سرکاری اسپتالوں کا اصل چہرہ
نجانے پنجاب کے بارہ کروڑ عوام میں سے کتنے بے کسوں اور بے نواؤں کے ساتھ ایسا وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک ہو رہا ہوگا؟
جون کی دہکتی صبح یہ خبر پڑھی تھی ۔ تب سے اَب تک دل رنجور اور افسردہ ہے ۔ نجانے پنجاب کے بارہ کروڑ عوام میں سے کتنے بے کسوں اور بے نواؤں کے ساتھ ایسا وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک ہو رہا ہوگا؟ یہ سوچ کر ہی دِل دہل دہل جاتا ہے۔
ایسا مگر ہورہا ہے۔ بکثرت ہو رہا ہے اور آئے روز ہو رہا ہے ۔ فیصلہ کن اور فیصلہ ساز قوتوں، اداروں اور اشخاص کے کانوں، دِلوں اور آنکھوں پر بھاری پردے پڑے ہیں۔ان کے کان محض اپنے مفادات کی بات سُنتے ہیں۔
ان کی آنکھیں صرف اپنے فائدے کا منظر دیکھنے تک محدود ہیں ۔ سرکار کی طرف سے متعینہ فرائض کی ادائیگی میں ان کی غفلت اور سرکشی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ سرکار حالانکہ انھیں سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لیے بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات فراہم کررہی ہے ۔یہ مگر اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں نہ انھیں اُخروی زندگی کا خوف یاد ہے ۔
ایک انگریزی معاصر میں چھپی یہ خبرمیانوالی کے ڈسٹرکٹ اسپتال (DHQ) سے آئی ہے ۔ جس نے بھی پڑھی ہے ، خون کے آنسو پی کررہ گیا ہے ۔ خبر کے مطابق: عیسیٰ خیل، کا ایک شخص ( محمد علی ولد محمد آصف) چند دن قبل زخمی حالت میں ڈی ایچ کیو میں لایا گیا ۔ حادثے میں اُس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ۔ریسکیو1122والے اُسے اسپتال مذکور میں لائے تھے ۔ اسپتال کے جنرل وارڈ میںاُس کا علاج شروع کر دیا گیا تھا ۔
علاج کے دوران زخمی شخص کا کوئی عزیز بھی ملنے نہ آیا۔ وہ شاید ٹوٹی ٹانگ کے کارن زیادہ تکلیف میں مبتلا تھا، اس لیے مبینہ طور پر وارڈ کے دیگر مریضوں کی 'شکایت' پر اُسے وارڈ سے متصل ایک 'سائیڈ والے کمرے' میں منتقل کر دیا گیا ۔ خبر کے مطابق : اِسی دوران سیکریٹری ہیلتھ پنجاب نے مذکورہ اسپتال کا دَورہ کیا۔
اسپتال کے اسٹاف نے اِس ڈر سے کہ زخمی محمد علی دَورے پر آئے سیکریٹری صحت سے علاج بارے کوئی شکایت نہ کر دے، اُس بدنصیب کو اسپتال ہی کے ایک اور خالی کمرے میں لیٹا دیا گیا اور باہر سے تالا لگا دیا ۔ شاید یہ نیت ہو کہ سیکریٹری ہیلتھ دَورہ کرکے چلے جائیں گے تو مقفل کمرے سے باہر نکال لیں گے ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا اور اسپتال اسٹاف بھول بھال گیا ۔
زخمی مریض اُسی کمرے میں انتقال کر گیا' اسٹاف چونکہ بھول گیا لہٰذا کسی کو اس کے مرنے کی خبر نہ تھی' اسپتال میں بد بُو پھیلی تو معلوم نہیں ہو رہا تھا یہ کہاں سے آ رہی ہے ؟ آخر کار وہ کمرہ کھولا گیا تو وہاں زخمی مریض کی لاش ملی ۔ وہ نجانے کب کا اپنے خالق کے ہاں پہنچ گیا تھا !اس واقعہ کی اطلاع باہر نکلی توڈپٹی کمشنر صاحب ، خالد جاوید گورایا، بھی بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے ۔ سانحہ کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بٹھا دی ۔
کمیٹی کے سربراہ ڈی ایچ او( ڈی آر) ڈاکٹر رفیق خان کو بنایا گیا ۔ کمیٹی کی رپورٹ مگر اِن سطور کے لکھنے تک سامنے نہیں آ سکی ۔ مردہ شخص لاوارث قرار دے کر امانتاً دفن کر دیا گیا۔ اِس دلفگار موقع پر اسداللہ خان غالب شدت سے یاد آئے ہیں: ہُوئے مرکے ہم جو رُسوا ہُوئے کیوں نہ غرقِ دریا /نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا !
محمدعلی راقم کا کوئی عزیز ، کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ اِس کے باوصف دل و دماغ پر اُداسی اور افسردگی کا ایک گہر کہر سا چھا گیا ہے ۔ زخمی مریض جس بیکسی اور بے بسی کی حالت میں ایک سرکاری اسپتال میں موت کے منہ میں گیا ہے، اِس نے مجھے افسردہ کررکھا ہے ۔ اگر ڈاکٹرز اور اسٹاف زخمی محمد علی کو انسان سمجھ کر ٹریٹ کرتا تو شاید وہ جانبر ہوجاتا ۔ اُسے مگر لاوارث اور غریب الدیار سمجھ کر جانوروں کی طرح ٹریٹ کیا گیا ۔
محمد علی کی موت ہمیں پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کا اصل چہرہ دکھا گئی ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پنجاب کے تقریباً سبھی چھوٹے بڑے سرکاری اسپتال غفلت ، مریضوں سے عدم تعاون اورNegligenceکا شاہکار بن چکے ہیں۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی کیا بات کریں' سندھ' خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سرکاری اسپتالوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
پاکستان بھر میں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بھرمار ہے مگر کوئی بھی کسی ماڑے اور غریب مریض کی دستگیری کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ سرکاری ڈاکٹرز وقت پر اسپتال آتے ہیں نہ وقت پر اسپتال سے رخصت ہوتے ہیں ۔اُن کی ڈیوٹی صبح آٹھ بجے سے سہ پہر چار بجے تک ہوتی ہے ۔
مشاہدے میں مگر یہ بات آتی ہے کہ مذکورہ اوقات میں کوئی سرکاری ڈاکٹر سرکاری اسپتال میں دستیاب نہیں ہوتا ۔ مریض رُل جاتے ہیں اور ڈاکٹر ''صاحبان'' صبح دس بجے ٹہلتے ٹہلتے آتے ہیں اور دوپہر ایک بجتے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ سرکاری اسپتالوں سے بھاگ کر اپنے پرائیویٹ کلینکس میں جا بیٹھتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں سے ملنے والی لاکھوں روپے کی تنخواہ اور بے تحاشہ مراعات کو وہ محض وظیفہ سمجھتے ہیں ۔ مریضوں کی خدمت کرنا اور اپنے متعینہ سرکاری فرائض کی ادائیگی ان کے لیے ضروری نہیں ہے ۔
سرکاری اسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹرز مریضوں کی توہین بھی کرتے ہیں ۔ مریضوں سے ان کا رویہ متکبرانہ اور تعاون سے مبرا ہوتا ہے ۔ مجھے خود بھی گزشتہ کچھ عرصہ سے بوجوہ بکثرت سرکاری اسپتالوں میں جانا پڑ رہا ہے ؛ چنانچہ راقم اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کو سرکاری ڈاکٹروں نے بوچڑ خانے بنا کر رکھ دیا ہے ۔ انھیں کسی احتساب کا ڈر ہے نہ کسی انکوائری کا۔ میانوالی کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں مرنے والے محمد علی کی انکوائری رپورٹ بھی کسی کھو کھاتے میں ڈال دی جائے گی ۔ کسی ذمے دار کو سزا نہیں ہوگی ۔
جو مر گیا، سو مر گیا ۔ میرے اپنے بہنوئی کا لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں ایک ناکارہ اور نااہل ڈاکٹر نے بددلی سے آپریشن کیا ۔ یہ آپریشن ہی اُن کی موت کا سبب بن گیا۔ آج تک اُن کی انکوائری مکمل ہو سکی ہے نہ کسی ذمے دار کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکا ہے ۔ جب سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں سے احتجاج کیا جائے تو یہ ہڑتالوں پر اُتر آتے ہیں۔
