مثبت منفی ارادہ اور نفس ناطقہ
کمزور ذہن رکھنے والے، حساس اور اثر پذیر افراد درحقیقت ضعف ارادہ کے مارے ہوئے ہوتے ہیں،
کمزور ذہن رکھنے والے، حساس اور اثر پذیر افراد درحقیقت ضعف ارادہ کے مارے ہوئے ہوتے ہیں، ان کی قوت ارادہ دو حصوں میں بٹ چکی ہوتی ہے، مثبت ارادہ اور منفی ارادہ۔ مثبت ارادہ یہ کہ میں صحیح طریقے پر زندگی بسر کروں، منفی ارادہ یہ کہ میں اپنی شخصیت کو تبادہ کردوں۔ اصولی طور پر ہر انسان کے اندر مثبت اور منفی ارادے کی جھلک پائی جاتی ہے۔
نفس انسانی کے بے شمار پہلو یا دریچے ہیں۔ نفس امارہ ہے جو ہمیں خواہشوں کی پیروی کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔ تمام اخلاقی عیوب (جھوٹ، حسد، حرص، خودغرضی، انسان دشمن، جنسی کج روی، تشدد، تند خوئی، حیوانیت) نفس امارہ کی ترغیب سے وجود میں آتے ہیں۔ ہم نفس امارہ کی ترغیب و تحریک سے جھوٹ بولتے ہیں، لیکن اس پر کسی نہ کسی وقت پچھتاتے بھی ہیں یہ پچھتانے کی کیفیت نفس لوامہ کے عمل سے طاری ہوتی ہے۔ نفس امارہ کا کام یہ ہے کہ وہ برائی کا راستہ دکھلائے۔ نفس لوامہ کا کام یہ ہے کہ وہ برائیوں پر ملامت کرے۔ مشہور نفسیات داں سگمنڈ فرائیڈ نے نفس امارہ اور نفس لوامہ کے بجائے اِڈ اور سپر ایگو کی اصطلاحیں ایجاد کی ہیں۔
اصطلاحوں میں الجھے بغیر تعمیر و تنظیم شخصیت کا بنیادی عمل یہ ہے کہ نفس امارہ (منفی ارادے) پر نفس لوامہ (ملامت کرنے والی قوت) کی گرفت کو مضبوط کرکے انسانی نفس کے اس اعلیٰ ترین حصے کو بروئے کار لایا جائے جسے قدیم علم النفس اور علم الاخلاق کی زبان میں ''نفس ناطقہ'' کہتے ہیں۔ نفس ناطقہ تمام عقل و دانش اور برتر اوصاف کا سرچشمہ ہے اور صرف انسان کے لیے مخصوص ہے۔ نفس ناطقہ کے سبب سے ہی انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ حیوان میں نفس امارہ بھی ہوتا ہے، نفس لوامہ بھی، لیکن حیوان ناطق (انسان) نفس ناطقہ سے بھی آراستہ پیراستہ ہے، اور یہی اس کی فضیلت کی دلیل ہے۔
ہم انسان کے مثبت ارادے کو مضبوط بنانے، یعنی نفس لوامہ کو بروئے کار لانے کے لیے سانس کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔ انسانی نظام اعصاب کا سب سے بڑا مظہر سانس کا عمل ہے۔ ہماری دماغی اور ذہنی کیفیت کا سب سے پہلا اظہار سانس کی رفتار سے ہوتا ہے۔ شدید محویت کے عالم میں سانس کی رفتار دھیمی اور ہلکی ہوجاتی ہے اور ہیجان کی حالت میں سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتا ہے۔ سانس کی مشق کا انسانی ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے اور کیسے کیسے نادر تجربات ہوتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو ان تجربات سے گزرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
آپ نے تن سازی کا نام سنا ہوگا یعنی Body Building، جس میں مختلف مشقوں اور ریاضتوں اور داؤ پیچ کے ذریعے جسم کے رگ و پٹھوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں تن سازی یا باڈی بلڈنگ کے مختلف ادارے قائم ہیں اور فزیکل کلچر کے نام سے ایک تحریک ملک بھر میں چلائی جارہی ہے۔ پہلوانی اور تن سازی کی منظم تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے، جب سے انسان اس کرۂ ارض پر موجود ہے وہ جسم کو مضبوط بنانے اور مردانگی، جوانمردی اور شہ زوری کی صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا رہا ہے۔
