عوام کا اعتماد کیوں کمزور ہوا
قرض سے ملک کو نجات دلانے کے لیے شروع کی گئی مہم عوام کا اعتماد حاصل نہ کر سکی
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے صنعتی شعبے کو سہولیات کی فراہمی سے متعلق ایک اجلاس میں کہا ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی و گیس کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے اور مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے گا۔
نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کی دبئی میں 11 ارب ڈالر کی جائیدادوں کا انکشاف حیران کن نہیں انویسٹر کو کسی ملک میں جمہوریت، آمریت یا بادشاہت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف ماحول دیکھتا ہے۔ دھن کالا ہو یا سفید اسی طرف رخ کرتا ہے جہاں وہ محفوظ رہے اور اس میں بڑھوتری کا امکان روشن ہو۔
نواز شریف جب 1990 میں پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے تھے تو ملک کے صنعت کاروں اور تاجروں کو ان سے بڑی توقعات تھیں کہ وہ چونکہ کاروباری شخصیت ہیں،اس لیے ملک میں صنعتوں اور کاروبار کو اہمیت دیں گے کیونکہ وہ ان کے مسائل سے آگاہ ہیں انھیں پتا ہے کہ ملک کے تاجروں اور صنعتکاروں کو کن حکومتی محکموں سے شکایات ہیں۔
حکومتی اداروں سے ٹیکسوں اور خصوصاً انکم ٹیکس وصولی کے سلسلے میں مایوسی کیوں ہے۔ ان کی حکومت میں شنوائی کیوں نہیں ہوتی اور حکومت انھیں اعتماد میں لے کر تاجر و صنعت دوست پالیسیاں کیوں نہیں بناتی کہ سب کا فائدہ ہو۔
تاجروں اور صنعتکاروں کو شکایات ہیں کہ انھیں ملک و قوم کا خیر خواہ کیوں نہیں سمجھا جاتا جب کہ وہ بڑی تعداد میں ٹیکس دیتے ہیں مگر سرکاری محکموں میں انھیں عزت نہیں ملتی بلکہ جائز کاموں میں بھی پریشان کیا جاتا ہے۔
ان کے کام وقت پر نہیں ہوتے، سرکاری محکمے خصوصاً ٹیکس وصول کرنے والے محکموں میں اعلیٰ افسران ان سے دور رہتے ہیں، ان کی تجاویز حکومت نہیں سنتی، کروڑوں روپے ٹیکس دینے والوں اور ملک میں صنعتیں لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
تاجروں کی یہ شکایات اور صنعتکاروں کے حکومت سے یہ شکوے درست بھی تھے جو شریف فیملی نے اپنے اقتدار میں حل کرنے کی کوشش بھی کی۔ بعض محکموں میں تجارتی و صنعتی مسائل کے حل کے لیے ون ونڈو آپریشن بھی شروع ہوئے مگر عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
جنرل پرویز مشرف نے نیب کا ادارہ اپنے سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا مگر صنعتکاروں اور بڑے تاجروں کو اس قدر تنگ کیا گیا کہ بڑی مقدار میں سرمایہ اور صنعتیں ملک سے باہر منتقل ہونا شروع ہوئیں۔
چالیس سال پہلے صنعتیں کراچی سے پنجاب منتقل ہونا شروع ہوئی تھیں جو بعد میں ملک سے باہر منتقل ہوگئیں اور ملک کے بڑے بلڈرز اور ڈیولپرز نے خود کو غیر محفوظ سمجھ کر اپنا دھن کسی صورت دبئی منتقل کیا اور وہاں سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے دبئی وہ محفوظ مقام بن گیا جہاں بھارت کے بعد پاکستانیوں نے سب سے زیادہ خریداری کی۔ پاکستان سے صنعتیں بڑی تعداد میں بنگلہ دیش منتقل ہوئیں جس سے بنگلہ دیش کو بڑا فائدہ ہوا اور وہ ترقی میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا اور آج وہ ہم سے کہیں بہتر ہے۔
