آئی ایم ایف سے 8 ارب ڈالر قرض کی درخواست سخت شرائط کا امکان
تمام شرائط کی تکمیل پرآئی ایم ایف کا 6بلین ڈالردینے کا عندیہ، حکومت کانئے کیش ڈپازٹ لون کی درخواست نہ کرنے کا فیصلہ
پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) سے پیکیج میں توسیع کرکے 8 بلین ڈالر قرضہ دینے کی درخواست کردی۔
پاکستان نئی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت اپنے بقیہ زیادہ سے زیادہ کوٹہ کو تقریباً مکمل طور پر حاصل کر لے گا۔ یہ رقم عالمی قرض دہندہ کی جانب سے اب تک کی پیشکش کی گئی رقم سے تقریباً 2 بلین ڈالر زیادہ ہے۔
ذرائع نے بتایا متعدد سابق اقدامات کو نافذ کرنے کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکیج کے سائز اور روایتی طور پر تین دو طرفہ قرض دہندگان کی طرف سے کسی بھی نئے قرض سے متعلق امور پر بات چیت کا آپشن باقی رہے گا۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے EFF کے تحت تقریباً 8 بلین ڈالر مانگے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو لچکدار اور پائیداری کی سہولت (RSF) کے تحت کوئی بھی فناسنگ مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف تمام شرائط کی تکمیل سے مشروط 6 بلین ڈالر کا معاہدہ کرنے پر آمادہ ہے۔
آئی ایم ایف میں پاکستان کا کوٹہ 2.03 بلین سپیشل ڈرائنگ رائٹس (SDRs) یا 2.7 بلین ڈالر ہے۔ ایک ملک زیادہ سے زیادہ 435 فیصد کوٹہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان 11.7ارب ڈالر حاصل کرسکتا ہے تاہم پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف سے گزشتہ سودوں کے تحت 3.3 بلین ڈالر حاصل کر چکا اور اس کا باقی کوٹہ تقریباً 8.4 بلین ڈالر ہے۔
ذرائع کے بہ قول وزارت خزانہ تقریباً پورا کوٹہ حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن آئی ایم ایف نے اب تک 6 ارب ڈالر دینے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کو زیادہ قرض دینے کی اجازت کے ساتھ سخت شرائط لاگو کئے جانے کا بھی امکان ہوگا۔ اس سے قبل آئی ایم ایف نے 10 مئی سے 23 مئی کے عملے کے دورہ میں پاکستان کے لیے شرائط طے کردی ہیں۔
ذرائع کے مطابق نئے قرضہ پروگرام کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ جی ڈی پی کے 1.6 فیصد یا 2 ٹریلین روپے کے برابر اضافی ریونیو کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان نے اگلے سال کے بیل آؤٹ پیکج کے سائز کے سوال پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم وزارت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ ملک نے 8 بلین ڈالر کے معاہدے کی درخواست کی اور حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کی انتظامیہ کرے گی۔
وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ اگر پاکستان باقی کوٹہ کا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کر لیتا ہے، تو اسے EFF پروگرام پر لاگو معیاری شرح سود پر 2 فیصد اضافی سرچارج ادا کرنا پڑے گا۔
کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایک اصولی فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب روایتی دو طرفہ قرض دہندگان سے کسی بھی نئے کیش ڈپازٹ لون کی درخواست نہیں کرے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات میں عوامی سطح پر کہا تھا کہ پاکستان اب دو طرفہ قرض نہیں مانگے گا اور اس نے ''بھیک مانگنے کا پیالہ'' توڑ دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ وہ مشن کے نتائج کو آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے بحث اور فیصلے کے لیے پیش کرے گا۔
یاد رہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو آئی ایم ایف کی شرائط پر پہلی بریفنگ کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دعویٰ کیا تھا کہ اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخط کے لیے بورڈ کی پیشگی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ گزشتہ 3 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت دسمبر میں جاری کیے گئے چار صدارتی آرڈیننس کی اب پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔ یہ قوانین چار سرکاری اداروں میں گورننس کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے تھے۔
پاکستان کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ (ترمیمی) آرڈیننس 2023، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (ترمیمی) آرڈیننس 2023 اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن آرڈیننس 2023(ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
