کامریڈ عزیزاﷲ کی یاد میں
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ نے کامریڈ بھگت سنگھ کو تو نہیں دیکھا یا ملے مگر
SEOUL:
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ اکتوبر 1918 میں پیلی بھیت، یوپی، انڈیا میںپیدا ہوئے اور 21 جون 2002 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سے متاثر تھے، اس لیے 'بھارتیہ نوجوان سبھا' میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت کامریڈ بھگت سنگھ 20 سال کے تھے اور لاہور گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے، جب کہ کامریڈ عزیزاﷲ علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔
نہ انھوں نے بھگت سنگھ سے کبھی ملاقات کی اور نہ دیکھا، صرف ان کے خیالات سے ہم آہنگی پا کر 'نوجوان سبھا' میں شامل ہوگئے۔ چونکہ انگریز استعماریت کے دور میں آزادی اور اشتراکیت کی بات برملا کرنا ایک جرم تھا، اس لیے خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں کرنی پڑتی تھیں۔ کامریڈ عزیزاﷲ کی یہ ڈیوٹی تھی کہ انھیں انگریزوں اور ان کے حواریوں سے بندوقیں چھین کر مخصوص مقام پر پہنچانی ہوتی تھیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ 'میں نے انگریزوں سے 60 بندوقیں چھینی تھیں'۔ وہ ایک بار فوج کے نرغے میں آگئے تھے، مگر کھیت میں لیٹ کر رات گزارنے کے بعد وہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے۔
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ نے کامریڈ بھگت سنگھ کو تو نہیں دیکھا یا ملے مگر سوشلسٹ رہنما سبھاش چندربوس سے ضرور ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں کامریڈ عزیز نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس وقت کانگریس میں دو قسم کے خیالات پائے جاتے تھے، ایک انقلابی یا سوشلسٹ خیالات کے لوگ جنھیں گرم پنتھی اور دوسرے نرم پنتھی جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات کے حامی تھے۔ کامریڈ عزیزاﷲ گرم پنتھی دھڑے کے طور پرشناخت ہوتے تھے۔ وہ کانگریس میں رہتے ہوئے کسانوں میں بے حد سرگرم تھے، جاگیرداری کے خاتمے اور زمین کسانوں میں تقسیم کروانے کے حامی تھے اور ایسا کروایا بھی۔
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔ جب جواہر لعل نہرو کانگریس کے کارکنوں کو تقسیم کو تسلیم کروانے کے حق میں سمجھانے کے لیے پیلی بھیت آئے تو عزیزاﷲ نے ان کے اس موقف کی مخالفت کی، جس پر جواہر لعل نہرو نے غصے میں جواب دیا کہ اب ساتھ رہنا مشکل ہے۔ مگر عزیزاﷲ تقسیم کے خلاف اپنے موقف پر قائم رہے۔
اسی جلسے میں خاکسار تحریک کے ایک کارکن ولی محمد ان کے عقب میں بیٹھے تھے۔ جب جلسہ ختم ہوا تو انھوں نے کامریڈ عزیزاﷲ سے کہا کہ آپ نے بہت اچھا موقف اختیار کیا ہے۔ اس خوشی میں، میں اپنی بیٹی فہمیدہ سے آپ کی شادی کروانا چاہتا ہوں۔ عزیزاﷲ نے اثبات میں جواب دیا۔ آخر وہی فہمیدہ ان کی بیوی بن گئیں اور انتہائی مشکل گھڑیوں میں ان کا بھوکی پیاسی رہ کر انقلابی جدوجہد میں تاحیات نہ صرف ساتھ دیا بلکہ سرگر م بھی رہیں، وہ 'انجمن مفاد نسواں' شاہ فیصل کالونی کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ انھوں نے اپنے گھر میں کپڑے سی کر گھر چلایا، کپڑا سینے میں اتنی ماہر ہوگئی تھیں کہ مردانہ کوٹ پینٹ بھی سی لیتی تھیں۔
