جنت کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت

دیدارِالٰہی کا ایک ذریعہ دعا ہے کہ آپ اللّہ تعالٰی سے اس کے دیدار نصیب ہونے کی خوب دعا کریں ۔

فوٹو : فائل

رب العالمین نے اپنے پرہیزگار بندوں اور اہل ایمان کے لیے جن نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور جن نعمتوں کی لذت سے وہ آخرت میں ہم کنار ہوں گے ان میں سے سب سے عظیم تر نعمت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی جنت میں انہیں اپنا دیدار کرائیں گے۔

یہ جنت کی نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہوگی اور اس کی لذت تمام نعمتوں کی لذت پر غالب ہوگی، بلکہ اس کی لذت پانے کے بعد جنتی جنت کی لذت کی تمام چیزوں اور ان کی لذتوں کو بھول جائیں گے۔

آئیے! جانتے ہیں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کی بدولت آپ جنت میں اللہ کا دیدار کر سکیں گے۔

اسلام پر موت

جنت میں دیدارالٰہی کا ذریعہ بننے کا پہلا عمل یہ ہے کہ بندہ دینِ اسلام کی پیروی کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے، کیوںکہ کافر کو اللّہ تعالٰی کا دیدار نصیب نہیں ہوگا۔ جیساکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

ہرگز نہیں یقیناً ایسے لوگ اس دن اپنے پروردگار کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ (سورۃالمطففین 15)

یعنی ان کے کفر ومعاصی کی ایک سزا یہ ملے گی کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کے دیدار سے محروم کردیے جائیں گے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مومنین اپنے رب کو دیکھیں گے اور کفار اس نعمت سے محروم کردیے جائیں گے۔

دوسرے مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

اس روز بہت سے چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے۔ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ (سورۃ القیامۃ 22/23)

معلوم ہوا کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو اللّہ تعالٰی کا دیدار نصیب ہو گا اور اس خوشی میں ان کے چہرے تروتازہ اور چمک رہے ہوں گے۔

سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے صاف دیکھو گے۔ (صحیح البخاری 7435)

اللہ تعالیٰ سے دعا

دیدارِالٰہی کا ایک ذریعہ دعا ہے کہ آپ اللّہ تعالٰی سے اس کے دیدار نصیب ہونے کی خوب دعا کریں ۔

حضرت قیس بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور ہلکی پڑھائی، تو لوگوں نے اسے ناپسند کیا، تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں نے رکوع اور سجدے پورے پورے نہیں کیے ہیں؟

لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور کیے ہیں، پھر حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہنے لگے: سنو! میں نے اس میں ایسی دعا پڑھی ہے جس کو نبی کریم ﷺ پڑھا کرتے تھے وہ یہ ہے:

اللہم بعِلمِک الغیب وقدرتِک علی الخلقِ احینی ما علمت الحیا ۃخیرا لی وتوفنی اذا علمت الوفا ۃ خیرا لی واسئلک خشیتک فی الغیبِ والشہادۃِ وکلمۃ الاخلاصِ فی الرِضا والغضبِ واسئلک نعیما لا ینفد وقر ۃعین لا تنقطع واسئلک الرِضا ء بالقضائِ وبرد العیشِ بعد الموتِ ولذۃ النظرِا لی وجہک والشوق الی لقائِک واعوذ بِک من ضرا ء مضرۃ وفتنۃ مضلۃ اللہم زیِنا بزینۃِ الایمانِ واجعلنا ہداۃ مہتدین۔

ترجمہ: اے اللہ! میں تیرے علم غیب اور تمام مخلوق پر تیری قدرت کے واسطے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک تو جانے کہ زندگی میرے لیے باعث خیر ہے، اور مجھے موت دے دے جب تو جانے کہ موت میرے لیے بہتر ہے۔

اے اللہ! میں غیب و حضور دونوں حالتوں میں تیری خشیت کا طلب گار ہوں، اور میں تجھ سے خوشی و ناراضی دونوں حالتوں میں کلمۂ اخلاص کی توفیق مانگتا ہوں، اور میں تجھ سے ایسی نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہو، اور میں تجھ سے ایسی آنکھوں کی ٹھنڈک کا طلب گار ہوں جو منقطع نہ ہو، اور میں تجھ سے تیری قضا پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طلب گار ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طلب گار ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تیری اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گم راہ کر دے۔

اے اللہ! ہم کو ایمان کے زیور سے آراستہ رکھ، اور ہم کو راہ نما و ہدایت یافتہ بنا دے۔ (سنن النسائی 1305)

نمازِفجر اور عصر کی پابندی

جنت میں دیدارِالٰہی حاصل کرنے کا ایک عمل تمام نمازوں کی پابندی کے ساتھ نمازِفجر اور عصر کی پابندی ہے۔

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ علیہ السلام نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا:

کہ تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی دقت نہ ہو گی، پس اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہوسکے تو ایسا ضرور کرو۔ (صحیح البخاری554 صحیح مسلم 182)


ہر قسم کے گناہوں سے اجتناب

جنت میں دیدارِالہی کا ایک ذریعہ گناہوں سے اجتناب ہے۔

سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالٰی تین آدمیوں سے بات نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف رحمت کی نگاہ سے دیکھے گا۔ نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔

آپ ﷺ نے تین بار یہ فرمایا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: برباد ہوگئے، اور نقصان سے دوچار ہوگئے، وہ کون ہیں یا رسول اللہ (ﷺ)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک تو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا، دوسرا احسان کر کے اس کو جتانے والا، تیسرا جھوٹی قسم کھاکر اپنا مال بیچنے والا۔ (صحیح مسلم 106)

ایک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالٰی روزِقیامت کلام کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں درناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور تکبر کرنے والا مفلس۔ (صحیح مسلم 107)

ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا عبداللّہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللّہ تعالٰی قیامت کے دن (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا۔ اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا، مستقل شراب پینے والا اور اپنی دی ہوئی چیز پر احسان جتلانے والا۔ السلسلۃ الصحیح 3099)

اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور دیدار کی چاہت

دیدارِالٰہی کا ایک ذریعہ اللّہ تعالٰی سے ملاقات کا شوق اور اس کے دیدار کی چاہت ہے۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو پسند نہیں کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا نبی اکرم ﷺ کی بعض ازواج نے عرض کیا کہ مرنا تو ہم بھی نہیں پسند کرتے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کہ ملنے سے موت مراد نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ ایمان دار آدمی کو جب موت آتی ہے تو اسے اللہ کی خوش نودی اور اس کے یہاں اس کی عزت کی خوش خبری دی جاتی ہے۔ اس وقت مومن کو کوئی چیز اس سے زیادہ عزیز نہیں ہوتی جو اس کے آگے (اللہ سے ملاقات اور اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے) ہوتی ہے، اس لیے وہ اللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہوجاتا ہے اور اللہ بھی اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللّہ کے عذاب اور اس کی سزا کی بشارت دی جاتی ہے، اس وقت کوئی چیز اس کے دل میں اس سے زیادہ ناگوار نہیں ہوتی جو اس کے آگے ہوتی ہے۔ وہ اللہ سے جاملنے کو ناپسند کرنے لگتا ہے، پس اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔) صحیح البخاری 6507)

احسان کرنا

دیدارِالٰہی کا ایک ذریعہ احسان ہے۔ احسان کا معنی یہ ہے کہ کسی بھی مخلوق کے لیے، کسی بھی قسم کی تمام اچھائی کے کام کو انجام دینا۔

امام جرجانیؒ فرماتے ہیں کہ احسان سے مراد وہ عمل ہے جو دنیا میں قابل تعریف ہو اور آخرت میں باعث اجرو ثواب ہو۔ (التعریفات للجرجانی ، ص:91)

احسان کی جامع تعریف

نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق احسان عبادت کی اس حالت کا نام ہے، جس میں بندے کو دیدارالٰہی کی کیفیت نصیب ہوجائے یا کم از کم اس کے دل میں یہ احساس ہی جاگزیں ہوجائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔ احسان کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے مومن بندوں سے فرماتا ہے:

واحسِنوا ِان اللہ یحِب المحسِنِین

تم احسان کرو، بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورۃالبقر ۃ 195)

احسان کرنے والوں کے لیے جنت اور دیدارِالہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: جنہوں نے احسان کیا، ان کے لیے حسنی یعنی حسین ترین بدلہ ہے اور اس پر اضافہ بھی ہوگا۔ (یونس 26)

نبی کریم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ حسنی تو جنت ہے اور اضافہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے ۔ اللّہ تعالٰی کی روایت اور زیارت ایمان والے محسنین کے لیے اضافی طور پر نصیب ہوگی۔ جیسا کہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب اہلِ جنت جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تبارک و تعالی فرمائے گا: تمہیں کوئی چیز چاہیے جو میں تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ کہیں گے: کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور آگ سے نجات نہیں دی؟

آپ ﷺ نے فرمایا: پھر اللّہ تعالٰی پردہ ہٹا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہوگی جو انہیں اپنے رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: لِلذِین احسنوا الحسنی و زِیادۃ (سورۃیونس: 26) جن لوگوں نے احسان کیا، ان کے لیے حسین ترین بدلہ ہے اور اس پر اضافہ بھی ہوگا۔ (مزید یا اضافہ سے رب تعالٰی کا دیدار مراد ہے)۔ (صحیح مسلم 181)

احسان کا وسیع دائرہ

احسان کے متعلق آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ میں غوروفکر کرنے سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ احسان کا یہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسان کا اپنا نفس اس کا گھرانا اس کے رشتہ دار اقربا پھر انسانی معاشرہ سب داخل ہیں۔ اس میں سرفہرست والدین کے ساتھ احسان، خاوند کا بیویوں کے ساتھ احسان، بیویوں کا خاوند کے ساتھ احسان، بیٹیوں کے ساتھ احسان، بیواؤں، مساکین، اور یتیموں کے ساتھ احسان، ہمسائے کے ساتھ احسان، نوکروں اور خادموں سے احسان اور پھر عام انسانوں سے احسان شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ایک مسلمان کی پوری زندگی عبادت ہے، مومن کی ایک ایک حرکت عبادت ہے، اس کا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، چلنا، کام کرنا سب عبادت میں شامل ہوتا ہے، گویا کہ ان ساری جگہوں میں احسان کا عمل دخل ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالٰی قیامت کے دن ہم سب کو اپنا دیدار نصیب فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)
Load Next Story