بجھے نہ دل رات کا سفر ہے
موجودہ اندھیری رات کا آغاز کرنے والے آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اندھیری رات ہے، کچھ سجھائی نہیں دے رہا، رہزن قدم قدم پر موجود مگر ''ہم کو چلنا ہے یوں ہی رات بسر ہونے تک'' یہ ''ہم'' کون! کہ جنھیں رات بسر ہونے تک چلنا ہے؟ یہ وہ ہیں جن کا سب کچھ اسی زمین سے جڑا ہوا ہے۔ یہ وہ کہ جن کا کچھ بھی باہر نہیں ہے۔
موجودہ اندھیری رات کا آغاز کرنے والے آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مسلسل گولیاں چلا رہے ہیں، بندے مار رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا، پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ پھر کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کردیا گیا، سیکیورٹی دھری کی دھری رہ گئی اور حملہ آور اپنے بھاری اسلحے سمیت ایئرپورٹ کے رن وے تک آگئے۔ ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی مدد کو پولیس، رینجرز اور فوج آگئی، آدھی رات سے صبح تک مقابلہ ہوا، گولیاں چلیں۔ اور دس کے دس حملہ آور مار دیے گئے۔
اگلے دن ایک بجے دوپہر سے ایئرپورٹ کلیئرنس دے دی گئی، جہاز اترنے اور اڑنے لگے۔ شام کو پھر دہشت گردوں نے ایئرپورٹ سیکیورٹی فورسز کے ہاسٹل پر حملہ کردیا، ہماری فورسز مقابلے کو پہنچیں مگر دو تین حملہ آور غائب ہوگئے۔ رات آئی تو ایک بار پھر کراچی ایئرپورٹ پر عورتوں مردوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، چیخ و پکار۔ پتا چلا کہ سات افراد ایئرپورٹ کی عمارت میں واقع کولڈ اسٹوریج میں موجود ہیں۔ کولڈ اسٹوریج بند تھا، کنجی بردار موجود نہیں تھا۔
سیکڑوں افراد اپنے پیاروں کے لیے مدد کی بھیک مانگ رہے تھے مگر ''انھیں بچانے کوئی نہ آیا'' حکمرانوں نے فون بند کردیے، ذمے داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے لگے، ''یہ ہماری نہیں وفاق کی ذمے داری ہے'' اسٹارگیٹ کے بعد وفاق کی حدود شروع ہوجاتی ہیں، راجدھانیوں میں بیٹھے حکمران ٹال مٹول کرتے رہے اور سات زندہ افراد آخر مرگئے۔ دیر بہت ہوچکی تھی۔ کرینیں، بل ڈوزر پہنچے، کولڈ اسٹوریج کی دیواریں توڑیں تو اندر جلے ہوئے سات وجود پڑے تھے جو اپنی پہچان بھی کھوچکے تھے۔
ایئرپورٹ کے حالات نارمل کیے بغیر ''افسران'' نے کلیئرنس دے کر پروازوں کو بحال کردیا اور سات زندہ انسانوں کی روحیں بھی پرواز کرگئیں۔ یہ کیسی رات ہے؟ بڑی بڑی سنگین راتیں ''ہم'' نے جھیلی ہیں۔ ایسی رات پہلے نہیں دیکھی۔ مگر راتوں سے لڑتے لڑتے ''ہم'' سمجھ چکے ہیں کہ رات اب آخری دموں پر ہے۔
کراچی سیلف میڈ لوگوں کا شہر، اس بڑے صنعتی تجارتی تعلیمی ادبی شہر کو بنانے میں اسی شہر کے باسیوں کا کردار ہے۔ اس شہر کی سیاسی تاریخ بھی سب سے الگ ہے۔ اس شہر کے لوگ ٹوٹ کر چاہتے بھی ہیں اور عبیداﷲ علیم کے مصرعے میں ذرا سا تصرف کرتے ہوئے ''محبتیں بھی عجب ان کی نفرتیں بھی کمال''۔
