بیواؤں کو آج بھی محروم رکھا جا رہا ہے
قوانین اور اداروں کو فعال اور شعور کو بلند کرنے کی ضرورت ہے
زندگی بڑی بے اعتبار چیز ہے، کب خوشی ملے کب غم، کوئی نہیں جانتا۔ جہاں سب ماں باپ بیٹیوں کے اچھے نصیبوں کے لیے دعا کرتے ہیں، اس کا مقصد بیٹیوں کی بسی بسائی گھر گھرستی مراد ہوتی ہے، بیٹی اور داماد ایک ساتھ ساری زندگی خوشی خوشی زندگی گزاریں، مگر نصیب صرف دعاؤں کا ہی محتاج ہے زندگی اور موت پر کسی کا اختیار نہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 1.5 ملین سے زیادہ بیوائیں ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں بہت سی بیواؤں کو قانونی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے جو ان کے حقوق تک رسائی اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں بیواؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین تو موجود ہیں، مگر ان قوانین پر بہ مشکل ہی عمل ہوتا ہے، دوسری طرف سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں اکثر انھیں اپنے حقوق تک رسائی سے روکتی ہیں۔
مختلف 'این جی اوز' اور سماجی ادارے اپنے طور پر سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے ان قوانین کے بارے میں آگاہی اور ان کا نفاذ، بیواؤں کو بااختیار بنانے اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کر نے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، مگر سماجی اداروں سے زیادہ عوام میں اس بارے میں شعور اور اگاہی کی ضرورت ہے، وہ شعور اور اگاہی جو اسلام پہلے ہی مسلمانوں کو دے چکا ہے، بدقسمتی سے نہ ہم اسلام پر پوری طرح عمل کرتے ہیں، نہ ہی ملکی قوانین پر۔ اس ملک میں بیوائیں ایک بہت کمزور طبقہ مانی جاتی ہیں اور یہاں قانون صرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا چلتا ہے۔
بشمول وراثت کے قوانین، شادی کے قوانین، اور سماجی تحفظ کے قوانین، جس ملک میں بیٹیوں کے وراثت میں حق مارا جاتا ہو، وہاں بہو وہ بھی بیوہ کو جائیداد میں حصہ دینا ایک بہت ناممکن سی بات سمجھی جاتی ہے، جب کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961ء کے مطابق بیوہ اپنے متوفّی شوہر کی جائیداد کا 1/8 حصہ وراثت کی حق دار ہے۔ تاہم، عملی طور پر، بہت سی بیواؤں کو ان کے حق وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کمزور سی بیوہ عورتیں جو اتنی مستحکم یا تعلیم یافتہ نہیں ہے کہ خود کما سکیں اور دوسروں کی محتاج ہیں سر چھپانے کے لیے اپنوں کا منہ دیکھنے والیاں کیسے کہیں کہ ان کے لیے مقدمات لڑے جائیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 70 فی صد بیواؤں کو ان کے وراثت کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس' کے اعدادوشمار کے مطابق 60 فی صد بیوائیں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں، اسلام بیواؤں کے ساتھ ہمدردی، رحم کرنے اور ضرورت کے وقت ان کی مدد کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے، مگر اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں دولت کی پوجا کی جاتی ہو وہاں کسی بیوہ کی عزت کرنا اس کا خیال رکھنا اور اس کے اخراجات کو برداشت کرنا یہ رواج اس معاشرے میں کم ہی پایا جاتا ہے کمزور کو کچل دینا اس معاشرے کا خاصہ بن چکا ہے ایسے میں وہ خواتین جو خود کما سکتی ہیں پہلے تو ان کے قریبی رشتہ دار اس عمل کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور بالفرض وہ اگر اجازت دے بھی دیں تو ان کے لیے بھی دفتری ساتھیوں کی طرف سے ہراساں کرنا ایک اذیت ناک عمل ہے اسلام نے ان تمام چیلنجز سے بچنے کے لیے مسلم خواتین کے لیے دوسری شادی کا حق بھی انہیں دیا ہے مگر یہ معاشرہ اس بات کو بھی ہضم نہیں کرتا ۔
