قومیت کے جذبے سے مسائل کا خاتمہ ممکن

پاکستانی قوم بھی آج اپنی تاریخ کے انتہائی اور تباہ کن اندرونی بحران اور خلفشار سے نبرد آزما ہے۔

syediftikharshah66@hotmail.com

17 جون 1858 کو امریکی ریاست illinois کے شہر Springfield میں ابراہم لنکن نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ "A House divided against itself cannot stand" I believe this government cannot endure permanently half slave and half free.... I do not expect the house to fall, but I do expect it will cease to be divided. it will become all one living or all the other.

یعنی ''اندرونی طور پر منقسم گھر کبھی قائم نہیں رہ سکتا، میرا پختہ یقین ہے کہ یہ حکومت مستقل طور پر آدھی غلام اور آدھی آزاد ریاست کی متحمل نہیں ہوسکتی، مجھے اس بات کی توقع تو نہیں کہ یہ ریاست ختم ہوجائے گی لیکن یہ توقع ضرور ہے کہ اس ریاست کو منقسم ہونے پر مجبور کردیا جائے گا یا ہم ایک ہوجائیں گے یا ایک دوسرے کے لیے غیر۔'' اپنے اسی پختہ نقطہ نظر پر قائم رہتے ہوئے اس عظیم شخصیت نے 1860 کا الیکشن جیتا اور یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکا کا صدر منتخب ہوا، اور اپنے کیے ہوئے وعدے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور اپنے بہادر اور نڈر جنرل Ulysses.S.Grant کی قیادت میں مسلسل چار سال تک غلامی کے خاتمے کے لیے اپنے ہم وطنوں کے ہی خلاف اپنی فوج کو مصروف پیکار رکھا اور بالآخر شدید انسانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے کے بعد اس جنگ میں سرخ رو ہونے میں کامیاب ہوا اور انسانیت پر سب سے بڑا احسان کرتے ہوئے غلام رکھنے کی ہزاروں سال پر محیط روایت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ اور جب غلام ریاستوں کے کمانڈر Robert.E.Lee نے 9 اپریل 1865 کو "Appomattox Court House" ورجینیا میں جنرل Grant کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور شمالی یونین کی فوجوں نے خوشی کے نعرے بلند کرنا شروع کیے تو جنرل Grant نے یہ تاریخی الفاظ بیان کرتے ہوئے اپنی فوج کو جیت کی خوشی منانے سے روک دیا کہ "The war is over the Rebels are our Countrymen again"

پاکستانی قوم بھی آج اپنی تاریخ کے انتہائی اور تباہ کن اندرونی بحران اور خلفشار سے نبرد آزما ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہاپسندی پورے ملک اور قوم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، 103 ارب روپے کا معاشی نقصان برداشت کرچکی ہے، ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں اور بے گناہ معصوم شہریوں کو اپنی انمول زندگیوں سے محروم کردیا گیا، عام انسانوں کی زندگی میں خوف و ہراس کو پھیلاکر ان کے روز مرہ کے معمولات کو شدید متاثر کردیا گیا، اندیشے اور پریشانیاں ان کا مقدر بنادی گئیں۔

انسانی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے لوگ اس بات سے پوری طرح متفق ہوں گے کہ قوموں کی، معاشروں کی تاریخ میں جب بڑے اور خطرناک اور انتہائی تشویشناک حالات وقوع پذیر ہوتے ہیں تو ایسی قومیں ان حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرکے ان حالات سے کامیابی سے نکلنے کی دانشمندانہ حکمت عملی ترتیب دیا کرتی ہیں، مگر یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب پوری قوم پہلے سے ان حالات کی سنگینی کا دانشمندانہ اور حقیقی ادراک کرتی ہے اور اسی حقیقی ادراک کے مطابق اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کی حکمت عملی مرتب کرتی ہے۔ قومی اتفاق اور اتحاد کو مضبوط کیا جاتا ہے، Threat کے مطابق آپریشنل تیاری کی جاتی ہے، اخراجات کے لیے وسائل کا بندوبست کیا جاتا ہے، قوم کے اعتماد کو مضبوط کیا جاتا ہے، قومی اتفاق رائے کی تعمیر کرکے قوم کے ہر شخص کو اس سنگین اور خطرناک مسئلے کو ختم کرنے میں اس کا کردار نبھانے کے لیے تیار کیا جاتا ہے، حب الوطنی کے جذبات کو ابھار کر قوم کو پوری طرح متحد کرکے اس مسئلے، فتنے یا Threat سے قوم کو نجات دلانے کی بھرپور کارروائی کی جاتی ہے۔


