شاید تھا سکن اصل میں پاکستانی ہے
ہمارے دور کے پاکستان میں چند عناصر بے حد جدید ہیں
اتنی پستی کی اصل وجہ کیا ہے! کیا یہ معاشی عدم استحکام کی بدولت ہے؟ کیا یہ قدرت کے آفاقی اصولوں سے روگردانی ہے؟ ہم کیوں تماشا بن چکے ہیں! ہر شخص کا اپنا سچ ہوتا ہے۔ ہم تمام لوگ اپنے سچ کے سوا کوئی اور بات سننے کی تاب نہیں رکھتے۔ میری دانست میں معاشرہ کے دو اہم ترین شعبے، یعنی سیاست اور دین، ہم نے تدبر کے بغیر اپنی سوسائٹی کے غیر ذمے دار ترین طبقے کے حوالے کر دیے ہیں۔ آپ قیام پاکستان والی مسلمان قیادت پر غور فرمائیے! غلطیاں انھوں نے بھی کیں۔ مگر مجموعی طور پر وہ معاشی کرپشن اور بے ضابطگی سے کافی حد تک دور رہے۔
لیکن ہمارے ملک میں بہت جلد اہم طبقہ کو اندازہ ہو گیا کہ سیاست اور معاف فرمائیے، دین دونوں میں پیسہ کمانے کی بہت گنجائش موجود ہے۔ تھوڑے عرصے میں یہ دونوں شعبے اپنے اصل رنگ کے بجائے دولت کے رنگ میں رنگے گئے۔ وہ دن اور آج کا دن، کسی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہر حکومت ختم ہونے سے پہلے اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھتی ہے۔ یہ انحطاط کا آغاز ہوتا ہے۔ تھوڑے عرصے کے بعد مخالف قوتیں اس حکومت کو خاتمہ کی قربان گاہ پر لے جاتیں ہیں۔ یہ کھیل ہمارے ملک میں کئی بار کھیلا جا چکا ہے۔ اور اب یہ کسی اور رنگ میں ہمارے سامنے ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ ہر حکومت کی طبعی زندگی اور موت پر غور کریں تو معاملات سمجھ میں آ جاتے ہیں۔
ہمارے دور کے پاکستان میں چند عناصر بے حد جدید ہیں۔ ہمارا الیکٹرونک اور سوشل میڈیا بین الاقوامی سطح کا ہے۔ یہ دونوں ِاس وقت کسی بھی واقعہ کو کوئی بھی رنگ دے سکتے ہیں۔ میری دانست میں ان کے مثبت پہلو ان کی منفی قوت کو رد کرتے ہیں۔ ہمارے تمام حکمران اس وقت ساٹھ برس کی اوسط عمر سے اوپر ہیں۔ یہ ان دونوں متحرک قوتوں کے ساتھ چلنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔
حکمران پولیس اور انتظامیہ کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر اس بار صرف ایک فاش غلطی ہوئی۔ وہ اندازہ نہیں کر سکے کہ میڈیا کے نوجوان اپنی جان پر کھیل کر بھی کیمرے کی آنکھ سے لوگوں کے سامنے سچ پیش کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ تیس پینتیس سال کے لڑکے اور لڑکیاں اپنے کندھے پر کیمرہ رکھ کر گھنٹوں رپورٹنگ کر سکتے ہیں۔ اس بھر پور قوت کا اندازہ کیے بغیر انتہائی دقیانوسی طریقے سے معاملات کو چلانا غلطی کی بنیاد بنے ہیں۔
ہاں! ایک اور حقیقت کہ اب کیمرے کے سچ کے سامنے کوئی بھی چالاکی نہیں دکھا سکتا۔ اس کا ہر جھوٹ پکڑا جا سکتا ہے۔ ایک ایک جملہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی قوت ادراک سے مکمل باہر ہے۔
اب آپ سیاست اور کاروبار کے باہمی رشتہ پر نظر دوڑائیے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے عظیم مذہب میں حاکم کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بہت سے واقعات ہیں جن میں خلفاء راشدین نے مالی قربانی دیکر رموز حکومت کے اخلاقی اصولوں کو آفاقی بنا دیا۔ آپ صرف دو ڈھائی سو سال کی مغرب کی جمہوریت کو پرکھیے۔ ویسٹ منسٹر جمہوریت میں برطانوی وزیر اعظم ذاتی کاروبار نہیں کر سکتا۔ قانوناً اس پر اپنے عہدے کے دوران کاروبار پر مکمل پابندی ہے۔ آپ امریکا کے صدر کو دیکھ لیجیے۔
