پر یقین رکھتا ہے۔
اس ٹویٹ کے حوالے سے جو بیانیہ اور ردِ عمل دیکھنے اور سننے کو ملا ، اس درست اور غلط ہونے پر بات ہوسکتی ہے تاہم میں ، شیخ مجیب سے ان حقائق پر بات کرنا چاہتا ہوں جن کی نشاندہی حمود الرحمٰن کمیشن نے کی تھی۔ حمود الرحمٰن کمیشن میں میرے والد قاضی فیض محمد بحیثیت گواہ پیش ہوئے تھے، عوامی لیگ کے لیڈرکی حیثیت سے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے آج کے سیاسی تضادات و حالات میں آخر شیخ مجیب سے اتنی محبت کیوں ظاہرکی؟ شاید وہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے ہوں، نو مئی کے واقعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے عزائم اور نیت اچھی نہیں ہے لیکن شیخ مجیب کا کردار مبہم نہیں ہے بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ شیخ مجیب کی نیت اورکردار اتنا ہی مشکوک تھا جتنا کہ جنرل یحییٰ اوران کے قریبی کرداروں کا۔
مجھ پر یہ فرض ہے کہ میں اس شیخ مجیب الرحمنٰ کے بارے میں کچھ لکھوں جو سولہ دسمبر 1971تک ہماری تاریخ کا حصہ رہا۔ چار مارچ 1971 کی وہ شام جب شیخ مجیب الرحمٰن میرے والد سے آخری بار اپنے دھان منڈی ڈھاکا والے گھر میں ملے اور کہا کہ '' اب ہم دو مختلف ملکوں میں رہتے ہیں۔ ہم نے پاکستان سے آزادی کا اعلان کردیا ہے۔''
یہ وہ نتیجہ تھا جس کا تعین شیخ مجیب نے نہیں بلکہ مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ان چند لوگوں نے کیا جنھوں نے اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکارکر دیا تھا حالانکہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ الیکشن جیت چکی تھے ، انتہائی معذرت کے ساتھ یہ عرض کردوں کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو آمریت کی چھتر چھاؤں میں تھے جن کی پیپلزپارٹی صرف پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل کر پائی تھی۔
کراچی کے معروف وکیل عزیز شیخ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما تھے۔اپنی سوانح حیات میں 1960 کی دہائی میں تھائی لینڈ میں تعینات پاکستانی سفیر جونیجو صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان جب تھائی لینڈ کے دورے پرگئے تھے اور رات کوکاموں سے فراغت کے بعد جنرل یحییٰ نے ذاتی گفتگو کے دوران میں پاکستانی سفیر سے پوچھا '' ان بنگالیوں سے کیسے جان چھڑائی جائے؟ ''
ایسے کئی شواہد ہمیں ملتے ہیں جو اس بات کو ظاہرکرتے ہیں، ہمارے صاحبِ اقتدار لوگ بہت پہلے سے ''ان'' بنگالیوں کی اکثریت سے کس قدر بیزار اور پریشان تھے۔
1971کے بہت سے ایسے واقعات کا ذکرکیا جاسکتا ہے کہ بنگالیوں کے ساتھ ناانصافیاں کی گئیں! ان ناانصافیوں کا آغازکب سے ہوا اور کس مقتدر گروہ نے یہ کام شروع کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اپنی سوانح حیات یہ لکھتے ہیں کہ وہ خود اس ہال میں موجود تھے جب قائدِ اعظم نے اردو زبان کو قومی زبان قرار دے دیا لیکن یہ اتنی بڑی بات نہیں کہ اس بات کو پاکستان ٹوٹنے کی بنیاد بنایا جا سکے۔
لیاقت علی خان نے لگ بھگ اسی ارکان کی مشرقی پاکستان مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی سے حسین شہید سہروردی کو برخاست کیا، اور کیسے اسمبلی کو تحلیل کیا ؟ حکومت کو تحلیل کیا؟ یہ سارا ماجرا سمجھ میں آئے، اگرکوئی جسٹس دراب پٹیل کی سوانح عمری کا مطالعہ کرے۔ اگر قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا اور شیخ مجیب وزیرِاعظم بن جاتے ، چاہے یہ اجلاس ڈھاکا میں ہی کیوں نہ ہوتا، تب بھی ذوالفقارعلی بھٹو کواپوزیشن لیڈر بننے سے روکا نہیں جاسکتا تھا۔