درحقیقت انسان کی پوری تاریخ ہی تن سازی اور تربیت جسم کے مختلف کارناموں پر مشتمل ہے۔ تن سازی کے دوش بدوش ذہن سازی کی تحریک بھی مختلف ناموں، مختلف عنوانوں اور مختلف مجاہدوں و ریاضتوں کے ذریعے دنیا کے ہر ملک میں رہی ہے، بلکہ ذہن سازی (سیلف کلچر ٹریننگ) کو تن سازی پر ہمیشہ بالادستی رہی ہے۔ کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ صرف ایک مضبوط، روشن اور توانا ذہن ہی طاقت ور جسم کو وجود میں لاسکتا ہے۔ آپ کا جسم مضبوط ہے مگر دماغ توانا نہیں، تو آپ ہاتھی، گھوڑے کی طرح ہیں کہ اتنے تن و توش کے باوجود یہ انسان ذہن کے محکوم ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ ہم مختلف ورزشوں کے ذریعے جسم کو مضبوط بناسکتے ہیں لیکن ذہن ایک ایسی خودمختار طاقت ہے کہ اسے اپنا محکوم نہیں بنایا جاسکتا۔ ذہن کو محکوم و مطیع بنانے کا مطلب کیا ہے؟ چند لفظوں میں اس کی وضاحت بھی کردی جائے۔ ذہن ایک ایسی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے جس پر ہمیشہ شعور کے مختلف قافلے اور مختلف لہریں ہماری مرضی اور ارادے کے بغیر رواں دواں رہتی ہیں۔ ہم میں یہ طاقت نہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی خیال کی کسی لہر کو روک سکیں۔ ذہنی عمل بڑا پیچیدہ عمل ہے۔
خیال یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں دو، یا ایک منٹ میں ایک سو بیس خیالات (جو ایک دوسرے سے گتھے ہوئے ہیں) ذہن سے گزر جاتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ شعور ہر لمحہ حرکت اور جنبش میں رہتا ہے اور اس مسلسل حرکت اور لگاتار جنبش کے سبب بے شمار ذہنی توانائی خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جسم کم قوت صرف کرتا ہے، ذہن زیادہ قوت صرف کرتا ہے۔ سائنسی تجربہ گاہوں میں جو ٹیسٹ کیے گئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ایک گھنٹہ کی دماغی محنت چار گھنٹے تک پھاؤڑا چلانے، لکڑی چیرنے، بوجھ اٹھانے، ڈنڈ پیلنے، مگدر ہلانے اور بھاگ دوڑ میں جتنی توانائی صرف کرتے ہیں، ایک گھنٹے کی دماغی مشقت میں اتنی ہی یا اس سے زیادہ اعصابی توانائی خرچ ہوجاتی ہے۔
''میں سوچتے سوچتے تھک گیا'' یہ شاعرانہ فقرہ نہیں، حقیقت ہے اور جسمانی حقیقت۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی ان مشقوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ شعور خیال اور توجہ کی فضول خرچی ختم کرکے ذہن کو بے دریغ اعصابی قوت کے اسراف سے روکا جائے اور انسانی ارادے کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ جتنی دیر تک چاہے صرف ایک نقطے (Point) پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، یعنی مشقوں کا بنیادی سبق ارتکاز توجہ (Concentration) کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ پریشان حال اور پراگندہ فکر آدمی زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، وہ ہمیشہ اپنے خیالوں، خوابوں اور تصورات کے جالے میں اسیر رہتا ہے۔ نفسیاتی صحت مندی کی بنیادی شرط ہے ارادے کی قوت۔
قوی ارادہ صرف اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ہم ارتکاز توجہ کی قوت سے مالامال ہوں۔ جب ذہن پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی کو ''لاشعوری مزاحمت'' کہتے ہیں۔ نفسیاتی مریضوں میں یہ لاشعوری مزاحمت بے حد شدید ہوتی ہے، شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔ نفسیاتی معالج بڑی نرمی، احتیاط اور سوجھ بوجھ کے ساتھ ترغیب و تلقین کے ذریعے رفتہ رفتہ ذہن کے دونوں کٹے ہوئے حصوں کے درمیان ''حقیقت پسندی'' کا پل بناتا ہے اور اس طرح جذباتی الجھنوں کے معقول حل کے راستے خودبخود پیدا ہوجاتے ہیں۔