بھارت کی تقسیم کے بعد انھیں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آنا پڑا۔ وہ جیکب آباد آگئے اور وہیں سندھ ہاری کمیٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں کام کرتے رہے۔ جیکب آباد میں انھوںنے کامریڈ برکت اﷲ آزاد کو کمیونسٹ پارٹی اور ہاری کمیٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب کروایا لیکن سرکار نے ری کائونٹنگ میں ہارنے کا اعلان کروایا۔ اسی سال یعنی 1951 میں لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ سے کامریڈ مرزا ابراہیم قومی اسمبلی کا انتخاب جیتے تھے اور انھیں بھی جعلی ری کائونٹنگ کے ذریعے ہروا دیا گیا تھا۔
اسی طرح ایک بار سوبھوگیان چندانی نے قومی اسمبلی کی نشست جیت لی تھی مگر انھیں بھی جعلی ری کائونٹنگ کے ذریعے ہروایا گیا۔ کامریڈ عزیز بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے اور شاہ فیصل کالونی میں رہائش پذیر ہوئے۔ شروع میں وہ نیوی میں آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے لیکن بعد میں نوکری چھوڑ کر کمیونسٹ پارٹی کے فل ٹائمر بن گئے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے نہ صرف رکن تھے بلکہ پولیٹ بیورو اور سیکریٹریٹ کے بھی رکن تھے۔ انھوں نے 1952 میں پشاور اور کوئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔
انھوں نے دنیا کے بیشتر ملکوں کی کمیونسٹ، سوشلسٹ پارٹیوں اور انارکسٹوں سے ملاقاتیں کیں، جن میں افریقی، ایشیائی، جنوبی اور شمالی امریکی اور یورپ کی کمیونسٹ پارٹیاں شامل ہیں۔ انھوں نے متعدد بار سوویت یونین، بھارت، مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور کوہ قاف کے ملکوں کا دورہ کیا۔ پاکستان بننے کے بعد برملا کمیونسٹ پارٹی کے نام سے کام کرنا جرم تھا، اس لیے بھی کہ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی، اس وجہ سے دوسری ماس پارٹیوں میں بحیثیت کمیونسٹ کام کرتے رہے، جن میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی قابل ذکر ہیں۔
ان کے حسین شہید سہروردی، غفار خان، ولی خان، محمود الحق عثمانی، میر غوث بخش بزنجو، عطااﷲ مینگل، خیر بخش مری، شیر محمد مری، میاں افتخار، ڈھاکا کے پروفیسر مظفر احمد اور جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما دادا یوسف سے قریبی مراسم تھے۔ کامریڈ سائیں عزیزاﷲ نے زیادہ تر صوبہ سندھ میں کام کیا۔ انھوں نے سندھ ہاری کمیٹی میں عزیز سلام بخاری، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، جی ایم سید، شاہ محمد درانی، قاضی فیض، عبدالخالق، سوبھوگیان چندانی اور جام ساقی اور دیگر معروف رہنمائوں کے ساتھ کسانوں کے لیے جدوجہد کی۔
ہاری الاٹی تحریک ایک تاریخی جدوجہد تھی۔ اس میں یہ مطالبہ تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو 25 ہزار روپے نقد دینے کے بجائے 50 ہزار روپے سے انھیں کاروبار کروا کے دیا جائے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دینے کے بجائے 50 ایکڑ زمین دی جائے۔ اور ان مطالبات کو بعد میں منوایا بھی۔ ہاری کمیٹی نے 10 ہزار بے زمین ہاریوں کو حیدرآباد سے ٹھٹہ لے جا کر بسایا۔ یہ دونوں عوامل ہاری کمیٹی کے لیے بڑے کارنامے تھے۔