سانحہ ایئرپورٹ سے تین چار دن پہلے الطاف حسین کی لندن میں گرفتاری نے کراچی شہر کو ہلاکر رکھ دیا۔ شہر کے دل نمائش چورنگی پر دھرنا دیا گیا، خواتین، مرد، لڑکے، لڑکیاں، بچے سب رات دن دھرنا دیے بیٹھے۔ شہر مفلوج! یہ کیفیت جلد ہی ختم ہوگئی جب الطاف حسین رہا ہوکر گھر آگئے۔
کراچی ایئرپورٹ کا سانحہ بہت بڑا تھا۔ طالبان کے شاہد اﷲ شاہد نے ذمے داری قبول کرلی تھی۔ اگلے روز ازبک طالبان نے ان دس افراد کی تصاویر بھی جاری کردیں کہ جنھوں نے ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا اور مارے گئے۔ ان حالات و واقعات کے بعد ''بات چیت'' والا سلسلہ ختم ہی ہونا تھا۔ اور پھر وزیراعظم محمد نواز شریف نے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں بھی ممبران سے خطاب کیا اور تائید حاصل کی۔
ابھی فوجی آپریشن کا دوسرا ہی دن تھا کہ لاہور کی پولیس کی بھاری نفری نے رات دو بجے ادارہ منہاج القرآن پر دھاوا بول دیا۔ حکومت پنجاب کے ترجمان اعلی سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے مطابق ''ادارہ منہاج القرآن کے سامنے بنی رکاوٹیں غیر قانونی تھیں اور یہ علاقہ نو گو ایریا بن چکا تھا۔'' رانا صاحب نے مزید کہا کہ ہمیں خفیہ رپورٹ ملی تھی کہ ادارے میں بھاری تعداد میں اسلحہ موجود ہے۔ جیساکہ لال مسجد اسلام آباد میں تھا۔ ادھر شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا۔ ملک و قوم کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا اور لاہور میں اتنا بڑا سانحہ برپا کروادیا گیا، کہ پورا ملک حیران و پریشان ہے۔
11 افراد ہلاک ہوگئے جن کو گولیاں ماری گئیں، ہلاک ہونے والوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریباً سو افراد زخمی ہیں جن میں چند کی حالت تشویشناک ہے۔ ایک خوفناک مونچھوں والا لحیم شحیم شخص مضبوط ڈنڈا اٹھائے گاڑیوں کے شیشے توڑ رہا تھا، اور پولیس والے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے، اس شخص کا نام گلو بٹ بتایا گیا۔ گلو بٹ نے جب اپنا کام پورا کرلیا تو فاتحانہ نعرے لگائے، رقص کیا۔ موقع پر موجود پولیس افسر نے بھی اسے گلے لگایا اور شاباش دی۔ حکومت پنجاب نے ڈاکٹر طاہر القادری کے بیٹے سمیت تین ہزار کارکنان منہاج القرآن کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ہے اور گلو بٹ کو تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور میں ''محفوظ'' کرلیا ہے۔
یہ کیسی رات ہے یہ کیسا سفر ہے جو ''ہم'' کو جھیلنا ہے۔طالبان کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے، ساتھ ساتھ فوج نے تمام بڑے شہروں میں بھی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ ایسے میں سانحہ لاہور سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کون ہیں؟ جنھوں نے ''آبیل مجھے مار'' والا کام دکھایا ہے۔ بہرحال یہ جو کوئی بھی ہیں، یہ غریبوں کے کھلے دشمن ہیں۔ غضب خدا کا! جو کام طالبان نہ کرسکے، جو نقصان عظیم طالبان نہ پہنچا سکے وہ کام وہ نقصان ''ان لوگوں'' نے پہنچادیا اور کارکردگی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