واضح رہے آرڈیننس کی زیادہ سے زیادہ عمر آٹھ ماہ ہوتی ہے۔ یہ ترامیم ان اداروں کو جنوری میں نافذ کردہ ریاستی ملکیتی انٹرپرائزز (گورننس اینڈ آپریشنز) ایکٹ 2023 کے مطابق لانے کے لیے کی گئی تھیں۔
پاکستان نئی توسیعی فنڈ سہولت کے تحت اپنے بقیہ زیادہ سے زیادہ کوٹہ کو تقریباً مکمل طور پر حاصل کر لے گا۔ یہ رقم عالمی قرض دہندہ کی جانب سے اب تک کی پیشکش کی گئی رقم سے تقریباً 2 بلین ڈالر زیادہ ہے۔
ذرائع نے بتایا متعدد سابق اقدامات کو نافذ کرنے کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکیج کے سائز اور روایتی طور پر تین دو طرفہ قرض دہندگان کی طرف سے کسی بھی نئے قرض سے متعلق امور پر بات چیت کا آپشن باقی رہے گا۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے EFF کے تحت تقریباً 8 بلین ڈالر مانگے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو لچکدار اور پائیداری کی سہولت (RSF) کے تحت کوئی بھی فناسنگ مل سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف تمام شرائط کی تکمیل سے مشروط 6 بلین ڈالر کا معاہدہ کرنے پر آمادہ ہے۔
آئی ایم ایف میں پاکستان کا کوٹہ 2.03 بلین سپیشل ڈرائنگ رائٹس (SDRs) یا 2.7 بلین ڈالر ہے۔ ایک ملک زیادہ سے زیادہ 435 فیصد کوٹہ حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان 11.7ارب ڈالر حاصل کرسکتا ہے تاہم پاکستان پہلے ہی آئی ایم ایف سے گزشتہ سودوں کے تحت 3.3 بلین ڈالر حاصل کر چکا اور اس کا باقی کوٹہ تقریباً 8.4 بلین ڈالر ہے۔
ذرائع کے بہ قول وزارت خزانہ تقریباً پورا کوٹہ حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن آئی ایم ایف نے اب تک 6 ارب ڈالر دینے کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان کو زیادہ قرض دینے کی اجازت کے ساتھ سخت شرائط لاگو کئے جانے کا بھی امکان ہوگا۔ اس سے قبل آئی ایم ایف نے 10 مئی سے 23 مئی کے عملے کے دورہ میں پاکستان کے لیے شرائط طے کردی ہیں۔
ذرائع کے مطابق نئے قرضہ پروگرام کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ جی ڈی پی کے 1.6 فیصد یا 2 ٹریلین روپے کے برابر اضافی ریونیو کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
وزارت خزانہ کے ترجمان نے اگلے سال کے بیل آؤٹ پیکج کے سائز کے سوال پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا تاہم وزارت کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا ہے کہ ملک نے 8 بلین ڈالر کے معاہدے کی درخواست کی اور حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کی انتظامیہ کرے گی۔
وزارت خزانہ کے ایک اہلکار نے بتایا ہے کہ اگر پاکستان باقی کوٹہ کا زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کر لیتا ہے، تو اسے EFF پروگرام پر لاگو معیاری شرح سود پر 2 فیصد اضافی سرچارج ادا کرنا پڑے گا۔
کابینہ کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ایک اصولی فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب روایتی دو طرفہ قرض دہندگان سے کسی بھی نئے کیش ڈپازٹ لون کی درخواست نہیں کرے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات میں عوامی سطح پر کہا تھا کہ پاکستان اب دو طرفہ قرض نہیں مانگے گا اور اس نے ''بھیک مانگنے کا پیالہ'' توڑ دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ وہ مشن کے نتائج کو آئی ایم ایف بورڈ کے سامنے بحث اور فیصلے کے لیے پیش کرے گا۔
یاد رہے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو آئی ایم ایف کی شرائط پر پہلی بریفنگ کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے دعویٰ کیا تھا کہ اسٹاف لیول کے معاہدے پر دستخط کے لیے بورڈ کی پیشگی منظوری کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ گزشتہ 3 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت دسمبر میں جاری کیے گئے چار صدارتی آرڈیننس کی اب پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے۔ یہ قوانین چار سرکاری اداروں میں گورننس کو بہتر بنانے کے لیے بنائے گئے تھے۔
پاکستان کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی (ترمیمی) آرڈیننس 2023، پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ (ترمیمی) آرڈیننس 2023، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (ترمیمی) آرڈیننس 2023 اور پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن آرڈیننس 2023(ترمیمی) کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
واضح رہے آرڈیننس کی زیادہ سے زیادہ عمر آٹھ ماہ ہوتی ہے۔ یہ ترامیم ان اداروں کو جنوری میں نافذ کردہ ریاستی ملکیتی انٹرپرائزز (گورننس اینڈ آپریشنز) ایکٹ 2023 کے مطابق لانے کے لیے کی گئی تھیں۔