منفی سوچیں بکھرے رنگ ہی دکھلاتی ہیں
باتوں کا طنزیہ محسوس ہونا ہماری غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے!
آج کچھ باتیں وہ ہو جائیں جنھیں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں اور جن کے تاثرات دل میں کھبنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی شخص کے لیے منفی سوچنا شروع کرتے ہیں، نہ تو اس کی ہر بات ہر انداز میں ہم منفی پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس نے ہمیں دیکھا تب ہمیں محسوس ہوگا کہ وہ یقیناً ہمارے متعلق غلط سوچتا ہے یا اس کی سوچ میں ہمارے لیے ضرور کوئی کالک آگئی ہے۔ اس نے ہمیں بلایا یا کوئی بات کی، تب ہمیں محسوس ہوگا کہ پہلے تو ایسے لہجے میں بات نہیں کرتے تھے۔ اس کی باتیں،انداز اور طور طریقے سبھی اپنی سوچ جیسے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ سب باتیں جب تک ہم سوچتے رہیں گے، یونھی پریشان ہوتے رہیں گے، اس سے بہتر کہ ان سے پیچھا چھڑا لیا جائے مگر وہ کیسے ممکن ہے؟
آج اسی پریشانی کا حل نکالتے ہیں۔سب سے پہلے تو اپنے دماغ کو پُرسکون رکھیں اور اس کے بعد جس کی باتیں آپ کو طنز محسوس ہوتی ہیں اور اس کا لہجہ بدلا سا لگتا ہے اس کے پاس جائیں۔کچھ دیر پاس بیٹھیں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی کوشش کریں اور اپنے لیے اس کے خیالات جاننے کی کوشش کریں، اگر تو اس کی باتوں سے آپ کو کچھ ایسا محسوس نہیں ہوتا تو سمجھیں آپ کی اپنی سوچ کا قصور تھا، لیکن اگر آپ کو لہجے میں تھوڑا طنز محسوس ہو تو اسے بالکل نظر انداز کر دیں اور بات کو دوسری طرف گھما دیں اس سے یہ ہوگا کہ دوسرے کو محسوس ہوگا کہ آپ کو ان کی کسی بات سے کوئی پریشانی نہیں اور نہ ہی آپ کو ان کے کسی طنز سے فرق پڑے گا۔ یاد رکھیں جب آپ کسی کے طنز پر غصے ہوں گے تب آپ خود کو زیادہ کمزور کریں گے، لیکن اپنے دماغ سے یہ نکال دیں کہ صرف آپ ہی ٹھیک ہیں اور ساری غلطی یا خرابی دوسروں میں ہے۔
اپنے لفظوں، لہجے میں بھی جھانکیں اور محسوس کریں کہ آپ کیوں ایسا سوچنے لگے ہیں۔ جس کی باتیں طنزیہ لگنے لگی ہیں، ہو سکتا ہے یہ صرف آپ کی خود ساختہ سوچ کا کمال ہو۔ اسے بھی تو کوئی پریشانی ہو سکتی ہے یا وہ بھی کسی معاملے میں دکھی ہو سکتا ہے۔ ہر شے ہر وقت بالکل ٹھیک نہیں رہتی، کبھی کبھار اس میں بھی تبدیلیاں آ ہی جاتی ہیں۔ ہم خود ہی سوچنے بیٹھ جاتے ہیں کہ میں نے آج یہ کیا ہے تو اسی لیے اس کا انداز ایسا ہو گیا ہے۔ وہ میرے لیے غلط سوچنے لگے ہیں یا ان کا رویہ میرے فلاں کام کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے۔
میں نے صبح ایسے کہا تھا تو اسی لیے وہ میرے لیے طنزیہ انداز اپنا رہے ہیں۔ میں نے یہ کام کیا ہے تو انھوں نے بھی جواباً یہی رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کی اپنی منفی اور خود ساختہ سوچیں، نہ صرف آپ کو پریشان کرتی ہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی آپ کے معاملات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں اپنے خیالات کی وجہ سے آپ خود ہی اپنے آپ کو دور کرتے چلے جاتے ہیں، حالاں کہ ایسا کچھ خاص ہوتا بھی نہیں اور ہم اپنی سوچوں کی وجہ سے مسائل مزید بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ خود ساختہ اور منفی سوچوں کا گھیراؤ آپ کے دل و دماغ کو الجھائے رکھے گا۔
یہ تاثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب گھر میں داخل ہوں تو گھر کے افراد کسی بات پر بھی ہنسی مذاق کر رہے ہوں تو ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ ہماری کسی پریشانی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ہمیں طنزیہ انداز میں دیکھ رہے ہیں اور جس کے ساتھ اختلاف ہوگا اس کا ہر انداز ہی ہمیں خودساختہ طوفان کی پیش گوئی محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے خود کو سنبھالنے اور اپنی سوچوں کو قابو میں رکھنے کا، ورنہ اس کا بہت غلط نتیجہ نکلتا ہے۔ منفی خیالات اور سوچوں کے رنگ تیزی سے بکھرنے لگتے ہیں اور آپ سے منسلک ہر رشتے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ ان رنگوں کے بکھرنے سے پہلے ہی انھیں اپنی ہتھیلیوں میں قابو کر کے کہیں پھینک دیں۔ ایسی سوچوں اور خیالات کو اپنے دل و دماغ میں کیوں جگہ دینی جس سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ آپ کو اپنے رشتوں سے دور لے جائے۔
