Three Filters Test
ان جھوٹی اورناقص معلومات کو پھیلا کر اپنے لیے آخرت میں بڑے بڑے عذاب مول لینے کا سود ا کرتے ہیں!!
آپ بیٹھے ہیں، اچانک آپ کا کوئی ماتحت یا کولیگ آپ کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے، '' سر آپ فارغ ہیں؟ '' آپ سر اٹھا کر دیکھتے ہیں، اس کے انداز سے آپ کے اندر تجسس پیدا ہوتا ہے، آپ اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں، '' ہاں ! میں فارغ ہوں ،کہو کیا کہنا ہے؟ '' وہ کرسی کھینچ کر آپ کے قریب بیٹھے گا، پراسرار انداز سے دائیں بائیں دیکھے گا، اٹھ کر آپ کے دفتر کا دروازہ کھول کر باہر دیکھے گا کہ دفترکے باہر کوئی کان لگائے تو نہیں کھڑا ہے، دروازہ دبا کر بند کرے گا، دوبارہ اسی کرسی پر آپ کے قریب آ بیٹھے گا، آپ کی طرف جھک کر سرگوشی میں پوچھے گا، '' سر آپ نے سنا؟ '' آپ کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ایسی کون سی اہم خبر ہے جس کے لیے اتنی رازداری کی بھی شرط ہے اور آپ نے نہیں سنی۔ آپ دائیں سے بائیں سر ہلا کر اسے جواب دیتے ہیں... '' بڑے غافل ہیں آپ سر... '' آپ کا منہ شرمساری سے لٹک جاتا ہے کہ آپ کس قدر غافل ہیں، آپ کا تجسس کا غبارہ پھول کر پھٹنے کے قریب پہنچ چکا ہوتا ہے، آپ کہتے ہیں، '' یار جلدی بتاؤ ، کیا بات ہے؟ ''
'' سر... انصاری صاحب کی اپنی بیوی سے ناچاقی ہو گئی ہے اور روٹھ کر میکے چلی گئی ہیں...'' مزید زور بیان کے لیے وہ یہ بھی کہے گا، ''سر سنا ہے کہ وہ انصاری صاحب کی کنجوسی کے باعث انھیں چھوڑ گئی ہیں اور ان کا واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں...'' کہنے والا اپنی بات کہہ کر چلاجاتا ہے، آپ اپنا کام بھول بھال کر اس کی گفتگو کے سحر میں کھو جاتے ہیں... بسا اوقات آپ اپنا ضروری کام چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور اس مزیدار گفتگوکو چار اور لوگوں کو سنا کر اس'' اہم کام'' میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
......
'' باجی جی... '' آپ کی کام والی فرش پر پچارا لگاتے لگاتے آپ کے قریب آ کر پچارا روک دیتی ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہے، '' ایک بات بتاؤں آپ کو؟ '' آپ پورے انہماک سے ٹیلی وژن دیکھ رہی ہوتی ہیں، اس کا انداز آپ کے کان کھڑے کر دیتا ہے، آپ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھتی ہیں اور وہ دائیں بائیں۔
'' کیا بات ہے، جلدی پھوٹو!'' آپ غصے سے اس سے پوچھتی ہیں ... '' وہ سامنے والے گھر میں میری نند کام کرتی ہے نا، اس نے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا کسی سے آنکھ مٹکا ہو گیا ہے ، گھر والوں نے اسے گھر کے ایک کمرے میں قید کر کے رکھ دیا ہے، کیونکہ اس نے ماں باپ کے سامنے کھڑے ہو کر ضد سے کہا کہ وہ شادی کرے گی تو اسی سے... ''
'' شکل سے کیسی شریف لگتی ہے... '' آپ حیرت سے کہتی ہیں، '' اسی لیے کہتے ہیں شکل مومناں ، کرتوت کافراں ! '' آپ اپنی ملازمہ سے مزید کرید کرید کر تفصیل پوچھتی ہیں، وہ کچھ سچی اور کچھ جھوٹی باتیں ملا کر اور چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے، اتنا مرچ مسالہ لگا کر کہ آپ ''متاثر'' ہوئے بنا نہ رہ سکیں۔ اسے ڈانٹ کر کام کرنے کا تو کہہ دیں مگر آپ کو خود سکون اسی وقت ملے گا جب آپ اس داستان کو اپنے ارد گرد کے چند گھروں میں رہنے والی اپنی سہیلیوں کو نہ بتا دیں۔
......