نیشنل عوامی پارٹی دو صوبوں میں حکومت بناتی اور ذوالفقارعلی بھٹو کی پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت بناتی اور سندھ میں بھی آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بناتے۔ شیخ مجیب یقیناً یہ چاہتے تھے کہ وہ پورے پاکستان کے وزیرِاعظم ہوں اور مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے سب سے بڑے لیڈر میرے والد تھے۔
1947سے ہی ایسا نظام ہوتا کہ اکثریت رکھنے والے مشرقی پاکستان پہلی بار ہی اپنی جیتی ہوئی پارٹی کی مدد سے مرکز میں حکومت کرتے جو پہلے بلواسطہ یا بلاواسطہ مغربی پاکستان خصوصاً مہاجرین کی قیادت کرتا رہا۔ جب پہلی بار وقت آیا بنگالیوں کی حکومت بنانے کا تو اس وقت مغربی پاکستان پر قابض گروہ نے انھیں حکومت دینے سے انکارکر دیا۔
بریگیڈیئر صدیق سالک نے اپنی کتاب میں اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے ،اسے پڑھ کر سمجھ آجائے گی حالیہ دور میں عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ یا جنرل فیض حمید کی بنائی ہوئی ہائبرڈ جمہوریت نے کس طرح پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا۔
2014 میں پاکستان کی جمہوری حکومت کے خاتمے کے پلان کو دیکھیں، یا پھر اعلیٰ عدلیہ کے اقامے پر تاحیات نااہلی کے فیصلے کو دیکھیں ، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الحسن ، جسٹس مظاہرہ نقوی ، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس عطا بندیال کے رویے اور فیصلے دیکھیں تو یہ بات ہمیں آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ ساٹھ اورستر کے چودہ پندرہ برس میں اس وقت جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ اور ان کے اقتدار کے بینفشریزکیا کر رہے تھے اورکیا چاہتے تھے۔
آپ نے اگر شیخ مجیب کی 1970تک تقاریر سنیں تو وہ آپ کو ایک محبِ وطن پاکستانی نظر آئیں گے۔ انھوں نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ اور ان کے حواریوں کے اقتدار اور پالیسیوں کے خلاف تحاریک چلائیں۔ جائزہ لینے پر وہ آپ کو جمہوری قوتوں کے شانہ بشانہ نظر آئیں گے، جب فاطمہ جناح کا ٹاکرا صدارتی انتخابات میں جنرل ایوب کے ساتھ ہوا تو شیخ مجیب فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے ہوئے جب کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ایوب کا ساتھ دیا۔
بہرحال خواجہ آصف کو یہ خیال آگیا کہ احتساب کا عمل کیوں نہ جنرل ایوب سے شروع کیا جائے؟ جب تک اس قوم کے ہیروایوب خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف رہیں گے تب تک اس ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔ شیخ مجیب پاکستان کو غوریوں، تغلق اور غزنوی بادشاہتوںکا تسلسل نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ پاکستان کو برِصغیر کے تسلسل میں تمام قوموں، برادریوں، زبانوں، ثقافتوں اور تاریخی ورثوں پر مشتمل ایک وفاق سمجھتے تھے۔
شیخ مجیب ریاست اور مذہب کو الگ الگ زاویہ دیتے تھے، وہ جناح کی طرح سیکیولر ازم کے حامی تھے۔ جناح کی مسلم لیگ میں شیخ مجیب، تحریکِ پاکستان کے ایک سرگرم کارکن تھے جو یہ نعرے لگاتے تھے کہ '' بن کے رہے گا پاکستان۔''
عمران خان نے جو ٹویٹ کیاہے، وہ حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ عمران خان جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا، وہ کل بھی بیک ڈور چینل کے نتیجے میں وزیراعظم بنا، وہ اب بھی بیک چینل رابطوں پر یقین رکھتا ہے۔