پولیس کے سامنے گلوبٹ ڈنڈے سے گاڑیاں توڑتا رہا، باوردی پولیس والے دکانیں لوٹتے رہے اور کیمرے کی آنکھ دیکھتی رہی، پھر دنیا بھر کو کیمرے کی آنکھ نے سب کچھ دکھادیا۔ اب کچھ بھی نہیں بچا۔ وہ جن کا مرنا جینا اسی زمین سے جڑا ہوا ہے، وہی خطرے میں تھے اور آج بھی وہی خطرے میں ہیں۔ شہباز شریف جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے آئیں، استعفیٰ دیں اور جالب کی نظم پڑھتے ہوئے (جو وہ پڑھتے رہتے ہیں) سڑک پر نکل آئیں۔
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اور حسب سابق علی الاعلان طالبان کا ذمے داری قبول کرنا اور سانحہ لاہور۔ یہ سب کیا ہے؟
اندھیری رات تو طلوع صبح آزادی کے ساتھ ہی طاری کردی گئی تھی، تبھی فیض کو کہنا پڑا ''یہ داغ داغ اجالا' یہ شب گزیدہ سحر، ہمیں تلاش تھی جس کی یہ وہ سحر تو نہیں'' اور پھر داغ داغ اجالے بڑھتے ہی چلے گئے، جالب نے کہا ''جو لوگ جھونپڑیوں میں پڑے تھے، پڑے رہے، کچھ اور اہل زر نے بنالیں عمارتیں، اور جب اہل زر کے لیے پاکستان بانجھ ہوگیا تو انھوں نے ''باہر'' عمارتیں بنانا شروع کردیں۔ جو اندھیرے آج ملک پر پھیلے ہیں جس رات کا آج سامنا ہے یہ تو ہونا ہی تھا۔ اور اہل گفتگو بس بولے چلے جا رہے ہیں، کوئی بڑھ کر ظالم کا ہاتھ نہیں روک رہا۔ ہر طرف، ہر پارٹی میں، ہر جماعت میں وہ چہرے نظر آتے ہیں کہ جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہنستی ہے۔ سو مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ مگر ''ہم'' یعنی غریب ہاری، مزدور، کسان ہمارے لیے شاعر عوام حبیب جالب بستر مرگ پر یہ پیغام چھوڑ کرگیا ہے ''تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا۔''
موجودہ اندھیری رات کا آغاز کرنے والے آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ مسلسل گولیاں چلا رہے ہیں، بندے مار رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا، پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ پھر کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کردیا گیا، سیکیورٹی دھری کی دھری رہ گئی اور حملہ آور اپنے بھاری اسلحے سمیت ایئرپورٹ کے رن وے تک آگئے۔ ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی مدد کو پولیس، رینجرز اور فوج آگئی، آدھی رات سے صبح تک مقابلہ ہوا، گولیاں چلیں۔ اور دس کے دس حملہ آور مار دیے گئے۔
اگلے دن ایک بجے دوپہر سے ایئرپورٹ کلیئرنس دے دی گئی، جہاز اترنے اور اڑنے لگے۔ شام کو پھر دہشت گردوں نے ایئرپورٹ سیکیورٹی فورسز کے ہاسٹل پر حملہ کردیا، ہماری فورسز مقابلے کو پہنچیں مگر دو تین حملہ آور غائب ہوگئے۔ رات آئی تو ایک بار پھر کراچی ایئرپورٹ پر عورتوں مردوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں، چیخ و پکار۔ پتا چلا کہ سات افراد ایئرپورٹ کی عمارت میں واقع کولڈ اسٹوریج میں موجود ہیں۔ کولڈ اسٹوریج بند تھا، کنجی بردار موجود نہیں تھا۔