نفس انسانی کے بے شمار پہلو یا دریچے ہیں۔ نفس امارہ ہے جو ہمیں خواہشوں کی پیروی کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔ تمام اخلاقی عیوب (جھوٹ، حسد، حرص، خودغرضی، انسان دشمن، جنسی کج روی، تشدد، تند خوئی، حیوانیت) نفس امارہ کی ترغیب سے وجود میں آتے ہیں۔ ہم نفس امارہ کی ترغیب و تحریک سے جھوٹ بولتے ہیں، لیکن اس پر کسی نہ کسی وقت پچھتاتے بھی ہیں یہ پچھتانے کی کیفیت نفس لوامہ کے عمل سے طاری ہوتی ہے۔ نفس امارہ کا کام یہ ہے کہ وہ برائی کا راستہ دکھلائے۔ نفس لوامہ کا کام یہ ہے کہ وہ برائیوں پر ملامت کرے۔ مشہور نفسیات داں سگمنڈ فرائیڈ نے نفس امارہ اور نفس لوامہ کے بجائے اِڈ اور سپر ایگو کی اصطلاحیں ایجاد کی ہیں۔
اصطلاحوں میں الجھے بغیر تعمیر و تنظیم شخصیت کا بنیادی عمل یہ ہے کہ نفس امارہ (منفی ارادے) پر نفس لوامہ (ملامت کرنے والی قوت) کی گرفت کو مضبوط کرکے انسانی نفس کے اس اعلیٰ ترین حصے کو بروئے کار لایا جائے جسے قدیم علم النفس اور علم الاخلاق کی زبان میں ''نفس ناطقہ'' کہتے ہیں۔ نفس ناطقہ تمام عقل و دانش اور برتر اوصاف کا سرچشمہ ہے اور صرف انسان کے لیے مخصوص ہے۔ نفس ناطقہ کے سبب سے ہی انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے۔ حیوان میں نفس امارہ بھی ہوتا ہے، نفس لوامہ بھی، لیکن حیوان ناطق (انسان) نفس ناطقہ سے بھی آراستہ پیراستہ ہے، اور یہی اس کی فضیلت کی دلیل ہے۔
ہم انسان کے مثبت ارادے کو مضبوط بنانے، یعنی نفس لوامہ کو بروئے کار لانے کے لیے سانس کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔ انسانی نظام اعصاب کا سب سے بڑا مظہر سانس کا عمل ہے۔ ہماری دماغی اور ذہنی کیفیت کا سب سے پہلا اظہار سانس کی رفتار سے ہوتا ہے۔ شدید محویت کے عالم میں سانس کی رفتار دھیمی اور ہلکی ہوجاتی ہے اور ہیجان کی حالت میں سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتا ہے۔ سانس کی مشق کا انسانی ذہن پر کیا اثر پڑتا ہے اور کیسے کیسے نادر تجربات ہوتے ہیں، اس کا اندازہ آپ کو ان تجربات سے گزرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔
آپ نے تن سازی کا نام سنا ہوگا یعنی Body Building، جس میں مختلف مشقوں اور ریاضتوں اور داؤ پیچ کے ذریعے جسم کے رگ و پٹھوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے۔ ملک بھر میں تن سازی یا باڈی بلڈنگ کے مختلف ادارے قائم ہیں اور فزیکل کلچر کے نام سے ایک تحریک ملک بھر میں چلائی جارہی ہے۔ پہلوانی اور تن سازی کی منظم تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے، جب سے انسان اس کرۂ ارض پر موجود ہے وہ جسم کو مضبوط بنانے اور مردانگی، جوانمردی اور شہ زوری کی صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا رہا ہے۔
