بینکوں کیلئے تھرکول منصوبوں میں سرمایہ کاری لازمی قرار دی جائے وزیراعلیٰ سندھ

کوئلے کے منصوبوں کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری لگ بھگ ختم ہوچکی ہے، مراد علی شاہ کا وفاقی وزیرخزانہ کو خط

وزیراعلیٰ سندھ نے تجاویز پر مبنی خط لکھ دیا ہے—فوٹو: فائل

وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب سے خط ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ شیڈول بینکوں کے لیے تھر کول منصوبوں میں سرمایہ کاری لازمی قرار دی جائے کیونکہ ان منصوبوں کے لیے سرمایہ کا حصول سب سے بڑا چیلنج ہے جبکہ تھر کول ذخائر کو درآمدی کوئلے کے متبادل طور پر استعمال سے سالانہ 3ارب ڈالر کی بچت ممکن ہے۔

تھر کول انرجی بورڈ کے 27ویں اجلاس میں زیر غور لائے جانے والے امکانات اور چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سمیت وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری اور گورنر اسٹیٹ بینک کو ارسال کردہ خط میں وزیر اعلیٰ سندھ نے تھر کول کے ذخائر سے استفادہ کرتے ہوئے صنعتی ترقی کا عمل تیز کرنے، زرمبادلہ کی بچت اور انرجی سیکیوریٹی یقینی بنانے کے لیے بینکوں کے ذریعے تھر کول منصوبوں میں سرمایہ کی فراہمی لازمی قرار دینے کی تجویز پیش کی ہے۔

انہوں نے خط میں کہا ہے کہ تمام شیڈول بینکوں کے لیے لازمی قرار دیا جائے کہ وہ توانائی کے مقامی وسائل بروئے کار لانے بالخصوص تھر کول منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کریں اور مقامی توانائی کے وسائل میں سرمایہ کاری کے لیے لازمی کوٹہ مقرر کیا جائے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ شیڈول بینکوں کے لیے ان کے ڈپازٹس کا ایک فیصد توانائی کے مقامی وسائل پر لگنے والے منصوبوں کے لیے مہیا کرنے کا کوٹہ مقرر کیا جائے، جسے آئندہ تین سال میں بڑھا کر ڈپازٹ کے 3فیصد تک لایا جائے۔

مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ بینکوں کے پاس سرمایہ کم پڑنے کی صورت میں اسٹیٹ بینک سود کے بغیر ڈپازٹ مخصوص کرے تاکہ شیڈول بینکوں کو ضرورت پڑنے پر یہ ڈپازٹس توانائی کے مقامی وسائل پر مبنی منصوبوں میں استعمال کی جاسکیں۔


انہوں نے لکھا ہے کہ مقامی کول مائننگ اور پاور جنریشن کے لیے علیحدہ لینڈنگ سیکٹر تشکیل دی جائے جسے گردشی قرضوں کے بوجھ تلے موجودہ پاور سیکٹر سے الگ رکھا جاسکے۔

وزیر اعلی سندھ نے ان تجاویز پر عمل درآمد کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، تھر کول انرجی بورڈ، حکومت سندھ اور پاور ڈویژن پر مشتمل ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینے کی بھی تجویز دی ہے۔

مراد علی شاہ نے تھر کے کوئلے کے ذخائر اور اس سے پیدا ہونے والی سستی بجلی کی معاشی افادیت اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ این ٹی ڈی سی کے مطابق تھر کی بجلی کی لاگت 4.3روپے فی کلو واٹ کے لحاظ سے پاکستان کی سب سے سستی بجلی ہے، تھر میں کوئلے کی کان سے سالانہ 15ملین ٹن کوئلہ نکالا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تخمینہ کے مطابق تھر کا کوئلہ صنعتی مقاصد اور بجلی کی پیداوار کے لیے بروئے کار لاکر زر مبادلہ کی مد میں سالانہ 3ارب ڈالر کی بچت کی جاسکتی ہے، درآمدی کوئلے کی جگہ تھر کا کوئلہ استعمال کرنے اور کان کی پیداواری گنجائش بڑھانے کے لیے 2ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ درکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر صنعتی ترقی کی رفتار تیز کرکے دیرپا معاشی ترقی کو ممکن بناسکتے ہیں تاہم اس مقصد کی راہ میں مقامی بینکوں کی جانب سے سرمائے کی فراہمی سب سے اہم چیلنج ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہےکہ کوئلے کے منصوبوں کے لیے غیرملکی سرمایہ کاری لگ بھگ ختم ہوچکی ہے جبکہ سرمائے کی قلت، گردشی قرضوں، پاکستان کے ماحولیاتی تحفظ کے اہداف کی وجہ سے تھر میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کے لیے سرمایہ کا حصول مشکل ہوچکا ہے، اگر کمرشل بنیادوں پر سرمایہ اکٹھا کیا بھی جائے تو اس پر بھاری شرح سود ادا کرنا ہوگی اس لیے ضروری ہے کہ شیڈول بینکوں کے ذریعے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس اور کول مائننگ کے لیے سرمایے کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔
Load Next Story