کاش

ملک کو اس وقت جس کی ضرورت ہے وہ ہے اتفاق جب کہ نفاق ہماری رگ رگ میں پیوستہ ہوچکا ہے

S_afarooqi@yahoo.com

خبر ہے کہ میٹرک کی ایک طالبہ امتحان کے دوران گرمی کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہوگئی۔

ہمارا تعلیمی نظام بھی نرالا ہے کہ جب موسم گرما انتہائی عروج پر ہوتا ہے اور گرمی کی شدت کی وجہ سے انسان کا بھیجہ پگھل رہا ہوتا ہے طلبہ اور طالبات کی ذہانت نہیں بلکہ قوت برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے۔ یہ ظالمانہ روایت سال ہا سال سے برقرار ہے اور کسی کو بھی اسے تبدیل کرنے کا احساس تک نہیں ہوا ہے۔

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو موسم گرما کی شدت کی وجہ سے مرے جارہے ہیں اور دوسرے وہ خوش نصیب ہیں جو بے تحاشہ دولت اور ملک کے وسائل پر قابض ہونے کے بل بوتے پر ٹھنڈے علاقوں میں جا رہے ہیں۔ عدم مساوات کی اس انتہا نے ایک ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک محروموں کا پاکستان اور دوسرا اشرافیہ کا پاکستان۔

اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو بے شمار وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ملک پاکستان کے نام سے تبدیل ہوکر مسائلستان بن گیا ہے۔ ایک طرف محنت کش کسان ہیں جو شب و روزکی محنت اور مشقت کرکے سونے کی فصلیں اگا رہے ہیں اور ملک کے عوام کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ بے رحم ٹولا ہے جو ان کی محنت پر پانی پھیر کر گل چھرے اڑا رہا ہے۔ مصور پاکستان نے ایسی ہی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ :

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اُس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

علامہ نے یہ دعوت فکر بھی دی تھی۔

اُٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہِلا دو

ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم ہر سال یومِ اقبالؔ بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور سرکاری طور پر جلسوں، سیمینارز وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں اور سارا میڈیا دن بھر کلامِ اقبالؔ نشر کرتا رہتا ہے۔ ہمارا یہ طرز عمل محض ایک ڈھونگ اور ناٹک کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے قول و فعل میں قطبین کا فاصلہ ہے۔ مصور پاکستان نے بالکل واضح الفاظ میں یہ بھی فرمایا ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

قول و فعل کے اس تضاد نے منافقت اور ریاکاری کو ہمارا مسلک بنا دیا ہے۔ ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ اِس موقع پر اقبالؔ کا ایک اور معنی خیز اور فکر انگیز شعر یاد آرہا ہے جو یوں ہے۔


اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتارکا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

اس سے بھی بُرا حال ہمارے لیڈران کرام کا ہے جنھوں نے اقتدار کے نشے میں اس حقیقت کو فراموش کر رکھا ہے کہ جیسے انھیں ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے اور اپنے اعمال کا کبھی جواب نہیں دینا۔ شاید انھوں نے شاعرِ بے نظیر، نظیرؔ اکبر آبادی کی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ:

یہ دنیا سرائے فانی ہے اور:

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

دنیائے سرائے فانی میں بڑے بڑے بادشاہ آئے ہیں لیکن انجام سب کا ایک ہی ہے۔ ان بادشاہوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شامل ہے۔ بقول شاعر:

دارا رہا، نہ جم، نہ سکندر سا بادشاہ

تخت زمیں پہ سیکڑوں آئے، چلے گئے

ملک کو اس وقت جس کی ضرورت ہے وہ ہے اتفاق جب کہ نفاق ہماری رگ رگ میں پیوستہ ہوچکا ہے۔ ریاست سیاست کی دلدل میں بُری طرح دھنستی جارہی ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کو اس کی قطعی پرواہ نہیں ہے اور ان کی حالت یہ ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ ماننا تو درکنار کوئی کسی کی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ ہر کسی کا دعویٰ ہے کہ وہ وطن عزیز سے مخلص ہے اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔

ملک میں قوانین بھی ہیں اور باقاعدہ ایک تحریری آئین بھی موجود ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ عمل مفقود ہے۔ ادارے بھی موجود ہیں لیکن ان کی بالادستی کمزور سے کمزور نظر آرہی ہے۔ ملک میں عام انتخابات بھی ہوئے جن سے عوام کو بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن افسوس در افسوس مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کے بجائے معاملات مزید پیچیدہ ہوگئے اور حالت یہ ہے کہ بقول غالبؔ:

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

پوری قوم متفکر ہے کہ اب کیا کیا جائے اور اس خوفناک اور پریشان کن صورتحال سے کیونکر نجات حاصل کی جائے۔ کاش ہمارے اربابِ اختیارکو اس سنگین صورتحال کا احساس ہو۔
Load Next Story