سیکڑوں افراد اپنے پیاروں کے لیے مدد کی بھیک مانگ رہے تھے مگر ''انھیں بچانے کوئی نہ آیا'' حکمرانوں نے فون بند کردیے، ذمے داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے لگے، ''یہ ہماری نہیں وفاق کی ذمے داری ہے'' اسٹارگیٹ کے بعد وفاق کی حدود شروع ہوجاتی ہیں، راجدھانیوں میں بیٹھے حکمران ٹال مٹول کرتے رہے اور سات زندہ افراد آخر مرگئے۔ دیر بہت ہوچکی تھی۔ کرینیں، بل ڈوزر پہنچے، کولڈ اسٹوریج کی دیواریں توڑیں تو اندر جلے ہوئے سات وجود پڑے تھے جو اپنی پہچان بھی کھوچکے تھے۔
ایئرپورٹ کے حالات نارمل کیے بغیر ''افسران'' نے کلیئرنس دے کر پروازوں کو بحال کردیا اور سات زندہ انسانوں کی روحیں بھی پرواز کرگئیں۔ یہ کیسی رات ہے؟ بڑی بڑی سنگین راتیں ''ہم'' نے جھیلی ہیں۔ ایسی رات پہلے نہیں دیکھی۔ مگر راتوں سے لڑتے لڑتے ''ہم'' سمجھ چکے ہیں کہ رات اب آخری دموں پر ہے۔
کراچی سیلف میڈ لوگوں کا شہر، اس بڑے صنعتی تجارتی تعلیمی ادبی شہر کو بنانے میں اسی شہر کے باسیوں کا کردار ہے۔ اس شہر کی سیاسی تاریخ بھی سب سے الگ ہے۔ اس شہر کے لوگ ٹوٹ کر چاہتے بھی ہیں اور عبیداﷲ علیم کے مصرعے میں ذرا سا تصرف کرتے ہوئے ''محبتیں بھی عجب ان کی نفرتیں بھی کمال''۔
سانحہ ایئرپورٹ سے تین چار دن پہلے الطاف حسین کی لندن میں گرفتاری نے کراچی شہر کو ہلاکر رکھ دیا۔ شہر کے دل نمائش چورنگی پر دھرنا دیا گیا، خواتین، مرد، لڑکے، لڑکیاں، بچے سب رات دن دھرنا دیے بیٹھے۔ شہر مفلوج! یہ کیفیت جلد ہی ختم ہوگئی جب الطاف حسین رہا ہوکر گھر آگئے۔
کراچی ایئرپورٹ کا سانحہ بہت بڑا تھا۔ طالبان کے شاہد اﷲ شاہد نے ذمے داری قبول کرلی تھی۔ اگلے روز ازبک طالبان نے ان دس افراد کی تصاویر بھی جاری کردیں کہ جنھوں نے ایئرپورٹ پر حملہ کیا تھا اور مارے گئے۔ ان حالات و واقعات کے بعد ''بات چیت'' والا سلسلہ ختم ہی ہونا تھا۔ اور پھر وزیراعظم محمد نواز شریف نے شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں بھی ممبران سے خطاب کیا اور تائید حاصل کی۔
ابھی فوجی آپریشن کا دوسرا ہی دن تھا کہ لاہور کی پولیس کی بھاری نفری نے رات دو بجے ادارہ منہاج القرآن پر دھاوا بول دیا۔ حکومت پنجاب کے ترجمان اعلی سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے مطابق ''ادارہ منہاج القرآن کے سامنے بنی رکاوٹیں غیر قانونی تھیں اور یہ علاقہ نو گو ایریا بن چکا تھا۔'' رانا صاحب نے مزید کہا کہ ہمیں خفیہ رپورٹ ملی تھی کہ ادارے میں بھاری تعداد میں اسلحہ موجود ہے۔ جیساکہ لال مسجد اسلام آباد میں تھا۔ ادھر شمالی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا۔ ملک و قوم کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا اور لاہور میں اتنا بڑا سانحہ برپا کروادیا گیا، کہ پورا ملک حیران و پریشان ہے۔
