عید قرباں سے پہلے۔۔۔
کچھ پیشگی تیاری ہمارے لیے سہولت کا باعث ہوگی
اکثر خواتین کا یہ شکوہ ہوتا ہے کہ عیدالاضحی مردوں کے لیے ہوتی ہے، ہم تو گھر داری میں ہی مصروف رہتی ہیں، مرد پہلے خوب گھوم پھر کر جانور ڈھونڈ کرلاتے ہیں، پھر عید کے دن قسائی کے ساتھ گوشت بنواتے ہیں اور ہمارے حوالے کر کے لمبی تان کے سو جاتے ہیں۔
خواتین کا شکوہ درست ہے، مگر قربانی آپ کی بھی ہے اس لیے قربانی سے پہلے آپ بھی اپنے جانور کو ضرور دیکھیے، اور اس کی خدمت کیجیے اپنے ہاتھ سے گھاس اور چارہ وغیرہ کھلائیے، یہ آخر کو چند دن کے مہمان ہوتے ہیں، اس لیے انتا حق تو بنتا ہے۔
عید قرباں کے دن یقینا خواتین کافی مصروف ہوتی ہیں، کیوں کہ پہلے تو انھیں گوشت کے حصے بنانے ہوتے ہیں، اس کے بعد اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کیا پکانا ہے؟ مگر کیا ایسا ممکن نہیں کہ عید قربان کے حوالے سے پیشگی تیاری کر لی جائے۔
اب چونکہ قربانی کے گوشت کے عموماً تین حصے ہوتے ہیں، ایک اپنے گھر کے لیے، ایک رشتے داروں کے لیے اور ایک حقیقی ضرورت مندوں کے واسطے، تو پھر کیوں نہ پہلے سے ان رشتے داروں کی فہرست تیار کر لی جائے، جو سفید پوش ہیں اور آپ کو اس کا علم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ لیا جائے کے انھیں گوشت کی کون سے خاص چیز بھیجنی ہیں، تاکہ جب عید والی دن گوشت کا وہ حصہ آئے، تو اسے فوری طور پر پر ڈبوں میں پیک کر لیا جائے، کیوں کہ اس طرح سامنے والے کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں سوچا گیا ہے اور اہتمام سے گوشت بھیجا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اکثر مرد حضرات کو بھی اپنے میل جول والوں میں گوشت بانٹنا ہوتا ہے، تو ان سے بھی پہلے سے ہی لسٹ تیار کروا لیں، تاکہ جب وہ لمبی تان کر سونا چاہیں، تو آپ کو ان سے یہ نہ پوچھنا ہو کہ بھئی آپ کو کس کس کو گوشت دینا ہے؟ آپ خود ہی پیک کرکے ان کے آگے کردیں کہ اب پہنچا دیں، تاکہ میں بھی بے فکر ہو جاؤں۔
آپ بھی ماسیوں، ڈرائیور، مالی اور دیگر کی فہرست بنا لیں اور کوشش کریں گوشت فریز نہ ہو، بلکہ جلد از جلد ضرورت مندوں کو پہنچ جائے اور اگر آپ کے قرب و جوار میں گوشت کے ضروت مند نہیں تو مدرسوں، فلاحی اداروں میں بھجوادیں، تاکہ مستحقین کو پہنچ جائے۔
آپ تو بس کھانے کی فہرست میں نہاری، قورمہ، چانپ، حلیم، بریانی، تکہ لکھیے اور بس اسی کا گوشت محفوط کیجیے، کیوں کہ اتنا ہی اپنے والے حصہ میں محفوظ کیا جاسکتا ہے، اور اس میں آپ کے ہاں آنے والے حصے کا گوشت بھی شامل ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ مزے مزے کے کھانے پکا کر ایسے سفید پوشوں کے گھروں میں بھجوا دیے جائیں، جو کبھی کسی سے سوال نہیں کرتے، مختلف فلاحی اداروں اور دستِ سوال دراز کرنے والوں کی مدد تو سبھی کر دیتے ہیں۔
قربانی ایک ذمہ داری بھی ہے، مگر اس مہنگائی کے دور میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ پورا سال بچت بچت کر کے گزارا جاتا ہے، مگر پھر خاندان، محلہ داری کے چکر میں قربانی لازمی کی جاتی ہے۔
اب جب قربانی کی جاتی ہیں تو دل میں ایک خیال یہی آتا ہے ہم کون سا سال بھر گوشت کھاتے ہیں۔ آلو، بھنڈی، توری، لوکی اور دالیں وغیرہ ہی تو کھاتے ہیں، تو پھر کیوں سارا گوشت بانٹ دیں، جہاں جہاں ضروری ہے، وہاں بھیج دیتے ہیں اور ضروری کون ہوتے ہیں بھائی، بہن، تایا، خالہ، چاچا، پھوپھو، ماموں کیوں کہ ان کو نہیں بھیجا، تو شکوہ ہوگا، اس لیے ان کے گھر بھیج کر باقی گوشت محفوظ کرلیا جاتا ہے، اگر آپ نہیں گوشت کھارہے تو پھر ان ماسیوں کا بھی درد محسوس کریں، جو عید والے دن بھی آپ کے گھر میں کام کرنے اس لیے آتی ہیں کہ گوشت ملے گا اس لیے بے شک انھیں کم گوشت دیں، مگر اچھا گوشت دیں۔