پاکستان میں دو تین عشروں سے بجلی و گیس کی قلت پیدا ہونا شروع ہوئی تھی جس پر فوری توجہ نہیں دی گئی اور 2013 تک ملک اندھیروں میں دھکیل دیا گیا تھا جس پر نواز شریف کی تیسری حکومت نے کسی حد تک قابو پایا مگر 2018 کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت ملک میں گیس کا بحران پیدا کر گئی جس کے بعد اب موجودہ حکومت میں کراچی و دوسرے شہروں میں عام لوگ بھی گیس و بجلی کی قلت پر احتجاج کر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کا زور بھی صرف ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے تاجروں کو پریشان کرنے پر ہے اور تاجر دوست اسکیم کے تحت اب تاجر تنظیموں کو متفقہ تجاویز ایک ہفتے میں پیش کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین کا کہنا درست ہے کہ ہر سرمایہ کار اپنے سرمائے کا تحفظ چاہتا ہے جو اب پاکستان میں ممکن نہیں رہا۔ سالوں سے ملک کے سرمایہ کاروں نے خود کو غیر محفوظ سمجھ کر ملک سے باہر جانا شروع کر دیا تھا۔ '' قرض اتارو، ملک سنوارو'' کے نام سے جو قومی مہم شروع کی گئی تھی اس میںحکومت کو بھرپور عوامی تعاون ملا تھا مگر اس وقت بھی عوام کے اعتماد کو مجروح کیا گیا۔
قرض سے ملک کو نجات دلانے کے لیے شروع کی گئی مہم عوام کا اعتماد حاصل نہ کر سکی جس کے نتیجے میں تاجر و صنعت کاروں اور دیگر گروپوں نے بھی حکومتوں پر اعتماد کرنا بالکل چھوڑ دیا۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو شاید ملکی سیاسی حالات پر اعتماد نہیں ہے اسی لیے انھوں نے دبئی میں جائیدادیں بنائی ہیں اور ان کے پاس غیر ملکی شہریت اور لندن، دبئی و دیگر ملکوں میں کاروبار اور جائیدادیں ہیں۔
ملک کے سیاستدان ہی نہیں تمام اہم شخصیات کا ملکی سیاسی حالات پر اعتماد ختم ہو چکاہے ان کے پاس دہری شہریت اور جائیدادیں ہیں اور وہیں ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ پاکستان میں وہ صرف حکمرانی، مالی مفادات کے لیے رہتے ہیں اور ایسے لوگ ملک سے مخلص کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔
ملک کے تاجروں اور صنعتکاروں کو حکومتی بیانات پر اعتبار نہیں رہا۔ وہ اب اپنے مسائل کے حل کے لیے حکمرانوں سے ملنے کو ترجیح نہیں دیتے ہیں۔ جب ملک کے اہم لوگ حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تو عام لوگ سیاسی حکومتوں پر کیوں اعتماد کریں ،جہاں سخت گرمی میں بھی گھروں کو گیس نہیں مل رہی اور حکومت کا زور صرف بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے، عوام کو بیانات سے بہلانے پر ہے تو کون ان پر یقین کرے گا؟ حکمرانوں پر عوام کیوں اعتماد کریں جو سچ کو چھپاتے اور عوام کو گمراہ کرتے آئے ہیں۔
نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستانیوں کی دبئی میں 11 ارب ڈالر کی جائیدادوں کا انکشاف حیران کن نہیں انویسٹر کو کسی ملک میں جمہوریت، آمریت یا بادشاہت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف ماحول دیکھتا ہے۔ دھن کالا ہو یا سفید اسی طرف رخ کرتا ہے جہاں وہ محفوظ رہے اور اس میں بڑھوتری کا امکان روشن ہو۔
نواز شریف جب 1990 میں پہلی بار وزیر اعلیٰ پنجاب کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے تھے تو ملک کے صنعت کاروں اور تاجروں کو ان سے بڑی توقعات تھیں کہ وہ چونکہ کاروباری شخصیت ہیں،اس لیے ملک میں صنعتوں اور کاروبار کو اہمیت دیں گے کیونکہ وہ ان کے مسائل سے آگاہ ہیں انھیں پتا ہے کہ ملک کے تاجروں اور صنعتکاروں کو کن حکومتی محکموں سے شکایات ہیں۔
حکومتی اداروں سے ٹیکسوں اور خصوصاً انکم ٹیکس وصولی کے سلسلے میں مایوسی کیوں ہے۔ ان کی حکومت میں شنوائی کیوں نہیں ہوتی اور حکومت انھیں اعتماد میں لے کر تاجر و صنعت دوست پالیسیاں کیوں نہیں بناتی کہ سب کا فائدہ ہو۔
تاجروں اور صنعتکاروں کو شکایات ہیں کہ انھیں ملک و قوم کا خیر خواہ کیوں نہیں سمجھا جاتا جب کہ وہ بڑی تعداد میں ٹیکس دیتے ہیں مگر سرکاری محکموں میں انھیں عزت نہیں ملتی بلکہ جائز کاموں میں بھی پریشان کیا جاتا ہے۔
ان کے کام وقت پر نہیں ہوتے، سرکاری محکمے خصوصاً ٹیکس وصول کرنے والے محکموں میں اعلیٰ افسران ان سے دور رہتے ہیں، ان کی تجاویز حکومت نہیں سنتی، کروڑوں روپے ٹیکس دینے والوں اور ملک میں صنعتیں لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
تاجروں کی یہ شکایات اور صنعتکاروں کے حکومت سے یہ شکوے درست بھی تھے جو شریف فیملی نے اپنے اقتدار میں حل کرنے کی کوشش بھی کی۔ بعض محکموں میں تجارتی و صنعتی مسائل کے حل کے لیے ون ونڈو آپریشن بھی شروع ہوئے مگر عملی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
جنرل پرویز مشرف نے نیب کا ادارہ اپنے سیاسی مخالفین کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا تھا مگر صنعتکاروں اور بڑے تاجروں کو اس قدر تنگ کیا گیا کہ بڑی مقدار میں سرمایہ اور صنعتیں ملک سے باہر منتقل ہونا شروع ہوئیں۔
چالیس سال پہلے صنعتیں کراچی سے پنجاب منتقل ہونا شروع ہوئی تھیں جو بعد میں ملک سے باہر منتقل ہوگئیں اور ملک کے بڑے بلڈرز اور ڈیولپرز نے خود کو غیر محفوظ سمجھ کر اپنا دھن کسی صورت دبئی منتقل کیا اور وہاں سرمایہ کاری کی جس کی وجہ سے دبئی وہ محفوظ مقام بن گیا جہاں بھارت کے بعد پاکستانیوں نے سب سے زیادہ خریداری کی۔ پاکستان سے صنعتیں بڑی تعداد میں بنگلہ دیش منتقل ہوئیں جس سے بنگلہ دیش کو بڑا فائدہ ہوا اور وہ ترقی میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا اور آج وہ ہم سے کہیں بہتر ہے۔
پاکستان میں دو تین عشروں سے بجلی و گیس کی قلت پیدا ہونا شروع ہوئی تھی جس پر فوری توجہ نہیں دی گئی اور 2013 تک ملک اندھیروں میں دھکیل دیا گیا تھا جس پر نواز شریف کی تیسری حکومت نے کسی حد تک قابو پایا مگر 2018 کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت ملک میں گیس کا بحران پیدا کر گئی جس کے بعد اب موجودہ حکومت میں کراچی و دوسرے شہروں میں عام لوگ بھی گیس و بجلی کی قلت پر احتجاج کر رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کا زور بھی صرف ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے تاجروں کو پریشان کرنے پر ہے اور تاجر دوست اسکیم کے تحت اب تاجر تنظیموں کو متفقہ تجاویز ایک ہفتے میں پیش کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین کا کہنا درست ہے کہ ہر سرمایہ کار اپنے سرمائے کا تحفظ چاہتا ہے جو اب پاکستان میں ممکن نہیں رہا۔ سالوں سے ملک کے سرمایہ کاروں نے خود کو غیر محفوظ سمجھ کر ملک سے باہر جانا شروع کر دیا تھا۔ '' قرض اتارو، ملک سنوارو'' کے نام سے جو قومی مہم شروع کی گئی تھی اس میںحکومت کو بھرپور عوامی تعاون ملا تھا مگر اس وقت بھی عوام کے اعتماد کو مجروح کیا گیا۔
قرض سے ملک کو نجات دلانے کے لیے شروع کی گئی مہم عوام کا اعتماد حاصل نہ کر سکی جس کے نتیجے میں تاجر و صنعت کاروں اور دیگر گروپوں نے بھی حکومتوں پر اعتماد کرنا بالکل چھوڑ دیا۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو شاید ملکی سیاسی حالات پر اعتماد نہیں ہے اسی لیے انھوں نے دبئی میں جائیدادیں بنائی ہیں اور ان کے پاس غیر ملکی شہریت اور لندن، دبئی و دیگر ملکوں میں کاروبار اور جائیدادیں ہیں۔
ملک کے سیاستدان ہی نہیں تمام اہم شخصیات کا ملکی سیاسی حالات پر اعتماد ختم ہو چکاہے ان کے پاس دہری شہریت اور جائیدادیں ہیں اور وہیں ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ پاکستان میں وہ صرف حکمرانی، مالی مفادات کے لیے رہتے ہیں اور ایسے لوگ ملک سے مخلص کبھی ہو ہی نہیں سکتے۔
ملک کے تاجروں اور صنعتکاروں کو حکومتی بیانات پر اعتبار نہیں رہا۔ وہ اب اپنے مسائل کے حل کے لیے حکمرانوں سے ملنے کو ترجیح نہیں دیتے ہیں۔ جب ملک کے اہم لوگ حکومت پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تو عام لوگ سیاسی حکومتوں پر کیوں اعتماد کریں ،جہاں سخت گرمی میں بھی گھروں کو گیس نہیں مل رہی اور حکومت کا زور صرف بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے، عوام کو بیانات سے بہلانے پر ہے تو کون ان پر یقین کرے گا؟ حکمرانوں پر عوام کیوں اعتماد کریں جو سچ کو چھپاتے اور عوام کو گمراہ کرتے آئے ہیں۔