بھارتی عام انتخابات میں مودی کے بیانیے کو شکست
مودی کے انتخابی اتحاد کو 296 اور اپوزیشن جماعتوں کو 234 نشستیں ملیں
بھارت میں عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور ابتدائی نتائج کی روشنی میں نیا حکومتی ڈھانچہ واضح ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس میں مودی کے انتہاپسندانہ بیانیے کی شکست دکھائی دے رہی ہے۔
انتہا پسند مودی کے دورِ حکومت میں ہونے والے ان انتخابات نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ انتخابات سے قبل اور نتائج کے اعلان تک مودی اور اس کی انتہا پسند جماعت بی جے پی نے مخالف جماعتوں کو دبانے کیلئے ہر منفی حربہ استعمال کیا۔
انتہاپسندی اور مسلمان دشمنی پر مبنی بیانیے اور الیکشن سے قبل اپوزیشن کیخلاف استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کے باوجود فاشسٹ مودی اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
جن رہنماؤں سے مودی سرکار کو شدید خطرہ تھا ان کو جھوٹے مقدمات میں الجھا کر گرفتار کیا گیا، اس حوالے سے اروند کیجیریوال کی مثال سب کے سامنے ہے۔
انتخابات سے قبل مودی سرکار کی جانب سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سی بی آئی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سوشل میڈیا پر مودی کو بھارت کا مسیحا دکھایا گیا۔
ایک طرف بھارت میں بسنے والی اقلیتوں پر مظالم تو دوسری طرف ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مودی کو بھارت کے کئی حلقوں میں شکست کھانا پڑی۔
کرپشن کرنے کی غرض سے اگنی ویر جیسی ناقص اسکیم پر بھارتی نوجوان بھی مودی سے مایوسی کا شکار ہوئے یہاں تک کہ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر بنانے والے شہر ایودھیا میں بھی بی جے پی کو شکست فاش ہوئی۔
آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کی انفرادی حیثیت کو ختم کرنا، بھارت میں اقلیتوں، میڈیا اور مودی کیخلاف بولنے والوں کے حقوق غصب کرنا اورکرپشن نے مودی کے خلاف غم و غصّے کو مزید ہوا دی۔
مودی کی سربراہی میں "تیسری بار مودی سرکار اب کی بار 400 پار"کا نعرہ ناکام ہو چکا ہے۔ مودی نے الیکشن میں جیت تو حاصل کر لی مگر مودی کا بیانیہ بری طرح شکست کھا گیا۔
مودی کی جانب سے تیسری مرتبہ اقتدار کے حصول کیلئے وہ کام کئے گئے جس سے یہ تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات بن گئے۔
یہ انتخابی نتائج ناکامی کی جانب بڑھتی مودی سرکار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔
واضح رہے کہ اب تک کے نتیجے کے مطابق مودی کا انتخابی اتحاد 295 نشستیں حاصل کرپایا ہے جب کہ اپوزیشن اتحاد کے حصے میں 236 نشستیں آئی ہیں جب کہ ابھی 15 نشستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔
لوک سبھا کی 543 نشستیں ہیں جن میں سے 272 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ملک میں حکومت بناسکتی ہے۔
انتہا پسند مودی کے دورِ حکومت میں ہونے والے ان انتخابات نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔ انتخابات سے قبل اور نتائج کے اعلان تک مودی اور اس کی انتہا پسند جماعت بی جے پی نے مخالف جماعتوں کو دبانے کیلئے ہر منفی حربہ استعمال کیا۔
انتہاپسندی اور مسلمان دشمنی پر مبنی بیانیے اور الیکشن سے قبل اپوزیشن کیخلاف استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں کے باوجود فاشسٹ مودی اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
جن رہنماؤں سے مودی سرکار کو شدید خطرہ تھا ان کو جھوٹے مقدمات میں الجھا کر گرفتار کیا گیا، اس حوالے سے اروند کیجیریوال کی مثال سب کے سامنے ہے۔
انتخابات سے قبل مودی سرکار کی جانب سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سی بی آئی کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سوشل میڈیا پر مودی کو بھارت کا مسیحا دکھایا گیا۔
ایک طرف بھارت میں بسنے والی اقلیتوں پر مظالم تو دوسری طرف ناقص پالیسیوں کی وجہ سے مودی کو بھارت کے کئی حلقوں میں شکست کھانا پڑی۔
کرپشن کرنے کی غرض سے اگنی ویر جیسی ناقص اسکیم پر بھارتی نوجوان بھی مودی سے مایوسی کا شکار ہوئے یہاں تک کہ بابری مسجد کو شہید کر کے رام مندر بنانے والے شہر ایودھیا میں بھی بی جے پی کو شکست فاش ہوئی۔
آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کی انفرادی حیثیت کو ختم کرنا، بھارت میں اقلیتوں، میڈیا اور مودی کیخلاف بولنے والوں کے حقوق غصب کرنا اورکرپشن نے مودی کے خلاف غم و غصّے کو مزید ہوا دی۔
مودی کی سربراہی میں "تیسری بار مودی سرکار اب کی بار 400 پار"کا نعرہ ناکام ہو چکا ہے۔ مودی نے الیکشن میں جیت تو حاصل کر لی مگر مودی کا بیانیہ بری طرح شکست کھا گیا۔
مودی کی جانب سے تیسری مرتبہ اقتدار کے حصول کیلئے وہ کام کئے گئے جس سے یہ تاریخ کے متنازعہ ترین انتخابات بن گئے۔
یہ انتخابی نتائج ناکامی کی جانب بڑھتی مودی سرکار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔
واضح رہے کہ اب تک کے نتیجے کے مطابق مودی کا انتخابی اتحاد 295 نشستیں حاصل کرپایا ہے جب کہ اپوزیشن اتحاد کے حصے میں 236 نشستیں آئی ہیں جب کہ ابھی 15 نشستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔
لوک سبھا کی 543 نشستیں ہیں جن میں سے 272 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ملک میں حکومت بناسکتی ہے۔