11 افراد ہلاک ہوگئے جن کو گولیاں ماری گئیں، ہلاک ہونے والوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ تقریباً سو افراد زخمی ہیں جن میں چند کی حالت تشویشناک ہے۔ ایک خوفناک مونچھوں والا لحیم شحیم شخص مضبوط ڈنڈا اٹھائے گاڑیوں کے شیشے توڑ رہا تھا، اور پولیس والے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے، اس شخص کا نام گلو بٹ بتایا گیا۔ گلو بٹ نے جب اپنا کام پورا کرلیا تو فاتحانہ نعرے لگائے، رقص کیا۔ موقع پر موجود پولیس افسر نے بھی اسے گلے لگایا اور شاباش دی۔ حکومت پنجاب نے ڈاکٹر طاہر القادری کے بیٹے سمیت تین ہزار کارکنان منہاج القرآن کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی ہے اور گلو بٹ کو تھانہ فیصل ٹاؤن لاہور میں ''محفوظ'' کرلیا ہے۔
یہ کیسی رات ہے یہ کیسا سفر ہے جو ''ہم'' کو جھیلنا ہے۔طالبان کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے، ساتھ ساتھ فوج نے تمام بڑے شہروں میں بھی پوزیشنیں سنبھال لی ہیں۔ ایسے میں سانحہ لاہور سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کون ہیں؟ جنھوں نے ''آبیل مجھے مار'' والا کام دکھایا ہے۔ بہرحال یہ جو کوئی بھی ہیں، یہ غریبوں کے کھلے دشمن ہیں۔ غضب خدا کا! جو کام طالبان نہ کرسکے، جو نقصان عظیم طالبان نہ پہنچا سکے وہ کام وہ نقصان ''ان لوگوں'' نے پہنچادیا اور کارکردگی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
پولیس کے سامنے گلوبٹ ڈنڈے سے گاڑیاں توڑتا رہا، باوردی پولیس والے دکانیں لوٹتے رہے اور کیمرے کی آنکھ دیکھتی رہی، پھر دنیا بھر کو کیمرے کی آنکھ نے سب کچھ دکھادیا۔ اب کچھ بھی نہیں بچا۔ وہ جن کا مرنا جینا اسی زمین سے جڑا ہوا ہے، وہی خطرے میں تھے اور آج بھی وہی خطرے میں ہیں۔ شہباز شریف جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے آئیں، استعفیٰ دیں اور جالب کی نظم پڑھتے ہوئے (جو وہ پڑھتے رہتے ہیں) سڑک پر نکل آئیں۔
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
کراچی ایئرپورٹ پر حملہ اور حسب سابق علی الاعلان طالبان کا ذمے داری قبول کرنا اور سانحہ لاہور۔ یہ سب کیا ہے؟
اندھیری رات تو طلوع صبح آزادی کے ساتھ ہی طاری کردی گئی تھی، تبھی فیض کو کہنا پڑا ''یہ داغ داغ اجالا' یہ شب گزیدہ سحر، ہمیں تلاش تھی جس کی یہ وہ سحر تو نہیں'' اور پھر داغ داغ اجالے بڑھتے ہی چلے گئے، جالب نے کہا ''جو لوگ جھونپڑیوں میں پڑے تھے، پڑے رہے، کچھ اور اہل زر نے بنالیں عمارتیں، اور جب اہل زر کے لیے پاکستان بانجھ ہوگیا تو انھوں نے ''باہر'' عمارتیں بنانا شروع کردیں۔ جو اندھیرے آج ملک پر پھیلے ہیں جس رات کا آج سامنا ہے یہ تو ہونا ہی تھا۔ اور اہل گفتگو بس بولے چلے جا رہے ہیں، کوئی بڑھ کر ظالم کا ہاتھ نہیں روک رہا۔ ہر طرف، ہر پارٹی میں، ہر جماعت میں وہ چہرے نظر آتے ہیں کہ جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہنستی ہے۔ سو مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ مگر ''ہم'' یعنی غریب ہاری، مزدور، کسان ہمارے لیے شاعر عوام حبیب جالب بستر مرگ پر یہ پیغام چھوڑ کرگیا ہے ''تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا۔''