ڈھنڈورچی
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈھنڈورچی کسی شخصیت کا تعارف نہیں ہے یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
حضرت علی ؓفرماتے ہیں خدا سے جب بھی مانگو مقدر مانگو کیونکہ میں نے بہت سے عقلمندوں کو مقدر والوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے دیکھا ہے۔ اس فرمان کی حقیقت ہر آدمی ہر روز دیکھتا ہے۔ جس شاخ پے جو بھی اُلو بیٹھا ہے محض مقدروں کے بل بوتے پر بیٹھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انجام گلستاں صاف صاف نظر آرہا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس کی اڑان مقدورں کے باعث ہو وہ مزید اونچی اڑان کے لیے بھی ماں کی دعا کے علاوہ کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں کرتا۔ کہتے ہیں جب قسمت ساتھ ہو تو مٹی میں ہاتھ ڈالنے سے سونا نکل آتا ہے اور بد نصیبی کی صورت میں سونا بھی چھونے سے مٹی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدر والوں کو قدرت لا تعداد ڈھنڈورچی عطا کردیتی ہے جس سے ایک طرف تو قدرت کی بے نیازی اور دوسری طرف ڈھنڈورچی کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ڈھنڈورچی کو سمجھنے کے لیے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈھنڈورچی کسی شخصیت کا تعارف نہیں ہے یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ کوئی بھی شخص ڈھنڈورچی ہونے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔ ڈھنڈورچی کے لیے صرف ایک مقدر والا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ وہ جڑسکے۔ جس کسی کو بھی کسی مقدر والے کی سرسری توجہ میسر ہوگئی سمجھو وہ بیٹھے بیٹھے ڈھنڈورچی بن گیا کیونکہ ڈھنڈورچی کو اس معمولی اور اکثر بے نیاز توجہ اور سرپرستی کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ڈھنڈورچی کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہوسکتا ہے۔ ڈھنڈورچی نائب قاصد سے لے کر گریڈ بائیس کا افسر بھی ہوسکتا ہے، مسکین فقیر سے لے کر امیر کبیر اور وزیر مشیر بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی کوئی بھی جب چاہے خواہ اس کا تعلق کسی پیشے سے ہو ڈھنڈورچی بن سکتا ہے۔
ڈھنڈورچی کا کوئی دین کوئی مذہب کوئی دھرم نہیں ہوتا اس کا کام صرف مالک کے لیے ڈھول بجانا ہوتا ہے۔
ڈھنڈورچی کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ اس کا کام موجوں کے ساتھ تیرنا ہوتا ہے۔ مقدر والے کو عزت کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ عز ت وتکریم اس نے محض مقدروں کی بل بوتے پر حاصل کی ہوتی ہے اور ڈھنڈورچی اپنی سرشت میں عزت وتکریم سے عاری ہو تا ہے لہذا دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہے۔
ڈھنڈورچی کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ پہچان صرف اس کے مالک کی ہوتی ہے۔ جس کا وجود جھوٹ اور دھاندلی سے پیدا ہوتا ہے۔ مقدر والے مالکوں کو اپنا جھوٹ اور دھاندلی چھپانے کے لیے ڈھنڈورچیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حق پھیلانے والا حق کا پر تو بن جاتا ہے جب کہ باطل کا چیلا باطل کی طرح ہوتا ہی مٹ جانے کے لیے ہے۔ حق بات کرنے والا مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور باطل کا ڈھنڈورچی وقتی کامیابیوں کے باوجود جلد یا بدیر نیست و نابود ہوجاتا ہے۔
بری امام داتا گنج بخش پیر بابا سچل سرمست لال شہباز قلندر عبداللہ شاہ غازی مرکر بھی زندہ ہیں اور ناصرف زندہ ہیں بلکہ دلوں پر راج کرتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ حق زندہ ہے حق زندہ رہنے کے لیے ہے کیونکہ حئی و قیوم کی طرف سے ہے جب کہ باطل صرف اور صرف مٹ جانے کے لیے اس لیے کہ حق کا مقابل ہے۔ حق کو پھیلانے کے لیے خلوص نیت سے ایمان اور انتھک محنت صبر و استحکام کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اُسے کسی ڈھنڈورچی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا وجوہات اور باتوں کے بیان کے بعد ڈھنڈورچی کا ''مرتبہ'' اور ''مقام'' اب مزید کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا اگر ہم اپنے ملک کی گذشتہ 67 سالہ تاریخ میں ڈھنڈروچیوں کے مکروہ کردار کا سرسری جائزہ بھی لیں تو پتہ چلے گا کہ اس طبقے نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کس کس انداز سے کتنی دیدہ دلیری کے ساتھ کھوکھلا کیا جس کے باعث آج ہم اس کسمپرسی کی حالت سے دوچار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈھنڈورچی اپنی کسی بھی ذو معنی بامعنی یا بے معنی بات سے اپنے مالک پر اثرانداز نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈھنڈورچی اپنے مالک کو اپنے خول سے باہر نکلنے بھی نہیں دیتا وہ مالک کی ہر بہودہ اور لغو بات کو اسقدر متبرک بنا دیتا کہ مالک اپنے آپ کو ہر عیب سے پاک اور ہر غلطی سے مبرا سمجھنے کے علاوہ سوچ ہی نہیں سکتا۔ انھی ڈھنڈورچیوں کے باعث چالیس سال بعد پاکستان کی سڑکوں پر خون بہایا گیا۔ گیارہ معصوم نہتے لوگ، پر امن لوگ، وہ لوگ آئین شکنی جن کے وہم وگمان میں نہ تھی، وہ لوگ جو صرف اپنے محبوب قائد کی آمد کے منتظر تھے اور اس سلسلے میں صلاح مشوروں کے لیے اپنے مرکز پہنچے ہوئے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے کوئی ایسی چھیڑ خانی نہیں کی تھی کہ ان پر اسقد ر بربریت روارکھی جاتی۔ پاکستان کی سڑکوں پر غالباً پہلی مرتبہ ریاستی پولیس کی گولیوں سے دوخواتین نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
چونکہ قدرت کے ڈھنگ نرالے ہوتے ہیں اس لیے پورے اعتماد اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جو کام ان گیارہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کر دیا ہے وہ کام شاہد سیکڑوں شہادتیں بھی نہ کرسکتیں کیونکہ ان گیارہ شہادتوں نے سیکڑوں شہادتوں کے ہونے سے ملک اور قوم کو بچالیا۔ جس تحریک میں خون کا رنگ بھی شامل ہوجائے اس کی منزل اور زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔ قانون قدرت دیکھئے کہ ان گیارہ شہادتوں نے گلو بٹ کی بھی شناخت کرا دی۔ گلو بٹ ڈھنڈورچیوں کے ڈھنڈورچی ہوتے ہیں ۔
جن کے چہرے بشرے ضرور ہوتے ہیں پہچان نہیں ہوتی کیونکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ تو کمیوں کے بھی کمی ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ پولیس کی قیادت کرتے ہوئے گاڑیوں کو فخراً ڈنڈے برسا برسا کر تباہ و برباد کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے دن اسی پولیس کی موجودگی میں ٹھڈوں لاتوں اور گھونسوں سے سرعام پٹ رہے ہوتے ہیں۔ گلو بٹ کا یہ حال ڈھنڈورچیوں کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہونا چاہیے کیونکہ اب جو آواز قصاص لینے کا نعرہ لگا رہی ہے وہ پیغام جو مخلوق خدا کو برابر سمجھتی ہے جس کے نزدیک فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ وہ آواز جس سے چہرے خوف کا شکار بدن میں جھرجھریاں اور وجود لرزاں ہیں وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز ہے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس کی اڑان مقدورں کے باعث ہو وہ مزید اونچی اڑان کے لیے بھی ماں کی دعا کے علاوہ کسی اور چیز پر بھروسہ نہیں کرتا۔ کہتے ہیں جب قسمت ساتھ ہو تو مٹی میں ہاتھ ڈالنے سے سونا نکل آتا ہے اور بد نصیبی کی صورت میں سونا بھی چھونے سے مٹی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقدر والوں کو قدرت لا تعداد ڈھنڈورچی عطا کردیتی ہے جس سے ایک طرف تو قدرت کی بے نیازی اور دوسری طرف ڈھنڈورچی کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ڈھنڈورچی کو سمجھنے کے لیے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈھنڈورچی کسی شخصیت کا تعارف نہیں ہے یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔ کوئی بھی شخص ڈھنڈورچی ہونے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔ ڈھنڈورچی کے لیے صرف ایک مقدر والا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جس کے ساتھ وہ جڑسکے۔ جس کسی کو بھی کسی مقدر والے کی سرسری توجہ میسر ہوگئی سمجھو وہ بیٹھے بیٹھے ڈھنڈورچی بن گیا کیونکہ ڈھنڈورچی کو اس معمولی اور اکثر بے نیاز توجہ اور سرپرستی کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ڈھنڈورچی کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہوسکتا ہے۔ ڈھنڈورچی نائب قاصد سے لے کر گریڈ بائیس کا افسر بھی ہوسکتا ہے، مسکین فقیر سے لے کر امیر کبیر اور وزیر مشیر بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی کوئی بھی جب چاہے خواہ اس کا تعلق کسی پیشے سے ہو ڈھنڈورچی بن سکتا ہے۔
ڈھنڈورچی کا کوئی دین کوئی مذہب کوئی دھرم نہیں ہوتا اس کا کام صرف مالک کے لیے ڈھول بجانا ہوتا ہے۔
ڈھنڈورچی کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ اس کا کام موجوں کے ساتھ تیرنا ہوتا ہے۔ مقدر والے کو عزت کی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ عز ت وتکریم اس نے محض مقدروں کی بل بوتے پر حاصل کی ہوتی ہے اور ڈھنڈورچی اپنی سرشت میں عزت وتکریم سے عاری ہو تا ہے لہذا دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہے۔