'مسلم فیملی لاز آرڈیننس' جو پاکستان میں شادی کے قوانین کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ یہ قوانین 1961ء سے بنے ہوئے ہیں جس کے تحت ایک بیوہ کو دوبارہ شادی کرنے کا حق حاصل ہے، البتہ دوبارہ شادی کرنے سے پہلے اسے عدت ضرور پوری کرنی چاہیے۔ عدت وہ مدت ہے جسے عورت کو اپنے شوہر کی موت کے بعد یا طلاق کے بعد ماننا ضروری ہے۔
اس دوران وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔ عدت کی مدت حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ دوسری شادی کا نام سنتے ہی ان بیواؤں کوسماجی مخالفت اورطنزیہ فقرے، تہمت اور برے القابات اور مختلف طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس معاشرے میں جہاں کنواری اور امیر لڑکیوں کے لیے بھی رشتوں کا مسئلہ بنا ہوا ہے ایسے میں کسی غریب و مسکین بیوہ کے ساتھ اگر یتیم بچے بھی شامل ہوں تو اس کی مشکلوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
مائیں اپنے بچوں سے جدا نہیں ہونا چاہتی اور شوہر کے رشتہ دار بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فی صد بیوائیں اپنے مرحوم شوہر کے رشتہ داروں سے شادی کرنے پر مجبور ہیں دوسری طرف اگر وہی بیوائیں شوہر کے قریبی رشتہ دار کے علاوہ کہیں اور شادی کرتی ہیں تو 30 فی صد بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے میں قانونی چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے یہ قوانین پاکستان کی بیوہ خواتین کو تحفظ دینے کے لیے ہی مرتب کیے گئے ہیں۔
معاشرتی طور پر اگر بیوہ خواتین کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے وہیں پر پاکستان میں مختلف سماجی تحفظ کے پروگرام موجود ہیں جن کا مقصد بیواؤں کی مدد کرنا ہے، لیکن یہ امداد اتنی کم ہے اس مہنگائی کے دور میں کہ وہ پھر بھی بے آسرا ہی رہتی ہیں ایسے میں وہ تمام خواتین جو محنت مزدوری کر کے باعزت طریقے سے اپنے بچوں کو پال رہی ہیں ان کی بہترین تربیت کرتی ہیں میں ان تمام بہادراور با ہمت خواتین کو سلام پیش کر تی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے، امین۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 1.5 ملین سے زیادہ بیوائیں ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں بہت سی بیواؤں کو قانونی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے جو ان کے حقوق تک رسائی اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں بیواؤں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین تو موجود ہیں، مگر ان قوانین پر بہ مشکل ہی عمل ہوتا ہے، دوسری طرف سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں اکثر انھیں اپنے حقوق تک رسائی سے روکتی ہیں۔
مختلف 'این جی اوز' اور سماجی ادارے اپنے طور پر سماجی تحفظ کے پروگراموں کے ذریعے ان قوانین کے بارے میں آگاہی اور ان کا نفاذ، بیواؤں کو بااختیار بنانے اور ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کر نے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، مگر سماجی اداروں سے زیادہ عوام میں اس بارے میں شعور اور اگاہی کی ضرورت ہے، وہ شعور اور اگاہی جو اسلام پہلے ہی مسلمانوں کو دے چکا ہے، بدقسمتی سے نہ ہم اسلام پر پوری طرح عمل کرتے ہیں، نہ ہی ملکی قوانین پر۔ اس ملک میں بیوائیں ایک بہت کمزور طبقہ مانی جاتی ہیں اور یہاں قانون صرف جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا چلتا ہے۔