دنیا کا طاقت ترین شخص اپنی حکومت کے دوران ذاتی کاروبار کے نزدیک نہیں جا سکتا۔ تمام مہذب ملکوں نے اسلام کا یہ اصول مکمل طاقت سے اپنا لیا ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں سیاست کو کاروبار کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے۔ آپ ہمارے سیاسی خاندانوں پر نظر دوڑائیے۔ انھوں نے اپنے کاروبار میں وسعت اپنے عہد حکمرانی میں حاصل کی۔ اس میں کوئی بھی استثناء نہیں ہے۔ اپنی تجارت بڑھانے کے لیے ہر قانون کو توڑا گیا۔ پاکستان کی کہانی صرف اتنی سی ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کسی ضابطہ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آپ چند ترقی پذیر ممالک کو دیکھیے۔ آپ ان ممالک اور پاکستان میں حیرت انگیز مماثلت محسوس کرینگے۔
تھائی لینڈ میں شنی وترا خاندان پر نظر ڈالیے۔ تھاسکن شنی وترا2001ء سے2006ء تک اپنے ملک کا وزیر اعظم رہا۔ تھاسکن اپنے ملک کی سب سے بڑی موبائل کمپنی، "ایڈوانسڈانفو سروس" کا مالک تھا۔ اس نے 1998ء میں ایک نئی سیاسی پارٹی بنائی۔ اس جماعت کا نام تھائی رک تھائی رکھا گیا۔ صرف تین سال کے قلیل عرصے میں وہ اپنے ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 44 برس تھی۔ مگر اس نے کرپشن کو تھائی لینڈ میں ایک پختہ روایت بنا دی۔
اس نے کامیاب ہونے سے پہلے کئی کاروبار کیے۔ جس میں کپڑے سینے سے لے کر سینما چلانا سب کچھ شامل تھا۔ مگر اس کو بنیادی کامیابی ایک کیبل ٹی وی کمپنی سے ملی۔ 1990ء میں اس نے کمپیوٹر اور مواصلات کی سب سے بڑی کمپنی بنا لی۔ اس کے بعد تھاسکن نے پراپرٹی، بینک اور کئی تعلیمی ادارے خرید لیے۔ اب وہ اس پوزیشن میں تھا کہ اپنے ملک میں ہر آدمی کی قیمت ادا کر سکتا تھا۔ اس نے2001ء میں الیکشن جیتا۔ اسکو اس الیکشن میں دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ کامیابی ہوئی۔ اگلا الیکشن یعنی 2005ء میں اسکو پہلے سے بھی زیادہ انتہائی مضبوط مینڈیٹ ملا۔ 2006ء میں فوج نے اسے مالیاتی امور میں شدید بے ضابطگیوں کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ کر دیا۔
آپ تھاسکن پر لگائے ہوئے الزامات کو اپنے ملک کے تناظر سے دیکھیے۔ آپ کو کئی مشترکہ چیزیں مل جائینگی۔ اس کی حکومت پر کرپشن، ٹیکس کی چوری، تھائی لینڈ کی قومی کمپنیوں کی بین الاقوامی اداروں کو فروخت، پریس سے غیر ذمے دارانہ رویہ، اقربا پروری اور بیرون ملک اثاثے بنانے کے الزامات تھے۔ تھائی لینڈ کی آئینی عدالت نے اس کی سیاسی پارٹی، تھائی رک تھائی کو الیکشن میں بھر پور دھاندلی کے الزامات پر بین لگا دیا۔ اس کے ممبرز پر پانچ سال تک الیکشن لڑنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ مالی بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے ایسٹ کمیٹیAsset Committee بنائی گئی۔