'' بھابی... '' آپ کی نند آپ کو کال کرتی ہے، '' کام کر رہی ہیں کہ فارغ ہیں؟ '' آپ کہتی ہیں کہ آپ فارغ ہیں، اس سے وجہ پوچھتی ہیں تو وہ بتاتی ہے... '' ہماری کلاس فیلو تھی نا ببلی، جس کا اصل نام فرح تھا؟ '' آپ فوراً پہچان کر کہتی ہیں، '' ہاں ، ہاں ! کیا ہوا اسے؟ '' '' اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ جہاں کیا ہے نا... وہ بڑے شرابی اور جواری لوگ ہیں اور ہر طرح کی برائی میں مبتلا ہیں... ''
'' اچھا... '' آپ حیرت سے پوچھتی ہیں، ' ' وہ تو بڑا پرچار کیا کرتی تھی حلال اور حرام کا...''
'' صرف یہی نہیں بھابی، مجھے تو بتانے والے نے بتایا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کا آپس میں چکر تھا...اور اس سے بڑھ کر دلچسپ بات یہ کہ لڑکے کے والد سے شادی سے پہلے ببلی کا اپنا چکر تھا، شادی نہ ہو سکی تو اب ان دونوں نے یہ راستہ ڈھونڈ لیا کہ بیٹے بیٹی کو بیاہ کر اپنا راستہ بھی سیدھا کر لیا ہے دونوں نے!!''
آپ اس کی چکر دار بات سنتی ہیں، اس میں آپ کو خوب مواد ملتا ہے، آپ ٹیلی فون ڈائری اٹھا کر اپنی ان سہیلیوں سے رابطہ کرتی ہیں جن کے ساتھ کالج کے بعد سالوں سے آپ کا کبھی رابطہ نہیں ہوا ہو گا... مگر اس اہم موقع کو تو آپ نہیں گنوا سکتیں نا... ''
یہ مناظر تخیلاتی نہیں ہیں... ایسا حقیقت میں ہوتا ہے، اس طرح کے غلط اطوار کو بآسانی بدلا جا سکتا ہے۔
تجسس انسانی فطرت کا اہم جزو ہے، دنیا کی بڑی بڑی ایجادات اور دریافتیں اسی عادت کی وجہ سے ہوتی ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو کوئی چیز پکڑا دیں تو وہ اسی عادت کے باعث اسے ہر ہر زاویے سے الٹ پلٹ کر دیکھے گا، اس سے بڑا بچہ یہ جاننے کو کوشش کرے گا کہ اس کا مصرف کیا ہے، ایک نوجوان جاننا چاہے گا کہ وہ چیز بنی کیسے... اسی تجسس کے باعث ہم ایک عام بات کو بھی کریدتے ہیں اور دوسروں کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے خیالات کی آمیزش کر کے اسے اور بھی مسالہ دار بنا دیتے ہیں۔
......
یونان میں ایک شخص سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہا ، '' میں تمہیں تمہارے ایک دوست کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں !'' سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور کہا، '' اس سے قبل کہ تم مجھے یہ بات بتاؤ، میں چاہوں گا کہ تم ایک چھوٹا سا امتحان پاس کرو، یہ تہری تقطیر(three filters test) کا ٹیسٹ ہے...
