ترقی کے راستے
صرف حکومت ہی نہیں امریکا کے عوام بھی بہت امیر ہیں...
KARACHI:
امریکا ایک کامیاب ملک ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں، ہاں یہ بحث ضرور ہوسکتی ہے کہ دنیا کے کتنے ملک امریکا سے متفق نہیں، لیکن پیسے، پاور اور ترقی کے حساب سے وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اس سچ کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔
دنیا کا سب سے بڑا براعظم ایشیا ہے اس کے باوجود وہاں صرف دو سو ساٹھ (260) بلینرز ہیں یعنی جن کے پاس بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں لیکن امریکا میں نو سو ستر (970) بلینرز ہیں، اسی طرح ملینرز کی لسٹ اس وقت امریکا میں چھ ملین کے آس پاس ملینرز ہیں۔
صرف حکومت ہی نہیں امریکا کے عوام بھی بہت امیر ہیں۔ دنیا میں صرف چھ فیصد لوگ امریکن ہیں، اس کے باوجود دنیا کا 80 فیصد پیسہ امریکن خرچ کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1920 میں جس امریکا میں کھانے کے لالے تھے وہ اتنی جلدی اتنا ترقی یافتہ کیسے ہوگیا؟ تو اس کا جواب ہے ''سڑکیں''۔
ورلڈ وار ٹو کے بعد جب امریکا میں ہزاروں فوجی بیکار بیٹھے تھے تو وہاں کی حکومت نے انھیں سڑکیں بنانے کا کام دے دیا اور اس طرح پورے ملک میں ہائی ویز تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، تمام ریاستوں کے درمیان ہائی ویز بنانا امریکا کی ترقی اور اس کے سپر پاور بننے میں ایک اہم قدم تھا، ایک ریاست سے دوسری ریاست تک سفر آسانی سے کر پانے سے تعلیم، معیشت اور تجارت سب کو فروغ حاصل ہوا اور امریکا اپنی سڑکوں کے ذریعے جہاز کی رفتار سے ترقی کرنے لگا۔ یہ بات کئی دوسرے ملکوں نے بھی امریکا کی تقلید میں اپنائی اور جو ملک بھی ترقی کی راہ پر ہوتا ہے اپنی سڑکوں کو بہتر کرکے اپنے شہروں کو ملانے کی کوشش کرتا ہے جیسے پچھلے کچھ سال میں ہر برس ایک بڑا بجٹ سڑکوں کی مرمت پر لگایا جاتا ہے۔
سڑکوں کے علاوہ جو ایک اور سب سے اہم چیز کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے وہ ہیں وہاں کی بندرگاہیں اور ہوائی اڈے، امریکا کے ہر بڑے شہر میں تین سے چار بڑے ہوائی اڈے آرام سے ملتے ہیں، اپنے ہوائی اڈوں کو محفوظ بنانے، لوگوں کو یہ اطمینان دلانے کہ ہمارے ملک میں سفر کرنا محفوظ ہے، کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈے سے متعلق سانحہ نائن الیون کا ہوا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
ایئرپورٹ ہی تھا جس کی کم سیکیورٹی کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی جان، درجنوں عمارتیں اور چار کمرشل جہاز بھی تباہ ہوئے لیکن امریکا نے فوراً ہی ہوائی اڈوں کا امیج خراب نہ ہونے کی اہمیت کو سمجھا اور بلین ڈالرز اسکیننگ اور ہر طرح کے سیکیورٹی سسٹم لگا کر لوگوں کا اعتبار قائم رکھنے کے لیے ہر ممکنہ اقدام کیے۔
امریکن ٹی وی چینلز پر آج تک نائن الیون کے حوالے سے بحث کرتے نظر آتے ہیں، ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے مسئلے کو کوئی بحث میں شامل نہیں کرتا کیوں کہ امریکا جانتا ہے کہ ہوائی اڈوں پر الزام دھرنے کی صورت میں ان کی اپنی معیشت اور تجارت پر برا اثر پڑنے کا پورا امکان ہے۔