کراچی میں کامریڈ عزیز اﷲ نے مزدوروں کو کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں روپوش رہتے ہوئے منظم کیا۔ 1973 میں مزدور رہنما چاچا علی جان کی قیادت میں ہزاروں مزدوروں کا جلوس سندھ اسمبلی بلڈنگ پہنچا اور چاچا علی جان نے وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو سے مزدوروں کے مطالبات پر دستخط کروائے (یہ دستخط زمین پر بیٹھ کر ہوئے)۔ مزدوروں کے مطالبات میں بجلی، پانی، سڑکیں، اسکول قائم کرنے کے نکات شامل تھے، اس کے علاوہ ہر خاندان میں سے ایک بچے کو حکومت سے مفت تعلیم دلوانے کا بھی مطالبہ منوایا گیا تھا۔ کامریڈ عزیز ہمیشہ خودمختار اور سچائی کی بنیاد پر سوچتے اور عمل کرتے تھے۔ جب سوویت یونین نے جرمنی کے خلاف برطانوی سامراج سے اتحاد کیا تو عزیزاﷲ اس منافقانہ اتحاد کے خلاف تھے۔ انھوں نے سا ری زندگی شاہ فیصل کالونی کے 80 گز کے مکان میں ہی گزاری۔
کامریڈ عزیز ایک بااخلاق، معتدل، بردبار، ہر دلعزیز اور اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے۔ آج برازیل سے تھائی لینڈ تک، جنوبی افریقہ سے جنوبی ایشیا تک اور فرانس سے ترکی تک محنت کش عوام کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ یورپ کے حالیہ انتخابات میں بڑی اکثریت نے ووٹ نہ ڈال کر اس نظام کو رد کردیا ہے اور جنوبی یورپ میں دائیں بازو کو شکست سے دوچار ہونا پڑا جب کہ جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں بائیں بازو کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب کامریڈ سائیں عزیزاﷲ کا نظریہ عالمی کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے عملی جامہ پہنے گا۔
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ اکتوبر 1918 میں پیلی بھیت، یوپی، انڈیا میںپیدا ہوئے اور 21 جون 2002 کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ وہ طالب علمی کے زمانے سے بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں سے متاثر تھے، اس لیے 'بھارتیہ نوجوان سبھا' میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت کامریڈ بھگت سنگھ 20 سال کے تھے اور لاہور گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے، جب کہ کامریڈ عزیزاﷲ علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔
نہ انھوں نے بھگت سنگھ سے کبھی ملاقات کی اور نہ دیکھا، صرف ان کے خیالات سے ہم آہنگی پا کر 'نوجوان سبھا' میں شامل ہوگئے۔ چونکہ انگریز استعماریت کے دور میں آزادی اور اشتراکیت کی بات برملا کرنا ایک جرم تھا، اس لیے خفیہ طور پر سیاسی سرگرمیاں کرنی پڑتی تھیں۔ کامریڈ عزیزاﷲ کی یہ ڈیوٹی تھی کہ انھیں انگریزوں اور ان کے حواریوں سے بندوقیں چھین کر مخصوص مقام پر پہنچانی ہوتی تھیں۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا تھا کہ 'میں نے انگریزوں سے 60 بندوقیں چھینی تھیں'۔ وہ ایک بار فوج کے نرغے میں آگئے تھے، مگر کھیت میں لیٹ کر رات گزارنے کے بعد وہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے۔