'' جو کچھ تم مجھے بتانے جا رہے ہو، اس کے بارے میں تمہیں پورا یقین ہے کہ وہ سچ ہے؟ ''
'' نہیں ... '' اس آدمی نے کہا، '' اصل میں، میں نے کسی سے یہ سنا ہے! ''
'' اچھا!'' سقراط نے کہا، '' تو گویا تم پہلے سوال کو پاس نہیں کر سکے، اس لیے کہ تم نے فقط سنا ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہ رہے ہو، کوئی اچھی بات ہے؟ ''
''نہیں... '' اس نے کہا '' اس کے الٹ! ''
'' تو گویا تم مجھے میرے دوست کے بارے میں کچھ ایسا بتانا چاہ رہے ہو جو کہ اچھا بھی نہیں اور تمہیں اس کے سچ ہونے پر بھی یقین نہیں؟ '' سقراط رکا، '' چلو... پھر بھی میں تم سے ٹیسٹ کا تیسرا سوال پوچھوں گا، کیا معلوم کہ تم پہلے دو سوالوں میں پاس نہیں کر سکے مگر تیسرے سوال میں پاس کر لو! '' اس آدمی نے سوالیہ نظروں سے سقراط کو دیکھا۔
'' کیا جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہتے ہو، سچ یا جھوٹ اور اچھا بھی نہیں... اس بات کے جاننے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا اور نہ جاننے سے کوئی نقصان؟'''' نہیں ... '' وہ بولا، '' حقیقت میں نہیں، تمہیں اس کے جاننے سے کوئی فائدہ ہو گا نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان !''
'' اچھا !'' سقراط نے مسکرا کر پوچھا، '' جو کچھ تم مجھے بتانا چاہتے ہو، نہ وہ سچ ہے، نہ اچھا، نہ اس کے جاننے کا مجھے کوئی فائدہ ، نہ لاعلمی سے کوئی نقصان تو میں تمہاری اس بات کو کیوں سنوں !! ''
آپ کے پاس کوئی آئے، پراسرار انداز میں آپ سے کوئی بات کہنا چاہے تو اس سے تین سوال پوچھیں، اس تقطیری ٹیسٹ سے اگر وہ شخص پاس ہو جائے تو ہی اس کی بات کو اہمیت دیں۔
... جو بات تم مجھے بتانے والے ہو ، وہ سچ ہے؟
... کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کسی کے بارے میں جو تم بتاؤگے؟
... کیا اس کا جاننا میرے لیے فائدہ مند یا نہ جاننا نقصان دہ ہے؟
سب سے اہم بات... صرف دوسروں کو ہی اس ٹیسٹ سے نہ گزاریں بلکہ جب کسی کو کوئی بات بتانے لگیں تو خود سے بھی پوچھیں کہ آیا وہ بات سچ ہے، کوئی اچھی بات ہے اور اس کے بتانے کا اس شخص کو کوئی فائدہ ہے جسے آپ بتا رہے ہیں اور نہ بتائیں تو نقصان؟؟؟
اس ٹیسٹ سے کسی کو گزارنا اتنا مشکل کام نہیں، مگر ہم بہت سی ایسی برائیوں سے بچ جائیں گے جو بظاہر بڑی معلوم نہیں ہوتیں ، مگر ہم غلط اور جھوٹی باتوں پر یقین کر کے، ان کے carrier بن کے، ان جھوٹی اورناقص معلومات کو پھیلا کر اپنے لیے آخرت میں بڑے بڑے عذاب مول لینے کا سود ا کرتے ہیں!!
'' سر... انصاری صاحب کی اپنی بیوی سے ناچاقی ہو گئی ہے اور روٹھ کر میکے چلی گئی ہیں...'' مزید زور بیان کے لیے وہ یہ بھی کہے گا، ''سر سنا ہے کہ وہ انصاری صاحب کی کنجوسی کے باعث انھیں چھوڑ گئی ہیں اور ان کا واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں...'' کہنے والا اپنی بات کہہ کر چلاجاتا ہے، آپ اپنا کام بھول بھال کر اس کی گفتگو کے سحر میں کھو جاتے ہیں... بسا اوقات آپ اپنا ضروری کام چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں اور اس مزیدار گفتگوکو چار اور لوگوں کو سنا کر اس'' اہم کام'' میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
......