درحقیقت انسان کی پوری تاریخ ہی تن سازی اور تربیت جسم کے مختلف کارناموں پر مشتمل ہے۔ تن سازی کے دوش بدوش ذہن سازی کی تحریک بھی مختلف ناموں، مختلف عنوانوں اور مختلف مجاہدوں و ریاضتوں کے ذریعے دنیا کے ہر ملک میں رہی ہے، بلکہ ذہن سازی (سیلف کلچر ٹریننگ) کو تن سازی پر ہمیشہ بالادستی رہی ہے۔ کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ صرف ایک مضبوط، روشن اور توانا ذہن ہی طاقت ور جسم کو وجود میں لاسکتا ہے۔ آپ کا جسم مضبوط ہے مگر دماغ توانا نہیں، تو آپ ہاتھی، گھوڑے کی طرح ہیں کہ اتنے تن و توش کے باوجود یہ انسان ذہن کے محکوم ہیں۔
عام خیال یہ ہے کہ ہم مختلف ورزشوں کے ذریعے جسم کو مضبوط بناسکتے ہیں لیکن ذہن ایک ایسی خودمختار طاقت ہے کہ اسے اپنا محکوم نہیں بنایا جاسکتا۔ ذہن کو محکوم و مطیع بنانے کا مطلب کیا ہے؟ چند لفظوں میں اس کی وضاحت بھی کردی جائے۔ ذہن ایک ایسی گزرگاہ کی حیثیت رکھتا ہے جس پر ہمیشہ شعور کے مختلف قافلے اور مختلف لہریں ہماری مرضی اور ارادے کے بغیر رواں دواں رہتی ہیں۔ ہم میں یہ طاقت نہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی خیال کی کسی لہر کو روک سکیں۔ ذہنی عمل بڑا پیچیدہ عمل ہے۔
خیال یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں دو، یا ایک منٹ میں ایک سو بیس خیالات (جو ایک دوسرے سے گتھے ہوئے ہیں) ذہن سے گزر جاتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ شعور ہر لمحہ حرکت اور جنبش میں رہتا ہے اور اس مسلسل حرکت اور لگاتار جنبش کے سبب بے شمار ذہنی توانائی خرچ ہوتی رہتی ہے۔ جسم کم قوت صرف کرتا ہے، ذہن زیادہ قوت صرف کرتا ہے۔ سائنسی تجربہ گاہوں میں جو ٹیسٹ کیے گئے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ ایک گھنٹہ کی دماغی محنت چار گھنٹے تک پھاؤڑا چلانے، لکڑی چیرنے، بوجھ اٹھانے، ڈنڈ پیلنے، مگدر ہلانے اور بھاگ دوڑ میں جتنی توانائی صرف کرتے ہیں، ایک گھنٹے کی دماغی مشقت میں اتنی ہی یا اس سے زیادہ اعصابی توانائی خرچ ہوجاتی ہے۔
''میں سوچتے سوچتے تھک گیا'' یہ شاعرانہ فقرہ نہیں، حقیقت ہے اور جسمانی حقیقت۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت کی ان مشقوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ شعور خیال اور توجہ کی فضول خرچی ختم کرکے ذہن کو بے دریغ اعصابی قوت کے اسراف سے روکا جائے اور انسانی ارادے کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ جتنی دیر تک چاہے صرف ایک نقطے (Point) پر اپنی توجہ مرکوز رکھے، یعنی مشقوں کا بنیادی سبق ارتکاز توجہ (Concentration) کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ پریشان حال اور پراگندہ فکر آدمی زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا، وہ ہمیشہ اپنے خیالوں، خوابوں اور تصورات کے جالے میں اسیر رہتا ہے۔ نفسیاتی صحت مندی کی بنیادی شرط ہے ارادے کی قوت۔
قوی ارادہ صرف اس وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ہم ارتکاز توجہ کی قوت سے مالامال ہوں۔ جب ذہن پر قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی کو ''لاشعوری مزاحمت'' کہتے ہیں۔ نفسیاتی مریضوں میں یہ لاشعوری مزاحمت بے حد شدید ہوتی ہے، شخصیت دو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور یہ دونوں حصے ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں۔ نفسیاتی معالج بڑی نرمی، احتیاط اور سوجھ بوجھ کے ساتھ ترغیب و تلقین کے ذریعے رفتہ رفتہ ذہن کے دونوں کٹے ہوئے حصوں کے درمیان ''حقیقت پسندی'' کا پل بناتا ہے اور اس طرح جذباتی الجھنوں کے معقول حل کے راستے خودبخود پیدا ہوجاتے ہیں۔