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ نے کامریڈ بھگت سنگھ کو تو نہیں دیکھا یا ملے مگر سوشلسٹ رہنما سبھاش چندربوس سے ضرور ملاقات کی تھی۔ بعد ازاں کامریڈ عزیز نے کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس وقت کانگریس میں دو قسم کے خیالات پائے جاتے تھے، ایک انقلابی یا سوشلسٹ خیالات کے لوگ جنھیں گرم پنتھی اور دوسرے نرم پنتھی جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات کے حامی تھے۔ کامریڈ عزیزاﷲ گرم پنتھی دھڑے کے طور پرشناخت ہوتے تھے۔ وہ کانگریس میں رہتے ہوئے کسانوں میں بے حد سرگرم تھے، جاگیرداری کے خاتمے اور زمین کسانوں میں تقسیم کروانے کے حامی تھے اور ایسا کروایا بھی۔
کامریڈ سائیں عزیزاﷲ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔ جب جواہر لعل نہرو کانگریس کے کارکنوں کو تقسیم کو تسلیم کروانے کے حق میں سمجھانے کے لیے پیلی بھیت آئے تو عزیزاﷲ نے ان کے اس موقف کی مخالفت کی، جس پر جواہر لعل نہرو نے غصے میں جواب دیا کہ اب ساتھ رہنا مشکل ہے۔ مگر عزیزاﷲ تقسیم کے خلاف اپنے موقف پر قائم رہے۔
اسی جلسے میں خاکسار تحریک کے ایک کارکن ولی محمد ان کے عقب میں بیٹھے تھے۔ جب جلسہ ختم ہوا تو انھوں نے کامریڈ عزیزاﷲ سے کہا کہ آپ نے بہت اچھا موقف اختیار کیا ہے۔ اس خوشی میں، میں اپنی بیٹی فہمیدہ سے آپ کی شادی کروانا چاہتا ہوں۔ عزیزاﷲ نے اثبات میں جواب دیا۔ آخر وہی فہمیدہ ان کی بیوی بن گئیں اور انتہائی مشکل گھڑیوں میں ان کا بھوکی پیاسی رہ کر انقلابی جدوجہد میں تاحیات نہ صرف ساتھ دیا بلکہ سرگر م بھی رہیں، وہ 'انجمن مفاد نسواں' شاہ فیصل کالونی کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ انھوں نے اپنے گھر میں کپڑے سی کر گھر چلایا، کپڑا سینے میں اتنی ماہر ہوگئی تھیں کہ مردانہ کوٹ پینٹ بھی سی لیتی تھیں۔
بھارت کی تقسیم کے بعد انھیں اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آنا پڑا۔ وہ جیکب آباد آگئے اور وہیں سندھ ہاری کمیٹی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں کام کرتے رہے۔ جیکب آباد میں انھوںنے کامریڈ برکت اﷲ آزاد کو کمیونسٹ پارٹی اور ہاری کمیٹی کی جانب سے صوبائی اسمبلی کے لیے منتخب کروایا لیکن سرکار نے ری کائونٹنگ میں ہارنے کا اعلان کروایا۔ اسی سال یعنی 1951 میں لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے ٹکٹ سے کامریڈ مرزا ابراہیم قومی اسمبلی کا انتخاب جیتے تھے اور انھیں بھی جعلی ری کائونٹنگ کے ذریعے ہروا دیا گیا تھا۔
اسی طرح ایک بار سوبھوگیان چندانی نے قومی اسمبلی کی نشست جیت لی تھی مگر انھیں بھی جعلی ری کائونٹنگ کے ذریعے ہروایا گیا۔ کامریڈ عزیز بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے اور شاہ فیصل کالونی میں رہائش پذیر ہوئے۔ شروع میں وہ نیوی میں آفیسر کے طور پر کام کرتے رہے لیکن بعد میں نوکری چھوڑ کر کمیونسٹ پارٹی کے فل ٹائمر بن گئے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی مرکزی کمیٹی کے نہ صرف رکن تھے بلکہ پولیٹ بیورو اور سیکریٹریٹ کے بھی رکن تھے۔ انھوں نے 1952 میں پشاور اور کوئٹہ میں کمیونسٹ پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔
انھوں نے دنیا کے بیشتر ملکوں کی کمیونسٹ، سوشلسٹ پارٹیوں اور انارکسٹوں سے ملاقاتیں کیں، جن میں افریقی، ایشیائی، جنوبی اور شمالی امریکی اور یورپ کی کمیونسٹ پارٹیاں شامل ہیں۔ انھوں نے متعدد بار سوویت یونین، بھارت، مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور کوہ قاف کے ملکوں کا دورہ کیا۔ پاکستان بننے کے بعد برملا کمیونسٹ پارٹی کے نام سے کام کرنا جرم تھا، اس لیے بھی کہ 1954 میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگ گئی تھی، اس وجہ سے دوسری ماس پارٹیوں میں بحیثیت کمیونسٹ کام کرتے رہے، جن میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی قابل ذکر ہیں۔
ان کے حسین شہید سہروردی، غفار خان، ولی خان، محمود الحق عثمانی، میر غوث بخش بزنجو، عطااﷲ مینگل، خیر بخش مری، شیر محمد مری، میاں افتخار، ڈھاکا کے پروفیسر مظفر احمد اور جنوبی افریقہ کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما دادا یوسف سے قریبی مراسم تھے۔ کامریڈ سائیں عزیزاﷲ نے زیادہ تر صوبہ سندھ میں کام کیا۔ انھوں نے سندھ ہاری کمیٹی میں عزیز سلام بخاری، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، جی ایم سید، شاہ محمد درانی، قاضی فیض، عبدالخالق، سوبھوگیان چندانی اور جام ساقی اور دیگر معروف رہنمائوں کے ساتھ کسانوں کے لیے جدوجہد کی۔
ہاری الاٹی تحریک ایک تاریخی جدوجہد تھی۔ اس میں یہ مطالبہ تھا کہ ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو 25 ہزار روپے نقد دینے کے بجائے 50 ہزار روپے سے انھیں کاروبار کروا کے دیا جائے اور ہاریوں کو 25 ایکڑ زمین دینے کے بجائے 50 ایکڑ زمین دی جائے۔ اور ان مطالبات کو بعد میں منوایا بھی۔ ہاری کمیٹی نے 10 ہزار بے زمین ہاریوں کو حیدرآباد سے ٹھٹہ لے جا کر بسایا۔ یہ دونوں عوامل ہاری کمیٹی کے لیے بڑے کارنامے تھے۔
کراچی میں کامریڈ عزیز اﷲ نے مزدوروں کو کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں روپوش رہتے ہوئے منظم کیا۔ 1973 میں مزدور رہنما چاچا علی جان کی قیادت میں ہزاروں مزدوروں کا جلوس سندھ اسمبلی بلڈنگ پہنچا اور چاچا علی جان نے وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو سے مزدوروں کے مطالبات پر دستخط کروائے (یہ دستخط زمین پر بیٹھ کر ہوئے)۔ مزدوروں کے مطالبات میں بجلی، پانی، سڑکیں، اسکول قائم کرنے کے نکات شامل تھے، اس کے علاوہ ہر خاندان میں سے ایک بچے کو حکومت سے مفت تعلیم دلوانے کا بھی مطالبہ منوایا گیا تھا۔ کامریڈ عزیز ہمیشہ خودمختار اور سچائی کی بنیاد پر سوچتے اور عمل کرتے تھے۔ جب سوویت یونین نے جرمنی کے خلاف برطانوی سامراج سے اتحاد کیا تو عزیزاﷲ اس منافقانہ اتحاد کے خلاف تھے۔ انھوں نے سا ری زندگی شاہ فیصل کالونی کے 80 گز کے مکان میں ہی گزاری۔
کامریڈ عزیز ایک بااخلاق، معتدل، بردبار، ہر دلعزیز اور اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے کمیونسٹ تھے۔ آج برازیل سے تھائی لینڈ تک، جنوبی افریقہ سے جنوبی ایشیا تک اور فرانس سے ترکی تک محنت کش عوام کمیونسٹ سماج کے قیام کے لیے ہمہ وقت جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ یورپ کے حالیہ انتخابات میں بڑی اکثریت نے ووٹ نہ ڈال کر اس نظام کو رد کردیا ہے اور جنوبی یورپ میں دائیں بازو کو شکست سے دوچار ہونا پڑا جب کہ جنوبی امریکا کے بیشتر ملکوں میں بائیں بازو کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب کامریڈ سائیں عزیزاﷲ کا نظریہ عالمی کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے عملی جامہ پہنے گا۔