یہ تجاوزات کا معاملہ نہیں تھا
لاہورپولیس نے یہ آپریشن رات کے اندھیرے میں ڈیڑھ بجے شروع کیا۔
GILGIT:
سانحہ لاہور نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے اس بربریت کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں، عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام اس انکشاف سے مزید حیرت اور صدمے میں ڈوب گئے جب یہ پتہ چلا کہ اس آپریشن میں خواتین کو بھی گولیاں ماری گئیں۔ اس سب کے باوجود حکومتی عہدیدار بڑی بے نیازی سے ان انسانیت سوز واقعات کا دفاع کرتے ہوئے عوامی تحریک کو ہی مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ یعنی ظالم ہی مظلوم کو قصور وار ٹھہرا رہا ہے۔ اس ظلم کے نتیجے میں وہ لوگ بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت کر رہے ہیں جو ان سے اختلافات رکھتے تھے۔
لاہورپولیس نے یہ آپریشن رات کے اندھیرے میں ڈیڑھ بجے شروع کیا۔ یہ ان تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کیا گیا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کی اجازت سے تحریک منہاج القرآن کے مرکز کے باہر قائم کی گئیں تھیں۔موجودہ حفاظتی اقدامات جنھیں تجاوزات کہا گیا ہے خود پولیس نے ہی ان کی حفاظت کے لیے قائم کیے تھے اور جہاں تک تجاوزات کا تعلق ہے یہ کہاں قائم نہیں ہیں۔ کیا حکمرانوں کی رہائش گاہوں کے باہر یہ تجاوزات قائم نہیں ہیں۔ سانحہ لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے 8 کارکن ابتدائی رپورٹ کے مطابق جاں بحق ہوئے جب کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ تعداد 14 ہوگئی ہے۔
لاپتہ کارکن اس کے علاوہ ہیں۔ الزام یہ لگایا گیا کہ عوامی تحریک کے کارکنوں نے فائرنگ کی جب کہ کوئی پولیس اہلکار جاں بحق نہیں ہوا۔ سارے کے سارے مقتول عوامی تحریک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ فائرنگ سیدھی کی گئی جو تحریک کے کارکنوں کے سر سینہ منہ پر لگی۔ عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اگر یہ صرف تجاوزات کا ہی معاملہ تھا تو گھر پر گولیوں کی بارش کیوں کی گئی۔ وہ تجاوزات جو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر لاہور پولیس نے آج سے چار سال قبل خود ہی قائم کی تھیں۔ ایک طویل عرصے بعد سیاسی کارکنوں کا خون پولیس کے ہاتھوں بہا۔
اس سانحہ کی فوٹیج موجود ہونے کے باوجود جس بے نیازی سے عوامی تحریک پر الزام تراشی کی جا رہی ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے محدود مفادات اوراقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اگر میڈیا بروقت نہ پہنچ جاتا تو سب کچھ زیر زمین چلا جانا تھا اور کوئی ثبوت بھی نہ ملتا۔ یہ میڈیا ہی تھا جس نے پولیس کے اعلیٰ افسروں کو رنگے ہاتھوں اس وقت پکڑا جب وہ اسپتال کے ایم ایس کے دفتر میں بیٹھ کر میڈیکل ریکارڈ میں رد و بدل کر رہے تھے۔ ریکارڈ میں رد و بدل اسی لیے مقصود تھا کہ جن زخمیوں کو گولیاں لگی ہیں ان کے بارے میں یہ بتایا جا سکے کہ وہ گولی سے نہیں ڈنڈے اور پتھر سے زخمی ہوئے ہیں۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے پھر عام شہری کی نظر میں قانون کی عزت و احترام کیا رہ جائے گا۔
جب پولیس اپنی من مالی کرنے لگے اور اس کو دیکھا دیکھی عوام بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے لگیں تو اس معاشرے میں جنگل کا قانون نافذ ہو جاتا ہے۔ پہلے یہ ایک فرد ہوتا ہے پھر افراد مل کر گروہ بن جاتے ہیں اور یہ گروہ آخر کار معاشرے پر اپنی مرضی بندوق کے زور پر نافذ کرنے کے لیے دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے لگتے ہیں۔ ایک کمزور بے بس مظلوم جب بندوق کے زور پر طاقتور بن جاتا ہے لوگ اس سے خوف کھانے لگتے ہیں تو اس کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اسی لیے معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کے لیے تمام دنیا کی مہذب سوسائٹیاں ہر ممکن کوشش کرتی ہیں کہ کسی بھی فرد کے ساتھ ظلم نہ ہونے پائے اور ہر قیمت پر فوری انصاف مہیا کیا جائے۔