کچھ بھی ہوچاہے عیدالفطر ہو یا پھر عیدالاضحی، مرد حضرات عید سے پہلے ذمہ داری نبھا لیتے ہیں، ہم خواتین کو عید پر نبھانی ہوتی ہیں آخر کو کیا کریں ہم گھر والی ہیں۔ ہم ان کا اور دوسروں کا خیال نہیں رکھیں گے، تو پھر اور کون رکھے گا۔
خواتین کا شکوہ درست ہے، مگر قربانی آپ کی بھی ہے اس لیے قربانی سے پہلے آپ بھی اپنے جانور کو ضرور دیکھیے، اور اس کی خدمت کیجیے اپنے ہاتھ سے گھاس اور چارہ وغیرہ کھلائیے، یہ آخر کو چند دن کے مہمان ہوتے ہیں، اس لیے انتا حق تو بنتا ہے۔
عید قرباں کے دن یقینا خواتین کافی مصروف ہوتی ہیں، کیوں کہ پہلے تو انھیں گوشت کے حصے بنانے ہوتے ہیں، اس کے بعد اس بات کا بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کیا پکانا ہے؟ مگر کیا ایسا ممکن نہیں کہ عید قربان کے حوالے سے پیشگی تیاری کر لی جائے۔
اب چونکہ قربانی کے گوشت کے عموماً تین حصے ہوتے ہیں، ایک اپنے گھر کے لیے، ایک رشتے داروں کے لیے اور ایک حقیقی ضرورت مندوں کے واسطے، تو پھر کیوں نہ پہلے سے ان رشتے داروں کی فہرست تیار کر لی جائے، جو سفید پوش ہیں اور آپ کو اس کا علم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ لیا جائے کے انھیں گوشت کی کون سے خاص چیز بھیجنی ہیں، تاکہ جب عید والی دن گوشت کا وہ حصہ آئے، تو اسے فوری طور پر پر ڈبوں میں پیک کر لیا جائے، کیوں کہ اس طرح سامنے والے کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں سوچا گیا ہے اور اہتمام سے گوشت بھیجا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اکثر مرد حضرات کو بھی اپنے میل جول والوں میں گوشت بانٹنا ہوتا ہے، تو ان سے بھی پہلے سے ہی لسٹ تیار کروا لیں، تاکہ جب وہ لمبی تان کر سونا چاہیں، تو آپ کو ان سے یہ نہ پوچھنا ہو کہ بھئی آپ کو کس کس کو گوشت دینا ہے؟ آپ خود ہی پیک کرکے ان کے آگے کردیں کہ اب پہنچا دیں، تاکہ میں بھی بے فکر ہو جاؤں۔
آپ بھی ماسیوں، ڈرائیور، مالی اور دیگر کی فہرست بنا لیں اور کوشش کریں گوشت فریز نہ ہو، بلکہ جلد از جلد ضرورت مندوں کو پہنچ جائے اور اگر آپ کے قرب و جوار میں گوشت کے ضروت مند نہیں تو مدرسوں، فلاحی اداروں میں بھجوادیں، تاکہ مستحقین کو پہنچ جائے۔
آپ تو بس کھانے کی فہرست میں نہاری، قورمہ، چانپ، حلیم، بریانی، تکہ لکھیے اور بس اسی کا گوشت محفوط کیجیے، کیوں کہ اتنا ہی اپنے والے حصہ میں محفوظ کیا جاسکتا ہے، اور اس میں آپ کے ہاں آنے والے حصے کا گوشت بھی شامل ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ مزے مزے کے کھانے پکا کر ایسے سفید پوشوں کے گھروں میں بھجوا دیے جائیں، جو کبھی کسی سے سوال نہیں کرتے، مختلف فلاحی اداروں اور دستِ سوال دراز کرنے والوں کی مدد تو سبھی کر دیتے ہیں۔
قربانی ایک ذمہ داری بھی ہے، مگر اس مہنگائی کے دور میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ پورا سال بچت بچت کر کے گزارا جاتا ہے، مگر پھر خاندان، محلہ داری کے چکر میں قربانی لازمی کی جاتی ہے۔
اب جب قربانی کی جاتی ہیں تو دل میں ایک خیال یہی آتا ہے ہم کون سا سال بھر گوشت کھاتے ہیں۔ آلو، بھنڈی، توری، لوکی اور دالیں وغیرہ ہی تو کھاتے ہیں، تو پھر کیوں سارا گوشت بانٹ دیں، جہاں جہاں ضروری ہے، وہاں بھیج دیتے ہیں اور ضروری کون ہوتے ہیں بھائی، بہن، تایا، خالہ، چاچا، پھوپھو، ماموں کیوں کہ ان کو نہیں بھیجا، تو شکوہ ہوگا، اس لیے ان کے گھر بھیج کر باقی گوشت محفوظ کرلیا جاتا ہے، اگر آپ نہیں گوشت کھارہے تو پھر ان ماسیوں کا بھی درد محسوس کریں، جو عید والے دن بھی آپ کے گھر میں کام کرنے اس لیے آتی ہیں کہ گوشت ملے گا اس لیے بے شک انھیں کم گوشت دیں، مگر اچھا گوشت دیں۔
کچھ بھی ہوچاہے عیدالفطر ہو یا پھر عیدالاضحی، مرد حضرات عید سے پہلے ذمہ داری نبھا لیتے ہیں، ہم خواتین کو عید پر نبھانی ہوتی ہیں آخر کو کیا کریں ہم گھر والی ہیں۔ ہم ان کا اور دوسروں کا خیال نہیں رکھیں گے، تو پھر اور کون رکھے گا۔