اس کمیٹی نے اپنی انکوائری میں ثابت کر دیا کہ دو بلین ڈالر کے اثاثے اس خاندان نے اپنے عہد حکمرانی میں اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر حاصل کیے ہیں۔ جب تھاسکن وزیر اعظم بنا تو اس کے اور اس کے خاندان کے اثاثے صرف پچپن ملین ڈالر تھے۔ یہ اثاثے صرف تھائی لینڈ کی حد تک تھے۔ 2006ء میں تھاسکن نے اپنی کمپنی دو بلین ڈالر میں فروخت کر دی۔ فروخت سے پہلے اس نے اپنےF.B.R سےS.R.O حاصل کیا کہ اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے سے شیئرز فروخت کرنے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔ تھاسکن نے اس مد میں تقریباً100 ملین ڈالر کی ٹیکس کی رعایت حاصل کی۔
تھاسکن نے اعلان کیا کہ وہ غریب آدمی کے لیے مفت ربڑ کے پودے تقسیم کریگا۔ اس کا یہ اعلان عام آدمی کو شفاف اور میرٹ پر نئے روزگار مہیا کرنے کے وعدے کو پورا کرنا تھا۔ اس وعدے کی منظوری پورے قانون اور ضابطہ کے تحت تھائی لینڈ کی مرکزی کابینہ نے دی۔ ہر قانونی تقاضہ پورا کیا گیا۔ مگر مفت پودے تقسیم کرنے سے پہلے تھاسکن نے ایک پرائیویٹ کمپنی بنا کر ربڑ کے تمام پودے خرید لیے۔ اس کے بعد اس کے کارندوں نے حکومتی فنڈز کے ذریعے سے یہ تمام پودے بھاری قیمت پر خرید لیے۔ مستحق عوام کو یہ تمام دن ونڈو سہولت مفت فراہم کی گئی۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔
تھاسکن نے کچھ لوگوں کے ساتھ ملکر تھائی لینڈ میں "لاٹری انعامی اسکیم" شروع کی۔ اپنے سوا کسی اور ادارے کو قومی سطح پر لاٹری کی اجازت نہیں دی گئی۔ وہ لوگوں میں انعامی گاڑیاں اور مختلف رقومات تقسیم کرتا رہا۔ تھاسکن نے پوری قوم کو ایک شریفانہ جوئے پر لگا دیا۔ عدم مقابلے کی بدولت وہ اس کاروبار سے اربوں روپے کماتا رہا۔ یہ شخص اور اس کا خاندان انتہائی تدبیر سے منی لانڈرنگ بھی کرتا رہا۔
اس نے اپنا کثیر سرمایہ لندن منتقل کر دیا۔ اس نے لندن میں پانچ بلین پائونڈ کی پراپرٹی اور کاروبار خرید لیا۔ لندن میں اسے اندازہ ہوا کہ فٹ بال کلب میں سرمایہ کاری بہت منافع بخش ہے۔ چنانچہ اس نے سو ملین پائونڈ کا مانچسٹر فٹ بال کلب بھی خرید ڈالا۔ جس وقت فوج نے اسے ہٹایا تو پارلیمنٹ میں اس کی اکثریت تھی مگر اس کے ساتھیوں نے فوج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس کا قریبی اسٹاف اس کی کرپشن کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا۔
تھاسکن لندن چلا گیا۔ اس نے دبئی میں بھی محل خرید لیا۔ تھائی لینڈ کی سپریم کورٹ نے تھاسکن کو کرپشن کے متعدد مقدمات میں کڑی سزا سنائی۔ تھاسکن عدالت کا سامنا نہ کر سکا۔ وہ آج کل لندن اور دبئی کے درمیان زندگی گزار رہا ہے۔ آپ میرے بیان کیے ہوئے واقعات کا تنقیدی جائزہ لیں۔ آپ حیران ہو جائینگے کہ ہمارے ملک کے سیاسی گھرانوں اور تھاسکن کے سیاسی خاندان میں بیشتر چیزیں یکساں ہیں! آپ ان پورے واقعات میں تھاسکن کا نام مٹا کر پاکستان کے کسی بھی کامیاب سیاستدان کا نام لکھ دیجیے۔ آپکو یہ تمام واقعات اپنے ہی ملک کے نظر آئینگے! مجھے تواب یوں گمان ہوتا ہے کہ تھاسکن ہمارے ہی ملک کا شہری ہے! شاید تھاسکن اصل میں پاکستانی ہے!