قومی مفاد اہم یا سیاسی محاذ آرائی
مولانا فضل الرحمن کے بقول ابھی انھیں حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تجویز نہیں ملی
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ابھی حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تجویز نہیں البتہ پی ٹی آئی کو بامقصد مذاکرات کے لیے خوش آمدید کہیں گے۔
مولانا یہ بات اس پی ٹی آئی کے لیے کہہ رہے ہیں، جس کے امیدواروں نے کے پی کے میں مولانا اور ان کے خاندانی امیدواروں کو 8فروری کو شکست دی مگر لگتا ہے کہ اس معاملے میں مولانا کو پی ٹی آئی سے کوئی گلہ نہیں جس نے کے پی میں مولانا کا اپنا گورنر اور من پسند نگراں حکومت ہوتے ہوئے کے پی سے جے یو آئی کی الیکشن میں سیٹوں کا صفایا کر دیا مگر مولانا پی ٹی آئی پر اتنے زیادہ مہربان رہے کہ انھوں نے ضمنی انتخاب میں اپنا مضبوط امیدوار دستبردار کرا کر پی ٹی آئی کے کے پی اسمبلی کے امیدوار کو کامیاب کرانے کا موقعہ دیا جس سے سنی اتحاد المعروف پی ٹی آئی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی بن گئی جب کہ یہ نشست جے یو آئی جیت سکتی تھی۔
مولانا فضل الرحمن کے بقول ابھی انھیں حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تجویز نہیں ملی جب کہ پی ٹی آئی دیگر پانچ پارٹیوں کے ساتھ مل کر تحفظ آئین کے نام پر نیا سیاسی اتحاد محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں بنوا چکی ہے اور محمود خان اچکزئی پشین میں اس سلسلے میں ایک ناکام جلسہ کرچکے ہیں۔
جنھوں نے مولانا پر مہربانی کر کے انھیں ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب کرایا جب کہ محمود خان اچکزئی کو پی ٹی آئی کا صدارتی امیدوار بن کر بلوچستان اسمبلی سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا، اس طرح پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو ان کے اپنے صوبے میں سیاسی حیثیت یاد دلا دی تھی جو پشین میں کامیاب جلسہ نہ کر سکے تھے جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پشین میں تنہا بڑا جلسہ کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی گزشتہ سال پی ڈی ایم کی حکومت کا اہم حصہ تھے جہاں دونوں نے آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) سے مل کر قومی مفاد کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت تحریک عدم اعتماد سے ختم کرائی تھی۔
دو سال قبل قومی مفاد کے لیے پی ٹی آئی کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے مل کر پی ڈی ایم کی حکومت قائم کرائی تھی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے بعد جے یو آئی کا حکومتی حصہ سب سے زیادہ تھا اور سولہ ماہ تک سب نے مل کر قومی مفاد کے لیے متحد ہو کر حکومت کی تھی مگر 8 فروری کا الیکشن جے یو آئی کی توقعات کے مطابق نتائج نہ لا سکا مگر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان قومی اسمبلی میں پہنچ گئے، دونوں اب اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ قومی مفاد کے نام پر صدر اور وزیر اعظم بن جانے والوں نے مولانا فضل الرحمن سے سیاسی فاصلہ رکھا اور حکومت بنانے میں مولانا سے بروقت رابطہ نہ کیا جس کا مولانا نے شکوہ بھی کیا مگر پیپلز پارٹی کو مولانا فضل الرحمن کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، بہرحال یہ سب سیاست کے کھیل ہیں ۔
موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شامل ہیں مگر جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین ان تینوں حکومتی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے صاف انکارکر چکے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے پی ٹی آئی اپنے دو سیاسی مخالفین مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے در پر جا کر انھیں حکومت کی مخالفت کے لیے پیش کش کر چکی ہے۔
مولانا اسمبلیوں میں چوتھی سیاسی قوت ہیں مگر پی ٹی آئی نے تحفظ آئین کی مہم میں صرف ایک نشست کے حامل محمود خان اچکزئی کو اہمیت دی جو صوبائی رہنما ہے اور قومی اور قدآور سیاسی رہنما مولانا پر اعتماد نہیں کیا حالانکہ مولانا حکومتوں کے خلاف تحریک چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور تنہا ہی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دے چکے ہیں جس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی مولانا کی مددگار تھیں۔