یہ ہڑتالیں مریضوں کے لیے مزید عذاب بن جاتی ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف ، پنجاب کے بگڑے سرکاری اسپتالوں اور عدم تعاون پر ڈٹے ڈاکٹروں کا قبلہ درست کرنے کے لیے دن رات محنت تو کررہی ہیں ، خود مریضوںتک پہنچ رہی ہیں، مگر پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کو مزید ٹائیٹ کرنے کی ابھی بے حد ضرورت ہے ۔دوسرے صوبوں میں سرکاری اسپتالوں کے سسٹم کو درست کرنا ان کی صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ مجھے کم از کم پنجاب کی وزیر اعلیٰ سے امید ہے کہ وہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کا نظام ضرور درست کریں گی۔
ایسا مگر ہورہا ہے۔ بکثرت ہو رہا ہے اور آئے روز ہو رہا ہے ۔ فیصلہ کن اور فیصلہ ساز قوتوں، اداروں اور اشخاص کے کانوں، دِلوں اور آنکھوں پر بھاری پردے پڑے ہیں۔ان کے کان محض اپنے مفادات کی بات سُنتے ہیں۔
ان کی آنکھیں صرف اپنے فائدے کا منظر دیکھنے تک محدود ہیں ۔ سرکار کی طرف سے متعینہ فرائض کی ادائیگی میں ان کی غفلت اور سرکشی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ سرکار حالانکہ انھیں سرکاری فرائض کی ادائیگی کے لیے بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات فراہم کررہی ہے ۔یہ مگر اپنے حلف کی پاسداری کررہے ہیں نہ انھیں اُخروی زندگی کا خوف یاد ہے ۔
ایک انگریزی معاصر میں چھپی یہ خبرمیانوالی کے ڈسٹرکٹ اسپتال (DHQ) سے آئی ہے ۔ جس نے بھی پڑھی ہے ، خون کے آنسو پی کررہ گیا ہے ۔ خبر کے مطابق: عیسیٰ خیل، کا ایک شخص ( محمد علی ولد محمد آصف) چند دن قبل زخمی حالت میں ڈی ایچ کیو میں لایا گیا ۔ حادثے میں اُس کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ۔ریسکیو1122والے اُسے اسپتال مذکور میں لائے تھے ۔ اسپتال کے جنرل وارڈ میںاُس کا علاج شروع کر دیا گیا تھا ۔
علاج کے دوران زخمی شخص کا کوئی عزیز بھی ملنے نہ آیا۔ وہ شاید ٹوٹی ٹانگ کے کارن زیادہ تکلیف میں مبتلا تھا، اس لیے مبینہ طور پر وارڈ کے دیگر مریضوں کی 'شکایت' پر اُسے وارڈ سے متصل ایک 'سائیڈ والے کمرے' میں منتقل کر دیا گیا ۔ خبر کے مطابق : اِسی دوران سیکریٹری ہیلتھ پنجاب نے مذکورہ اسپتال کا دَورہ کیا۔
اسپتال کے اسٹاف نے اِس ڈر سے کہ زخمی محمد علی دَورے پر آئے سیکریٹری صحت سے علاج بارے کوئی شکایت نہ کر دے، اُس بدنصیب کو اسپتال ہی کے ایک اور خالی کمرے میں لیٹا دیا گیا اور باہر سے تالا لگا دیا ۔ شاید یہ نیت ہو کہ سیکریٹری ہیلتھ دَورہ کرکے چلے جائیں گے تو مقفل کمرے سے باہر نکال لیں گے ۔ ایسا مگر نہ ہو سکا اور اسپتال اسٹاف بھول بھال گیا ۔
زخمی مریض اُسی کمرے میں انتقال کر گیا' اسٹاف چونکہ بھول گیا لہٰذا کسی کو اس کے مرنے کی خبر نہ تھی' اسپتال میں بد بُو پھیلی تو معلوم نہیں ہو رہا تھا یہ کہاں سے آ رہی ہے ؟ آخر کار وہ کمرہ کھولا گیا تو وہاں زخمی مریض کی لاش ملی ۔ وہ نجانے کب کا اپنے خالق کے ہاں پہنچ گیا تھا !اس واقعہ کی اطلاع باہر نکلی توڈپٹی کمشنر صاحب ، خالد جاوید گورایا، بھی بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے ۔ سانحہ کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بٹھا دی ۔
کمیٹی کے سربراہ ڈی ایچ او( ڈی آر) ڈاکٹر رفیق خان کو بنایا گیا ۔ کمیٹی کی رپورٹ مگر اِن سطور کے لکھنے تک سامنے نہیں آ سکی ۔ مردہ شخص لاوارث قرار دے کر امانتاً دفن کر دیا گیا۔ اِس دلفگار موقع پر اسداللہ خان غالب شدت سے یاد آئے ہیں: ہُوئے مرکے ہم جو رُسوا ہُوئے کیوں نہ غرقِ دریا /نہ کبھی جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا !
