فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کی پریس کانفرنس نشر کرنا توہین عدالت ہے سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس کی گزشتہ سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹر فیصل واوڈا اور ایم کیوایم پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا کہ مصطفیٰ کمال کے وکیل نےعدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نےغیرمشروط معافی مانگی ہے،سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق مصطفیٰ کمال کے وکیل نے کہا کہ وہ خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں جبکہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا کے وکیل نے اضافی جواب جمع کرانے کے لیے عدالت سے مہلت طلب کی ہے۔
عدالتی حکم نامےکے مطابق پیمرا نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع کروائی، پیمرا رپورٹ کے مطابق فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کو 34 جبکہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کو 28 نیوز چینلز نےنشر کیا، مذکورہ چینل جنہوں نے پریس کانفرنسز براہ راست یا بعد میں نشر کیں وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔
عدالتی حکم میں واضح کیا گیا کہ بادی النظر میں ٹی وی چینلز پر چلائی گئی پریس کانفرنسز بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ تمام نیوز چینلز دو ہفتوں میں اپنا جواب جمع کروائیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کیوں نہ چلائی جائے۔
حکم نامے میں مزید لکھا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل ٹرانسکرپٹ میں نشاندہی کریں کہ کہاں توہین عدالت کی گئی، کیس کی مزید سماعت 28 جون کو ہوگی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا کہ مصطفیٰ کمال کے وکیل نےعدالت کو آگاہ کیا کہ انہوں نےغیرمشروط معافی مانگی ہے،سپریم کورٹ کے حکم نامے کے مطابق مصطفیٰ کمال کے وکیل نے کہا کہ وہ خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہیں جبکہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ فیصل واوڈا کے وکیل نے اضافی جواب جمع کرانے کے لیے عدالت سے مہلت طلب کی ہے۔
عدالتی حکم نامےکے مطابق پیمرا نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کی ٹرانسکرپٹ عدالت میں جمع کروائی، پیمرا رپورٹ کے مطابق فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس کو 34 جبکہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس کو 28 نیوز چینلز نےنشر کیا، مذکورہ چینل جنہوں نے پریس کانفرنسز براہ راست یا بعد میں نشر کیں وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے۔
عدالتی حکم میں واضح کیا گیا کہ بادی النظر میں ٹی وی چینلز پر چلائی گئی پریس کانفرنسز بھی توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ تمام نیوز چینلز دو ہفتوں میں اپنا جواب جمع کروائیں کہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کیوں نہ چلائی جائے۔
حکم نامے میں مزید لکھا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل ٹرانسکرپٹ میں نشاندہی کریں کہ کہاں توہین عدالت کی گئی، کیس کی مزید سماعت 28 جون کو ہوگی۔