'' باجی جی... '' آپ کی کام والی فرش پر پچارا لگاتے لگاتے آپ کے قریب آ کر پچارا روک دیتی ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہے، '' ایک بات بتاؤں آپ کو؟ '' آپ پورے انہماک سے ٹیلی وژن دیکھ رہی ہوتی ہیں، اس کا انداز آپ کے کان کھڑے کر دیتا ہے، آپ سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھتی ہیں اور وہ دائیں بائیں۔
'' کیا بات ہے، جلدی پھوٹو!'' آپ غصے سے اس سے پوچھتی ہیں ... '' وہ سامنے والے گھر میں میری نند کام کرتی ہے نا، اس نے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کا کسی سے آنکھ مٹکا ہو گیا ہے ، گھر والوں نے اسے گھر کے ایک کمرے میں قید کر کے رکھ دیا ہے، کیونکہ اس نے ماں باپ کے سامنے کھڑے ہو کر ضد سے کہا کہ وہ شادی کرے گی تو اسی سے... ''
'' شکل سے کیسی شریف لگتی ہے... '' آپ حیرت سے کہتی ہیں، '' اسی لیے کہتے ہیں شکل مومناں ، کرتوت کافراں ! '' آپ اپنی ملازمہ سے مزید کرید کرید کر تفصیل پوچھتی ہیں، وہ کچھ سچی اور کچھ جھوٹی باتیں ملا کر اور چھوٹی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے، اتنا مرچ مسالہ لگا کر کہ آپ ''متاثر'' ہوئے بنا نہ رہ سکیں۔ اسے ڈانٹ کر کام کرنے کا تو کہہ دیں مگر آپ کو خود سکون اسی وقت ملے گا جب آپ اس داستان کو اپنے ارد گرد کے چند گھروں میں رہنے والی اپنی سہیلیوں کو نہ بتا دیں۔
......
'' بھابی... '' آپ کی نند آپ کو کال کرتی ہے، '' کام کر رہی ہیں کہ فارغ ہیں؟ '' آپ کہتی ہیں کہ آپ فارغ ہیں، اس سے وجہ پوچھتی ہیں تو وہ بتاتی ہے... '' ہماری کلاس فیلو تھی نا ببلی، جس کا اصل نام فرح تھا؟ '' آپ فوراً پہچان کر کہتی ہیں، '' ہاں ، ہاں ! کیا ہوا اسے؟ '' '' اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ جہاں کیا ہے نا... وہ بڑے شرابی اور جواری لوگ ہیں اور ہر طرح کی برائی میں مبتلا ہیں... ''
'' اچھا... '' آپ حیرت سے پوچھتی ہیں، ' ' وہ تو بڑا پرچار کیا کرتی تھی حلال اور حرام کا...''
'' صرف یہی نہیں بھابی، مجھے تو بتانے والے نے بتایا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کا آپس میں چکر تھا...اور اس سے بڑھ کر دلچسپ بات یہ کہ لڑکے کے والد سے شادی سے پہلے ببلی کا اپنا چکر تھا، شادی نہ ہو سکی تو اب ان دونوں نے یہ راستہ ڈھونڈ لیا کہ بیٹے بیٹی کو بیاہ کر اپنا راستہ بھی سیدھا کر لیا ہے دونوں نے!!''
آپ اس کی چکر دار بات سنتی ہیں، اس میں آپ کو خوب مواد ملتا ہے، آپ ٹیلی فون ڈائری اٹھا کر اپنی ان سہیلیوں سے رابطہ کرتی ہیں جن کے ساتھ کالج کے بعد سالوں سے آپ کا کبھی رابطہ نہیں ہوا ہو گا... مگر اس اہم موقع کو تو آپ نہیں گنوا سکتیں نا... ''
یہ مناظر تخیلاتی نہیں ہیں... ایسا حقیقت میں ہوتا ہے، اس طرح کے غلط اطوار کو بآسانی بدلا جا سکتا ہے۔
تجسس انسانی فطرت کا اہم جزو ہے، دنیا کی بڑی بڑی ایجادات اور دریافتیں اسی عادت کی وجہ سے ہوتی ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو کوئی چیز پکڑا دیں تو وہ اسی عادت کے باعث اسے ہر ہر زاویے سے الٹ پلٹ کر دیکھے گا، اس سے بڑا بچہ یہ جاننے کو کوشش کرے گا کہ اس کا مصرف کیا ہے، ایک نوجوان جاننا چاہے گا کہ وہ چیز بنی کیسے... اسی تجسس کے باعث ہم ایک عام بات کو بھی کریدتے ہیں اور دوسروں کے سامنے بیان کرتے وقت اپنے خیالات کی آمیزش کر کے اسے اور بھی مسالہ دار بنا دیتے ہیں۔
......