محمدعلی راقم کا کوئی عزیز ، کوئی رشتہ دار نہیں تھا۔ اِس کے باوصف دل و دماغ پر اُداسی اور افسردگی کا ایک گہر کہر سا چھا گیا ہے ۔ زخمی مریض جس بیکسی اور بے بسی کی حالت میں ایک سرکاری اسپتال میں موت کے منہ میں گیا ہے، اِس نے مجھے افسردہ کررکھا ہے ۔ اگر ڈاکٹرز اور اسٹاف زخمی محمد علی کو انسان سمجھ کر ٹریٹ کرتا تو شاید وہ جانبر ہوجاتا ۔ اُسے مگر لاوارث اور غریب الدیار سمجھ کر جانوروں کی طرح ٹریٹ کیا گیا ۔
محمد علی کی موت ہمیں پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کا اصل چہرہ دکھا گئی ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پنجاب کے تقریباً سبھی چھوٹے بڑے سرکاری اسپتال غفلت ، مریضوں سے عدم تعاون اورNegligenceکا شاہکار بن چکے ہیں۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی کیا بات کریں' سندھ' خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سرکاری اسپتالوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔
پاکستان بھر میں سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی بھرمار ہے مگر کوئی بھی کسی ماڑے اور غریب مریض کی دستگیری کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ سرکاری ڈاکٹرز وقت پر اسپتال آتے ہیں نہ وقت پر اسپتال سے رخصت ہوتے ہیں ۔اُن کی ڈیوٹی صبح آٹھ بجے سے سہ پہر چار بجے تک ہوتی ہے ۔
مشاہدے میں مگر یہ بات آتی ہے کہ مذکورہ اوقات میں کوئی سرکاری ڈاکٹر سرکاری اسپتال میں دستیاب نہیں ہوتا ۔ مریض رُل جاتے ہیں اور ڈاکٹر ''صاحبان'' صبح دس بجے ٹہلتے ٹہلتے آتے ہیں اور دوپہر ایک بجتے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ سرکاری اسپتالوں سے بھاگ کر اپنے پرائیویٹ کلینکس میں جا بیٹھتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں سے ملنے والی لاکھوں روپے کی تنخواہ اور بے تحاشہ مراعات کو وہ محض وظیفہ سمجھتے ہیں ۔ مریضوں کی خدمت کرنا اور اپنے متعینہ سرکاری فرائض کی ادائیگی ان کے لیے ضروری نہیں ہے ۔
سرکاری اسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹرز مریضوں کی توہین بھی کرتے ہیں ۔ مریضوں سے ان کا رویہ متکبرانہ اور تعاون سے مبرا ہوتا ہے ۔ مجھے خود بھی گزشتہ کچھ عرصہ سے بوجوہ بکثرت سرکاری اسپتالوں میں جانا پڑ رہا ہے ؛ چنانچہ راقم اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کو سرکاری ڈاکٹروں نے بوچڑ خانے بنا کر رکھ دیا ہے ۔ انھیں کسی احتساب کا ڈر ہے نہ کسی انکوائری کا۔ میانوالی کے ڈی ایچ کیو اسپتال میں مرنے والے محمد علی کی انکوائری رپورٹ بھی کسی کھو کھاتے میں ڈال دی جائے گی ۔ کسی ذمے دار کو سزا نہیں ہوگی ۔
جو مر گیا، سو مر گیا ۔ میرے اپنے بہنوئی کا لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں ایک ناکارہ اور نااہل ڈاکٹر نے بددلی سے آپریشن کیا ۔ یہ آپریشن ہی اُن کی موت کا سبب بن گیا۔ آج تک اُن کی انکوائری مکمل ہو سکی ہے نہ کسی ذمے دار کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جا سکا ہے ۔ جب سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں سے احتجاج کیا جائے تو یہ ہڑتالوں پر اُتر آتے ہیں۔
یہ ہڑتالیں مریضوں کے لیے مزید عذاب بن جاتی ہیں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف ، پنجاب کے بگڑے سرکاری اسپتالوں اور عدم تعاون پر ڈٹے ڈاکٹروں کا قبلہ درست کرنے کے لیے دن رات محنت تو کررہی ہیں ، خود مریضوںتک پہنچ رہی ہیں، مگر پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کو مزید ٹائیٹ کرنے کی ابھی بے حد ضرورت ہے ۔دوسرے صوبوں میں سرکاری اسپتالوں کے سسٹم کو درست کرنا ان کی صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ مجھے کم از کم پنجاب کی وزیر اعلیٰ سے امید ہے کہ وہ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کا نظام ضرور درست کریں گی۔