اس نے ہمیں دیکھا تب ہمیں محسوس ہوگا کہ وہ یقیناً ہمارے متعلق غلط سوچتا ہے یا اس کی سوچ میں ہمارے لیے ضرور کوئی کالک آگئی ہے۔ اس نے ہمیں بلایا یا کوئی بات کی، تب ہمیں محسوس ہوگا کہ پہلے تو ایسے لہجے میں بات نہیں کرتے تھے۔ اس کی باتیں،انداز اور طور طریقے سبھی اپنی سوچ جیسے محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہ سب باتیں جب تک ہم سوچتے رہیں گے، یونھی پریشان ہوتے رہیں گے، اس سے بہتر کہ ان سے پیچھا چھڑا لیا جائے مگر وہ کیسے ممکن ہے؟
آج اسی پریشانی کا حل نکالتے ہیں۔سب سے پہلے تو اپنے دماغ کو پُرسکون رکھیں اور اس کے بعد جس کی باتیں آپ کو طنز محسوس ہوتی ہیں اور اس کا لہجہ بدلا سا لگتا ہے اس کے پاس جائیں۔کچھ دیر پاس بیٹھیں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی کوشش کریں اور اپنے لیے اس کے خیالات جاننے کی کوشش کریں، اگر تو اس کی باتوں سے آپ کو کچھ ایسا محسوس نہیں ہوتا تو سمجھیں آپ کی اپنی سوچ کا قصور تھا، لیکن اگر آپ کو لہجے میں تھوڑا طنز محسوس ہو تو اسے بالکل نظر انداز کر دیں اور بات کو دوسری طرف گھما دیں اس سے یہ ہوگا کہ دوسرے کو محسوس ہوگا کہ آپ کو ان کی کسی بات سے کوئی پریشانی نہیں اور نہ ہی آپ کو ان کے کسی طنز سے فرق پڑے گا۔ یاد رکھیں جب آپ کسی کے طنز پر غصے ہوں گے تب آپ خود کو زیادہ کمزور کریں گے، لیکن اپنے دماغ سے یہ نکال دیں کہ صرف آپ ہی ٹھیک ہیں اور ساری غلطی یا خرابی دوسروں میں ہے۔
اپنے لفظوں، لہجے میں بھی جھانکیں اور محسوس کریں کہ آپ کیوں ایسا سوچنے لگے ہیں۔ جس کی باتیں طنزیہ لگنے لگی ہیں، ہو سکتا ہے یہ صرف آپ کی خود ساختہ سوچ کا کمال ہو۔ اسے بھی تو کوئی پریشانی ہو سکتی ہے یا وہ بھی کسی معاملے میں دکھی ہو سکتا ہے۔ ہر شے ہر وقت بالکل ٹھیک نہیں رہتی، کبھی کبھار اس میں بھی تبدیلیاں آ ہی جاتی ہیں۔ ہم خود ہی سوچنے بیٹھ جاتے ہیں کہ میں نے آج یہ کیا ہے تو اسی لیے اس کا انداز ایسا ہو گیا ہے۔ وہ میرے لیے غلط سوچنے لگے ہیں یا ان کا رویہ میرے فلاں کام کی وجہ سے ایسا ہوگیا ہے۔
میں نے صبح ایسے کہا تھا تو اسی لیے وہ میرے لیے طنزیہ انداز اپنا رہے ہیں۔ میں نے یہ کام کیا ہے تو انھوں نے بھی جواباً یہی رویہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کی اپنی منفی اور خود ساختہ سوچیں، نہ صرف آپ کو پریشان کرتی ہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ بھی آپ کے معاملات خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں اپنے خیالات کی وجہ سے آپ خود ہی اپنے آپ کو دور کرتے چلے جاتے ہیں، حالاں کہ ایسا کچھ خاص ہوتا بھی نہیں اور ہم اپنی سوچوں کی وجہ سے مسائل مزید بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ خود ساختہ اور منفی سوچوں کا گھیراؤ آپ کے دل و دماغ کو الجھائے رکھے گا۔
یہ تاثر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب گھر میں داخل ہوں تو گھر کے افراد کسی بات پر بھی ہنسی مذاق کر رہے ہوں تو ہمیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید وہ ہماری کسی پریشانی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
ہمیں طنزیہ انداز میں دیکھ رہے ہیں اور جس کے ساتھ اختلاف ہوگا اس کا ہر انداز ہی ہمیں خودساختہ طوفان کی پیش گوئی محسوس ہونے لگتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے خود کو سنبھالنے اور اپنی سوچوں کو قابو میں رکھنے کا، ورنہ اس کا بہت غلط نتیجہ نکلتا ہے۔ منفی خیالات اور سوچوں کے رنگ تیزی سے بکھرنے لگتے ہیں اور آپ سے منسلک ہر رشتے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ ان رنگوں کے بکھرنے سے پہلے ہی انھیں اپنی ہتھیلیوں میں قابو کر کے کہیں پھینک دیں۔ ایسی سوچوں اور خیالات کو اپنے دل و دماغ میں کیوں جگہ دینی جس سے آپ کو کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ آپ کو اپنے رشتوں سے دور لے جائے۔