پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی تو سارے مسئلے حل ہو جاتے چیف جسٹس
سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا، جسٹس منیب اختر
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 13رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا، سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی، اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، اسی لیے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہدایت کی کہ اپنی یہ بات ایک بار دہرا دیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تنازعے کی بات کیوں کر رہے ہیں بس کہیں الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ آئین کے مطابق آزاد امیدوار تین دن میں سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا، انتخابات میں حصہ نہ لینے پر سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کیلئے دیگر جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کی درخواست انتخابات نہ لڑنے اور فہرست جمع نہ کرانے پر خارج ہوئی، الیکشن کمیشن نے تمام نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیں، سنی اتحاد میں شمولیت غلط قرار دینے کی حکومتی جماعتوں کی استدعا پر کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت درست مانتے ہوئے ہی اسے پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہر سیاسی جماعت کی پارلیمانی پارٹی الگ سے ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئین میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کو الگ لکھا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے، جس جماعت کی اسمبلی میں کوئی نشست نہ ہو وہ سیاسی جماعت ہوگی پارلیمانی نہیں، 8فروری کو سنی اتحاد سیاسی جماعت تھی ارکان کی شمولیت کے بعد پارلیمانی جماعت بن گئی، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کیخلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں، سنی اتحاد کونسل دونوں سیاسی اور پارلیمنٹری پارٹی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ کا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں سربراہ کے حوالے سے ابھی بتا دیتا ہوں لیکن عدالت میں یہ بات اہم نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اپنے سربراہ کا نام ہی نہیں معلوم، آپ درخواست گزار ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹری سربراہ کا کوئی الیکشن ہوتا ہے؟ معلوم کیسے ہوتا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹری سربراہ کا مقدمے سے تعلق نہیں اس لیے اس حوالے سے تیاری نہیں کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کے سوالات سے پولیٹیکل لفظ حذف کر دیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہونے کے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہوگی تو پارلیمانی پارٹی ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا، کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے، الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیر متعلقہ ہے، مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے بلے کا کیس تھا ہی نہیں، عدالت کے سامنے انٹر پارٹی الیکشن کا کیس تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کا مسئلہ خود الیکشن کمیشن کا اپنا کھڑا کیا ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیکر اپنے کھڑے کیے گئے مسئلے کا حل نکالا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا، کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کے لیے رجوع کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی مسترد ہونے پر آرڈر چیلنج بھی کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کے لیے ہے، انتخابی نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔
فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی، بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت مظبوط توجیہات ہیش کی جا رہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بلے کے نشان کو ختم کیا گیا تھا یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منیب کے مطابق بلے کے نشان ختم ہونے کے باجود امیدواران نے پی ٹی آئی امیدواران کے طور پر الیکشن لڑا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سر یہ ہی ہم کرنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے ختم کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کرنا چاہتے تھے کیا مطلب؟ وکیل صدیقی نے کہا کہ میں سنی اتحاد کونسل کے ہر ممبر کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل اختلاف آسکتا ہے وہ کہیں ہمارے ممبرز ہیں اور یہ کہیں ہمارے، فیصل صدیقی صاحب کی دشواری سمجھیں کیا ہے، آپ ممبران خود کو تحریک انصاف کے ممبران ثابت کرنا چاہتے تھے، قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کروائیں یا تو کہہ دیں قانون پر مت عمل کرو، ہم نے آپ کو کیس کے دوران بھی مشورے دیے تھے جن پر عمل نہیں کیا گیا، جب آپ نے کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کے امیدوار کا نام دے دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اس وقت سنی اتحاد کونسل کے ممبران ہیں، اب سیٹیں تحریک انصاف کو تو جانی ہی نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سارے مسئلے بہتر حل ہوتے اگر سپریم کورٹ کی فیصلے کے ساتھ کچھ چیزوں کی وضاحت ہوجاتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے مسئلے بہتر طریقے سے حل ہوجاتے اگر تحریک انصاف پارٹی الیکشن کروا دیتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل سٹیک ہولڈرز ووٹر ہیں، سب سے اہم حق ووٹ کا ہے، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا۔ تحریک انصاف لگاتار لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کا کہہ رہی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا ایک وقت میں ہر سیاسی جماعت کو ایسی شکایت تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایشو الیکشن، جمہوریت اور ووٹر کی نمائندگی کا ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہی عدالت میں چیلنج ہوتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا یہ حتمی ہوچکا ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس میں کہا کہ فیصلہ حتمی ہوچکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ سارے مسئلے حل ہوجاتے اگر سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کروا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، اس عدالت پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں، پی ٹی آئی نے جمہوری حق سے اپنے لوگوں کو محروم رکھا تھا، اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی الیکشن ہوتے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی ممبران کو ہی ہوتا وہ الیکشن لڑ لیتے، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری کیجیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہت احترام سے اگر سچ سب بولنا شروع کریں تو وہ بہت کڑوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو بولتا ہوں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ بلے والے فیصلے پر نظرثانی زیر التوا ہے، ساری باتیں یہاں کرنی ہیں تو وہاں کیا کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دشواری یہ ہے کہ آپ خود کو تحریک انصاف امیدوار ظاہر کرنا چاہتے تھے، الیکشن کمیشن نے آپ کو کہا تحریک انصاف کو بلا نہیں ملا تو آپ کو نہیں دے سکتے، خود کو تب آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرتے اور بیٹ مانگ لیتے، قانون نے کہا اپنی پارٹی میں انتخابات کروا لیں، قانون ہم نے نہیں آپ نے بنایا، میں آپ کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں، پہلے بھی دورانِ سماعت مشورے دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کم سے کم بلے کا نشان مانگتے تو صحیح، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے، آپ اب آزاد امیدوار نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں، خود کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا تو بطور آزاد امیدوار نہیں، آپ پارٹی کو ٹھکرا کر آ رہے۔ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پارٹی سربراہ وزیراعظم تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر پی ٹی آئی امیدواروں نے پارٹی تبدیل کی اور پارٹی تبدیل کرنے پر آرٹیکل 63 اے والا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی سے متعلق ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دلائل آگے بڑھائیں ورنہ آپس میں ہی تنقید ہوتی رہے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی انتخابات ہوتے تو فائدہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا ہوتا، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری جمہوریت کی بات کریں، عوام کو جماعت میں شامل کرتے ہیں تو ارکان کا حق ہے کہ وہ الیکشن لڑیں، عدالتی فیصلہ آپ کو پسند ہے یا نہیں وہ الگ بات ہے لیکن سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، آپ نے اس بات کو چھیڑا ہے تو پوری بات کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اس کیس پر نظرثانی زیرالتواء ہے کیا سب کچھ یہاں ہی کہنا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم سب سچ بولنا شروع کریں تو سچ بہت کڑوا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایوان کو نشستوں کی مقرر کردہ تعداد سے کم رکھا جا سکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ ایوان کی مختص تمام نشستیں پوری ہونا لازمی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے نام پر ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں، مخصوص نشستوں پر تو پارٹی سربراہ کی صوابدید ہے چاہے دوستوں کو نواز دے، مخصوص نشستوں میں ووٹرز کا کوئی کردار نہیں ہوتا یہ پارٹی سربراہ مقرر کرتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق لسٹ سیاسی جماعت نے دینی ہوتی سربراہ نے نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں پر ملتی ہیں ووٹوں پر نہیں۔ چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا پارٹی میں شمولیت کے لیے جماعت کا اسمبلی میں ہونا لازمی نہیں؟ وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں اسمبلی میں حاصل کی گئی سیٹوں پر الاٹ ہوتی ہیں، قانون میں نشستیں حاصل کرنے کا ذکر ہے جیتنے کا نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوالات اٹھائے کہ ایوان میں زیادہ آزاد میدوار ہوں اور دو سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہوگا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یا ان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟ دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کا کیا ہوگا بعد میں دیکھا جائے گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں، ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئین سے بتائیں یہ کہاں ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہا جائے شوہر شادی شدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا، پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ یا تو آپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو بات ختم ہے، 336 کا نمبر پورا ہونا تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے سب آزاد آئیں تو کیا ہوگا؟ فصل صدیقی نے کہا کہ ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی سیٹوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر پی ٹی آئی والے سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا مخصوص نشستیں خالی رہتی؟ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ایوان میں کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حاصل کی گئی جنرل نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا تناسب نکلے گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں سات ارکان آزاد ہیں، سات سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر رجسٹرڈ ہو تو اس میں شمولیت کے لیے پارلیمان میں ہونا کیسے لازمی ہوگیا؟ الیکشن نہ بھی لڑا ہو تو سیاسی جماعت تو موجود ہے ہی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک تو نہیں ناں؟ پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعت کی ایک اہمیت ہوتی ہے، آئین کو دیکھنا ہے تو پورا دیکھیں مکس اینڈ میچ نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس وقت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے نہیں کہہ رہے کہ ہم اس کے منشور سے متفق نہیں، کسی رجسٹر سیاسی جماعت کے لیے الیکشن لڑا ہونا کیوں ضروری ہے آزاد امیدواروں کی شمولیت کے لیے؟ مجھے اس کے پیچھے کیا دانش ہے وہ سمجھ نہیں آتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مجھ سے پوچھیں تو اس کے پیچھے معقول وجہ موجود ہے، ایک جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو سیاسی عمل کو رد کرتی ہے، برا نہ مانیے گا مگر آپ کی جماعت کا میں نے سنا ہی نہیں ہوا تھا، ہو سکتا ہے باقی لوگوں نے سنا ہو، لوگوں کے سامنے آو تو سہی ان کی نمائندگی تو کرو۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر عدالت نے کیس کی سماعت 24جون تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 24 اور 25جون کو صرف یہی کیس سنیں گے، آفس کو کہہ دیتے ہیں 24 اور 25جون کو صرف یہی کیس سنیں گے، باقی کیسز نہ لگائے جائیں۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل مکمل کرنے کیلئے مزید ایک گھنٹے کا وقت مانگا، کیس کی آئندہ سماعت 24جون پیر ساڑھے نو بجے ہوگی۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ میں متاثرہ مخصوص نشستوں کی خواتین کی نمائندگی کرونگا۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پہلے کیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کل جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا، سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی، اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، اسی لیے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہدایت کی کہ اپنی یہ بات ایک بار دہرا دیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تنازعے کی بات کیوں کر رہے ہیں بس کہیں الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ آئین کے مطابق آزاد امیدوار تین دن میں سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا، انتخابات میں حصہ نہ لینے پر سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع نہیں کرائی، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کیلئے دیگر جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا، مخصوص نشستوں کیلئے سنی اتحاد کی درخواست انتخابات نہ لڑنے اور فہرست جمع نہ کرانے پر خارج ہوئی، الیکشن کمیشن نے تمام نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیں، سنی اتحاد میں شمولیت غلط قرار دینے کی حکومتی جماعتوں کی استدعا پر کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت درست مانتے ہوئے ہی اسے پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہر سیاسی جماعت کی پارلیمانی پارٹی الگ سے ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آئین میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کو الگ لکھا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے، جس جماعت کی اسمبلی میں کوئی نشست نہ ہو وہ سیاسی جماعت ہوگی پارلیمانی نہیں، 8فروری کو سنی اتحاد سیاسی جماعت تھی ارکان کی شمولیت کے بعد پارلیمانی جماعت بن گئی، سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کیخلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں، سنی اتحاد کونسل دونوں سیاسی اور پارلیمنٹری پارٹی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ کا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میں سربراہ کے حوالے سے ابھی بتا دیتا ہوں لیکن عدالت میں یہ بات اہم نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اپنے سربراہ کا نام ہی نہیں معلوم، آپ درخواست گزار ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹری سربراہ کا کوئی الیکشن ہوتا ہے؟ معلوم کیسے ہوتا پارلیمنٹری سربراہ کون ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹری سربراہ کا مقدمے سے تعلق نہیں اس لیے اس حوالے سے تیاری نہیں کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کے سوالات سے پولیٹیکل لفظ حذف کر دیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہونے کے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہوگی تو پارلیمانی پارٹی ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں، سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا، کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہوگئے، الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کل سے میں یہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہوسکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا، سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے اسکے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں، پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں، آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے، ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی، پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیر متعلقہ ہے، مناسب ہوگا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے بلے کا کیس تھا ہی نہیں، عدالت کے سامنے انٹر پارٹی الیکشن کا کیس تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کا مسئلہ خود الیکشن کمیشن کا اپنا کھڑا کیا ہوا تھا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیکر اپنے کھڑے کیے گئے مسئلے کا حل نکالا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا، کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کے لیے رجوع کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی مسترد ہونے پر آرڈر چیلنج بھی کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کے لیے ہے، انتخابی نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔
فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کیلئے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی، بلے باز والی جماعت کیساتھ کیا ہوا تھا؟
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بلے باز والی جماعت کیساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہوسکتا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کیس انتخابی نشان کا نہیں انٹرا پارٹی انتخابات کا تھا، عدالت نے مخصوص نشستوں کے معاملے پر کہا تھا کوئی ایشو ہوا تو رجوع کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت مظبوط توجیہات ہیش کی جا رہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بلے کے نشان کو ختم کیا گیا تھا یا نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منیب کے مطابق بلے کے نشان ختم ہونے کے باجود امیدواران نے پی ٹی آئی امیدواران کے طور پر الیکشن لڑا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ سر یہ ہی ہم کرنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے ختم کر دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کرنا چاہتے تھے کیا مطلب؟ وکیل صدیقی نے کہا کہ میں سنی اتحاد کونسل کے ہر ممبر کی نمائندگی کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل اختلاف آسکتا ہے وہ کہیں ہمارے ممبرز ہیں اور یہ کہیں ہمارے، فیصل صدیقی صاحب کی دشواری سمجھیں کیا ہے، آپ ممبران خود کو تحریک انصاف کے ممبران ثابت کرنا چاہتے تھے، قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کروائیں یا تو کہہ دیں قانون پر مت عمل کرو، ہم نے آپ کو کیس کے دوران بھی مشورے دیے تھے جن پر عمل نہیں کیا گیا، جب آپ نے کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کے امیدوار کا نام دے دیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ اس وقت سنی اتحاد کونسل کے ممبران ہیں، اب سیٹیں تحریک انصاف کو تو جانی ہی نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سارے مسئلے بہتر حل ہوتے اگر سپریم کورٹ کی فیصلے کے ساتھ کچھ چیزوں کی وضاحت ہوجاتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سارے مسئلے بہتر طریقے سے حل ہوجاتے اگر تحریک انصاف پارٹی الیکشن کروا دیتی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اصل سٹیک ہولڈرز ووٹر ہیں، سب سے اہم حق ووٹ کا ہے، ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہے ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا۔ تحریک انصاف لگاتار لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ہونے کا کہہ رہی تھی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا ایک وقت میں ہر سیاسی جماعت کو ایسی شکایت تھی۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کے سامنے ایشو الیکشن، جمہوریت اور ووٹر کی نمائندگی کا ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ظاہر کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہی عدالت میں چیلنج ہوتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا یہ حتمی ہوچکا ہے۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس میں کہا کہ فیصلہ حتمی ہوچکا ہے تو بحث کا کیا فائدہ؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ سارے مسئلے حل ہوجاتے اگر سپریم کورٹ بلے کے نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کروا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا، اس عدالت پر ہر چیز کا ملبہ نہ ڈالیں، پی ٹی آئی نے جمہوری حق سے اپنے لوگوں کو محروم رکھا تھا، اس سیاسی جماعت کے الیکشن میں ووٹرز کی خواہش کی عکاسی کہاں ہوئی؟ پارٹی الیکشن ہوتے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی ممبران کو ہی ہوتا وہ الیکشن لڑ لیتے، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری کیجیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہت احترام سے اگر سچ سب بولنا شروع کریں تو وہ بہت کڑوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں تو بولتا ہوں۔ جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ بلے والے فیصلے پر نظرثانی زیر التوا ہے، ساری باتیں یہاں کرنی ہیں تو وہاں کیا کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی دشواری یہ ہے کہ آپ خود کو تحریک انصاف امیدوار ظاہر کرنا چاہتے تھے، الیکشن کمیشن نے آپ کو کہا تحریک انصاف کو بلا نہیں ملا تو آپ کو نہیں دے سکتے، خود کو تب آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرتے اور بیٹ مانگ لیتے، قانون نے کہا اپنی پارٹی میں انتخابات کروا لیں، قانون ہم نے نہیں آپ نے بنایا، میں آپ کو مشورہ ہی دے سکتا ہوں، پہلے بھی دورانِ سماعت مشورے دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کم سے کم بلے کا نشان مانگتے تو صحیح، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سے منسلک ہونا چاہ رہے، آپ اب آزاد امیدوار نہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہمارے پاس چیلنج ہوتے ہیں، خود کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کیا تو بطور آزاد امیدوار نہیں، آپ پارٹی کو ٹھکرا کر آ رہے۔ سارا معاملہ اس وقت شروع ہوا جب پارٹی سربراہ وزیراعظم تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر پی ٹی آئی امیدواروں نے پارٹی تبدیل کی اور پارٹی تبدیل کرنے پر آرٹیکل 63 اے والا فیصلہ موجود ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی سے متعلق ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دلائل آگے بڑھائیں ورنہ آپس میں ہی تنقید ہوتی رہے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی انتخابات ہوتے تو فائدہ پی ٹی آئی کے لوگوں کا ہوتا، جمہوریت کی بات کرنی ہے تو پوری جمہوریت کی بات کریں، عوام کو جماعت میں شامل کرتے ہیں تو ارکان کا حق ہے کہ وہ الیکشن لڑیں، عدالتی فیصلہ آپ کو پسند ہے یا نہیں وہ الگ بات ہے لیکن سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، آپ نے اس بات کو چھیڑا ہے تو پوری بات کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اس کیس پر نظرثانی زیرالتواء ہے کیا سب کچھ یہاں ہی کہنا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم سب سچ بولنا شروع کریں تو سچ بہت کڑوا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایوان کو نشستوں کی مقرر کردہ تعداد سے کم رکھا جا سکتا ہے؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ ایوان کی مختص تمام نشستیں پوری ہونا لازمی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ متناسب نمائندگی کے نام پر ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں، مخصوص نشستوں پر تو پارٹی سربراہ کی صوابدید ہے چاہے دوستوں کو نواز دے، مخصوص نشستوں میں ووٹرز کا کوئی کردار نہیں ہوتا یہ پارٹی سربراہ مقرر کرتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون کے مطابق لسٹ سیاسی جماعت نے دینی ہوتی سربراہ نے نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت کو مخصوص نشستیں حاصل کی گئی سیٹوں پر ملتی ہیں ووٹوں پر نہیں۔ چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا پارٹی میں شمولیت کے لیے جماعت کا اسمبلی میں ہونا لازمی نہیں؟ وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں اسمبلی میں حاصل کی گئی سیٹوں پر الاٹ ہوتی ہیں، قانون میں نشستیں حاصل کرنے کا ذکر ہے جیتنے کا نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوالات اٹھائے کہ ایوان میں زیادہ آزاد میدوار ہوں اور دو سیاسی جماعتیں ہوں تو کیا ہوگا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ یا ان جماعتوں کو صرف اپنی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں اس کا کیا جواب ہے؟ دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی، باقی نشستوں کا کیا ہوگا بعد میں دیکھا جائے گا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں، ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئین سے بتائیں یہ کہاں ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہے کہا جائے شوہر شادی شدہ نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا، پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ موقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ یا تو آپ کہیں ایوان کو مکمل نہیں کرنا تو بات ختم ہے، 336 کا نمبر پورا ہونا تو پھر نشستیں خالی نہیں چھوڑ سکتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ اگر کوئی بھی سیاسی جماعت نشستیں نہ جیتے سب آزاد آئیں تو کیا ہوگا؟ فصل صدیقی نے کہا کہ ایسی صورت میں مخصوص نشستیں کسی کو نہیں ملیں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں کو اپنی جیتی سیٹوں کے حساب سے ہی مخصوص نشستیں ملیں گی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر پی ٹی آئی والے سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو کیا مخصوص نشستیں خالی رہتی؟ آپ خود کہہ چکے ہیں کہ ایوان میں کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی، سیاسی جماعتوں کو کس تناسب سے نشستیں ملیں گی یہ آئین میں کہاں لکھا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حاصل کی گئی جنرل نشستوں سے ہی سیاسی جماعت کا تناسب نکلے گا۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی میں سات ارکان آزاد ہیں، سات سیٹوں پر مخصوص نشست نہیں بنتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر رجسٹرڈ ہو تو اس میں شمولیت کے لیے پارلیمان میں ہونا کیسے لازمی ہوگیا؟ الیکشن نہ بھی لڑا ہو تو سیاسی جماعت تو موجود ہے ہی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک تو نہیں ناں؟ پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعت کی ایک اہمیت ہوتی ہے، آئین کو دیکھنا ہے تو پورا دیکھیں مکس اینڈ میچ نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس وقت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے نہیں کہہ رہے کہ ہم اس کے منشور سے متفق نہیں، کسی رجسٹر سیاسی جماعت کے لیے الیکشن لڑا ہونا کیوں ضروری ہے آزاد امیدواروں کی شمولیت کے لیے؟ مجھے اس کے پیچھے کیا دانش ہے وہ سمجھ نہیں آتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مجھ سے پوچھیں تو اس کے پیچھے معقول وجہ موجود ہے، ایک جماعت الیکشن میں حصہ نہیں لیتی تو سیاسی عمل کو رد کرتی ہے، برا نہ مانیے گا مگر آپ کی جماعت کا میں نے سنا ہی نہیں ہوا تھا، ہو سکتا ہے باقی لوگوں نے سنا ہو، لوگوں کے سامنے آو تو سہی ان کی نمائندگی تو کرو۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر عدالت نے کیس کی سماعت 24جون تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 24 اور 25جون کو صرف یہی کیس سنیں گے، آفس کو کہہ دیتے ہیں 24 اور 25جون کو صرف یہی کیس سنیں گے، باقی کیسز نہ لگائے جائیں۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل مکمل کرنے کیلئے مزید ایک گھنٹے کا وقت مانگا، کیس کی آئندہ سماعت 24جون پیر ساڑھے نو بجے ہوگی۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ میں متاثرہ مخصوص نشستوں کی خواتین کی نمائندگی کرونگا۔