8 فروری کے الیکشن میں عوام نے کسی ایک پارٹی کو سادہ اکثریت نہیں دی یا کسی اور نے ایسا نہیں ہونے دیا جس کا الزام پی ٹی آئی لگا تو رہی ہے مگر عام تاثر ہے کہ پھر پی ٹی آئی کو کے پی میں حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت کیسے لینے دی گئی اور پنجاب میں بھی وہ مضبوط اپوزیشن بنی ہوئی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق پی ٹی آئی کسی کی نہ سنو، الزام تراشی جاری رکھو کے پرانے حربوں کے استعمال میں مصروف ہے اور مایوسی کے عالم میں ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف دور میں پی پی اور (ن) لیگ نے قومی مفاد میں ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرنے کا ایک معاہدہ کیا تھا اس وقت پی ٹی آئی غیر موثر جماعت تھی مگر 2011 میں پی ٹی آئی کی سرپرستی کی گئی۔
2014 میں اس سے دھرنا کرایا گیا، کچھ نہ ہوا تو 2017 میں منتخب وزیر اعظم کو پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے پاناما میں کچھ نہ ملنے پر اقامہ کی آڑ لے کر عدلیہ نے نااہل کیا جب سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھایا گیا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کو جعلی نتائج سے اقتدار دلایا گیا اور قومی مفاد پس پشت جانا شروع ہوا۔ پی ٹی آئی نے اپنے مخالفین سے محاذ آرائی شروع کی جو اقتدار سے محرومی کے بعد انتہا پر پہنچا دی گئی ہے۔
جس روز دس ارب ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری کے لیے سعودی عرب کا وفد پاکستان پہنچا اسی روز عدالتی فیصلوں کی یہ اہم خبر دب گئی اور پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلہ مل گیا جو فوری دیا گیا اور تاخیر نہیں کی گئی۔ سیاسی منظر نامہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب محاذ آرائی بڑھے گی جس سے متاثر قومی مفاد نے ہی ہونا ہے کیونکہ قومی مفادات کا تو کسی کو احساس نہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی نے اپنا اپنا سیاسی مفاد دیکھنا ہے جب کہ قومی مفاد کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
مولانا یہ بات اس پی ٹی آئی کے لیے کہہ رہے ہیں، جس کے امیدواروں نے کے پی کے میں مولانا اور ان کے خاندانی امیدواروں کو 8فروری کو شکست دی مگر لگتا ہے کہ اس معاملے میں مولانا کو پی ٹی آئی سے کوئی گلہ نہیں جس نے کے پی میں مولانا کا اپنا گورنر اور من پسند نگراں حکومت ہوتے ہوئے کے پی سے جے یو آئی کی الیکشن میں سیٹوں کا صفایا کر دیا مگر مولانا پی ٹی آئی پر اتنے زیادہ مہربان رہے کہ انھوں نے ضمنی انتخاب میں اپنا مضبوط امیدوار دستبردار کرا کر پی ٹی آئی کے کے پی اسمبلی کے امیدوار کو کامیاب کرانے کا موقعہ دیا جس سے سنی اتحاد المعروف پی ٹی آئی اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی بن گئی جب کہ یہ نشست جے یو آئی جیت سکتی تھی۔
مولانا فضل الرحمن کے بقول ابھی انھیں حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس کی تجویز نہیں ملی جب کہ پی ٹی آئی دیگر پانچ پارٹیوں کے ساتھ مل کر تحفظ آئین کے نام پر نیا سیاسی اتحاد محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں بنوا چکی ہے اور محمود خان اچکزئی پشین میں اس سلسلے میں ایک ناکام جلسہ کرچکے ہیں۔
جنھوں نے مولانا پر مہربانی کر کے انھیں ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب کرایا جب کہ محمود خان اچکزئی کو پی ٹی آئی کا صدارتی امیدوار بن کر بلوچستان اسمبلی سے ایک ووٹ بھی نہیں ملا تھا، اس طرح پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو ان کے اپنے صوبے میں سیاسی حیثیت یاد دلا دی تھی جو پشین میں کامیاب جلسہ نہ کر سکے تھے جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے پشین میں تنہا بڑا جلسہ کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی گزشتہ سال پی ڈی ایم کی حکومت کا اہم حصہ تھے جہاں دونوں نے آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) سے مل کر قومی مفاد کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت تحریک عدم اعتماد سے ختم کرائی تھی۔