ڈھنڈورچی کی اپنی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ پہچان صرف اس کے مالک کی ہوتی ہے۔ جس کا وجود جھوٹ اور دھاندلی سے پیدا ہوتا ہے۔ مقدر والے مالکوں کو اپنا جھوٹ اور دھاندلی چھپانے کے لیے ڈھنڈورچیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حق پھیلانے والا حق کا پر تو بن جاتا ہے جب کہ باطل کا چیلا باطل کی طرح ہوتا ہی مٹ جانے کے لیے ہے۔ حق بات کرنے والا مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے اور باطل کا ڈھنڈورچی وقتی کامیابیوں کے باوجود جلد یا بدیر نیست و نابود ہوجاتا ہے۔
بری امام داتا گنج بخش پیر بابا سچل سرمست لال شہباز قلندر عبداللہ شاہ غازی مرکر بھی زندہ ہیں اور ناصرف زندہ ہیں بلکہ دلوں پر راج کرتے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ حق زندہ ہے حق زندہ رہنے کے لیے ہے کیونکہ حئی و قیوم کی طرف سے ہے جب کہ باطل صرف اور صرف مٹ جانے کے لیے اس لیے کہ حق کا مقابل ہے۔ حق کو پھیلانے کے لیے خلوص نیت سے ایمان اور انتھک محنت صبر و استحکام کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اُسے کسی ڈھنڈورچی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
میں سمجھتا ہوں کہ مندرجہ بالا وجوہات اور باتوں کے بیان کے بعد ڈھنڈورچی کا ''مرتبہ'' اور ''مقام'' اب مزید کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا اگر ہم اپنے ملک کی گذشتہ 67 سالہ تاریخ میں ڈھنڈروچیوں کے مکروہ کردار کا سرسری جائزہ بھی لیں تو پتہ چلے گا کہ اس طبقے نے ہمارے ملک کی جڑوں کو کس کس انداز سے کتنی دیدہ دلیری کے ساتھ کھوکھلا کیا جس کے باعث آج ہم اس کسمپرسی کی حالت سے دوچار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈھنڈورچی اپنی کسی بھی ذو معنی بامعنی یا بے معنی بات سے اپنے مالک پر اثرانداز نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈھنڈورچی اپنے مالک کو اپنے خول سے باہر نکلنے بھی نہیں دیتا وہ مالک کی ہر بہودہ اور لغو بات کو اسقدر متبرک بنا دیتا کہ مالک اپنے آپ کو ہر عیب سے پاک اور ہر غلطی سے مبرا سمجھنے کے علاوہ سوچ ہی نہیں سکتا۔ انھی ڈھنڈورچیوں کے باعث چالیس سال بعد پاکستان کی سڑکوں پر خون بہایا گیا۔ گیارہ معصوم نہتے لوگ، پر امن لوگ، وہ لوگ آئین شکنی جن کے وہم وگمان میں نہ تھی، وہ لوگ جو صرف اپنے محبوب قائد کی آمد کے منتظر تھے اور اس سلسلے میں صلاح مشوروں کے لیے اپنے مرکز پہنچے ہوئے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے کوئی ایسی چھیڑ خانی نہیں کی تھی کہ ان پر اسقد ر بربریت روارکھی جاتی۔ پاکستان کی سڑکوں پر غالباً پہلی مرتبہ ریاستی پولیس کی گولیوں سے دوخواتین نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
چونکہ قدرت کے ڈھنگ نرالے ہوتے ہیں اس لیے پورے اعتماد اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ جو کام ان گیارہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے کر دیا ہے وہ کام شاہد سیکڑوں شہادتیں بھی نہ کرسکتیں کیونکہ ان گیارہ شہادتوں نے سیکڑوں شہادتوں کے ہونے سے ملک اور قوم کو بچالیا۔ جس تحریک میں خون کا رنگ بھی شامل ہوجائے اس کی منزل اور زیادہ قریب ہوجاتی ہے۔ قانون قدرت دیکھئے کہ ان گیارہ شہادتوں نے گلو بٹ کی بھی شناخت کرا دی۔ گلو بٹ ڈھنڈورچیوں کے ڈھنڈورچی ہوتے ہیں ۔
جن کے چہرے بشرے ضرور ہوتے ہیں پہچان نہیں ہوتی کیونکہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی وہ تو کمیوں کے بھی کمی ہوتے ہیں۔ ایک دن وہ پولیس کی قیادت کرتے ہوئے گاڑیوں کو فخراً ڈنڈے برسا برسا کر تباہ و برباد کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے دن اسی پولیس کی موجودگی میں ٹھڈوں لاتوں اور گھونسوں سے سرعام پٹ رہے ہوتے ہیں۔ گلو بٹ کا یہ حال ڈھنڈورچیوں کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہونا چاہیے کیونکہ اب جو آواز قصاص لینے کا نعرہ لگا رہی ہے وہ پیغام جو مخلوق خدا کو برابر سمجھتی ہے جس کے نزدیک فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ وہ آواز جس سے چہرے خوف کا شکار بدن میں جھرجھریاں اور وجود لرزاں ہیں وہ ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز ہے۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین