عورت کی مالی خودمختاری۔۔۔ معاشرتی مسائل کی جڑ
طلاق کی شرح میں اضافے کی وجوہات کچھ دیگر بھی ہیں۔۔۔
(گذشتہ سے پیوستہ)
اس صفحہ 'خواتین' کی پچھلی اشاعت میں 'کیا طلاق کی وجہ عورت کی مالی خودمختاری ہے؟' کے عنوان سے شائع ہونے والے میرے مضمون کے حوالے سے بہت سے دوست اور کولیگز کی جانب سے رائے اور تبصرے سننے کے بعد سوچا اس آج اس ہی موضوع پر مزید کچھ بات کر لی جائے۔
بہت سے دوست احباب اور کولیگز کا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے کہ عورت مالی خودمختاری اور کسی عہدے پر پہنچ کر شوہر کو عزت نہیں دیتی جو کہ کسی نہ کسی طرح طلاق کا سبب بنتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ تحقیقاتی رپورٹس اور جائزے جن کی بنیاد پر یہ تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ طلاق کی وجہ عورت کی مالی خود مختاری اور اعلیٰ عہدے ہیں، یہ زیادہ تر مغربی تحقیق ہے۔
جب کہ ہمارے معاشرے میں آج طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ صرف عورت کی مالی خود مختاری کو قرار دینا زیادتی کے ساتھ ساتھ 'متعصبانہ سوچ' کی عکاسی بھی ہے۔
'معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح' ایک نہایت ہی حساس اور توجہ طلب مسئلہ ہے، جس پر یقیناً بات ہونے کے ساتھ ساتھ مربوط قسم کی تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔
طلاق کے حوالے سے شائع ہونے والا گذشتہ مضمون ایک زیرِگردش ویڈیو کے جواب میں لکھا گیا تھا، جس میں مشہور شخصیت عورت کی مالی خودمختاری کو طلاق کی وجہ بتار ہے تھے۔
پاکستان میں عام رجحان یہ ہی ہے کہ عورت کی مالی خودمختاری کے پیچھے مغربی سوچ کار فرما ہے۔ جب کہ اگر اسلام کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ام المومنین حضرت خدیجہؓ بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں۔ وہ بھی امیر اورمالی طور پر خود مختار خاتون تھیں۔
تو ہمارے یہاں طلاق کے پیچھے عورت کی مالی خود مختاری کو بنیاد بنانے والے اہل علم اور دانش مند حضرات جب چار شادیوں کی اجازت کی مثال دینا نہیں بھولتے، تو اس معاملے میں بھی حضرت خدیجہؓ کو مثال بنانا چاہیے۔
دوسری اہم بات کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کے بڑھتے رجحان کے پیچھے عورت کی مالی خودمختاری کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جن پر بات کرنے سے گھر کے بزرگ سے لے کر خاندان کے رشتے داروں تک کوئی بات کرنا پسند تو کیا اس کے ذکر کو بھی شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ پھر گھن کے ساتھ گیہوں بھی تو پستا ہے!کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم، ناگزیر اور فعال ہے۔
اور پھر آج کے دور میں جب کہ فردِ واحد کی کمائی سے گھر کا خرچ چلانا کسی چیلنج سے کم نہیں، وہاں اگر ہم عورت کی مالی خود مختاری کو طلاق کی اصل وجہ قرار دیں تو یہ کچھ مناسب بات نہیں۔
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس سے قبیلے، برادریاں، معاشرے اور قومیں بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ خاندان فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود، شخصیت کی نشوونما اور ترقی کا ذمہ دار ہے۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کی مختلف وجوہات ہیں۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی بڑی وجہ جبری شادیاں ہیں۔ جہاں شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے سے ملنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور ہوتی بھی ہے تو ان میں اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ زندگی کے اہم پہلوؤں اور معاملات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا جائے۔
اس ہی رپورٹ کے مطابق ناکام شادی کے اہم محرکات میں سے ایک پورے خاندان کے ساتھ رہنے کا روایتی طریقہ اکثر جھگڑوں اور لڑائیوں کا سبب بنتا ہے جو میاں بیوی کے معاملات کو طلاق کی نہج پر پہنچا دیتا ہے۔
میاں بیوی کے آپسی معاملات میں لڑکا لڑکی کے خاندان والے دوست احباب ان میں مداخلت اپنا فرض سمجھتے ہیں، جو معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے اور غلط فہمیوں کا باعث بنتی ہے۔
بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی، رپورٹ کے مطابق طلاق کے بڑھتے اعداد وشمار کی ایک اور وجہ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ بھی ہے۔
ہمارے معاشرے کے ہر طبقے کی عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر زیادتی کو برداشت کرے اور جائز و ناجائز بات پرعمل کرے۔ یہ رویہ اور سوچ زبانی، جسمانی اور ذہنی تشدد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نوبت رشتہ ختم ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں مذہبی تعلیمات بڑے پیمانے پر ازدواجی معاملات میں شامل ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو طلاق کا راستہ اختیار نہ کرنے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کا درس دیتا ہے۔
شادی کے بعد آدمی کی یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آپ نے اگر ایک پیشہ خیز (کیرئیر اورینٹیڈ) یا ملازمت پیشہ خاتون سے شادی کی ہے، تو اس کی جاب کے مسائل بھی آپ کی نوکری میں پیش آنے والے چیلنجوں اور مسائل کی طرح ہیں۔
لہٰذا آپ اس کیرئیر خاتون سے حاسد اور الجھنے کے بہ جائے اس کو ایک دوسرے کے دفتری معاملات اور امور میں دوست بنائیں۔ ایک کام کرنے والی عورت ایک گھریلو خاتون کے مقابلے میں تنظیمی امور سے بہتر تعلق رکھ سکتی ہے۔ ایک شریک حیات، جو دفتری سیاست کو سمجھتا ہے اور آپ کو اچھا مشورہ دے سکتا ہے ایک اثاثہ ہو سکتا ہے۔
مالی طور پر خودمختار شریک حیات مالی معاملات میں اپنے ساتھی کو بہتر مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ معیار زندگی بہتر بنانے میں مرد کی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
بچوں کے حوالے سے بھی مثبت پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک کام کرنے والی عورت کے بچے زیادہ خودمختار اور منظم ہوتے ہیں۔
آج کی سکڑی ہوئی دنیا میں جہاں پیسے کی اہمیت ناگزیر ہوتی جا رہی ہے، مالی خودمختاری حاصل کرنا ہر شخص کا آئینی اور معاشرتی حق ہے۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بدلتے دور کے بدلتے رجحانات کے ساتھ ہم کو اپنے رویوں اور سوچ میں مثبت تبدیلی لائی جائے۔
گھر کے ہر فرد کی اور رشتے کی طرح اپنی شریک حیات اور اس کے کام اور رجحانات کو بھی عزت، محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کو روکنے اور کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شریکِ حیات کی کام یابی پر حسد کرنے کے بہ جائے اس پر خوش ہونا اور عزت دینا سیکھنا ہوگا اور ساتھ ہی دیگر عوامل پر بھی توجہ دینا ہوگی۔
اس صفحہ 'خواتین' کی پچھلی اشاعت میں 'کیا طلاق کی وجہ عورت کی مالی خودمختاری ہے؟' کے عنوان سے شائع ہونے والے میرے مضمون کے حوالے سے بہت سے دوست اور کولیگز کی جانب سے رائے اور تبصرے سننے کے بعد سوچا اس آج اس ہی موضوع پر مزید کچھ بات کر لی جائے۔
بہت سے دوست احباب اور کولیگز کا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے کہ عورت مالی خودمختاری اور کسی عہدے پر پہنچ کر شوہر کو عزت نہیں دیتی جو کہ کسی نہ کسی طرح طلاق کا سبب بنتی ہے۔
اس کے علاوہ وہ تحقیقاتی رپورٹس اور جائزے جن کی بنیاد پر یہ تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ طلاق کی وجہ عورت کی مالی خود مختاری اور اعلیٰ عہدے ہیں، یہ زیادہ تر مغربی تحقیق ہے۔
جب کہ ہمارے معاشرے میں آج طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ صرف عورت کی مالی خود مختاری کو قرار دینا زیادتی کے ساتھ ساتھ 'متعصبانہ سوچ' کی عکاسی بھی ہے۔
'معاشرے میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح' ایک نہایت ہی حساس اور توجہ طلب مسئلہ ہے، جس پر یقیناً بات ہونے کے ساتھ ساتھ مربوط قسم کی تحقیق کی بھی ضرورت ہے۔
طلاق کے حوالے سے شائع ہونے والا گذشتہ مضمون ایک زیرِگردش ویڈیو کے جواب میں لکھا گیا تھا، جس میں مشہور شخصیت عورت کی مالی خودمختاری کو طلاق کی وجہ بتار ہے تھے۔
پاکستان میں عام رجحان یہ ہی ہے کہ عورت کی مالی خودمختاری کے پیچھے مغربی سوچ کار فرما ہے۔ جب کہ اگر اسلام کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ام المومنین حضرت خدیجہؓ بھی تو تجارت کیا کرتی تھیں۔ وہ بھی امیر اورمالی طور پر خود مختار خاتون تھیں۔
تو ہمارے یہاں طلاق کے پیچھے عورت کی مالی خود مختاری کو بنیاد بنانے والے اہل علم اور دانش مند حضرات جب چار شادیوں کی اجازت کی مثال دینا نہیں بھولتے، تو اس معاملے میں بھی حضرت خدیجہؓ کو مثال بنانا چاہیے۔