دو سال قبل قومی مفاد کے لیے پی ٹی آئی کے علاوہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے مل کر پی ڈی ایم کی حکومت قائم کرائی تھی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی کے بعد جے یو آئی کا حکومتی حصہ سب سے زیادہ تھا اور سولہ ماہ تک سب نے مل کر قومی مفاد کے لیے متحد ہو کر حکومت کی تھی مگر 8 فروری کا الیکشن جے یو آئی کی توقعات کے مطابق نتائج نہ لا سکا مگر مولانا فضل الرحمن اور محمود خان قومی اسمبلی میں پہنچ گئے، دونوں اب اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ قومی مفاد کے نام پر صدر اور وزیر اعظم بن جانے والوں نے مولانا فضل الرحمن سے سیاسی فاصلہ رکھا اور حکومت بنانے میں مولانا سے بروقت رابطہ نہ کیا جس کا مولانا نے شکوہ بھی کیا مگر پیپلز پارٹی کو مولانا فضل الرحمن کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی، بہرحال یہ سب سیاست کے کھیل ہیں ۔
موجودہ حکومت میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم شامل ہیں مگر جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین ان تینوں حکومتی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرنے سے صاف انکارکر چکے ہیں اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے پی ٹی آئی اپنے دو سیاسی مخالفین مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کے در پر جا کر انھیں حکومت کی مخالفت کے لیے پیش کش کر چکی ہے۔
مولانا اسمبلیوں میں چوتھی سیاسی قوت ہیں مگر پی ٹی آئی نے تحفظ آئین کی مہم میں صرف ایک نشست کے حامل محمود خان اچکزئی کو اہمیت دی جو صوبائی رہنما ہے اور قومی اور قدآور سیاسی رہنما مولانا پر اعتماد نہیں کیا حالانکہ مولانا حکومتوں کے خلاف تحریک چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور تنہا ہی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دے چکے ہیں جس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی مولانا کی مددگار تھیں۔
8 فروری کے الیکشن میں عوام نے کسی ایک پارٹی کو سادہ اکثریت نہیں دی یا کسی اور نے ایسا نہیں ہونے دیا جس کا الزام پی ٹی آئی لگا تو رہی ہے مگر عام تاثر ہے کہ پھر پی ٹی آئی کو کے پی میں حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت کیسے لینے دی گئی اور پنجاب میں بھی وہ مضبوط اپوزیشن بنی ہوئی ہے۔ روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق پی ٹی آئی کسی کی نہ سنو، الزام تراشی جاری رکھو کے پرانے حربوں کے استعمال میں مصروف ہے اور مایوسی کے عالم میں ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف دور میں پی پی اور (ن) لیگ نے قومی مفاد میں ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرنے کا ایک معاہدہ کیا تھا اس وقت پی ٹی آئی غیر موثر جماعت تھی مگر 2011 میں پی ٹی آئی کی سرپرستی کی گئی۔
2014 میں اس سے دھرنا کرایا گیا، کچھ نہ ہوا تو 2017 میں منتخب وزیر اعظم کو پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے پاناما میں کچھ نہ ملنے پر اقامہ کی آڑ لے کر عدلیہ نے نااہل کیا جب سے ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھایا گیا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کو جعلی نتائج سے اقتدار دلایا گیا اور قومی مفاد پس پشت جانا شروع ہوا۔ پی ٹی آئی نے اپنے مخالفین سے محاذ آرائی شروع کی جو اقتدار سے محرومی کے بعد انتہا پر پہنچا دی گئی ہے۔
جس روز دس ارب ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری کے لیے سعودی عرب کا وفد پاکستان پہنچا اسی روز عدالتی فیصلوں کی یہ اہم خبر دب گئی اور پی ٹی آئی کو عدالتی فیصلہ مل گیا جو فوری دیا گیا اور تاخیر نہیں کی گئی۔ سیاسی منظر نامہ دیکھ کر لگتا ہے کہ اب محاذ آرائی بڑھے گی جس سے متاثر قومی مفاد نے ہی ہونا ہے کیونکہ قومی مفادات کا تو کسی کو احساس نہیں۔ حکومت اور پی ٹی آئی نے اپنا اپنا سیاسی مفاد دیکھنا ہے جب کہ قومی مفاد کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