یونان میں ایک شخص سقراط کے پاس آیا اور اس سے کہا ، '' میں تمہیں تمہارے ایک دوست کے بارے میں کچھ بتانا چاہتا ہوں !'' سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا اور کہا، '' اس سے قبل کہ تم مجھے یہ بات بتاؤ، میں چاہوں گا کہ تم ایک چھوٹا سا امتحان پاس کرو، یہ تہری تقطیر(three filters test) کا ٹیسٹ ہے...
'' جو کچھ تم مجھے بتانے جا رہے ہو، اس کے بارے میں تمہیں پورا یقین ہے کہ وہ سچ ہے؟ ''
'' نہیں ... '' اس آدمی نے کہا، '' اصل میں، میں نے کسی سے یہ سنا ہے! ''
'' اچھا!'' سقراط نے کہا، '' تو گویا تم پہلے سوال کو پاس نہیں کر سکے، اس لیے کہ تم نے فقط سنا ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہ رہے ہو، کوئی اچھی بات ہے؟ ''
''نہیں... '' اس نے کہا '' اس کے الٹ! ''
'' تو گویا تم مجھے میرے دوست کے بارے میں کچھ ایسا بتانا چاہ رہے ہو جو کہ اچھا بھی نہیں اور تمہیں اس کے سچ ہونے پر بھی یقین نہیں؟ '' سقراط رکا، '' چلو... پھر بھی میں تم سے ٹیسٹ کا تیسرا سوال پوچھوں گا، کیا معلوم کہ تم پہلے دو سوالوں میں پاس نہیں کر سکے مگر تیسرے سوال میں پاس کر لو! '' اس آدمی نے سوالیہ نظروں سے سقراط کو دیکھا۔
'' کیا جو کچھ تم مجھے میرے دوست کے بارے میں بتانا چاہتے ہو، سچ یا جھوٹ اور اچھا بھی نہیں... اس بات کے جاننے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا اور نہ جاننے سے کوئی نقصان؟'''' نہیں ... '' وہ بولا، '' حقیقت میں نہیں، تمہیں اس کے جاننے سے کوئی فائدہ ہو گا نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان !''
'' اچھا !'' سقراط نے مسکرا کر پوچھا، '' جو کچھ تم مجھے بتانا چاہتے ہو، نہ وہ سچ ہے، نہ اچھا، نہ اس کے جاننے کا مجھے کوئی فائدہ ، نہ لاعلمی سے کوئی نقصان تو میں تمہاری اس بات کو کیوں سنوں !! ''
آپ کے پاس کوئی آئے، پراسرار انداز میں آپ سے کوئی بات کہنا چاہے تو اس سے تین سوال پوچھیں، اس تقطیری ٹیسٹ سے اگر وہ شخص پاس ہو جائے تو ہی اس کی بات کو اہمیت دیں۔
... جو بات تم مجھے بتانے والے ہو ، وہ سچ ہے؟
... کیا یہ کوئی اچھی بات ہے کسی کے بارے میں جو تم بتاؤگے؟
... کیا اس کا جاننا میرے لیے فائدہ مند یا نہ جاننا نقصان دہ ہے؟
سب سے اہم بات... صرف دوسروں کو ہی اس ٹیسٹ سے نہ گزاریں بلکہ جب کسی کو کوئی بات بتانے لگیں تو خود سے بھی پوچھیں کہ آیا وہ بات سچ ہے، کوئی اچھی بات ہے اور اس کے بتانے کا اس شخص کو کوئی فائدہ ہے جسے آپ بتا رہے ہیں اور نہ بتائیں تو نقصان؟؟؟
اس ٹیسٹ سے کسی کو گزارنا اتنا مشکل کام نہیں، مگر ہم بہت سی ایسی برائیوں سے بچ جائیں گے جو بظاہر بڑی معلوم نہیں ہوتیں ، مگر ہم غلط اور جھوٹی باتوں پر یقین کر کے، ان کے carrier بن کے، ان جھوٹی اورناقص معلومات کو پھیلا کر اپنے لیے آخرت میں بڑے بڑے عذاب مول لینے کا سود ا کرتے ہیں!!