دوسری اہم بات کہ ہمارے معاشرے میں طلاق کے بڑھتے رجحان کے پیچھے عورت کی مالی خودمختاری کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جن پر بات کرنے سے گھر کے بزرگ سے لے کر خاندان کے رشتے داروں تک کوئی بات کرنا پسند تو کیا اس کے ذکر کو بھی شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ پھر گھن کے ساتھ گیہوں بھی تو پستا ہے!کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی اہم، ناگزیر اور فعال ہے۔
اور پھر آج کے دور میں جب کہ فردِ واحد کی کمائی سے گھر کا خرچ چلانا کسی چیلنج سے کم نہیں، وہاں اگر ہم عورت کی مالی خود مختاری کو طلاق کی اصل وجہ قرار دیں تو یہ کچھ مناسب بات نہیں۔
خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ اس سے قبیلے، برادریاں، معاشرے اور قومیں بنتی ہیں۔ مزید یہ کہ خاندان فرد اور معاشرے کی فلاح و بہبود، شخصیت کی نشوونما اور ترقی کا ذمہ دار ہے۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کی مختلف وجوہات ہیں۔
ایک سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق کی بڑی وجہ جبری شادیاں ہیں۔ جہاں شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کو ایک دوسرے سے ملنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اور ہوتی بھی ہے تو ان میں اتنی سمجھ نہیں ہوتی کہ زندگی کے اہم پہلوؤں اور معاملات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا جائے۔
اس ہی رپورٹ کے مطابق ناکام شادی کے اہم محرکات میں سے ایک پورے خاندان کے ساتھ رہنے کا روایتی طریقہ اکثر جھگڑوں اور لڑائیوں کا سبب بنتا ہے جو میاں بیوی کے معاملات کو طلاق کی نہج پر پہنچا دیتا ہے۔
میاں بیوی کے آپسی معاملات میں لڑکا لڑکی کے خاندان والے دوست احباب ان میں مداخلت اپنا فرض سمجھتے ہیں، جو معاملات کو سلجھانے کے بجائے مزید الجھانے اور غلط فہمیوں کا باعث بنتی ہے۔
بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی، رپورٹ کے مطابق طلاق کے بڑھتے اعداد وشمار کی ایک اور وجہ گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ بھی ہے۔
ہمارے معاشرے کے ہر طبقے کی عورت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ہر زیادتی کو برداشت کرے اور جائز و ناجائز بات پرعمل کرے۔ یہ رویہ اور سوچ زبانی، جسمانی اور ذہنی تشدد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نوبت رشتہ ختم ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جہاں روزمرہ کی زندگی کے معاملات میں مذہبی تعلیمات بڑے پیمانے پر ازدواجی معاملات میں شامل ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو طلاق کا راستہ اختیار نہ کرنے اور میاں بیوی کے درمیان تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کے لیے سخت محنت کرنے کا درس دیتا ہے۔
شادی کے بعد آدمی کی یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ آپ نے اگر ایک پیشہ خیز (کیرئیر اورینٹیڈ) یا ملازمت پیشہ خاتون سے شادی کی ہے، تو اس کی جاب کے مسائل بھی آپ کی نوکری میں پیش آنے والے چیلنجوں اور مسائل کی طرح ہیں۔
لہٰذا آپ اس کیرئیر خاتون سے حاسد اور الجھنے کے بہ جائے اس کو ایک دوسرے کے دفتری معاملات اور امور میں دوست بنائیں۔ ایک کام کرنے والی عورت ایک گھریلو خاتون کے مقابلے میں تنظیمی امور سے بہتر تعلق رکھ سکتی ہے۔ ایک شریک حیات، جو دفتری سیاست کو سمجھتا ہے اور آپ کو اچھا مشورہ دے سکتا ہے ایک اثاثہ ہو سکتا ہے۔
مالی طور پر خودمختار شریک حیات مالی معاملات میں اپنے ساتھی کو بہتر مشورہ دینے کے ساتھ ساتھ معیار زندگی بہتر بنانے میں مرد کی معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
بچوں کے حوالے سے بھی مثبت پہلو کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ایک کام کرنے والی عورت کے بچے زیادہ خودمختار اور منظم ہوتے ہیں۔
آج کی سکڑی ہوئی دنیا میں جہاں پیسے کی اہمیت ناگزیر ہوتی جا رہی ہے، مالی خودمختاری حاصل کرنا ہر شخص کا آئینی اور معاشرتی حق ہے۔ اس میں کوئی برائی بھی نہیں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ بدلتے دور کے بدلتے رجحانات کے ساتھ ہم کو اپنے رویوں اور سوچ میں مثبت تبدیلی لائی جائے۔
گھر کے ہر فرد کی اور رشتے کی طرح اپنی شریک حیات اور اس کے کام اور رجحانات کو بھی عزت، محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح کو روکنے اور کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی شریکِ حیات کی کام یابی پر حسد کرنے کے بہ جائے اس پر خوش ہونا اور عزت دینا سیکھنا ہوگا اور ساتھ ہی دیگر عوامل پر بھی توجہ دینا ہوگی۔