پاکستان کے ایئرپورٹس اور ہوائی کمپنی پی آئی اے کی مثال تمام دنیا دیتی تھی، 1962 میں تیز رفتاری کا ریکارڈ پی آئی اے نے فلائٹ کراچی سے لندن چھ گھنٹے پینتالیس منٹ میں پہنچ کر بنایا تھا جس کو آج تک کوئی دوسری ایئرلائن توڑ نہ پائی لیکن ہماری رفتار جو ترقی کا دعویٰ کرتی تھی حالات کی پھیلائی بیماریوں کا شکار ہوگئی، ایک مضبوط خود سے دوڑنے والا سسٹم سوسائٹی کی بنائی بے ساکھیوں پر آگیا، پی آئی اے کے بارے میں ہر کچھ دن میں اسکینڈل منظر عام پر آنے لگے، جس ایئرلائن کے ساتھ ملک کا نام لگا ہو وہ اپنی بدنامی کے ساتھ ملک کا نام بھی بدنام کرتی ہے، جہاں دوسرے ملک اپنے چھوٹے چھوٹے شہروں میں ایئرپورٹس بنا رہے ہیں وہیں پاکستان نئے ایئرپورٹ بنانا تو دور کی بات اپنے پرانے ایئرپورٹس اور پرانی ایئرلائن کو نہیں سنبھال پا رہے تھے۔
جب بھی پاکستان کسی سانحے سے دوچار ہوتا ہے تو پاکستان کی سیکیورٹی کو لے کر بین الاقوامی میڈیا اتنے سوالات اٹھاتی ہے کہ کوئی نہ کوئی ایئرلائن پاکستان سے اپنی فلائٹس بند کردیتی ہے۔
2009 میں اسلام آباد میں ہوٹل پر حملے کے بعد برٹش ایئرویز جیسی بڑی ایئرلائن نے پاکستان اپنی فلائٹس بند کردی تھیں جب کہ امریکا میں نائن الیون ہوگیا تب بھی وہاں کسی ایئرلائن نے اپنی فلائٹس ختم نہیں کیں لیکن ہم برٹش ایئرویز جیسی بڑی کمپنیوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
ہم نے دنیا کی بڑی بڑی ایئرلائنز سے سفر کیا ہے اور حیرت انگیز طور پر چائنا کی Cathay Pacific بہترین ثابت ہوئی، ہانگ کانگ میں ہیڈکوارٹرز رکھنے والی اس ایئرلائن سے ہم نے جب جب سفر کیا تو کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں ملا، نیویارک سے ہانگ کانگ کی فلائٹ سولہ گھنٹے نان اسٹاپ ہے، لمبی فلائٹ میں بیٹھے بیٹھے کچھ گھنٹوں کے بعد لوگوں کا مزاج خراب ہوجاتا ہے لیکن ہم نے کبھی بھی Cathay Pacific کی کسی ایئرہوسٹس یا اسٹیورڈ کے ماتھے پر بل نہیں دیکھا۔ غلطی سے بھی گزرتے ہوئے کسی کریو جمر پر نظر پڑ جائے تو وہ رک کر پوچھتا ہے کہ ''کچھ ضرورت ہے؟ میں کیا مدد کرسکتا ہوں'' ان کے چہرے پر پوری سچائی نظر آتی تھی۔
پچھلے مہینے ایئرلائن سے سفر کرتے ہم نے اس کی ایک ایئر ہوسٹس کو پاکستان کے بارے میں بتایا، پی آئی اے اور ہمارے ایئرپورٹس کے اچھے فیچرز، ہمیں پاکستان سے پیار ہے اور کسی بھی دوسرے ملک کے افراد کے سامنے خاص طور سے اس کے لیے ہمیشہ اچھی بات نکلتی ہے۔
ایئرہوسٹسں کبھی پاکستان نہیں آئی تھی، ہماری باتیں سن کر پاکستان سے بہت متاثر ہوئی اور کہنے لگی Cathay Pacific کی چار فلائٹس ہفتے میں کراچی جاتی ہیں۔ میں پاکستان ضرور جاؤں گی۔ اس بات کے تین دن بعد کراچی ایئرپورٹ پر وہ حملہ ہوا جس میں چونتیس (34) لوگوں کی جانیں گئیں جن میں دس دہشت گرد بھی شامل تھے۔
دہشت گردوں کا پیغام کہ تمام ایئرلائنز پاکستان سے دور رہیں دنیا بھر میں پہنچ گیا۔
Cathay Pacific نے اعلان کردیا کہ وہ جون کے آخر سے پاکستان میں اپنی فلائٹس آپریشنز مکمل طور پر بند کردیں گے جو کچھ ہم نے اس ایئرلائن کی ایئرہوسٹس سے کہا تھا سچ تھا لیکن ہمارا یہ سچ اس سچ کے آگے جھوٹا ہوجاتا ہے جو دنیا کو نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ایئرپورٹس بالکل محفوظ نہیں ہیں۔
ایشیا میں سب سے بڑا بزنس حب ہانگ کانگ ہے ان کی لوکل ایئرلائنز جب کراچی آنے پر تیار ہی نہ ہوں تو پھر ہم ترقی یافتہ ملکوں کی ریس میں خود کو شامل کیسے کریں؟