مذہب کے بعد قومیت ہی وہ عظیم جذبہ ہے جسے اجاگر کرکے ہی کوئی قوم اپنی سالمیت کو ناقابل تسخیر بناتی ہے۔ چونکہ قومیت ہی وہ عظیم روحانی جذبہ ہے جو ایک مخصوص جغرافیے میں رہنے والے انسانوں کے درمیان ایک خاص اتحاد کا تصور پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے اور اسی خاص جذبے کی وجہ سے وہ لوگ باقی انسانیت سے الگ ہوکر اپنی انفرادی شناخت کے عظیم مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ مشترکہ مقاصد، مشترکہ تاریخ، مشترکہ مفادات اور مشترکہ روایات، یہ تمام چیزیں اس مخصوص جغرافیہ میں رہنے والوں کے دلوں میں بھائی چارے، احساس اور اتحاد کے جذبے کو پروان چڑھاکر انھیں وحدت کے مضبوط رشتے میں جوڑ دیتی ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو ایک فرد کو اپنی انفرادی خواہشات کو قوم کی اجتماعی خواہش پر قربان کرنے کے لیے تیار کردیتا ہے۔

یہی وہ قومی جذبہ تھا جس کی بنیاد پر امریکا (USA) نے اپنی آزادی کے 90 سال بعد ہی غلامی کو صفحہ ہستی سے مٹانے، غلام رکھنے کے عمل کو دنیا کا بدترین جرم قرار دے کر ملک کی 15 جنوبی ریاستوں کو باغی قرار دے کر اس کے خلاف فوجی کارروائی کرنے پر مجبور کردیا اور بالآخر اس بغاوت کو کچلنے میں کامیاب رہا۔ اسی جذبے کے تحت روسی قوم نے 1812 میں فرانسیسی حکمران نپولین بونا پارٹ کی طاقت ور ترین فوجوں کا مقابلہ کرکے انھیں بری طرح شکست فاش دے کر اپنی قوم کا دفاع کیا۔ یہ حب الوطنی اور قومیت کا ہی جذبہ تھا جس نے برطانیہ کو ہٹلر جیسے وحشی صفت حکمراں کی درندہ صفت فوجوں کے خلاف بحیثیت قوم خود قائم و دائم رکھا۔ یہ قومی جذبہ ہی ہے جس نے عشروں پہلے مغربی اور مشرقی جرمنی کو دوبارہ متحد کردیا اور مضبوط دیوار برلن کو زمین بوس ہونا پڑا۔ یہ قومی جذبہ ہی تھا جس نے یونین کی ریاستوں کو 490 ق م میں میراتھن جنگ میں اس وقت کی سپرپاور ''ایران'' کو تباہ و برباد کرکے داغ شکست لیے واپس ایران لوٹنے پر مجبور کردیا۔ یہ قومی جذبہ ہی تھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سامراجیت سے رہائی حاصل کرنے، خونی لڑائیاں لڑنے پر مجبور کردیا۔ ثابت ہوا کہ دنیا میں مضبوط قومی دفاع کو حقیقی جذبہ قومیت اور حب الوطنی سے ہی طاقتور اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر پچھلے دو عشروں کی قومی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان بحیثیت قوم اس صفت (قومی جذبے) سے دن بہ دن محروم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے لوگوں میں پاکستانیت انتہائی کمزور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، ہر فرد پاکستان کے بجائے اپنے مستقبل کو اپنی انفرادی معاشی مضبوطی سے تعبیر کیے ہوئے نظر آتا ہے۔ اپنے خاندان کی اچھی صحت، اعلیٰ تعلیم اور زندگی کے تحفظ کا سب سے بہترین ذریعہ ''ریاست'' کے بجائے دولت اور زیادہ دولت کے حصول کو سمجھ بیٹھا ہے۔ اور یہی رجحان انداز فکر پاکستانی قومی جذبے کو کمزور اور مجروح کرنے کا باعث بن رہا ہے جوکہ قوموں کی زندگی اور بقا کے لیے انتہائی خطرناک تصور ہوتا ہے۔

آج وطن عزیز تاریخ کے بدترین اندرونی اور بیرونی خلفشار کا شکار ہے، ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ہماری سالمیت کے دشمن ہم پر اعلانیہ جنگ مسلط کرنے کی جرأت تو شاید نہ کرسکیں مگر اندرونی طور پر ہمیں آپس میں لڑوا کر ہمیں خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کے خواہش مند ضرور ہیں۔

لہٰذا وقت آچکا ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کے سربراہ آپس میں بڑھتی ہوئی رقابتوں، رنجشوں کو ختم کرنے کا فوراً اعلان کریں۔ احتجاجی دھرنوں، جلسے جلوسوں کو آپریشن کے کامیاب ہونے تک معطل کرنے کا اعلان کریں۔ مغرورانہ انداز گفتگو، خود نمائی اور ذاتی عناد پر مبنی انداز سیاست سے اجتناب کریں اور فوجی آپریشن کو کامیاب بنانے اور اس کے مثبت نتائج کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے وطن کے سجیلے جوانوں کو اخلاقی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر اقتصادی سپورٹ فراہم کرنے کا اپنا فریضہ نبھائیں اور اگر بحیثیت قوم ہم نے اب بھی دانش، فہم، اتحاد و یگانگت، تنظیم اور یقین محکم کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر تباہی اور بربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔
Load Next Story