بشمول وراثت کے قوانین، شادی کے قوانین، اور سماجی تحفظ کے قوانین، جس ملک میں بیٹیوں کے وراثت میں حق مارا جاتا ہو، وہاں بہو وہ بھی بیوہ کو جائیداد میں حصہ دینا ایک بہت ناممکن سی بات سمجھی جاتی ہے، جب کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961ء کے مطابق بیوہ اپنے متوفّی شوہر کی جائیداد کا 1/8 حصہ وراثت کی حق دار ہے۔ تاہم، عملی طور پر، بہت سی بیواؤں کو ان کے حق وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کمزور سی بیوہ عورتیں جو اتنی مستحکم یا تعلیم یافتہ نہیں ہے کہ خود کما سکیں اور دوسروں کی محتاج ہیں سر چھپانے کے لیے اپنوں کا منہ دیکھنے والیاں کیسے کہیں کہ ان کے لیے مقدمات لڑے جائیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 70 فی صد بیواؤں کو ان کے وراثت کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے اور پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس' کے اعدادوشمار کے مطابق 60 فی صد بیوائیں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں، اسلام بیواؤں کے ساتھ ہمدردی، رحم کرنے اور ضرورت کے وقت ان کی مدد کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے، مگر اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں دولت کی پوجا کی جاتی ہو وہاں کسی بیوہ کی عزت کرنا اس کا خیال رکھنا اور اس کے اخراجات کو برداشت کرنا یہ رواج اس معاشرے میں کم ہی پایا جاتا ہے کمزور کو کچل دینا اس معاشرے کا خاصہ بن چکا ہے ایسے میں وہ خواتین جو خود کما سکتی ہیں پہلے تو ان کے قریبی رشتہ دار اس عمل کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور بالفرض وہ اگر اجازت دے بھی دیں تو ان کے لیے بھی دفتری ساتھیوں کی طرف سے ہراساں کرنا ایک اذیت ناک عمل ہے اسلام نے ان تمام چیلنجز سے بچنے کے لیے مسلم خواتین کے لیے دوسری شادی کا حق بھی انہیں دیا ہے مگر یہ معاشرہ اس بات کو بھی ہضم نہیں کرتا ۔
'مسلم فیملی لاز آرڈیننس' جو پاکستان میں شادی کے قوانین کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ یہ قوانین 1961ء سے بنے ہوئے ہیں جس کے تحت ایک بیوہ کو دوبارہ شادی کرنے کا حق حاصل ہے، البتہ دوبارہ شادی کرنے سے پہلے اسے عدت ضرور پوری کرنی چاہیے۔ عدت وہ مدت ہے جسے عورت کو اپنے شوہر کی موت کے بعد یا طلاق کے بعد ماننا ضروری ہے۔
اس دوران وہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کر سکتی۔ عدت کی مدت حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ دوسری شادی کا نام سنتے ہی ان بیواؤں کوسماجی مخالفت اورطنزیہ فقرے، تہمت اور برے القابات اور مختلف طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس معاشرے میں جہاں کنواری اور امیر لڑکیوں کے لیے بھی رشتوں کا مسئلہ بنا ہوا ہے ایسے میں کسی غریب و مسکین بیوہ کے ساتھ اگر یتیم بچے بھی شامل ہوں تو اس کی مشکلوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
مائیں اپنے بچوں سے جدا نہیں ہونا چاہتی اور شوہر کے رشتہ دار بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فی صد بیوائیں اپنے مرحوم شوہر کے رشتہ داروں سے شادی کرنے پر مجبور ہیں دوسری طرف اگر وہی بیوائیں شوہر کے قریبی رشتہ دار کے علاوہ کہیں اور شادی کرتی ہیں تو 30 فی صد بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے میں قانونی چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے یہ قوانین پاکستان کی بیوہ خواتین کو تحفظ دینے کے لیے ہی مرتب کیے گئے ہیں۔
معاشرتی طور پر اگر بیوہ خواتین کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے وہیں پر پاکستان میں مختلف سماجی تحفظ کے پروگرام موجود ہیں جن کا مقصد بیواؤں کی مدد کرنا ہے، لیکن یہ امداد اتنی کم ہے اس مہنگائی کے دور میں کہ وہ پھر بھی بے آسرا ہی رہتی ہیں ایسے میں وہ تمام خواتین جو محنت مزدوری کر کے باعزت طریقے سے اپنے بچوں کو پال رہی ہیں ان کی بہترین تربیت کرتی ہیں میں ان تمام بہادراور با ہمت خواتین کو سلام پیش کر تی ہوں اور اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرے، امین۔