تمام تجزیہ نگار بلا اتفاق کہہ رہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹائون پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کے باعث پیش آیا۔ مختلف سوالات سامنے آ رہے ہیں کہ مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کا حکم کس نے دیا۔ ربڑ کی گولیاں کیوں نہ استعمال کی گئیں۔ آپریشن کس کے کہنے پر شروع کیا گیا۔ سیدھی فائرنگ کی اجازت خصوصی ٹارگٹڈ آپریشن میں دی جاتی ہے۔ پھر سب سے بڑی بات کہ رات ڈیڑھ بجے آپریشن کیوں کیا گیا۔ یہ کام تو دن کی روشنی میں آسانی سے بغیر کسی خون خرابے کے ہو سکتا تھا۔
تو 80ء کی دہائی کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں۔ سامراج نے جب سرمایہ دارانہ نظام کو خطرے میں دیکھا تو ضیاء الحق کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی سیاسی جماعتیں سرمایہ دارانہ جمہوریت کی محافظ اور سرپرست بن گئیں۔ منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔ حسن ناصر کو بے دردی سے شاہی قلعے میں مار دیا گیا۔ اسی طرح ہزاروں جمہوریت کے شہید ہیں جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر کے اپنی نسلوں کو تباہ و برباد کرا لیا۔ میڈیا میں جمہوریت کے نام پر پچھاڑیں کھانے والے شاید ان کا ماضی بھول گئے ہیں۔ یہ گروہ جمہوریت کی مالا اس وقت تک ہی جپتا ہے جب تک وہ خود اقتدار میں ہو یا آنے کا امکان ہو ورنہ کونسی جمہوریت کہاں کی جمہوریت۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے تاحیات اقتدار میں رہنے کا کس کا منصوبہ تھا۔
آج مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک آگ و خون کا جو دریا بہہ رہا ہے اس کی بنیادیں ضیاء دور میں رکھی گئیں جب اس نے افغانستان میں امریکی جہاد میں حصہ لیا۔ نہ ضیاء اس وقت امریکی منصوبے کا حصہ بنتا، نہ مسلم دنیا اس تباہی سے دو چار ہوتی، عراق ہو، افغانستان ہو، پاکستان آج ہم ضیاء کا بویا ہی کاٹ رہے ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت ہر سو پھنکاریں مارتا پھر رہا ہے۔ ضیاء آمریت کا دست و بازو بن کر اسی ہولناک تباہی میں معاون بننے والوں نے کیا کبھی پاکستانی قوم سے معافی مانگی ہے جو آج جمہوریت کے چیمپئن بن رہے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار اسے ملتا ہے جسے عالمی سامراج کی تائید حاصل ہو۔
انتخابات کے نام پر پاکستانی عوام کو ہر دفعہ پولنگ اسٹیشنوں کی طرف ہانکا جاتا ہے۔ مطلب کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ ریاستی اقتدار میں پاکستانی عوام کا اب اس سے زیادہ کوئی کردار نہیں۔ پاکستانی عوام نہ کسی کو اقتدار میں لا سکتے ہیں نا نکال سکتے ہیں جب تک مقامی اور عالمی سامراج کی تائید نہ حاصل ہو۔ اس صورت حال میں جمہوریت کے نام پر خاندانی بادشاہتیں کیوں نہ جنم لیں۔ جہاں سارا کا سارا اقتدار اپنے گھر میں ہی مرتکز ہو جائے۔ ہمارے سادہ لوح دانشور اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کی حمایت کر رہے ہیں جس کی بدولت آج پاکستان کے دس کروڑ عوام ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ جبھی عوام آج جمہوریت پر تین حرف بھیجتے ہوئے آمریت کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہیں۔
...سانحہ لاہور کے حوالے سے اہم تاریخیں 26,25,22 جون اور 29,28 جون ہیں۔ سیل فون:۔0346-4527997